انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان ہے اور اس سے بھی بڑھ کر دشمن اس کا نفس ہے،آقا علیہ السلام نے فرمایا:یعنی تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا نفس ہے کہ تیرے دونوں پہلوؤں کے درمیان ہے۔(تہذیب الآثار للطبری، الجزء 3، ص 160،حدیث919، جامع الاحادیث، قسم الاول حروف اللام ، الجزء 18، ص269، حدیث19377،نفس و شیطان کے دھوکے،مفتی محمد فیض احمد اویسی رضوی، ص 1)اس کے مکر و فریب اور دھوکے شیطان سے بھی زیادہ ہیں، اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

رضا نفس دشمن ہے دم میں نہ آنا

کہاں تم نے دیکھے ہیں چند رانے والے

ان دونوں دشمنوں سے بچنا بڑا مشکل ہے، مگر کسی مرشدِ کامل کی نگاہِ کرم سے ان سے بچا جاسکتا ہے، ہمارے بزرگان نفس و شیطان کے دھوکے سے آشکار ہو جایا کرتے تھے،ان کی عاجزی پر ہماری جانیں قربان کہ حضرت سیّد ابو محمد مرتعش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:میں نے بہت حج کئے اور ان میں سے اکثر سفرِ حج کسی قسم کے سامان لئے بغیر کئے، پھر مجھ پر ظاہر ہوا کہ یہ سب تو میرے نفس کا دھوکا تھا، کیونکہ ایک مرتبہ میری ماں نے مجھ سے پانی کا گھڑا بھر کر لانے کا حکم دیا تو میرے نفس کو برا لگا۔

چنانچہ میں نے سمجھ لیا، سفر حج میں میرے نفس نے میری موافقت فقط اپنی لذت کے لئے کی اور مجھے دھوکے میں رکھا، کیونکہ اگر میرا نفس فناء ہو چکا ہوتا تو ماں کا کہنا ماننا میرے نفس کو دشوار محسوس نہ ہوتا۔(رسالہ قشیریہ ،ص 135، رسالہ معلوماتی پمفلٹس، ص 1)

اس حکایت میں عبرت کے نہایت مدنی پھول ہیں کہ نفس و شیطان کے دھوکے ہمیں ہر وقت جہنم کا ایندھن بنانے کی فکر میں ہیں، حبِ جاہ کی لذت ہلاکت کا باعث ہے، ہمیں اپنے بزرگانِ دین کی دینی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے ۔

دھوکے کی تعریف:برائی کو دل میں چھپا کر اچھائی ظاہر کرنا دھوکا ہے۔(تفسیر نعیمی، پ1، البقرہ، تحت الآیۃ9،164/1، ظاہری گناہوں کی معلومات ، ص 94)

معاشرے میں پائی جانے والی دھوکے کی چند مثالیں: زندگی کے ہر ہر پہلو میں دھوکا دہی عام ہے، ہمارا معاشرہ ایسی بے شمار مثالوں سے بھرا ہوا ہے، آئیے چند مثالیں پڑھتے ہیں۔

1 : کسی چیز کا عیب چھپا کر اس کو بیچنا ۔

2 : اصل بتا کر نقل دے دینا۔

3 : غلط بیانی کرکے کسی کا مال بٹورنا۔

4 : سونا چاندی کے ساتھ کھوٹ ملا کر بیچنا۔5

5 : دودھ میں پانی ملانا۔

6 : تجارتی معاملات میں دھوکا دہی سے کام لینا وغیرہ،

یہ مثالیں ہمارے معاشرے میں اس قدر عام ہیں کہ ان کو گناہ تصور نہیں کیا جاتا ۔

دھوکا دہی کا حکم: مسلمانوں کے ساتھ مکر یعنی دھوکے بازی قطعاً حرام اور گناہ کبیرہ ہے، جس کی سزا جہنم کا عذابِ عظیم ہے۔ (جہنم کے خطرات ، ص 171 ملتقظاً، ظاہری گناہوں کی معلومات ، ص 95)

