
دعوت
اسلامی کے شعبہ مدنی عطیات
بکس کے تحت پچھلے دنوں حیدرآباد میں قائم جامعۃ
المدینہ بوائز میں مدنی مشورہ ہوا جس میں سرکاری ڈویژن حیدرآباد
اور ڈویژن بھنبھور مدنی عطیات بکس اور گھریلو صدقہ بکس ذمہ داران سمیت صوبائی ذمہ دارمدنی عطیات بکس محمد ارمان عطاری ،
صوبائی ذمہ دار جامعۃ المدینہ رضوان مدنی اور
جامعۃ المدینہ بوائز اندرون سندھ خود
کفالت ذمہ دار اخلاق مدنی بھی موجود تھے۔
شعبہ
جامعۃ المدینہ بوائز پاکستان سطح کے ذمہ دار علی عمران مدنی نے دعوت اسلامی کے دینی
کاموں کو کرنے اور نیو مقام پر عطیات بکس لگانے کے حوالے سے نکات بتائے نیز اس سلسلے میں حاضرین کو اہداف دیئے۔
اس میٹنگ
میں مرکزی مجلس شوریٰ کہ رکن حاجی محمد فاروق جیلانی عطاری نے بھی تربیت فرمائی جس میں رکن ِشوریٰ نے 12
دینی کام کرنے کی ترغیب دلاتے ہوئے ڈونیشن
بکس کے سلسلے میں دکانداروں
سے ملاقاتیں کرنے کا ذہن دیا۔(رپورٹ:
بہاول عطاری ،کانٹینٹ: رمضان رضا عطاری )

دعوت
اسلامی کے شعبہ عطیات بکس کے زیر اہتمام 11 اکتوبر 2022ء کو حیدرآباد میں مدنی
مشورہ ہوا جس میں حیدرآباد لطیف آباد سٹی
کے عطیات بکس ذمہ داراور سپر وائزر
نے شرکت کی۔
اس
موقع پر ڈویژن ذمہ دار عبدالعزیز عطاری نے اسلامی بھائیوں کو دینی کام کرنے اور عطیات
بکس بڑھانے کی ترغیب دلائی ۔بعدازاں مشورے
میں رکن شوریٰ حاجی
محمد فاروق جیلانی عطاری نے دینی
کاموں میں سے ایک دینی کام مدنی قافلہ میں سفر کرنے اورمتعلقین کو سفر کروانے
کا ذہن دیا نیز عطیات بکس کے حوالے سے دکانداروں سے ملاقاتیں کرنے کا مشورہ دیا۔(رپورٹ:
بہاول عطاری ،کانٹینٹ: رمضان رضا عطاری )
محمد جعفر عطاری (درجہ دورۂ حدیث جامعۃ المدینہ فیضان
اولیاء احمد آباد گجرات ہند)

آج دھوکہ دہی لوگوں کے درمیان ایک عام سی چیز بن گئی ہے، جب
کہ اسلام میں یہ حرام اور گناہِ کبیرہ ہے۔ اس میں دنیاوی اور اخروی دونوں طرح کے
نقصان ہیں۔ اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتا ہے: یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۚ-وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا
یَشْعُرُوْنَؕ(۹) ترجمۂ کنزالایمان: فریب دیا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کواور حقیقت میں فریب نہیں دیتے مگر
اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں۔(پ1،البقرۃ:9)یخادعون ’’خدع‘‘ سے مشتق ہے جس کا لغوی معنیٰ چھپانا اور اصطلاحی معنیٰ دھوکہ
دینا ہے۔
( 1)پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک غلے کے پاس
سے گزر ہوا ۔ آپ نے اپنا ہاتھ اس غلے میں داخل کیا تو ہاتھ میں تری پائی۔ آپ نے
فرمایا: یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!
