اولاً تو ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ دھوکا کہتے کس کو ہیں، اس
بارے میں عبد الرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ
لکھتے ہیں:کہ کسی چیز کی اصل حالت کو پوشیدہ رکھنا دھوکا ہے۔(فیض القدیر، حدیث8879)
مثلاً کسی عیب دار چیز کو اس کا عیب چھپا کر بیچنا یا ملاوٹ والی چیز
کو اصل اور خالص کہہ کر بیچنا وغیرہ، کھوئی ہوئی چیز تو وہاں سے مل جاتی ہے، جہاں
وہ گُمی تھی، سوائے اعتبار کے، کیوں کہ جس کا اعتبار ایک مرتبہ ختم ہو جائے تو
دوبارہ مشکل سے ہی قائم رہتا ہے۔
٭اعتبار ختم ہونے میں اہم کرداردھوکے کا بھی ہے کہ جب ہم کسی سے جان بوجھ
کر غلط بیانی کریں گے، تو حقیقت سامنے آنے پر وہ دوبارہ کبھی بھی ہم پر بھروسہ
کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوگا، اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:
ترجمہ کنزالایمان:اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔(پ 4، آل
عمران:185)
دھوکا دینے والے سے اللہ کے محبوب ﷺ نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے، اس سے متعلق
احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں۔
1۔جس نے کسی مسلمان کو نقصان پہنچایا یا اسے فریب( دھوکا ) دیا تو وہ
ملعون ہے۔(ترمذی شریف، حدیث 1948)
2۔ہر دھو کا دینے والے کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا، جس کے ذریعے
وہ پہچانا جائے گا۔(بخاری شریف، حدیث6966)
3۔جس شخص کو اللہ کسی رعایا کا حکمران بنا دے اور وہ اس حال میں مرے
کہ وہ اپنی رعایا کے ساتھ دھوکا دہی کرتا تھا تو اللہ عزوجل اس پر جنت کو حرام
کر دیتا ہے۔(مسلم شریف، حدیث142)
4۔جو دھوکا دہی کرے گا، وہ مجھ سے(تعلق رکھنے والا) نہیں
ہے۔(مسلم شریف، حدیث284)
5۔مؤمن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں کاٹا جاتا۔
شانِ نزول: اس حدیث مبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ
ایک کافر شاعر جس کا نام ابو عزہ تھا، وہ حضور ﷺ اور مسلمانوں کی مخالفت میں سخت توہین آمیز
اشعار کہا کرتا تھا، جنگِ بدر میں گرفتار ہو گیا، اس نے گذشتہ کی معافی مانگی اور
آئندہ نہ کرنے کا عہد کیا تو اسے چھوڑ دیا گیا، پھر اسی حرکت میں مشغول ہوگیا، پھر
جنگِ احد میں گرفتار ہوگیا، پھر اس نے معذرت کی تو صحابہ کرام نے اس کی رہائی کی
سفارش کی، تب حضور ﷺ نے فرمایا:کہ مؤمن ایک
سوراخ سے دوبار نہیں کاٹا جاتا۔
اور اسے رہائی نہ بخشی، یعنی جس شخص سے ایک بار دھوکا کھا لیا،
دوبارہ اس کے دھوکے میں نہ آؤں، پھر اس کافر شاعر کو قتل کر دیا گیا۔(مراۃ المناجیح،
جلد ششم، صفحہ 421)
دھوکا دینے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ایک دن وہ بھی آئے گا کہ جب
دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اپنی کرنی کا پھل بھگتنا ہو گا، چنانچہ حسابِ آخرت سے
بچنے کے لئے دنیا ہی میں سچی توبہ کرلیں، جس کی رقم میں کمی وغیرہ کی تھی، اس کو
واپس کر دیں یا معاف کروا لیں۔
اللہ عزوجل ہمیں دھوکا دینے اور دھوکا کھانے سے بچائے۔آمین