اللہ عزوجل قرآن کریم میں دھوکا دینے والوں کے متعلق فرماتا ہے:

ترجمہ کنزالایمان:تو کیا جو لوگ برے مکر کرتے ہیں اس سے نہیں ڈرتے کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے گا یا انہیں وہاں سے عذاب آئے، جہاں سے انہیں خبر نہ ہو۔

دھوکے کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم:

1: وہ ہم میں سے نہیں، جو دھوکا دے۔(ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 95)

2: ملعون( لعنت کیا گیا) ہے، وہ شخص جس نے کسی مؤمن کو نقصان پہنچایا یا دھوکا دیا۔(ترمذی، کتاب البر و الصلۃ ما جاء فی الجنانۃ و الغش، ص 475، حدیث1941، ظاہری گناہوں کی معلومات ،ص95)

3: مکر و فریب اور خیانت کرنے والا جہنم میں ہے۔(المستدرک کتاب الاھوال باب تحشر ھذہ الآیۃ علی ثلاثۃ احناف، حدیث8831،ج 5 ص: 833، تجارت میں ملاوٹ اور دھوکے کا انجام ،ص 15)

4: جس نے ہم پر اسلحہ اٹھایا، وہ ہم میں سے نہیں اور جس نے ہمیں دھوکا دیا، وہ ہم میں سے نہیں۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب قول النبی من غشا فلیس منا، حدیث283 ، ص695، تجارت میں ملاوٹ اور دھوکے کا انجام)

5:آقا علیہ السلام ایک شخص کے پاس سے گزرے، جو اناج بیچ رہا تھا، آپ نے اس سے پوچھا: اے غلے کے مالک! کیا بیچنے والا اناج اوپر والے اناج جیسا ہے؟ اس نے عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ ہاں، ایسا ہی ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا:جس نے مسلمانوں کو دھوکا دیا، وہ ہم میں سے نہیں۔(المعجم الکبیر، الحدیث921، ج18، ص359، تجارت میں ملاوٹ اور دھوکے کا انجام ،ص3)

اسباب و علاج:

1:مال جمع کرنے کا لالچ۔

2:بری صحبت۔

3:خیانت کرنے کی عادت۔

4:مسلمانوں کے لئے خیرخواہی کے جذبے کا نہ ہونا،

اگر قناعت اختیار کی جائے، مال و دولت کا لالچ دل سے نکال کر فکرِ آخرت لاحق ہو جائے تو انسان ہر ظاہری و باطنی بیماری سے بچ سکتا ہے۔

اللہ عزوجل نے ہمیں ایمان کی دولت سے نوازا ہے، تو ہمیں بھی اس کا شکر ادا کرتے ہوئے قناعت کی دولت اختیار کرنی چاہیئے،لالچ کو دل سے نکال کر اپنی آخرت سنوارنی چاہئے، ملاوٹ کرنے والا، دھوکا دینے والا اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ کی ناراضگی کا باعث ہے، مکار، دھوکے باز، ملاوٹ کرنے والے، باطل بیع کرنے والے اور فاسد تجارات کے ذریعے لوگوں کا مال کھانے والے غور کریں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:کہ جس نے ہمیں دھوکا دیا، وہ ہم میں سے نہیں۔

اس سے معلوم ہوا کہ دھوکے کے معاملات اور اس کا انجام بہت خطرناک ہے،جس سے انسان کا ایمان داؤ پر لگ جاتا ہے، دنیا و آخرت برباد ہو سکتی ہے، دودھ میں پانی ملانے والے بھی ان احادیث مبارکہ سے عبرت حاصل کریں۔

اللہ عزوجل ہمیں سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرے، اگر اس بات کا احساس رہے گا کہ اسی کی طرف لوٹنا ہے تو انسان نفس و شیطان کے دھوکے سے بچ جائے گا۔