آسمان سے بارش ہوئی تھی۔ آپ نے فرمایا: اسے اوپر کیوں نہ کیا کہ لوگ اسے دیکھ
لیتے، جس نے دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں۔( مسلم، ص64،حديث:284)
(2)امیر المؤمنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مومن
کوضرر پہنچا وے یا اس کے ساتھ مکر اور دھوکہ بازی کرے وہ ملعون ہے۔(ترمذی کتاب
الرو الصلۃباب ماجاءفی اخیانۃالغش، 2/378،حدیث:1948)
(3) نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دھوکہ دینے والوں کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’من
غشنا فلیس منا‘‘ ترجمہ : جو ہمیں دھوکہ دے، وہ ہم میں سے نہیں ۔ (الصحیح
لمسلم، کتاب الایمان، 1/ 70، مطبوعہ کراچی)
(4) امیرالمؤمنین حضرت
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا تین شخص جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔(1)دھوکہ باز (2) احسان جتانے والا (3)بخیل۔(کنزالعمال،/3218،حدیث:7823)
( 5) حضرت
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا جو ہمارے ساتھ دھوکہ بازی کرے وہ ہم میں سے نہیں ہیں اور مکرو
دھوکہ بازی جہنم میں ہے۔ ( کنزالعمال کتاب الاخلاق من قسم الاقول المکرواخدیعۃ ،حدیث:
7821)
دعوت اسلامی کے
اشاعتی ادارے مکتبۃالمدینہ کی مطبوعہ 207 صفحات پر مشتمل کتاب جہنم کے خطرات صفحہ
نمبر171 ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ مکر یعنی دھوکہ بازی اور دغا بازی کرنا قطعاً حرام
اور گناہ کبیرہ ہے جس کی سزا جہنم کا عذاب عظیم ہے۔
قراٰن و حدیث میں
اللہ رب العزت اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دھوکہ دینے کی سخت
مذمت کی ہے ۔آج کے دور میں لوگ دوسروں کے خلاف سازش اور مخفی منصوبہ بندی میں ہمہ
وقت مصروف رہتے ہیں۔ اس ترقی کے دور میں کسی کی مخالفت کرتے ہیں تو چھپے انداز
میں۔ یہ دھوکہ بازی لوگوں کی طبیعتوں میں اتنی تیزی کے ساتھ عام ہوتی جارہی ہے کہ
ان کا پورا کردار وعمل اسی سے عبارت ہوکر رہ گیا ہے۔اس بلا میں گرفتار ہونے کی سب
سے بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ قراٰنی تعلیمات اور نبوی ارشادات پر عمل کے حوالے
سے ہم کوسوں دور ہیں۔ دھوکہ دینا کئی طرح سے ہوتا ہے۔
(1) والدین اور
عزیز واقارب کو دھوکہ دینا
(2) خود کو اور اپنے دوستوں کو دھوکہ دینا
(3) کارو بار اور
منفعت کے لیے دھوکہ دہی کرنا۔
اسلام نے ان تمام
صورتوں سے منع کیا ہے۔ ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم قرآن وحدیث کی تعلیمات پر عمل
پیرا ہوں تاکہ دونوں جہاں میں سرخرو اور تابناک ہوسکیں۔
فیصل عطاری (درجہ دورۂ حدیث جامعۃ المدینہ فیضان اولیاء
احمد آباد گجرات ہند)

کسی مومن کو دھوکا دینا یقیناً بارِ عذابِ نار سر اٹھانا ہے
قراٰنِ پاک میں تو یہ خبیث صفت منافقین کے بارے میں بیان ہوئی ہے چنانچہ ربِّ
ذوالجلال ارشاد فرماتا ہے: یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا ۚ-وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ(۹)
ترجمۂ
کنزالایمان: فریب دیا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان
والوں کواور حقیقت میں فریب نہیں دیتے مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور
نہیں۔(پ1،البقرۃ:9)
لہذا جو لوگ اپنے مسلمان بھائی کو دھوکا دینے سے عار تک
محسوس نہیں کرتے ایسوں کے لئے پانچ فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیان
کئے جا رہے ہیں جنہیں پڑھنے کے بعد عبرت حاصل کرنا چاہئے۔
(1) عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنهما، عَنِ
النَّبِيِّ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، أنَّهُ قالَ: «لَيْسَ مِنّا مَن غَشَّ فِي البَيْعِ والشِّراءِ» ترجمہ:ابن عمر
رضی اللہ عنهما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
