تمہیدی الفاظ: دینِ اسلام بہت ہی پیارا دین
ہے اور یہ اس قدر تیزی سے پھیل رہا ہے کہ ہمیں گھر بیٹھے ہی علمِ دین کا خزانہ
حاصل ہو جاتا ہے، دین کی اتنی اشاعت کے باوجود بھی معاشرے میں پائی جانے والی برائیاں
بھی دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں، ان قابلِ مذمت برائیوں میں سے ایک برائی دھوکا بھی
ہے، جس کی وجہ سے مسلمانوں میں لڑائی جھگڑے عام ہیں، دنیا کی دولت کمانے کی دھن میں
دھوکا اور اس طرح کے دوسرے ذرائع کا سہارا لیا جا رہا
ہے، علمِ دین سے دوری کی بنا پر لوگ یہ جاننے سے قاصر ہوتے ہیں کہ ہمارا ایسا کرنا
دھوکا دینا ہے؟ تو آئیے سب سے پہلے ہم دھوکا کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتی ہیں۔
دھو کے کی تعریف اور مثالیں: برائی کو دل میں
چھپا کر اچھائی ظاہر کرنا دھوکا ہے۔(ظاہری گناہوں کی معلومات، صفحہ 94) کسی چیز کا
عیب چھپا کر اس کو بیچ دینا، اصل بتا کر نقل دے دینا وغیرہ یہ سب دھوکا ہے، جو کہ
حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، جس کی سزا جہنم کا عذابِ عظیم ہے۔
دھوکے کی مذمت پر پانچ فرامینِ مصطفی ﷺ:
1۔ملعون ہے وہ شخص، جس نے کسی مسلمان کو نقصان پہنچایا یا دھوکا دیا۔
2۔ جو دھوکا دے، وہ ہم میں سے نہیں۔
3۔ عقلمندوں کے کھانے پینے اور لباس کی بھی کیا بات ہے، انہیں جاہلوں
کی شب بیداری اور عبادت و محبت مشقت کیسے دھوکا دے سکتی ہے؟ صاحبِ تقویٰ اور یقین
رکھنے والے کا ذرا برابر عمل دھوکے میں مبتلا لوگوں کے زمین بھر کے عمل سے افضل
ہے۔
4۔ عقلمند وہ ہے، جو اپنے نفس کو فرمانبردار بنائے اور موت کے بعد
کام آنے والے عمل کرے اور بے وقوف وہ ہے، جو خواہشِ نفس کی پیروی کرے، پھر بھی اللہ
عزوجل سے امید رکھے۔(احیاء العلوم، جلد سوم، صفحہ 1209)
5۔میری امت کے دو قسم کے لوگوں کو میری شفاعت نہ پہنچے گی،٭ظالم و دھوکے
باز بادشاہ، ٭دین میں حد سے بڑھنے والا۔(76 کبیرہ گناہ، ص61)
دین میں حد سے بڑھنے سے مراد امورِ دینیہ میں حد سے تجاوز کرنا اور پیچیدہ
ارشاد سے متعلق بحث کرنا، نیز ان پیچیدہ امور کی علتوں کو ظاہر کرنے کی کوشش کرنا
ہے، آپ ﷺ نے ان کے خلاف شہادت دی اور ان
سے بیزاری ظاہر فرمائی۔
دھوکے سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے دنیوی و اخروی نقصانات کو پیشِ
نظر رکھے کہ لوگ دھوکے باز سے دور بھاگتے اور اس سے خرید و فروخت اور دیگر معاملات
کرنا پسند نہیں کرتے، مزید یہ کہ اس میں جہنم کی حقداری بھی ہے، قناعت اختیار کیجئے،
تاکہ مال و دولت کی محبت دور ہو، دھوکا اور اس طرح کے دیگر گناہوں سے بچنے کے لئے ضروری
ہے کہ دینی ماحول سے جُڑے رہیں، تاکہ گناہوں سے بچنے کا ذہن ملے۔