اللہ پاک کے بے شمار انعامات میں سے ایک انعام نماز باجماعت بھی ہے نمازِباجماعت تنہا نماز سے ستائیس درجے افضل ہے۔  ہر عاقل بالغ، آزاد اور قدرت رکھنے والے مسلمان مرد پر جماعت سے نماز پڑھنا واجب ہے اور کسی مجبوری کے بغیر ایک بار بھی جماعت چھوڑنے والا گنہگار ہے اور کئی بار چھوڑنا فِسق ہے بلکہ عُلما کی ایک جماعت بشمول حضرت اِمام اَحمد بن حَنبل علیہ الرحمہ،جماعت کو فرضِ عین کہتے ہیں۔اگر فرضِ عین نہ مانیں تب بھی نماز باجماعت واجب اور ضروری تو ہے۔حضور ﷺ فرض نمازیں باجماعت ادا فرماتے مگر یہ کہ کوئی مجبوری پیش آجاتی۔ (فیوض الباری ج 3،ص 297،بتغیر قلیل )(فیضان نماز، ص 140)عورتوں کو کسی نماز میں جماعت کی حاضری جائز نہیں۔(بہار شریعت ج 1،حصہ 3،ص 584) اور انہیں جماعت قائم کرنے یاجماعت میں شامل ہونے کی اجازت بھی نہیں۔ (فیضان نماز ص 164)

نمازِ باجماعت کے بارے میں آقا کریم ﷺ کے فرامین:

1۔مرد کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ گھر میں اور بازار میں پڑھنے سے پچیس درجے زائد ہے۔ (بخاری ج 1،ص 233، حدیث 647) (فیضان نماز ص 141)

ایک اور روایت ہے کہ نمازِ باجماعت تنہا نماز پڑھنے سے ستائیس درجے بڑھ کر ہے۔ (بخاری ج 1، ص 232، حدیث645) (فیضان نماز ص 141)

2۔ اللہ باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب (یعنی پیارا )رکھتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل ج 2،ص 309 حدیث 5112) (فیضان نماز ص 140)

3۔ جب بندہ باجماعت نماز پڑھے پھر الله سے اپنی حاجت (یعنی ضرورت)کا سوال کرے تو الله اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے واپس لوٹ جائے۔ (حلیۃ الاولیاء ج 7، ص 299، حدیث 10591) (فیضان نماز ص 141)

4۔جو کوئی الله کے لیے چالیس دن تکبیر اولیٰ کے ساتھ باجماعت نماز پڑھے اس کے لیے دو آزادیاں لکھی جائیں گی،ایک نار سے دوسری نفاق سے۔ (ترمذی ج 1،ص 274، حدیث 241)(فیضان نماز ص190) نماز شروع کرتے وقت سب سے پہلے جو تکبیر کہی جاتی ہے اسے تکبیر اولیٰ یا تکبیر تحریمہ کہتے ہیں۔

5۔اگر یہ نمازباجماعت سے پیچھے رہ جانے والا جانتا کہ اس رہ جانے والے کےلیے کیا ہےتو گھسٹتے ہوئے حاضر ہوتا۔ (معجم کبیر ج 8،ص 266، حدیث 7886)(فیضان نماز ص229)

حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ کیمیائے سعادت میں لکھتے ہیں: اللہ کا فرمان ہے: ترجمہ كنزالایمان:وہ فرد جنہیں غافل نہیں کرتا کوئی سودا اورنہ خریدوفروخت اللہ کی یاد اور نماز برپا رکھنے اور زکوٰة دینے سے ڈرتے ہیں اس دن سے جس میں الٹ جائیں گے دل اور آنکھیں۔(پ 18،النور: 37) اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھا ہے: یہ وہ لوگ تھے کہ ان میں جو لوہار ہوتا تھا وہ اگر ضرب (یعنی چوٹ) لگانے کے لیے ہتھوڑا اوپر اٹھائے ہوئے ہوتا اور اذان کی آواز سنتا تو اب ہتھوڑا لوہے وغیرہ پر مارنے کے بجائے فورا رکھ دیتا اور چمڑ ے کا کام کرنے والا چمڑے میں سوئی ڈالے ہوئے ہوتا اور اذان کی آواز اس کے کانوں میں پڑتی تو سوئی باہر نکالے بغیر چمڑا اور سوئی وہیں چھوڑ کر باجماعت نماز کے لیے مسجد کی طرف چل پڑتا۔ (کیمیائے سعادت ج 1، ص 339)(فیضان نماز ص149-148)

محترم اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے پہلے وقتوں میں مسلمانوں کو باجماعت نماز پڑھنے کا کیسا جذبہ ہوتا تھا۔ ہمیں بھی چاہیے کہ اس چند روزہ زندگی کو غنیمت جانیں اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کریں۔ بروز حشر لوگ ایک ایک نیکی کو ترسیں گے،تو کہیں ہمیں بھی پچھتاوا نہ ہو کہ ہم نے اپنی زندگی غفلت میں گزاردی۔