جس نے بیع و شراء (خرید و فروخت) میں دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں۔(مسند ابي حنيفۃ
للحصكفي، کتاب البیوع، تراث)
(2) عَنْ
عُثْمانَ بْنِ عَفّانَ، قالَ: قالَ رَسُولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : «مَن غَشَّ العَرَبَ لَمْ يَدْخُلْ
فِي شَفاعَتِي ولَمْ تَنَلْهُ مَوَدَّتِي»ترجمہ: جس نے عرب (اہل عرب) کو دھوکا دیا وہ میری شفاعت میں
داخل نہ ہوگا اور اسے میری محبت نصیب نہ ہوگی۔(سنن الترمذي، 6/ 209)
(3) عَنْ أبِي هُرَيْرَةَ أنَّ رَسُولَ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مَرَّ عَلى صُبْرَةِ طَعامٍ فَأدْخَلَ يَدَهُ فِيها،
فَنالَتْ أصابِعُهُ بَلَلًا فَقالَ: «ما هَذا يا صاحِبَ الطَّعامِ؟» قالَ
أصابَتْهُ السَّماءُ يا رَسُولَ اللہ، قالَ: «أفَلا جَعَلْتَهُ فَوْقَ الطَّعامِ كَيْ يَراهُ
النّاسُ، مَن غَشَّ فَلَيْسَ مِنِّي»ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم غلّے کے ڈھیر کے پاس سے گزرے اور آپ نے اپنا
ہاتھ اس میں ڈالا تو آپ کی انگلیاں تر ہو گئیں۔ آپ نے فرمایا: اے غلے والے یہ کیا
ہے؟ تو اس نے عرض کی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس میں بارش کا
پانی پہنچ گیا ہے۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تو کیا تم نے اس
(تر غلے) کو اوپر نہ رکھا تاکہ لوگ اسے دیکھ لیں، "جس نے دھوکا دیا وہ مجھ سے
نہیں"۔(صحیح مسلم، 1/ 99)
(4) عَنْ
قَيْسِ بْنِ أبِي غَرَزَةَ قالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بِصاحِبِ
طَعامٍ يَبِيعُ طَعامَهُ، فَقالَ رَسُولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : «يا صاحِبَ الطَّعامِ، أسْفَلُ
الطَّعامِ مِثْلُ أعْلاهُ؟»، فَقالَ: نَعَمْ، فَقالَ رَسُولُ اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : «مَن غَشَّ المُسْلِمِينَ فَلَيْسَ مِنهُمْ»ترجمہ: قیس بن
ابی غرزہ سے ہے، کہتے ہیں کہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم غلّے والے کے
پاس سے گزرے جو اپنا غلہ بیچ رہا تھا۔ تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا: اے غلے والے! کیا غلہ (کے ڈھیر) کا نچلا اور بالائی حصہ ایک جیسا ہے؟
تو اس شخص نے کہا: ہاں، پھر رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
جس نے مسلمانوں کو دھوکا دیا تو وہ ان میں سے نہیں۔(مسند أبي يعلى الموصلي، 2/
233)
(5) عَنْ أبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، عَنِ
النَّبِيِّ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قالَ: لاَ يَدْخُلُ الجَنَّةَ خِبٌّ
ولاَ مَنّانٌ ولاَ بَخِيلٌ.ترجمہ:ابو بکر
صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: "دھوکا دہی کرنے والا، احسان جتانے والا اور کنجوس شخص جنت میں داخل
نہیں ہو گا"۔(ترمذي، 3/ 408)
محمد افضل عطاری (درجہ خامسہ جامعہ المدینہ فیضان
کنزالایمان کھڑک،ممبئی ہند)

اللہ رب العزت کا بہت بڑا احسان ہے کی اس نے ہمیں انسان
بنایا۔ انسان کے اندر کئی طرح کی صفتیں موجود ہوتی ہیں اس میں سے ایک بہت بری صفت
دھوکا دہی ہے جو کہ ہمارے معاشرے میں بہت عام ہو چکی ہیں۔
دھوکہ دہی کی تعریف :برائی کو دل میں چھپا کر اچھائی ظاہر کرنا دھوکا کہلاتا ہے۔
دھوکہ دہی کی کچھ مثالیں بھی ملاحظہ ہو:(1)کسی چیز کا عیب
چھپا کر اس کو بیچنا (2)اصل بتا کر نقل دے دینا (3)غلط بیانی کرکے کسی سے مال
بٹورنا جیسا کی پیشہ ور بھکاریوں کا طریقہ ہے۔
کفار کے مکرو فریب
کے متعلق قراٰنِ پاک میں یوں ارشاد ہوتا ہے : اَفَاَمِنَ الَّذِیْنَ مَكَرُوا
السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّخْسِفَ اللّٰهُ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ یَاْتِیَهُمُ
الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَۙ(۴۵) ترجمۂ کنزالایمان : تو کیا جو لوگ
