نماز ارکانِ
اسلام میں سے ایک رکن ہے، معراج کی رات پیارے آقا ﷺ کو جو تحفہ دیا گیا، وہ بھی نماز ہی کا تھا، نماز
کوئی عام شےنہیں، کیونکہ نماز میں ہی سجدے
کی حالت میں بندہ ربّ تعالیٰ کے بہت زیادہ قرب میں ہوتا ہے۔
قارئین کرام!میں
آپ کو قرآن کریم کی ایک آیت مبارکہ کی طرف توجہ دلاتی چلوں ،پارہ 1 سورۃ البقرہ کی
آیت 43: وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ0
ترجمہ کنزالایمان:اور
رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ۔
مفتی احمد یار
خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس آیت مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ جماعت سے
نماز پڑھا کرو، کیونکہ جماعت کی نماز تنہا
نماز پر27 درجے افضل ہے۔(تدسیر نعیمی، ج1،
ص230)
جماعت سے نماز
مردوں پر واجب ہے، نیز بلاعذر محض سستی کے سبب نماز کو باجماعت ادا نہ کرنا گناہ
ہے، جماعت سے نماز پڑھنے کے بے شمار فضائل ہیں۔
پانچ
فرامینِ مصطفیٰ :
1۔مرد کی نماز
مسجد میں جماعت کے ساتھ، گھر میں اور بازار میں پڑھنے سے 25 درجے زائد ہے۔(بخاری،
جلد 1، صفحہ 233، ح647)
2۔نماز باجماعت
تنہا پڑھنے سے 27 درجہ افضل ہے۔(بخاری، جلد 1، صفحہ 232، ح645)
3۔ اللہ عزوجل
باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب(پیارا)رکھتا ہے۔(مسند امام احمد بن حنبل، ج2،
ص309،حدیث 5112)
4۔ اے
عثمان! جو شخص فجر کی نماز باجماعت ادا کریں، پھر طلوعِ آفتاب تک اللہ کا ذکر کرتا
رہے، اس کے لئے حجِ مبرور اور مقبول عمرہ کا ثواب ہے۔(شعب الایمان، جلد 7، صفحہ 138،
ح 9762)
5۔جس نے ظہر کی
نماز باجماعت پڑھی، اس کے لئے اس جیسی پچیس نمازوں کا ثواب اور جنت الفردوس میں
ستر درجات کی بلندی ہے۔(شعب الایمان، جلد 7، صفحہ 138، ح 9762)
قارئین کرام
ذرا غور کیجئے! کہ کتنی عظیم الشان فضیلتیں ہیں نماز باجماعت پڑھنے والے کے لئے، اب
وہ تو بدنصیب ہی ہے، محروم ہے وہ، جو بلا عذر جماعت سے نماز نہ پڑھے، امید ہے کہ
جماعت ترک کرنے والوں کا ان احادیث مبارکہ کو پڑھ کر باجماعت نماز پڑھنے کا ذہن بن
رہا ہوگا، اسلامی بہنوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے محارم کو ترغیب دیں کہ وہ باجماعت
نمازیں پڑھیں، ان شاءاللہ عزوجل محارم کو نیکی کی دعوت دینے کا آپ کو بھی ثواب ملے
گا کہ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے:ان الدال علی الخیر
کفاعلہبے
شک نیکی کی راہ دکھانے والا نیکی کرنے والے کی طرح ہے۔(ترمذی شریف)
اعلی حضرت علیہ
رحمۃ الرحمن کی تحقیق کے مطابق:مسجد میں باجماعت نماز پڑھنا واجب ہے، جب شرعی
مجبوری نہ ہو۔
افسوس! آج کل
مسلمانوں کی اکثریت جماعت سے غافل ہے، جبکہ پہلے لوگ تو باجماعت نماز کا بہت زیادہ
جذبہ رکھنے والے ہوتے تھے، چنانچہ حضرت امام ابو حامد محمد بن محمد بن محمد غزالی رحمة
اللہ علیہ لکھتے ہیں، پارۃ 18، سورۃ النور، آیت 37 میں اللہ پاک کا فرمان عالیشان
ہے: رِجَالٌ١ۙ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ
لَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِيْتَآءِ
الزَّكٰوةِ١۪ۙ يَخَافُوْنَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوْبُ وَ
الْاَبْصَارُۗۙ0
ترجمہ کنزالایمان:وہ
مرد جنہیں غافل نہیں کرتا کوئی سودا اور نہ خریدوفروخت، اللہ کی یاد اور نماز برپا
رکھنے اور زکوۃ دینے سے ڈرتے ہیں، اس دن سے جس میں الٹ جائیں گے دل اور آنکھیں۔
اس آیت مبارکہ
کی تفسیر میں لکھا ہے کہ یہ وہ لوگ تھے کہ ان میں جو لوہار ہوتا، وہ اگرضرب (یعنی چوٹ) لگانے کے لئے
ہتھوڑا اوپر اٹھائے ہوئے ہوتا اور اذان کی آواز سنتا تو اب ہتھوڑا لوہے وغیرہ پر
مارنے کے بجائے فوراً رکھ دیتا اور چمڑے کا کام کرنے والا چمڑے میں سوئے ڈالے ہوئے
ہوتا اور اذان کی آواز اس کے کانوں میں پڑتی تو سوئی باہر نکالے بغیر چمڑا اور سوئی
وہیں چھوڑ کر باجماعت نماز کے لئے مسجد کی طرف چل پڑتا۔(کیمیائےسعادت، جلد1، صفحہ
339)
سبحان اللہ
عزوجل!کیا خوب ہے ہمارے اسلاف کرام کا انداز۔۔۔!!!
جماعت سے گر تو نمازیں پڑھے گا
خدا تیرا دامن کرم سے بھرے گا
بھائی مسجد میں جماعت سے نمازیں پڑھ سدا
ہوں گے راضی مصطفیٰ ہو جائے گا راضی خدا