
اس بات کو طویل عرصے
سے محسوس کیا جارہا ہے کہ معاشرے میں مطالعہ یا کتب بینی کا رجحان رفتہ رفتہ کم
ہوتا جارہا ہے۔ یہ رجحان نہ صرف یہ کہ عام
لوگوں میں بہت کم ہوا ہے بلکہ طلبہ سمیت معاشرے کے ان طبقوں میں بھی مطالعہ برائے
نام رہ گیا ہے جو لکھنے پڑھنے کے شعبے سے وابستہ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کتابوں کی
اشاعت اور فروخت مشکل سا کام ہوگیا ہے ۔ اب
یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ جو کتابیں شائع ہورہی ہیں اُن کی تعدادِ اشاعت محض ہزار،
دو ہزار یا پانچ ہزار تک ہی ہوتی ہے اور اُس کتاب کا نیا ایڈیشن بھی سال،دو سال یا
پانچ دس سال کے وقفے سے پہلے شائع نہیں ہوپاتا۔ اصل وجہ یہی ہوتی
ہے جو کتابیں پہلے شائع ہوئی ہیں وہ اسٹاک ہوتی ہیں، ابھی وہ فروخت ہی نہیں ہوئی
ہوتیں۔
لیکن اگر بات کی جائے دنیابھر
میں دین اسلام کی اشاعت و ترویج کا کام کرنے والی عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوت
اسلامی کی تواس کے بانی و امیر حضرت علامہ مولانا الیاس عطار قادری
دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے اپنے مریدین و محبین کو مطالعے کے راستے پر بھی خوب
لگایا ہوا ہے۔
قرآن و حدیث اور دیگر
تحقیقی موضوعات پر عاشقانِ رسول کو مستند کتابیں فراہم کرنے کے لئے دعوتِ
اسلامی نے باقاعدہ اپنا اشاعتی ادارہ قائم کیا ہوا ہے جس کانام مکتبۃ المدینہ ہے۔
مکتبۃ المدینہ سے
دعوتِ اسلامی کی جو کتابیں اور رسائل شائع ہوتے ہیں، ان کی تعداد سُن کر یقیناً آپ کو
مزہ آئے گا کہ مکتبۃ المدینہ سے ایک ایک
رسالہ ہزاروں کی تعداد میں شائع ہوتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سب سے زیادہ اشاعت ”ہفتہ وار رسالہ“ کی ہوتی ہے،
ہفتہ وار رسالہ ہر ماہ 50 سے 60ہزار تک کی تعداد میں ہارڈ کاپی میں پرنٹ ہوتا ہے اور
پاکستان بھر میں قائم مکتبۃ المدینہ کی برانچز پر دستیاب ہوتا ہے۔
اعلی حضرت عظیم
المرتبت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد
رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کے سالانہ عرس 1441 ہجری کے موقع پر شیخ طریقت امیراہلسنت
دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کی نئی کتاب "فیضانِ نماز" منظر عام پر آئی، جب میں نے اُس کتاب کی تعدادِ
اشاعت کو دیکھا تو وہاں لکھا تھا ”ایک
لاکھ“، یعنی وہ ایک کتاب ایک لاکھ کی تعداد میں ہارڈ کاپی میں شائع ہوئی اور یہ تومیں پہلی بارکی اشاعت کی تعداد بتا رہا
ہوں ۔
شیخ طریقت امیر اہلسنت
بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ اپنے محبین و مریدین و متعلقین
کو مختلف مواقع پر کُتب و رسائل کے مطالعہ
کرنے کی ترغیب دلاتے رہتے ہیں ۔
2006ء کی بات
ہے عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی پاکستان میں ماہ صیام ماہ غفران رمضان
المبارک میں کثیر لوگ معتکف تھے، پورے ماہ کا اعتکاف کر رہے تھے ، غالباً اُسی وقت ”فیضان رمضان “ کتاب نئی نئی مارکیٹ میں
آئی تھی، امیراہل سنت تقریباً ہر مدنی مذاکرے میں لائیو اِس کتاب کا مطالعے
کرنے کا ذہن دیتے تھے۔ ایک بار کچھ ایسا
ہوا کہ امیراہلسنت پوچھا:کیا کوئی ایسا
اسلامی بھائی ہےجس نے یہ فیضان رمضان کتاب اول تا آخر مکمل پڑھ لی ہو ؟
دو سے چار اسلامی
بھائی تھے وہ کھڑے ہوگئے، شیخ طریقت
امیراہلسنت نے اُن اسلامی بھائیوں کو اپنے پاس بلایا ، اور اُن کو تحفے میں سوٹ ، عمامہ اور عطر پر مشتمل تحائف عطا فرمائے۔ امیراہلسنت کے اس
عمل سے اِس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ دینی کتب و رسائل کا مطالعہ کرنے والوں
سے امیر اہلسنت کس قدر خوش ہوتے ہیں۔
یہ اسلامی کے دینی ماحول کی برکت اور بالخصوص شیخ طریقت امیر
اہلسنت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم
العالیہ کا کمال ہے کہ جس بندے نےزندگی میں کبھی20صفحات
کی کوئی دینی کتاب بھی نہ پڑھی ہو یا اسکو
مطالعہ کرنا پہاڑ لگتا ہو آج اسکو امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ نے "فیضانِ رمضان، فیضان سنت اور فیضان نماز " جیسی ضخیم کتابیں پڑھنے بلکہ ہر
ہفتےمیں ایک رسالے کا مطالعہ کرنے پر
لگادیا ۔
دعوت اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ اسلامی بھائیوں کو دینی کتب و رسائل خرید کر اپنے مرحومین کے ایصال ثواب اور دیگراچھی نیتوں کے ساتھ عاشقان ِرسول میں
تقسیم کرنے کا بھی ذہن دیا جاتا ہے اور اس
طرح بھی عاشقان ِرسول کی دینی معلومات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اوروہ اپنے
پاس علم دین کے موتیوں کو جمع کرتے رہتے
ہیں ۔
میں صرف آپ کی معلومات
کیلئےیہ بتا رہا ہوں شیخ طریقت امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ جوہفتہ وارمدنی
مذاکرے میں ایک رسالہ مطالعہ کرنے کا ذہن دیتے ہیں 'ماہ
جون 2022ء' میں ملک و بیرون ملک میں ہفتہ وار رسائل پڑھنے