برے مکر کرتے ہیں اس سے نہیں ڈرتے کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسادے یا انہیں وہاں
سے عذاب آئے جہاں سے انہیں خبر نہ ہو ۔(پ14 ،النحل: 45)
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی دھوکہ دہی
کی شدید مذمت فرمائی ہے۔
(1) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو
دوسرے کو نقصان پہنچائے اللہ اسے نقصان پہچائے گا اور جو دوسرے کو تکلیف دے اللہ پاک
اسے تکلیف دے گا۔(جامع ترمذی، حدیث: 1940)
(2) ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : وہ شخص ملعون ( یعنی اللہ کی رحمت سے دور) ہے
جس نے کسی مومن کو نقصان پہنچایا یا اس کو دھوکہ دیا۔(جامع ترمذی، ص 475 ،حدیث:
1941)
(3)امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تین شخص جنت میں داخل نہیں ہوں
گے۔(1)دھوکہ باز (2) احسان جتانے والا (3)بخیل۔(کنزالعمال،/3218،حدیث:7823)
(4)حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا
کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جو ہمارے ساتھ دھوکہ بازی
کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے اور مکر و دھوکہ بازی جہنم میں ہے۔(کنز العمال، ص 218 ،حدیث:
2821)
(5) امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جو کسی مسلمان کے ساتھ مکر کرے یا
نقصان پہچائے یا دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں۔(کنزالعمال، ص 218 ،حدیث: 2822)
دھوکہ دینا بہت بری چیز ہے جو کہ دنیا و آخرت کے لیے نہایت
ہی نقصان دہ ہے اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں میں دوسروں کو دھوکا دینے اور خود
دھوکا کھانے سے بچائے۔
محمد مقصود عالم قادری (درجہ خامسہ جامعہ المدینہ فیضان
کنزالایمان کھڑک،ممبئی ہند)

دھوکہ دینا
خالق و مخلوق ، مومن و کافر ، نیک اور بد سب کے نزدیک ایک مذموم فعل ہے، دھوکہ
دینے والے پر لوگوں کا اعتماد ایک بار ہی میں زمیں بوس ہو جاتا ہے، پھر دوبارہ
دھوکہ دینے والا شخص ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود بھی کما حقہ لوگوں کا
اعتماد حاصل نہیں کر پاتا ،ہمیشہ وہ لوگوں کی نظروں میں ہوتا ہے کہ کہیں پھر سے یہ
شخص ہمیں دھوکا نہ دے دے۔
دھوکہ دہی کی مذمت
کے حوالے سے کثیر احادیث مبارکہ موجود ہیں ان میں سے پانچ حدیثیں ملاحظہ کیجئے :
(1) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ اس
پر لعنت ہو جو کسی مسلمان کو تکلیف پہنچائے یا اسے دھوکہ دے ۔(کنز العمال ،کتاب
البر ،حدیث: 7821)
(2) مدینے
والے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا دھوکے باز،بخیل اور احسان
جتلانے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ (کنز العمال کتاب البر ،حدیث: 7826)
(3) پیارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان
عبرت نشان ہے کہ جس نے ہمیں دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں،مکروفریب جہنم میں (لے
جانے کا باعث) ہے۔ (کنز العمال کتاب البر ،حدیث:7824)
(4) ایک مرتبہ حضورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا گزر غلے
کے ایک ڈھیر پر ہوا، نبی علیہ السلام نے اس میں ہاتھ ڈالا تو آپ کی انگلیاں تر
ہوگئیں، فرمایا : تم نے اس سے اوپر کیوں نہیں رکھا کہ لوگ اسے دیکھ لیں جو شخص
ہمیں دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں۔ (الزواجر عن اقتراف الکبائر مترجم،ص 348)
آج کل دکان دار اسی
طرح اپنے گاہکوں کو دھوکہ دیتے ہیں کہ سڑا ہوا سامان بوری کے نیچے رکھ کر اوپر خوب
سجاتے ہیں تاکہ گاہک کا دل اس طرف مائل ہوجائے یہی وجہ ہے کہ آج ہر کوئی ایک دوسرے
کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے، گاہک دکان دار کو کہیں ملاوٹی سامان یا ناپ تول میں
کمی بیشی نہ کردے، دوکاندار گاہکوں کو کہیں جعلی نوٹ نہ تھما دے، مریض ڈاکٹر کو
کہیں نقلی دوائی نہ دے دے، حتی کہ کچھ لوگ دینی معاملات میں بھی دھوکہ دینے لگے
