نماز ہر مکلف یعنی
عاقل و بالغ پر فرضِ عین ہے، اس کی فرضیت کا منکر کافر ہے، نماز خالص بدنی عبادت
ہے، اس میں نیابت جاری نہیں ہو سکتی، انہیں ایک کی طرف سے دوسرا ادا نہیں کر سکتا
اور فرضیتِ نماز کا سبب حقیقی امرِ الہی ہے، قرآن کریم میں تقریبا 700 سے زائد مرتبہ
نماز پڑھنے کا حکم ارشاد فرمایا گیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:نماز قائم کرو اور زکوۃ دو اور رکوع کرنے
والوں کے ساتھ نماز پڑھو۔(پ 1، البقرۃ:43)یعنی مسلمانوں کے ساتھ رکوع ہماری ہی شریعت
میں ہےیا باجماعت ادا کرو۔
ایک اور جگہ
ارشاد فرمایا: وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ0(پ 16،
طٰہ:14) ترجمہ کنزالایمان:اور میری یاد کے لئے نماز قائم رکھ۔
احادیث مبارکہ
میں متعدد جگہ باجماعت نماز پڑھنے کے فضائل بیان ہوئے ہیں۔
حضور علیہ الصلوۃ
والسلام نے ارشاد فرمایا:باجماعت نماز تنہا نماز سے 27 درجے افضل ہے۔(احیاء العلوم،
ج1، صفحہ 462)
اس حدیث
مبارکہ سے باجماعت نماز پڑھنے کی اہمیت بیان ہوئی کہ باجماعت نماز پڑھنا کس قدر
اہمیت کا حامل اور افضیلت کا باعث ہے۔
حدیث مبارکہ میں
ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا؛کہ جس نے باجماعت نماز پڑھی، بے
شک اس نے اپنے سینے کو عبادت سے بھر دیا۔
حضرت سعید بن
مسیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں؛کہ بیس سال سے میرا یہ معمول ہے کہ مؤذن کے اذان دینے
سے پہلے ہی مسجد میں ہوتا ہوں۔
حدیث مبارکہ میں
ہے کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا؛کہ جو اللہ ربّ العزت کے لئے چالیس
دن باجماعت نماز پڑھے اور تکبیر اولیٰ پائے تو اس کے لئے دو آزادیاں لکھ دی جائیں گی،
ایک نار سے دوسری نفاق سے۔
حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:رات میرے ربّ کی طرف سے ایک آنے والا آیا اور ایک
روایت میں ہے:میں نے اپنے ربّ کو نہایت جمال کے ساتھ تجلی فرماتے ہوئے دیکھا، اس
نے فرمایا: اے محمد! میں نے عرض کیا :لبیک وسعدیک، اس نے فرمایا: تمہیں معلوم
ہے، ملاء اعلی کس اَمر میں بحث کرتے ہیں؟ میں نے عرض کی: نہیں جانتا، اس نے اپنا دستِ
قدرت میرے شانوں کے درمیان رکھا، یہاں تک کہ اس کے ٹھنڈک میں نے اپنے سینہ میں پائی
تو جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، میں نے جان لیا اور ایک روایت میں ہے:جو کچھ
مشرق و مغرب کے درمیان ہے، جان لیا۔
فرمایا: اے
محمد! جانتے ہو، ملاء اعلی کس اَمر میں بحث کرتے ہیں؟ میں نے عرض کی:ہاں، درجات و
کفارات اور جماعتوں کی طرف چلنے اور سخت سردی میں پورا وضو کرنے اور نماز کے بعد
دوسری نماز کے انتظار میں اور جس نے ان پر محافظت اختیار کی، خیر کے ساتھ زندہ رہے
گا اور خیر کے ساتھ مرے گا اور اپنے گناہوں سے ایسا پاک ہو گا، جیسے اس دن کے اپنی
ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔(بہارشریعت، صفحہ 575)
اس حدیث
مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جماعت کی طرف چلنے والوں یعنی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے والوں کے بارے میں ملائکہ آسمانوں پر
گفتگو فرماتے ہیں، کس قدر خوش نصیب ہیں وہ لوگ، جو باجماعت نماز ادا کرتے اور اس
فضیلت کو پاتے ہیں۔
جس طرح نماز
باجماعت پڑھنے پر فضیلتیں بیان ہوئی ہیں، اسی طرح باجماعت نماز کو ترک کرنے پر وعیدیں
بھی وارد ہوئی ہیں۔
حدیث مبارکہ میں
ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی
کریم، رؤف الرحیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بعض نمازوں میں کچھ لوگوں کو غیر حاضر
پایا تو ارشاد فرمایا:میں چاہتا ہوں کہ کسی شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز
پڑھائے، پھر میں ان لوگوں کی طرف جاؤں، جو نماز(باجماعت) سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور
ان پر ان کے گھر جلا دوں۔(احیاء العلوم، جلد 1، صفحہ 462)
حضرت ابو
درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو فرماتے
ہوئے سنا:جس کسی گاؤں یا بستی میں تین فرد بھی ہوں اور ان میں نماز باجماعت کا
اہتمام نہ ہو تو شیطان ان پر مسلط ہو جاتا ہے، لہٰذا تم جماعت کو لازم پکڑو، بھیڑیا ہمیشہ دور رہنے
والی اکیلی بکری ہی کو کھاتا ہے۔(سنن نسائی، ح844)
گزشتہ حدیث کے
الفاظ تو ایسے ہیں، جو نماز کے لئے جماعت کے فرض ِعین ہونے کا اشارہ دیتے ہیں، اگر
یہ عام سی سنت ہوتی تو اس کے ترک پر ان لوگوں کے گھروں کو آگ لگائے جانے کی شدیدترین
وعید نہ سنائی جاتی۔
جب صرف جماعت
چھوڑنے پر اس قدر سخت وعید ہے تو پھر جو لوگ نماز ہی نہیں پڑھتے، وہ کتنی بڑی سزا کے
مستحق ہوں گے، بلاشبہ ان کا دینِ اسلام میں کوئی حصہ نہیں۔
ہمیں اللہ ربّ
العزت کے احکامات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین جو
نماز باجماعت کے متعلق ہیں، ان کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جماعت کا ضرور بالضرور
اہتمام کرنا چاہئے، کیونکہ انسان غلام ہیں اور اللہ عزوجل اور اس کے پیارے محبوب
علیہ الصلوۃ والسلام کے غلام ہیں، توجو غلام ہوتے ہیں، وہ اپنے مالک کے حکم کے آگے
سر تسلیم خم کر دیتے ہیں، اپنی مرضیوں کو ترجیح نہیں دیتے۔
اللہ کریم ہمیں
پابندی کے ساتھ باجماعت نماز اخلاص اور استقامت کے ساتھ پڑھنے کی توفیق عطا
فرمائے۔آمین