/ سننے والے اسلامی بھائیوں اور بہنوں کی تعداد 19 لاکھ سے زیادہ ہے ۔ اِس تعداد سے آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دعوت اسلامی کے
دینی ماحول سے وابستہ افراد کا مطالعہ
کرنے کا کیسا ذہن بنا ہو اہے ۔
ویسے تو شیخ طریقت
امیر اہلسنت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ
مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کے بہت سارے
کارنامے ہیں، لیکن انکے کارناموں میں سے ایک بہت ہی بڑا عمدہ اور انوکھا
کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اِس پُرفتن
دور میں جہاں پر لوگ دینی ماحول اور دینی معلومات حاصل کرنے سے دور ہوتے نظر آتے
ہیں ایسے حالات میں بھی امیر اہل سنت نےقوم و ملت کے مرد و عورت،جوان ہو یا بوڑھا،
ہر ایک کو مطالعے کی لائن پر لگادیا جس کی
وجہ سے آج عاشقابِ رسول کی علمی سطح کو بلندی نصیب ہورہی ہے اور مرد و خواتین میں دینی کتب و رسائل کا مطالعہ کرنے اور بلکہ انکو خرید کر تقسیم کرنے کا جذبہ بھی بیدار
ہورہا ہے۔ یہ سب دعوت اسلامی اور امیر
اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کی بدولت ہے۔
میں دعا گو ہوں کہ مالک
کائنات قرآن و سنت کی تعلیمات کو دنیا بھر میں عام کرنے والی اس عظیم دینی تحریک دعوت
اسلامی کو دن دُگنی رات چُگنی ترقیاں اور عروج عطا فرمائے اورشیخ طریقت امیر اہلسنت
حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کا سایہ ہم پر
دراز فرمائے ۔
آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم

دھوکے کی تعریف: نفس کا اس پر ٹھہر جانا،
جو خواہش نفس کے مطابق ہواور شیطانی شبہات اور فریب کے باعث طبیعت اس طرف مائل ہو،
دھوکا کہلاتا ہے۔
کھوئی ہوئی چیز وہیں سے مل
جاتی ہے، جہاں وہ گمی تھی، سوائے اعتبار(اعتماد)کے، کیونکہ جس شخص کا اعتبار ایک
مرتبہ ختم ہوجائے، دوبارہ مشکل ہی سے قائم ہوتا ہے، اعتبارختم ہونے میں اہم کردار
دھو کے کا بھی ہے، جب ہم کسی سے جان بوجھ کر غلط بیانی کریں گے یاگھٹیا چیز کوعمدہ
بول کر اسے بے وقوف بنانےکی کوشش کریں گے تو حقیقت سامنے آنے پر وہ دوبارہ کبھی بھی
ہم پر بھروسا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا۔
فی زمانہ جن دوستوں، گھرانوں، تاجروں وغیرہ میں اعتبارکارشتہ مضبوط ہے، وہ سکھی اور جنہیں
کسی نے دهوکادیا، وہ دُکھی دکھائی دیتے ہیں،
دھوکا دینے والے سے اللہ پاک اور حضور علیہ الصلوة والسلام نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا۔جس
نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا، وہ ہم میں سے نہیں۔(مسلم،
ص45، حدیث 101)علا مہ عبدالرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:کسی چیز کی ( اصلی
) حالت کو پو شده رکھنادھوکا ہے۔(فيض القدير، ج 4، ص 240، تحت الحديث 8879)
2۔ مؤمن ایک دوسرے کے لئے خیرخواہ ہیں اور ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں،
اگرچہ ان کے گھر اور بدن دور ہوں اور فاسق لوگ ایک دوسرے کو دھوکا دینے والے اور خیانت
کرنے والے ہیں، اگرچہ ان کے گھر اور بدن قریب ہی ہوں۔(الترغيب والترهيب، کتاب البیوع،
الترہيب من الغش۔۔الخ، الحديث 2750 ،
ج 2 ص 368 )
3۔ جس نے کسی مسلمان کو نقصان پہنچایا، اسے فریب(دهوکا) دیا تو وہ
ملعون(لعنت کیا گیا)ہے۔(ترمذی، 378/3،حدیث 1948)
4۔ دھوکا دینے والاجنت میں داخل نہ ہو گا۔(المسندلامام احمدبن حنبل،
مسندابی بکر الصدیق، الحدیث 32، ج 1، ص 27 )
اس حدیث مبارکہ میں جنت میں داخل نہ ہونے سے مراد ابتداء میں داخل ہونا ہے۔
5۔ جس نے ملاوٹ کی، وہ ہم میں سے نہیں اور مکر اور دھوکا دینے والا
جہنم میں ہے۔(المعجم الکبیر، ج5، ص833، ح8831)
دھو کا دینے والوں کو یاد
رکھنا چاہئے کہ ایک دن وہ بھی آئے گا، جب انہیں دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ہی کرنی
کا پھل بھگتنا ہوگا، چنانچہ حسابِ آخرت سے بچنے کے لئے یہیں دنیامیں سچی توبہ کرکے
اپنا حساب بے باک کر لیں کہ جس جس کی رقم ہتھیائی ہے، اس کو واپس کریں یا معاف
کروالیں، اگر وہ زندہ ہو تو اس کے وارثوں
کو ادائیگی کریں یامعاف کروا لیں۔
اللہ کریم ہمیں دھوکا دینے اور دھوکا کھانے سے بچائے۔اللهم آمین

الحمدللہ باحسانہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان کا ہر کام اس کے ربّ تعالیٰ اور محمد مصطفی ﷺ کے حکم کے مطابق ہونا چاہئے، آج علمِ دین سے
دوری کے باعث دھوکا دہی بہت عام ہو چکی
ہے، ہر شخص بس کسی نہ کسی طرح دوسرے کو دھوکا دے کر نقصان پہنچانے میں منہمک
(مشغول) نظر آتا ہے، یہ بہت برا فعل ہے، اس کی قرآن و حدیث میں مذمت بیان کی گئی
ہے، جیساکہ سورۃ نحل پارہ 14 آیت نمبر59 میں ارشاد فرمایا:
اَفَاَمِنَ الَّذِيْنَ مَكَرُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ يَّخْسِفَ اللّٰهُ بِهِمُ