ہیں ۔ اللہ پاک ہم سب کو دھوکہ دہی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی
الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
غلام نبی(درجہ دورۂ حدیث،جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ حیدرآباد پاکستان)
غلام نبی(درجہ دورۂ حدیث،جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ حیدرآباد پاکستان)

دھوکا دہی لوگوں کے درمیان
ایک عام سی چیز بن گئی جب کہ اسلام میں یہ حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، اس میں دنیاوی
اور اُخروی نقصان ہے۔اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا ۚ-وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ(۹)﴾ترجمۂ کنز الایمان: فریب دیا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کو اور
حقیقت میں فریب نہیں دیتے مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں۔(پ1، البقرۃ:9)
صِراطُ الجنان میں ہے: ان بے دینوں کا فریب نہ خدا پر چلے نہ رسول پر اور نہ
مومنین پر بلکہ درحقیت وہ اپنی جانوں کو فریب دے رہے ہیں اور یہ ایسے غافل ہیں کہ
انہیں اس چیز کا شعور ہی نہیں۔(صراط الجنان،1/74)
دھوکا ایسی بُری خصلت ہے جو اعتبار کو ختم کر دیتی ہے اور
جب ایک مرتبہ اعتبار ختم ہوجائے تو دوبارہ مشکل سے قائم ہوتا ہے۔ جب ہم کسی سے جان
بوجھ کر غلط بیانی کریں گے یا گھٹیا چیز کو عمدہ بول کر اسے بے وقوف بنانے کی کوشش
کریں گے تو حقیقت سامنے آنے پروہ دوبارہ ہم پر بھروسا کرنے کیلئے مشکل ہی سے تیار ہوگا۔
دھوکا دینے کی بُری عادت تاجر گاہک، سیٹھ مزدور، ڈاکٹر مریض، استاد اور شاگرد
وغیرہ بہت سے طبقوں میں پائی جاتی ہے۔
آئیے دھوکے کی مذمّت پر پانچ احادیثِ مبارکہ
ملاحظہ کیجئے:
(1)حضورِ اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا یعنی جس نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا وہ ہم میں سے
نہیں۔(مسلم،ص64،حدیث:283)
(2)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم غلہ کے ڈھیر پر سے گزرے تو آپ نے اپنا ہاتھ اس غلہ میں داخل کیا تو
ہاتھ میں تری پائی، آپ علیہ السّلام نے فرمایا: یہ کیا ہے؟ اس نے عرض کی: یا رسولَ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آسمان سے بارش ہوئی تھی۔ آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اسے اوپر کیوں نہیں کیا کہ لوگ اسے دیکھ لیتے، جس نے
دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں۔ (مسلم،ص64، حديث: 284) علامہ عبدُالرءوف مناوی رحمۃُ
اللہِ علیہ لکھتے ہیں: کسی چیز کی (اصلی) حالت کو پوشیدہ رکھنا دھوکا ہے۔(فیض
القدیر،6/240،تحت الحدیث:8879)
(3)حضرت ابوبکر صدیق
رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے: حُضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
دھوکے باز، احسان جتانے والا اور بخیل جنت میں داخل نہیں ہوگا۔(ترمذی، 3/388،
حدیث: 1970)
(4)نبیِّ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مؤمن (دنیا کے بارے میں) بھولا بھالا اور
کریمُ النفس ہوتا ہے، جب کہ کافر اور منافق دھوکے باز، خبیث اور کمینہ ہوتا
ہے۔(ترمذی، 3/388، حدیث:1971)
(5)حُضورِ اکرم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:قیامت کے دن ہر دھوکے باز کے لئے (بطورِ
نشانی کے) ایک جھنڈا ہوگا جس کے ذر یعے وہ پہچانا جائے گا، کہا جائے گا:یہ فلاں کی
دھوکے بازی ہے۔ (مسلم،ص740،حدیث:4535)
قراٰنِ کریم اور احادیثِ طیبہ میں اللہ ربُ العزت اور اس کے
پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دھوکا دینے کی سخت مذمت بیان کی
ہے۔اگر ہم ان وعیدوں سے بچنا چاہتے ہیں تو قراٰن و حدیث پر عمل پیرا ہوں۔
فِی زمانہ دھوکے اور فراڈ کی نئی صورتیں سامنے آتی رہتی
ہیں: جیسے خرید و فروخت میں2نمبر چیز دے دینا یا کسی کو نوکری دلانے یا بیرونِ ملک
