تعريف:وہ فعل جس میں اس فعل کے کرنے والے کا با طنی ارادہ اس کے ظاہر کے
خلاف ہو، مکر یعنی دھوکا کہلاتا ہے۔
دھوکا کی دوسری تعریف یہ ہے کہ برائی کو چھپا کر اچھائی
ظا ہر کرنا ۔
دھوکا دہی کی چند مثالیں:
٭کسی چیز کا عیب چھپا کر اس کو بیچنا۔
٭اصل بتا کر نقل دے دینا۔
دھوکا کے متعلق قرآن مجید پاره 14، سوره النحل، آیت
نمبر 45 پر ارشاد ہے:
ترجمہ کنزالایمان:تو کیا جو لوگ برے مکر کرتے ہیں اس سے نہیں ڈرتے کہ
اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے گا یا انہیں وہاں سے عذاب آئے، جہاں سے انہیں خبر نہ
ہو۔
حکم:مسلمانوں کے ساتھ مکریعنی دھوکا بازی
قطعاً حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، جس کی سزا جہنم کا عذاب عظیم ہے، مکرو فریب اور
ڈرا دھمکا کر کسی سے مال لینا قطعی حرام ہے۔
احادیث مبارکہ:
1۔ ملعون ہے وہ شخص، جس نے کسی مؤمن کو نقصان پہنچایا یا دھوکا دیا۔(ترمذی
، کتاب البر والصلة ، باب ماجاء فی الخیانۃ والغش، ص 475،حديث 1941)
2۔ وہ ہم میں سے نہیں، جو دھوکا دے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب قول النبي، من غشنا
فليس منا، ص57، ح 164 (101)
3۔ جو کسی مؤمن کو ضرر پہنچائے یا اس کے ساتھ مکر اور دھوکا بازی
کرے، وہ ملعون ہے۔(ترمذی ، کتاب البر والصلة ، باب ماجاء فی الخیانۃ والغش، ج 3،
ص378،حديث 1948)
4۔ دھوکا دینے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔(المسند الامام احمد بن
حنبل، مسند ابي بكر الصديق، حديث 32، ج 1، ص 27)
5۔ جس نے ملاوٹ کی، وہ ہم میں سے نہیں۔(جامع الترمذی، ابواب البیوع،
باب ما جاء في كراہیۃ، حدیث 1315، ص 1784)
مکر یعنی دھوکے کے اسباب، علاج:
1۔مکر کا پہلا اور سب سے بڑا سبب حرص ہے کہ بندہ مال و دولت یا کسی
دنیوی شے کے حصول کے سبب مکر و فریب کرتا ہے۔
اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ حبِ مال یعنی(مال سے محبت ) کی مذمت پر غور
کرے، اور یہ ذہن بنائے کہ یہ مال فانی ہے
اور فانی یعنی (ختم ہونے والی)چیز کےلئے کسی کو دھوکا دے کر ایک گناه اپنے سر لینا عقل مندی نہیں،
بلکہ حماقت ہے۔
2۔دوسرا سبب جہالت ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ بنده مکر کے متعلق شرعی
احکام، اس کے دنیوی و اخروی نقصانات سیکھے اوراس سے بچنے کی کوشش کرے۔
3۔بری صحبت، علاج:عاشقانِ رسول کی صحبت اختیار کیجئے اور برے لوگوں
سے ہمیشہ دور رہے۔