الْاَرْضَ اَوْ يَاْتِيَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُوْنَۙ0(پ 14، النحل:45)تو کیا جو لوگ برے مکر کرتے ہیں اس سے نہیں ڈرتے کہ
اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے گا یا انہیں وہاں سے عذاب آئے، جہاں سے انہیں خبر نہ
ہو۔(ظاہری گناہوں کی معلومات، صفحہ94)
تعریف:دھوکا کی تعریف یہ ہے کہ برائی کو دل میں چھپا کر اچھائی ظاہر کرنا،
ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی دھوکا کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔
کسی چیز کا عیب چھپا کر اس کو بیچنا، اچھی چیز بتا کر نقل دینا، غلط
بیانی کرکے کسی کا مال لے لینا، صحیح چیز کے ساتھ خراب بھی ڈال دینا۔(فرض علوم سیکھئے،
صفحہ 717)
حکم: یاد رکھئے! دھوکا بازی اور دغابازی کرنا قطعاً حرام، گناہِ کبیرہ اور
جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
اس کی مذمت و حرمت کے بارے میں
چند حدیثیں بڑی ہی رقت خیز و عبرت آموز ہیں۔
احادیث طیبہ:
1۔ ملعون(لعنت کیا گیا) ہے وہ شخص، جس نے کسی مؤمن کو نقصان پہنچایا یا
دھوکا دیا۔ (فرض علوم سیکھئے، صفحہ 718)
2۔ جو کسی مسلمان کو ضرر(نقصان) پہنچائے، اللہ تعالیٰ اس کو ضرور ضرر یعنی نقصان پہنچائے گا اور جو مسلمانوں کو
مشقت میں ڈالے گا، اللہ پاک اس کو مشقت میں ڈال دے گا ۔(جہنم کے خطرات، صفحہ 115،
مکر اور دھوکا بازی)
3۔ جو کسی مسلمان کو دھوکا دے یا نقصان پہنچائے، وہ ہم میں سے نہیں۔
اللہ اکبر!اس حدیث مبارکہ کو سن کر اس سے ہمیں جلد سے جلد چھٹکارا حاصل
کرنا چاہئے کہ ہمارے پیارے آقا ﷺ نے فرما
دیا کہ جو شخص کسی بھی مسلمان کو کسی بھی انداز میں دھوکا دیتا ہے، تو اس کے لئے یہ
خبر دے دی کہ وہ ہم میں سے نہیں، یعنی وہ ہمارے طریقہ پر نہیں۔
4۔ تین شخص جنت میں داخل نہیں ہوں گے،٭دھوکاباز، ٭احسان جتانے والا،
٭بخیل۔(جہنم کے خطرات، صفحہ 116)
5۔ جو ہمارے ساتھ دھوکا بازی کرے گا، وہ ہم میں سے نہیں اور مکرو دھوکا بازی جہنم میں ہے۔(جہنم کے خطرات، ح3،صفحہ 115)
آئیے نیت کر لیں، آج کے بعد کسی کو اپنی ذات سے دھوکا نہیں دیں گے،
اگر ہم کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے تو نقصان بھی نہیں پہنچائیں گے، اپنے پیارے
آقا ﷺ کی امت کو اپنی ذات سے فائدہ پہنچائیں
گے۔
کاش!ہم اس موم بتی کی طرح ہوجائیں، جو خود کو پگھلتی رہتی ہے، مگر
دوسروں کو روشنی دے کر فائدہ دیتی ہے۔
اللہ ہمیں شریعت کے احکام پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

تمہیدی الفاظ: دینِ اسلام بہت ہی پیارا دین
ہے اور یہ اس قدر تیزی سے پھیل رہا ہے کہ ہمیں گھر بیٹھے ہی علمِ دین کا خزانہ
حاصل ہو جاتا ہے، دین کی اتنی اشاعت کے باوجود بھی معاشرے میں پائی جانے والی برائیاں
بھی دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں، ان قابلِ مذمت برائیوں میں سے ایک برائی دھوکا بھی
ہے، جس کی وجہ سے مسلمانوں میں لڑائی جھگڑے عام ہیں، دنیا کی دولت کمانے کی دھن میں
دھوکا اور اس طرح کے دوسرے ذرائع کا سہارا لیا جا رہا
ہے، علمِ دین سے دوری کی بنا پر لوگ یہ جاننے سے قاصر ہوتے ہیں کہ ہمارا ایسا کرنا
دھوکا دینا ہے؟ تو آئیے سب سے پہلے ہم دھوکا کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتی ہیں۔
دھو کے کی تعریف اور مثالیں: برائی کو دل میں
چھپا کر اچھائی ظاہر کرنا دھوکا ہے۔(ظاہری گناہوں کی معلومات، صفحہ 94) کسی چیز کا
عیب چھپا کر اس کو بیچ دینا، اصل بتا کر نقل دے دینا وغیرہ یہ سب دھوکا ہے، جو کہ
حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، جس کی سزا جہنم کا عذابِ عظیم ہے۔
دھوکے کی مذمت پر پانچ فرامینِ مصطفی ﷺ:
1۔ملعون ہے وہ شخص، جس نے کسی مسلمان کو نقصان پہنچایا یا دھوکا دیا۔
2۔ جو دھوکا دے، وہ ہم میں سے نہیں۔
3۔ عقلمندوں کے کھانے پینے اور لباس کی بھی کیا بات ہے، انہیں جاہلوں
کی شب بیداری اور عبادت و محبت مشقت کیسے دھوکا دے سکتی ہے؟ صاحبِ تقویٰ اور یقین
رکھنے والے کا ذرا برابر عمل دھوکے میں مبتلا لوگوں کے زمین بھر کے عمل سے افضل
ہے۔
4۔ عقلمند وہ ہے، جو اپنے نفس کو فرمانبردار بنائے اور موت کے بعد
کام آنے والے عمل کرے اور بے وقوف وہ ہے، جو خواہشِ نفس کی پیروی کرے، پھر بھی اللہ
عزوجل سے امید رکھے۔(احیاء العلوم، جلد سوم، صفحہ 1209)
5۔میری امت کے دو قسم کے لوگوں کو میری شفاعت نہ پہنچے گی،٭ظالم و دھوکے
باز بادشاہ، ٭دین میں حد سے بڑھنے والا۔(76 کبیرہ گناہ، ص61)
دین میں حد سے بڑھنے سے مراد امورِ دینیہ میں حد سے تجاوز کرنا اور پیچیدہ
ارشاد سے متعلق بحث کرنا، نیز ان پیچیدہ امور کی علتوں کو ظاہر کرنے کی کوشش کرنا
ہے، آپ ﷺ نے ان کے خلاف شہادت دی اور ان
سے بیزاری ظاہر فرمائی۔
دھوکے سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے دنیوی و اخروی نقصانات کو پیشِ
نظر رکھے کہ لوگ دھوکے باز سے دور بھاگتے اور اس سے خرید و فروخت اور دیگر معاملات