بھجوانے کا جھانسا دے کر مال وصول کرتے رہنا، یا ایس ایم ایس کے ذریعے قر عہ
اندازی میں انعام نکل آنے یا کار، بائیک،سونا، لیپ ٹاپ ملنے کی اطلاع دے کر مختلف
حیلوں بہانوں سے اس سے رقم بٹورنا یا کسی کو زمین کے جعلی کاغذات دکھا کر زمین کی
رقم وصول کرکے ر فو چکر ہوجانا وغیرہ وغیرہ۔
دھوکا دینا بھی کئی طرح سے ہوتا ہے، مثلاً اللہ پاک اور اس کے رسول
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکام کی بجا آوری نہ کرنا، والدین اور عزیز و
اقارب کو دھوکا دینا، خود کو اور اپنے دوستوں کو دھوکا دینا، کاروبار اور منفعت کے
لئے دھوکا دہی کرنا وغیرہ۔ دینِ اسلام نے ان تمام صورتوں سے سختی سے منع کیا ہے
اور ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم قراٰن و حدیث کی تعلیمات پرعمل کریں یہ ہماری دنیا و
آخرت کے لئے فائدہ مند ہے۔
اللہ پاک اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے
ہمیں دینِ اسلام کے احکام پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں دھوکا دینے سے
محفوظ فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اے عاشقانِ
نماز! اللہ کریم کےہم پر بے شمار انعامات و اکرامات ہیں، انہی میں سے ایک عظیم
الشان نعمت باجماعت نماز ادا کرنا بھی ہے، اللہ پاک کے فضل و کرم سے باجماعت نماز
ادا کرنا بے شمار فوائد اور نیکیاں حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، جیسا کہ قرآن کریم
میں ارشادِ ربّ الانام ہے کہ:
وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ0(پ 1، البقرہ:43) ترجمہ
کنزالعرفان:رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔
یہاں رکوع
کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو اس سے مراد یہ ہے کہ جماعت سے نماز ادا کرو۔
اس کے علاوہ
بہت سی احادیث مبارکہ میں بھی نماز باجماعت کے کثیر فضائل و برکات بیان کیے گئے ہیں،
ان میں سے پانچ درج ذیل ہیں۔
1۔حضرت عبداللہ
بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا
پڑھنے سے 27 درجہ فضیلت رکھتا ہے۔(صراط الجنان، جلد اول: 114)
جماعت سے گر تو نمازیں پڑھے گا
خدا تیرا دامن کرم سے بھرے گا(فیضان نماز:141)
2۔حضرت ابو سعید
خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کی آخری نبی، محمد عربی ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے:جب بندہ باجماعت نماز
پڑھے، پھر اللہ پاک سے اپنی حاجت یعنی ضرورت کا سوال کرے تو اللہ پاک اس بات سے حیا
فرماتا ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے لوٹ جائے۔(فیضان نماز:141)
اے عاشقانِ
نماز!بے شک ہم اپنی حاجات پوری کرنے اور دیگر آزمائشوں اور مصیبتوں کو دور کرنے کے
لئے صلوۃ الحاجات ادا کرتے اور بہت سے اوراد و وظائف پڑھتے ہیں، بے شک یہ اچھی بات
ہے، مگر جماعت کے ساتھ فرض نماز ادا کرنے کے بعد اپنی حاجات کے لئے دعا کرنا بہترین
عمل ہے۔
3۔حضرت عثمان
غنی رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت حمران رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے کامل وضو کیا، پھر فرض
نماز کے لئے چلا اور امام کے ساتھ نماز پڑھی، اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔(صراط
الجنان، جلد اول: 114)
خدا سب نمازیں پڑھوں باجماعت
کرم ہو پئے تاجدارِ رسالت
4۔فرمان مصطفیٰ ﷺ:مرد
کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ، گھر میں اور بازار میں پڑھنے سے 25 درجے زائد ہے۔(فیضان
نماز:141)
5۔حضرت فاروق
اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:کہ اللہ عزوجل باجماعت
نماز پڑھنے والوں کو محبوب(پیارا)رکھتا ہے۔(فیضان نماز، صفحہ140)
بھائی مسجد میں جماعت سے نمازیں پڑھ سدا
ہوں گے راضی مصطفیٰ ہو جائے گا راضی خدا
اللہ کریم سب
مسلمانوں کو جماعت کے ساتھ نمازیں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین

