اللہ عزوجل نے
ہم پر بے شمار انعامات کئے ہیں، ان میں سے ایک عظیم الشان انعام نماز بھی ہے، اور
اگر یہی نماز باجماعت ہو تو پھر تو وارے ہی نیارے ہیں، اللہ پاک قرآن کریم میں
ارشاد فرماتا ہے: وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ0(پ1،
البقرہ:43)ترجمہ کنزالایمان:رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔
حضرت مفتی
احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس آیت مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ جماعت سے
نماز پڑھا کرو کہ یہ زیادہ افضل ہے۔
نماز باجماعت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں
کہ امام احمد بن حنبل اور آپ کے ساتھ دیگر آئمہ کرام رحمھم اللہ تعالیٰ جماعت
کو فرضِ عین قرار دیتے ہیں اور اگر فرضِ عین نہ بھی مانا جائے تو اس کے واجب اور
ضروری ہونے میں تو کسی قسم کا کوئی شبہ ہی نہیں ہے، البتہ علمائے احناف کے نزدیک
ہر عاقل، بالغ، آزاد اور قادر مسلمان مرد پر جماعت سے نماز پڑھنا واجب ہے اور
بلاعذر شرعی چھوڑنے والا گنہگار اور اگر کئی بار ترک کی تھی تو پھر فاسق ہے۔
باجماعت نماز
پڑھنے کے متعلق حدیث مبارکہ میں اس کے بے شمار فضائل ذکر کئے گئے ہیں، چنانچہ فرامینِ
مصطفیٰ ﷺ ملاحظہ
ہوں۔
1۔اللہ پاک
باجماعت نماز پڑھنے والے کو محبوب رکھتا ہے۔(مسند احمد بن حنبل، جلد 2، حدیث 5612)
2۔نماز باجماعت
تنہا پڑھنے سے 27 درجے بڑھ کر ہے۔(صحیح بخاری، جلد اول، حدیث 645) 3۔مرد کی نماز مسجد
میں جماعت کے ساتھ، گھر میں اور بازار میں پڑھنے سے 25 درجے زائد ہے۔(صحیح بخاری،
جلد اول، حدیث 646)
4۔جس نے
باجماعت نماز پڑھی، بے شک اس نے اپنے سینے کو عبادت سے بھر دیا۔(احیاء العلوم، جلد
اول، صفحہ 462)
5۔جس نے چالیس
دن باجماعت نماز اس طرح پڑھی کہ اس کی تکبیر تحریمہ بھی فوت نہ ہوئی تو اللہ عزوجل
اس کے لئے دو پروانے لکھے گا اور ایک پروانہ نفاق سے آزادی کا اور دوسرا پروانہ آگ
سے آزادی کا۔۔(احیاء العلوم، جلد اول، صفحہ 464)
یاد رکھئے!
جہاں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے بے شمار فضائل ہیں، وہیں بلا عذرِ شرعی جماعت کو
ترک کرنے والوں کے لئے بھی سخت وعیدیں ہیں، چنانچہ فرامینِ مصطفیٰ ﷺ ہیں۔
1۔ اگر جماعت
سے پیچھے رہ جانے والا جانتا کہ رہ جانے والے کے لئے کیا ہے تو گھسٹتے ہوئے حاضر
ہوتا۔(معجم کبیر، ج8، ح7886)
2۔ کسی گاؤں یا
بادیہ میں تین شخص ہوں اور نماز قائم نہ کی گئی ہو، مگر ان پر شیطان مسلط ہوگیا تو
جماعت کو لازم جانو کہ بھیڑیا اس بکری کو کھاتا ہے، جو ریوڑ سے دور ہو۔(مشکوۃ
المصابیح، جلد اول، حدیث 999)
3۔جو اذان مسجد
میں پالے، پھر وہ نکل جائے کہ نہ نکلا ہو کسی کام کے لئے، نہ وہ لوٹنے کا ارادہ
کرتا ہو تو وہ منافق ہے۔(مشکوۃ المصابیح، جلد اول، حدیث 1008)
4۔ جب تم مسجد
میں ہو اور نماز کی اذان دی جائے تو تم میں سے کوئی نماز پڑھے بغیر نہ نکلے۔(مشکوۃ
المصابیح، جلد اول، حدیث 1006)
5۔روایت ہے کہ
ایک مرتبہ آقا ﷺ نے بعض نمازوں میں کچھ لوگوں کو غیر حاضر پایا تو ارشاد فرمایا:میں
چاہتا ہوں کہ کسی شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے، پھر میں ان لوگوں کی
طرف جاؤں، جونماز سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور ان پر ان کے گھر جلا دوں۔(احیاء
العلوم، جلد اول، ص462)
الامان والحفیظ!یہ
رحمت جانِ عالم ﷺ کے الفاظ ہیں، یقیناً اگر آپ ﷺ ہمیں اپنی زبان مبارک سے ایسا کہہ دیں تو ایسا
آدمی بدبخت ہے، بظاہر یہ ایک معمولی کوتاہی لگتی ہے، لیکن درحقیقت یہ ہمیں اللہ
پاک سے دور کرنے کا سبب ہے، اس لئے اسلامی بھائیوں کو چاہئے کہ وہ بلا عذر شرعی جماعت
ترک نہ کریں۔
اللہ پاک سے دعا
ہے کہ اللہ ہمیں اپنے احکامات پر سچے دل سے عمل کرنے والا بنا دے۔آمین مزید معلومات
کے لئےفیضان نماز کتاب کا مطالعہ فرمائیں۔