کرنا پسند نہیں کرتے، مزید یہ کہ اس میں جہنم کی حقداری بھی ہے، قناعت اختیار کیجئے،
تاکہ مال و دولت کی محبت دور ہو، دھوکا اور اس طرح کے دیگر گناہوں سے بچنے کے لئے ضروری
ہے کہ دینی ماحول سے جُڑے رہیں، تاکہ گناہوں سے بچنے کا ذہن ملے۔

تعریف:دھوکا یہ ہے کہ کوئی شخص کسی چیز کو ظاہر کرے اور اس کے خلاف کو
چھپائے یا کوئی بات کہے اور اس کے خلاف کو چھپائے، دھوکا کہلاتا ہے ۔(غریب الحدیث
للحربی:685/2)
معاشرے میں دھوکے کی مثال:کسی مسلمان سے کہنا کچھ
اور، اور کرنا کچھ اور، یہ بھی دھوکے میں شامل ہوتا ہے اور کچھ لوگ اللہ کے دین میں
غلط بیانی کرتے ہیں۔
دھوکے کی مذمت کے متعلق تمہید:اللہ تعالیٰ نے
قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:زمین میں بڑائی چاہئے اور برا مکر وہ فریب کرنے کی وجہ
سے اور برا مکر وہ فریب اپنے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے، تو وہ پہلے لوگوں کے دستور
کا انتظار کر رہے ہیں تو تم ہرگز اللہ کے دستور کے لیے تبدیلی نہیں پاؤ گے اور
ہرگز اللہ کے قانون کے لئے تبدیلی نہیں پاؤ گے اور ہرگز اللہ کے قانون کے لئے
ٹالنا نہ پاؤ گے۔(پ 22، سورہ فاطر، آیت
نمبر 43 ،ترجمہ کنزالایمان)
احادیث:
1: جس نے ہم سے دھوکا کیا، وہ ہم میں سے نہیں۔
2 : دھوکا کرنے والا جہنم میں ہے۔
3 : جس نے کسی مسلمان سے دھوکا کیا، وہ ملعون ہے۔( حدیث1945 ،ترمذی)
4: دھوکا دینے والا جنت میں داخل نہ ہو گا۔(تعلیماتِ قرآن،حصہ 3)
5: وہ شخص ہمارے گروہ میں سے نہیں ہے، جس نے کسی مسلمان کو دھوکا دیا۔(تعلیمات
قرآن،حصہ 3)
دھوکے سے بچنے کا درس: دھوکا دینا بہت بڑا گناہ ہے،
جو شخص دوسروں کو دھوکا دیتا ہے، وہ لوگوں میں اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے، ہمیں
چاہئے کہ ہمیں دوسروں کو دھوکا دینے سے بچنا چاہئے اور دوسروں کو دھوکا دینے سے
منع کرنا چاہئے، دھوکا گناہ ہے اور گناہ اگر ہمارے سامنے ہو رہا ہو تو ہمیں منع کرنا
چاہئے اگر ہم روکنے پر قادر ہیں، ورنہ ہم بھی گنہگار ہوں گے۔
اللہ ہم سب کو دھوکا دینے سے بچائے۔آمین

دھوکے کی تعریف: کسی چیز کے عیب کو چھپانا
اور خوبی کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا ۔ مسلمانوں کے ساتھ دھوکا بازی اور دغابازی
کرنا قطعا حرام اور گناہ کبیرہ ہے جس کی سزا جہنم کا عذاب ہے۔
دھوکے کی ممانعت اور حرمت کے
بارے میں قرآنی آیات اور حدیث: اللہ پاک قرآن پاک میں
ارشاد فرماتا ہے پارہ 9 سورہ انفال آیت نمبر 27۔ ترجمہ کنزالایمان اے ایمان والو
اللہ اور رسول سے دغا نہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں دانستہ خیانت ۔
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔من غشنا فلیس منا یعنی جو دھوکا دہی کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے( جامع ترمذی )۔
2۔جو کسی مومن کو ضرر پہنچائے یا اس سے مکر اور دھوکا بازی کرے وہ ملعون ہے(سنن ترمذی )
3۔تین شخص جنت میں داخل نہیں
ہوں گے: نمبر 1دھوکا باز نمبر2 احسان جتانے والا نمبر 3 بخیل (کنزل العمال کتاب الاخلاق )
حضرت عبد
اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کی خدمت میں کچھ لوگ حاضر ہوئے اور عرض کی کے ہم سفر حج پر نکلے ہوئے ہیں مقام
صفاح پر ہمارے قافلے کا ایک آدمی فوت ہوگیا
ہے ہم نے اس کے لئے جب قبر کھودی تو ایک بہت بڑا کالا سانپ بیٹھا نظر آیا جس نے
قبر کو بھر رکھا تھا اسے چھوڑ کر دوسری قبر کھودی تو اس میں بھی وہی سانپ نظر آیا
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کی خدمت میں اس گھمبیر مسئلے کے حل کے لیے حاضر ہوئے حضرت عبداللہ
بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ
نے فرمایا یہ اس کی خیانت کی سزا ہے جس کا وہ مرتکب ہوا کرتا تھا اسے ان دونوں میں
سے کسی ایک قبر میں دفن کر دو خدا کی قسم اگر اس دنیا کی ساری زمین بھی خود ڈالو
گے تب بھی ہر جگہ یہی صورتحال ہوگی بالآخر لوگوں نے اسے ایک قبر میں دفنا دیا واپس آ کر اس کا سامان اس کے گھر
والوں کو دے دیا اور اس کی بیوہ سے اس کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہ
کھانا بیچتا تھا اور اس میں خیانت کرتا تھا اس طرح کے اس میں سے اپنے گھر کے لئے
کچھ نکال لیتا پھر کمی پوری کرنے کے لیے اس میں اتنی ہی ملاوٹ کر دیتا تھا۔
دھوکے کے اسباب اور بچنے کے
علاج:
سبب نمبر 1 جس طرح اچھی نیت اخلاق و کردار کے لیے شفا اور اکسیر کا
درجہ رکھتی ہے اسی طرح بدنیتی کا زہر بندے کے اعمال کو تباہ و برباد کر دیتا ہے اس
کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنی نیت کو درست رکھے اور اپنا یہ ذہن بنائے اللہ تعالیٰ میری حسن نیت اور ایمانداری کی بدولت دنیا آخرت
میں کامیابی عطا فرمانے پر قادر ہے لہٰذا دھوکا دہی کر کے دنیا آخرت میں نقصان کرنے کا کیا
فائدہ!