نماز
باجماعت پر پانچ فرامینِ مصطفےٰ ﷺ :
1۔ جس نے سورج
کے طلوع و غروب ہونے (یعنی نکلنے اور ڈوبنے) سے پہلے نماز ادا کی (یعنی جس نے فجر و
عصر کی نماز پڑھی) وہ ہر گز جہنم میں داخل نہ ہوگا۔ (مسلم ، ص250 ، حدیث : 1436)
2۔ جو صبح کی نماز
پڑھتا ہے وہ شام تک اللہ پاک کے ذمے میں ہے۔ (معجم کبیر ، 12 / 240 ، حدیث13210) ایک
دوسری روایت میں ہے : تم اللہ پاک کا ذمہ نہ توڑو جو اللہ پاک کا ذمہ توڑے گا اللہ
پاک اسے اوندھا (یعنی الٹا) کرکے دوزخ میں ڈال دے گا۔ (مسندِ امام احمد بن حنبل ،
2 / 445 ، حدیث : 5905)
3۔ جمعہ کے دن
پڑھی جانے والی فجر کی نمازِ باجماعت سے افضل کوئی نماز نہیں ہے ، میرا گمان (یعنی
خیال) ہے تم میں سے جو اُس میں شریک ہوگا اُس کے گناہ مُعاف کر دیے جائیں گے۔ (معجم
کبیر ، 1 / 156 ، حدیث366)
4۔ جو نمازِ عشا
جماعت سے پڑھے گویا (یعنی جیسے) اُس نے آدھی رات قِیام کیا اور جو فجر جماعت سے پڑھے
گویا (یعنی جیسے) اس نے پوری رات قیام کیا۔ (مسلم ، ص258 ، حدیث : 1491)
5۔ تم میں رات
اور دن کے فرشتے باری باری آتے ہیں اور فجر و عصر کی نمازوں میں جمع ہوجاتے ہیں پھر
وہ فرشتے جنہوں نے تم میں رات گزاری ہے وہ چلے جاتے ہیں ، اللہ پاک باخبر ہونے کے باوجود
ان سے پوچھتا ہے : تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ وہ عرض کرتے ہیں : ہم نے
انہیں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔
(بخاری ، 1 / 203 ، حدیث : 555)
جماعت
کے ساتھ نماز نہ پڑھنے کی وعیدیں:
1۔ نبی کریمﷺ کا
ارشاد ہے کہ جو شخص اذان کی آواز سنے اور بلا کسی عذر کے نماز کو نہ جائے (وہیں پڑھ
لے) تو وہ نماز قبول نہیں ہوتی۔ حضرات صحابہ کرام نے عرض کیا کہ عذر سےکیا مرادہے؟
آپﷺ نےارشاد فرمایا: خوف یا مرض۔(ابوداؤد:551)
2۔ اِرشادِ نبوی
ہے: سراسر ظلم، کفر اور نفاق ہے اس شخص کا فعل جو اللہ تعالیٰ کےمنادی
(مؤذن) کی آواز سنے اور نماز کے لئےنہ جائے۔ (مسند احمد:15627)
3۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ: میرا دل چاہتا ہے کہ
میں چند نوجوانوں کو حکم دوں کہ وہ لکڑیاں جمع کرکے لائیں، پھر میں ان لوگوں کے پاس
جاؤں جو بلا عذر گھروں میں نماز پڑھ لیتے ہیں اور جاکر ان کے گھروں آگ لگادوں۔ (ابوداؤد:548)
4۔نبی کریمﷺ کا
اِرشاد ہے: جس گاؤں یا جنگل میں تین آدمی ہوں اور وہاں باجماعت نماز نہ ہوتی ہو تو
ان پر شیطان مسلط ہوجاتا ہے، اس لئے جماعت کو ضروری سمجھو کیونکہ بھیڑیا اکیلی بکری
کو کھاجاتا ہے۔ (نسائی:847)
5۔ حضرت مجاہد
فرماتےہیں: حضرت عبد اللہ بن عباس سے کسی نے پوچھا کہ ایک شخص دن بھر روزہ رکھتا ہے
اور رات بھر نفلیں پڑھتا ہے لیکن جمعہ اور جماعت میں شریک نہیں ہوتا اس کے بارے میں
کیاحکم ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ جہنمی ہے۔ (ترمذی:218)
رسول پاک صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا :جس کی نماز فوت ہوئی تو گویا
اس کے اہل و مال جاتے رہے۔ (بخاری جلد ٢ صفحہ ١٠٥،بہار شریعت جلد ١ صفحہ ٤٤١) ایک اور حدیث میں ہے :جس کی نماز ِعصر جاتی رہی
گویا اس کا گهر بار اور مال لٹ گیا ۔ (بخاری
جلد 1 صفحہ 202 حدیث 552 مراة المناجیح جلد 1 صفحہ 38)
فرمان مصطفى صلی الله علیہ و سلم :نماز دین کا ستون
ہے،جس نے نماز ترک کی اس نے دین کو گرا دیا۔(احیا ء العلوم جلد 1 صفحہ 201) اللہ تعالیٰ اپنے
محبوب ﷺ کے صدقے ہم سب کو باجماعت نماز پڑھنے
کی توفیق عطا فرمائے

باجماعت نماز کی
فضیلت بہت زیادہ ہے حتّٰی کہ اگر دو آدمی بھی
ہوں تو جماعت قائم کی جائے۔ ان میں ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی جیسا کہ حضرت ابوموسیٰ
اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا : إِثْنَانِ
فَمَا فَوْقَهُمَا جَمَاعَةٌ’’دو یا دو کے اوپر جماعت ہے۔‘‘ (ابن ماجہ،
السنن، کتاب إقامۃ الصلاة والسنۃ فيها، باب الاثنان جماعۃ، 1 : 522، رقم : 97 )