سبب نمبر 2 دھوکا دینےکی بری عادت اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنے ذہن میں دھوکا دہی
کے نقصانات کو پیش نظر رکھیں کہ دھوکا دینا ایک نہایت ہی قبیح اور برا عمل ہے دھوکا دینے والے سے رسول اللہ ﷺ نے براءت کا اظہار فرمایا ہے دھوکا دینا
مومن کی صفت نہیں دھوکا دینے سے جہاں وقار مجروح ہوتا ہے وہی لوگوں کا
اعتماد بھی ختم ہوتا ہے لہٰذا احترام مسلم کا ہر دم خیال رکھیں اور ذہن بنائے کے
وقتی نفع حاصل کرنے کے لیے دائمی نقصان مول لینا یقیناً عقلمندی نہیں ہے ۔
سبب نمبر 3 تو کل علی اللہ کی
کمی ہے بندہ اپنے کمزور اعتقاد کی بنا پر یہ سمجھتا ہے کہ خیانت کا راستہ اختیار
کرنے میں ہی میری کامیابی ہے اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اللہ عزوجل پر کامل بھروسہ
رکھیں اور یہ بھی ذہن بنائے کے دنیا میں جو بھی رستہ اللہ کی نافرمانی کا سبب بنتا
ہو اس پر چل کر مجھے کبھی بھی کامیابی نہیں مل سکتی لہٰذا میں دھوکا دہی کے راستے کو چھوڑ کر ایمانداری والا رستہ اختیار
کروں گی اس کا بہترین علاج یہ بھی ہے کہ بندہ نیک دیانت دار اور خوف خدا رکھنے والوں کی صحبت اختیار کرے
تاکہ اس مہلک مرض کے ساتھ ساتھ دیگر اخلاقی برائیوں سے بھی اپنے آپ کو بچا
سکے۔ صلو علی الحبیب

دھوکا دہی جو ایک نہایت مذموم اور بری صفت ہے، مسلمانوں کے ساتھ مکر یعنی
دھوکا بازی قطعاً حرام ہے اور گناہِ کبیرہ ہے، جس کی
سزا جہنم کا عذاب ہے۔(جہنم کے خطرات، ص171)
دھوکے کی چند مثالیں:
کسی چیز کا عیب چھپا کر اس کو بیچنا،
اچھی چیز دکھا کر نقل دے دینا،
غلط بیانی کرکے کسی سے مال
بٹورنا، جیسا کہ پیشہ ور بھکاریوں کا طریقہ ہے۔(ظاہری گناہوں کی معلومات، صفحہ 94)
دھو کہ دہی کی مذمت احادیث مبارکہ نیز آیت کریمہ میں بھی فرمائی گئی،
چنانچہ پارہ 14، سورہ نحل کی آیت نمبر 45 میں ارشاد ہوتا ہے:
ترجمہ کنزالایمان:تو کیا جو لوگ برے مکر کرتے ہیں اس سے نہیں ڈرتے کہ
اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے گا یا انہیں وہاں سے عذاب آئے، جہاں سے انہیں خبر نہ
ہو۔
دھوکا دہی کی مذمت سے متعلق
احادیث مبارکہ:
1۔ مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا۔وہ
ہم میں سے نہیں، جو دھوکا دے۔(ملفوظاتِ اعلی حضرت، صفحہ 476)
2۔ ملعون(لعنت کیا گیا) ہے وہ شخص، جس نے کسی مؤمن کو نقصان پہنچایا یا
دھوکا دیا۔(ترمذی کتاب البر والصلۃ)
3۔عقلمندوں کے کھانے پینے اور سونے کی بھی کیا بات ہے، انہیں جاہلوں
کی شب بیداری اور عبادت میں محنت و مشقت کیسے دھوکا دے سکتی ہے، صاحبِ تقویٰ اور یقین
رکھنے والے کا ذرہ برابر عمل دھوکے میں مبتلا لوگوں کے زمین بھر کے عمل سے افضل ہے
۔(احیاء العلوم، جلد 3، صفحہ 1124)
4۔عقلمند وہ ہے، جو اپنے نفس کو فرمانبردار بنائے اور موت کے بعد کام
آنے والے عمل کرے اور بے وقوف وہ ہے، جو خواہشِ نفس کی پیروی کرے، پھر بھی اللہ سے
امید رکھے۔(سنن ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ)
5۔ جو کسی مؤمن کو ضرر پہنچائے یا اس کے ساتھ دھوکا کرے، وہ ملعون ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،
صفحہ 166)
اللہ پاک ہمیں دھوکا سے محفوظ فرمائے۔آمین

تعريف:وہ فعل جس میں اس فعل کے کرنے والے کا با طنی ارادہ اس کے ظاہر کے
خلاف ہو، مکر یعنی دھوکا کہلاتا ہے۔
دھوکا کی دوسری تعریف یہ ہے کہ برائی کو چھپا کر اچھائی
ظا ہر کرنا ۔
دھوکا دہی کی چند مثالیں:
٭کسی چیز کا عیب چھپا کر اس کو بیچنا۔
٭اصل بتا کر نقل دے دینا۔
دھوکا کے متعلق قرآن مجید پاره 14، سوره النحل، آیت
نمبر 45 پر ارشاد ہے:
ترجمہ کنزالایمان:تو کیا جو لوگ برے مکر کرتے ہیں اس سے نہیں ڈرتے کہ
اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے گا یا انہیں وہاں سے عذاب آئے، جہاں سے انہیں خبر نہ
ہو۔
حکم:مسلمانوں کے ساتھ مکریعنی دھوکا بازی
قطعاً حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، جس کی سزا جہنم کا عذاب عظیم ہے، مکرو فریب اور
ڈرا دھمکا کر کسی سے مال لینا قطعی حرام ہے۔
احادیث مبارکہ:
1۔ ملعون ہے وہ شخص، جس نے کسی مؤمن کو نقصان پہنچایا یا دھوکا دیا۔(ترمذی
، کتاب البر والصلة ، باب ماجاء فی الخیانۃ والغش، ص 475،حديث 1941)
2۔ وہ ہم میں سے نہیں، جو دھوکا دے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب قول النبي، من غشنا
فليس منا، ص57، ح 164 (101)
3۔ جو کسی مؤمن کو ضرر پہنچائے یا اس کے ساتھ مکر اور دھوکا بازی
کرے، وہ ملعون ہے۔(ترمذی ، کتاب البر والصلة ، باب ماجاء فی الخیانۃ والغش، ج 3،
ص378،حديث 1948)
4۔ دھوکا دینے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔(المسند الامام احمد بن
حنبل، مسند ابي بكر الصديق، حديث 32، ج 1، ص 27)
5۔ جس نے ملاوٹ کی، وہ ہم میں سے نہیں۔(جامع الترمذی، ابواب البیوع،
باب ما جاء في كراہیۃ، حدیث 1315، ص 1784)
مکر یعنی دھوکے کے اسباب، علاج:
1۔مکر کا پہلا اور سب سے بڑا سبب حرص ہے کہ بندہ مال و دولت یا کسی
دنیوی شے کے حصول کے سبب مکر و فریب کرتا ہے۔
اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ حبِ مال یعنی(مال سے محبت ) کی مذمت پر غور
کرے، اور یہ ذہن بنائے کہ یہ مال فانی ہے
اور فانی یعنی (ختم ہونے والی)چیز کےلئے کسی کو دھوکا دے کر ایک گناه اپنے سر لینا عقل مندی نہیں،
بلکہ حماقت ہے۔
2۔دوسرا سبب جہالت ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ بنده مکر کے متعلق شرعی
احکام، اس کے دنیوی و اخروی نقصانات سیکھے اوراس سے بچنے کی کوشش کرے۔
3۔بری صحبت، علاج:عاشقانِ رسول کی صحبت اختیار کیجئے اور برے لوگوں
سے ہمیشہ دور رہے۔

دینِ
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو تمام انسانیت کے حقوق کا محافظ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
اس میں ہر ایسے کام کو ممنوع و ناجائز قرار دیا گیا ہے جس سے کسی کو تکلیف پہنچے یا
اس کی حق تلفی ہو۔ انہیں میں سے ایک دھوکا بھی ہے۔ دھوکا ایک ایسا مذموم فعل ہے کہ
دوسروں کو دھوکا دینے والا بھی خود دھوکا کھانا پسند نہیں کرتا۔
دھوکے کی تعریف:دھوکا یہ ہے کہ کوئی شخص کسی چیز کو ظاہر
کرے اور اس کے خلاف (یعنی حقیقت)کو چھپائے یا کوئی بات کہے اور اس کے خلاف (یعنی
حقیقی بات)کو چھپائے۔ (غریب الحدیث للحربی، 2/ 658)فی
زمانہ ہمارے معاشرے میں دھوکا بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ کہیں خرید و فروخت میں
لوگوں کے ساتھ دھوکا کرنا رائج ہے تو کہیں موبائل فون وغیرہ کے ذریعے نت نئے طریقوں
سے دھوکا دینا بالکل عام ہے، حالانکہ یہ سب نہ تو مذہبی اعتبار سے درست ہے اور نہ
ہی اخلاقی لحاظ سے۔
اللہ
پاک کے آخری نبی، محمدِ عربی ﷺ نے مسلمانوں کو دھوکا دینے سے بچنے کی بطورِ خاص
تاکید فرمائی اور دھوکا دینے والوں کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ ہم میں سے نہیں۔
دھوکے کی مذمت سے متعلق احادیث مبارکہ:
1_حضور
سید المرسلین، خاتم النبیین ﷺ غلہ کے ایک
ڈھیر پر گزرے تو اپنا ہاتھ شریف اس میں ڈال دیا۔ آپ ﷺ کی انگلیوں نے اس میں تری پائی تو فرمایا: اے
غلہ والے یہ کیا؟ عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ !
اس پر بارش پڑ گئی۔ فرمایا: تو گیلے غلہ کو تو نے ڈھیر کے اُوپر کیوں نہ ڈالا تاکہ
اسے لوگ دیکھ لیتے، جو دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں۔ (صحیح مسلم ، کتاب الایمان،
باب قول النبی ﷺ من غش فلیس منا، الحدیث 102، ص 65)
2_مومن
دھوکا کھا جانے والا ہوتا ہے (یعنی اپنے کرم کی وجہ سے دھوکا کھا جاتا ہے نہ کہ بے
عقلی سے) اور فاجر دھوکا دینے والا لئیم یعنی بدخلق ہوتا ہے۔ (سنن الترمذي، کتاب
البر والصلۃ، باب ماجاء في البخل،الحدیث: 1971 ،ج 3 ،ص 388
3_وہ
شخص ہمارے گروہ میں سے نہیں ہے جو مسلمان کو دھوکا دے یا ضرر پہنچائے یا اس کے
ساتھ مکر کرے۔ (کنزالعمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، حرف المیم، المکر والخدیعۃ،
2 / 218، الحدیث: 7822،
الجزء الثالث)
4_سازش
کرنے والے اور دھوکا دینے والے جہنم میں ہیں۔ (مسند الفردوس، باب المیم،
4 / 217، الحدیث: 6658)
5_ایمان
والے ایک دوسرے کے خیرخواہ اور باہم محبت کرنے والے ہوتے ہیں اگرچہ ان کے گھر اور
اَجسام جدا جدا ہوں اور فاجرلوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ دھوکا اورخیانت کرنے والے ہوتے ہیں، اگرچہ ان کے گھر اور
بدن اکھٹے ہوں۔ (الفردوس بماثورالخطاب، باب المیم، 4 / 189،
الحدیث: 6584)
اللہ
پاک ہمیں لوگوں کو دھوکا دینے سے بچائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان ہے اور اس سے بھی بڑھ کر دشمن اس کا
نفس ہے،آقا علیہ السلام نے فرمایا:یعنی تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا نفس ہے کہ تیرے
دونوں پہلوؤں کے درمیان ہے۔(تہذیب الآثار للطبری، الجزء 3، ص 160،حدیث919، جامع
الاحادیث، قسم الاول حروف اللام ، الجزء 18، ص269، حدیث19377،نفس و شیطان کے
دھوکے،مفتی محمد فیض احمد اویسی رضوی، ص 1)اس کے مکر و فریب اور دھوکے شیطان سے بھی
زیادہ ہیں، اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
رضا نفس دشمن ہے دم میں نہ آنا
کہاں تم نے دیکھے ہیں چند رانے والے
ان دونوں دشمنوں سے بچنا بڑا مشکل ہے، مگر کسی مرشدِ کامل کی نگاہِ
کرم سے ان سے بچا جاسکتا ہے، ہمارے بزرگان نفس و شیطان کے دھوکے سے آشکار ہو جایا
کرتے تھے،ان کی عاجزی پر ہماری جانیں قربان کہ حضرت سیّد ابو محمد مرتعش رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:میں نے بہت حج کئے اور ان میں سے اکثر سفرِ حج کسی قسم کے سامان لئے بغیر کئے، پھر مجھ پر ظاہر ہوا کہ یہ سب تو میرے
نفس کا دھوکا تھا، کیونکہ ایک مرتبہ میری ماں نے مجھ سے پانی کا گھڑا بھر کر لانے
کا حکم دیا تو میرے نفس کو برا لگا۔
چنانچہ میں نے سمجھ لیا، سفر حج میں میرے نفس نے میری موافقت فقط اپنی
لذت کے لئے کی اور مجھے دھوکے میں رکھا، کیونکہ اگر میرا نفس فناء ہو چکا ہوتا تو
ماں کا کہنا ماننا میرے نفس کو دشوار محسوس نہ ہوتا۔(رسالہ قشیریہ ،ص 135، رسالہ
معلوماتی پمفلٹس، ص 1)
اس حکایت میں عبرت کے نہایت مدنی پھول ہیں کہ نفس و شیطان کے دھوکے ہمیں
ہر وقت جہنم کا ایندھن بنانے کی فکر میں ہیں، حبِ جاہ کی لذت ہلاکت کا باعث ہے، ہمیں
اپنے بزرگانِ دین کی دینی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے ۔
دھوکے کی تعریف:برائی کو دل میں چھپا کر
اچھائی ظاہر کرنا دھوکا ہے۔(تفسیر نعیمی، پ1، البقرہ، تحت الآیۃ9،164/1، ظاہری گناہوں
کی معلومات ، ص 94)
معاشرے میں پائی جانے والی دھوکے کی چند مثالیں: زندگی
کے ہر ہر پہلو میں دھوکا دہی عام ہے، ہمارا معاشرہ ایسی بے شمار مثالوں سے بھرا
ہوا ہے، آئیے چند مثالیں پڑھتے ہیں۔
1 : کسی چیز کا عیب چھپا کر اس کو بیچنا ۔
2 : اصل بتا کر نقل دے دینا۔
3 : غلط بیانی کرکے کسی کا مال بٹورنا۔
4 : سونا چاندی کے ساتھ کھوٹ ملا کر بیچنا۔5
5 : دودھ میں پانی ملانا۔
6 : تجارتی معاملات میں
دھوکا دہی سے کام لینا وغیرہ،
یہ مثالیں ہمارے معاشرے میں اس قدر عام ہیں کہ ان کو گناہ تصور نہیں
کیا جاتا ۔
دھوکا دہی کا حکم: مسلمانوں کے ساتھ مکر یعنی
دھوکے بازی قطعاً حرام اور گناہ کبیرہ ہے، جس کی سزا جہنم کا عذابِ عظیم ہے۔ (جہنم
کے خطرات ، ص 171 ملتقظاً، ظاہری گناہوں کی
معلومات ، ص 95)
اللہ عزوجل قرآن کریم میں دھوکا دینے والوں کے متعلق فرماتا ہے:
ترجمہ کنزالایمان:تو کیا جو لوگ برے مکر کرتے ہیں اس سے نہیں ڈرتے کہ
اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے گا یا انہیں وہاں سے عذاب آئے، جہاں سے انہیں خبر نہ
ہو۔
دھوکے کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم:
1: وہ ہم میں سے نہیں، جو دھوکا دے۔(ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 95)
2: ملعون( لعنت کیا گیا) ہے، وہ شخص جس نے کسی مؤمن کو نقصان پہنچایا
یا دھوکا دیا۔(ترمذی، کتاب البر و الصلۃ ما جاء فی الجنانۃ و الغش، ص 475، حدیث1941، ظاہری گناہوں کی معلومات ،ص95)
3: مکر و فریب اور خیانت کرنے والا جہنم میں ہے۔(المستدرک کتاب
الاھوال باب تحشر ھذہ الآیۃ علی ثلاثۃ احناف، حدیث8831،ج 5 ص: 833، تجارت میں ملاوٹ اور دھوکے کا انجام ،ص 15)
4: جس نے ہم پر اسلحہ اٹھایا، وہ ہم میں سے نہیں اور جس نے ہمیں
دھوکا دیا، وہ ہم میں سے نہیں۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب قول النبی من غشا فلیس
منا، حدیث283 ، ص695، تجارت میں ملاوٹ اور دھوکے کا انجام)
5:آقا علیہ السلام ایک شخص کے پاس سے گزرے، جو اناج بیچ رہا تھا، آپ
نے اس سے پوچھا: اے غلے کے مالک! کیا بیچنے والا اناج اوپر والے اناج جیسا ہے؟ اس
نے عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ ہاں، ایسا ہی ہے
تو آپ نے ارشاد فرمایا:جس نے مسلمانوں کو دھوکا دیا، وہ ہم میں سے نہیں۔(المعجم الکبیر،
الحدیث921، ج18، ص359، تجارت میں ملاوٹ اور دھوکے کا انجام ،ص3)
اسباب و علاج:
1:مال جمع کرنے کا لالچ۔
2:بری صحبت۔
3:خیانت کرنے کی عادت۔
4:مسلمانوں کے لئے خیرخواہی کے جذبے کا نہ ہونا،
اگر قناعت اختیار کی جائے،
مال و دولت کا لالچ دل سے نکال کر فکرِ آخرت لاحق ہو جائے تو انسان ہر ظاہری و
باطنی بیماری سے بچ سکتا ہے۔
اللہ عزوجل نے ہمیں ایمان کی دولت سے نوازا ہے، تو ہمیں بھی اس کا
شکر ادا کرتے ہوئے قناعت کی دولت اختیار کرنی چاہیئے،لالچ کو دل سے نکال کر اپنی
آخرت سنوارنی چاہئے، ملاوٹ کرنے والا،
دھوکا دینے والا اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ کی
ناراضگی کا باعث ہے، مکار، دھوکے باز، ملاوٹ کرنے والے، باطل بیع کرنے والے اور
فاسد تجارات کے ذریعے لوگوں کا مال کھانے والے غور کریں کہ آقا علیہ السلام نے
فرمایا:کہ جس نے ہمیں دھوکا دیا، وہ ہم میں سے نہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ دھوکے کے معاملات اور اس کا انجام بہت خطرناک
ہے،جس سے انسان کا ایمان داؤ پر لگ جاتا ہے، دنیا و آخرت برباد ہو سکتی ہے، دودھ میں
پانی ملانے والے بھی ان احادیث مبارکہ سے عبرت حاصل کریں۔
اللہ عزوجل ہمیں سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرے، اگر اس بات کا احساس
رہے گا کہ اسی کی طرف لوٹنا ہے تو انسان نفس و شیطان کے دھوکے سے بچ جائے گا۔

اولاً تو ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ دھوکا کہتے کس کو ہیں، اس
بارے میں عبد الرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ
لکھتے ہیں:کہ کسی چیز کی اصل حالت کو پوشیدہ رکھنا دھوکا ہے۔(فیض القدیر، حدیث8879)
مثلاً کسی عیب دار چیز کو اس کا عیب چھپا کر بیچنا یا ملاوٹ والی چیز
کو اصل اور خالص کہہ کر بیچنا وغیرہ، کھوئی ہوئی چیز تو وہاں سے مل جاتی ہے، جہاں
وہ گُمی تھی، سوائے اعتبار کے، کیوں کہ جس کا اعتبار ایک مرتبہ ختم ہو جائے تو
دوبارہ مشکل سے ہی قائم رہتا ہے۔
٭اعتبار ختم ہونے میں اہم کرداردھوکے کا بھی ہے کہ جب ہم کسی سے جان بوجھ
کر غلط بیانی کریں گے، تو حقیقت سامنے آنے پر وہ دوبارہ کبھی بھی ہم پر بھروسہ
کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوگا، اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:
ترجمہ کنزالایمان:اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔(پ 4، آل
عمران:185)
دھوکا دینے والے سے اللہ کے محبوب ﷺ نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے، اس سے متعلق
احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں۔
1۔جس نے کسی مسلمان کو نقصان پہنچایا یا اسے فریب( دھوکا ) دیا تو وہ
ملعون ہے۔(ترمذی شریف، حدیث 1948)
2۔ہر دھو کا دینے والے کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا، جس کے ذریعے
وہ پہچانا جائے گا۔(بخاری شریف، حدیث6966)
3۔جس شخص کو اللہ کسی رعایا کا حکمران بنا دے اور وہ اس حال میں مرے
کہ وہ اپنی رعایا کے ساتھ دھوکا دہی کرتا تھا تو اللہ عزوجل اس پر جنت کو حرام
کر دیتا ہے۔(مسلم شریف، حدیث142)
4۔جو دھوکا دہی کرے گا، وہ مجھ سے(تعلق رکھنے والا) نہیں
ہے۔(مسلم شریف، حدیث284)
5۔مؤمن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں کاٹا جاتا۔
شانِ نزول: اس حدیث مبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ
ایک کافر شاعر جس کا نام ابو عزہ تھا، وہ حضور ﷺ اور مسلمانوں کی مخالفت میں سخت توہین آمیز
اشعار کہا کرتا تھا، جنگِ بدر میں گرفتار ہو گیا، اس نے گذشتہ کی معافی مانگی اور
آئندہ نہ کرنے کا عہد کیا تو اسے چھوڑ دیا گیا، پھر اسی حرکت میں مشغول ہوگیا، پھر
جنگِ احد میں گرفتار ہوگیا، پھر اس نے معذرت کی تو صحابہ کرام نے اس کی رہائی کی
سفارش کی، تب حضور ﷺ نے فرمایا:کہ مؤمن ایک
سوراخ سے دوبار نہیں کاٹا جاتا۔
اور اسے رہائی نہ بخشی، یعنی جس شخص سے ایک بار دھوکا کھا لیا،
دوبارہ اس کے دھوکے میں نہ آؤں، پھر اس کافر شاعر کو قتل کر دیا گیا۔(مراۃ المناجیح،
جلد ششم، صفحہ 421)
دھوکا دینے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ایک دن وہ بھی آئے گا کہ جب
دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اپنی کرنی کا پھل بھگتنا ہو گا، چنانچہ حسابِ آخرت سے
بچنے کے لئے دنیا ہی میں سچی توبہ کرلیں، جس کی رقم میں کمی وغیرہ کی تھی، اس کو
واپس کر دیں یا معاف کروا لیں۔
اللہ عزوجل ہمیں دھوکا دینے اور دھوکا کھانے سے بچائے۔آمین

فقہ حنفی کے مسلک میں ہر عاقل، بالغ مسلمان مرد پر با جماعت نماز ادا
کرنا واجبِ عین ہے، یعنی ہر مرد کو مسجد میں جاکر نماز ادا کرنی ہوگی اور اگر مرد
گھر میں پڑھیں گے تو ترکِ واجب ہوگا، جو کہ گناہ ہے اور واجب کے ترک پر ہمیشگی اختیار
کریں تو یہ گناہِ کبیرہ بن جاتا ہے، ہاں! اگر عذرِ صحیح ہوا، جیسے کسی کو آنکھ کا
مسئلہ ہو تو ترکِ جماعت ہو سکتی ہے، نماز تو سندیسہ ہے وصلِ محبوب کا، محبوب کی
چوکھٹ میں حاضری کا موقع ہے، جو نماز کے ذریعے سے حاصل ہوتا ہے اور اگر مرد حضرات
جماعت کے ساتھ نماز ادا کریں تو اس کی فضیلت مزید بڑھ جاتی ہے۔
1۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سرکار ﷺ نے فرمایا:باجماعت نماز ادا کرنا تنہا نماز
پڑھنے سے 27 درجے افضل ہے۔(صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب فضل صلوۃ الجماعت، جلد1،
صفحہ 233)
2۔امیر المؤمنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جس نے کامل وضو کیا
اور کسی فرض نماز کی ادائیگی کے لئے چلا اور باجماعت نماز ادا کی تو اس کے گناہ
معاف کر دیئے جائیں گے۔(الترغیب والترھیب، کتاب الصلوۃ،جلد1، صفحہ 130)
3۔امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم
ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ عزوجل باجماعت
نماز ادا کرنے والوں سے خوش ہوتا ہے۔(مسند احمد، مسند عبداللہ بن عمر بن الخطاب،
جلد2، صفحہ 309)
4۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جو اللہ عزوجل کی رضا کے لئے چالیس
دن باجماعت تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ نماز پڑھے گا، اس کے لئے دو آزادیاں لکھی
جائیں گی، ایک جہنم سے، دوسری نفاق سے۔(سنن ترمذی، ابواب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 274)
5۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم، نور مجسم ﷺ نے فرمایا:منافقین پر سب نمازوں سے بھاری فجر
اور عشاء کی نماز ہے، اگر جان لیتے کہ ان دونوں نمازوں میں کیا ہے تو ضرور حاضر ہوتے، اگرچہ گھسٹتے ہوئے آتے اور بے
شک میں نے ارادہ کیا کہ میں نماز قائم کرنے
کا حکم دوں اور کوئی شخص نماز پڑھانے پر مقرر کروں، پھر کچھ لوگوں کو اپنے ساتھ چلنے
کے لئے کہوں، جو لکڑی اٹھائے ہوئے ہوں، پھر ان لوگوں کی طرف جاؤں، جو نماز میں
حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھروں کو آگ سے جلا دوں۔(صحیح بخاری، کتاب الاذان، جلد1،
صفحہ 235)
باجماعت نماز کا درس: باجماعت نماز ادا کرنے کے
جہاں بہت سے فضائل احادیث میں مروی ہیں، وہاں نہ پڑھنے کی وعید بھی ہے، جماعت سے
متعلق چند احکام ذہن نشین ہونے چاہئے کہ نمازِ جنازہ میں آخری صف میں نماز پڑھنا زیادہ
افضل ہے اور اگر فرض نماز میں وضو میں تین بار اعضاء دھونے سے جماعت کی رکعت جاتی
ہے تو افضل یہ ہے کہ ایک ایک بار دھو لے۔
اللہ پاک ہمیں پابندی وقت کے ساتھ نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے
اور واجبات کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اللہ تعالیٰ نے بھی ہمیں پابندی وقت کا درس دیا ہے اور نماز
بھی پابندیِ وقت کا درس دیتی ہے اور با جماعت نماز ادا کرنا اللہ پاک کو خوش کرنے
کا بھی ذریعہ ہے تو جس سے ربّ خوش ہوگیا، اس کا تو بیڑا پار ہو جائے گا۔
کوئی عبادت کی چاہ میں رویا، کوئی عبادت
کی راہ میں رویا
عجیب ہے یہ نمازِ محبت کا سلسلہ، کوئی
قضا کر کے رویا کوئی ادا کر کے رویا