باجماعت نماز کی
فضیلت کے حوالے سے حضور نبی اکرم ﷺ کی چند احادیث درج ذیل ہیں :
1۔ صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلَاةَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ
وَعِشْرِيْنَ دَرَجَةً.’’باجماعت نماز ادا کرنا تنہا نماز ادا کرنے پر ستائیس
درجے فضیلت رکھتا ہے۔‘‘ (بخاری، الصحيح، کتاب الأذان،باب فضل صلاة الجماعۃ، 1 :
231، رقم : 619)
2 ۔ جب آدمی اچھی طرح وضو کر کے مسجد کی طرف جاتا
ہے اور اس طرح جاتا ہے کہ نماز کے سوا کوئی دوسری چیز اسے نہیں لے جاتی تو وہ جو قدم
بھی اٹھاتا ہے اس کے ذریعے اس کا ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے اور ایک گناہ (کا بوجھ)
ہلکا کیا جاتا ہے پھر جب وہ نماز پڑھتا ہے تو فرشتے اس پر اس وقت تک سلامتی بھیجتے
رہتے ہیں جب تک وہ باوضو رہتا ہے اور اس کے لیے یہ دعا کرتے ہیں : اے اﷲ! اس پر سلامتی
بھیج، اے اﷲ! اس پر رحم فرما۔ تم میں سے ہر ایک جب تک نماز کا انتظار کرتا ہے وہ نماز
ہی میں ہوتا ہے۔(بخاری، الصحيح، کتاب الجماعۃ والإمامۃ، باب فضل صلاة الجماعۃ، 1 :
232، رقم : 620)
3۔جو اﷲ کے لیے چالیس دن نماز باجماعت ادا کرے اور
تکبیر اولیٰ پائے
اس کے لیے دو آزادیاں لکھ دی جائیں گی ایک دوزخ سے دوسری نفاق سے۔( ترمذی، الجامع الصحیح،
ابواب الصلاة، باب فی فضل التکبیرة الاولیٰ ، 1 : 281، رقم : 241)
4۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں
: جس کو یہ پسند ہو کہ وہ حالت اسلام میں کل (قیامت کے دن) اﷲ تعالیٰ سے
کامل مومن کی حیثیت سے ملاقات کرے، اسے چاہئے کہ جس جگہ اذان دی جاتی ہے وہاں ان نمازوں
کی حفاظت کرے (یعنی وہ نمازِ پنجگانہ باجماعت ادا کرے)۔ پھر حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی
اﷲ عنہما نے فرمایا :اگر تم منافقوں کی طرح بلاعذر مسجدوں کو چھوڑ کر اپنے گھروں میں
نماز پڑھنے لگو گے تو اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ بیٹھو گے اور اگر اپنے نبی کی سنت کو
چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔‘‘ مسلم، الصحيح، کتاب المساجد و مواضع الصلاة، باب
صلاة الجماعۃ من سنن الهدی، 1 : 452، رقم : 654 5
5۔حضرت ابو ہریرہ
رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہاری ایسی چیز کی طرف رہنمائی نہ کر دوں
کہ اللہ اس کے ذریعے گناہوں کو مٹا دے اور درجات کو بلند کردے۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں
یا رسول اللہ ﷺ! فرمایا مشقّت کے باوجود مکمل وضو کرنا اور ایک نماز کےبعد دوسری کا
انتظار کرنا اور مسجد کے دور ہونے کے باوجود مسجد میں ہی نماز پڑھنا۔ پس یہ تمہارے
لیے نفس کو اللہ کی عبادت پر مجبور کرنا ہے۔ (اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے)

باجماعت نماز کی
فضیلت بہت زیادہ ہے حتّٰی کہ اگر دو آدمی بھی
ہوں تو جماعت قائم کی جائے۔ ان میں ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی جیسا کہ حضرت ابوموسیٰ
اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا : إِثْنَانِ فَمَا فَوْقَهُمَا
جَمَاعَةٌ.
’’دو یا دو کے اوپر جماعت ہے‘‘ (ابن ماجہ، السنن، کتاب إقامۃ الصلاة والسنۃ فيها، باب
الاثنان جماعۃ، 1 : 522، رقم : 972)
باجماعت نماز کی فضیلت کے حوالے سے حضور نبی اکرم
ﷺ کی چند احادیث درج ذیل ہیں :
1۔ صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلَاةَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ
وَعِشْرِيْنَ دَرَجَةً. بخاری، الصحيح،
کتاب الأذان، باب فضل صلاة الجماعة، 1 : 231، رقم : 619 ’’باجماعت نماز ادا کرنا تنہا نماز ادا کرنے پر
ستائیس درجے فضیلت رکھتا ہے۔‘‘
2۔ جب آدمی اچھی طرح وضو کر کے مسجد کی طرف جاتا
ہے اور اس طرح جاتا ہے کہ نماز کے سوا کوئی دوسری چیز اسے نہیں لے جاتی تو وہ جو قدم
بھی اٹھاتا ہے اس کے ذریعے اس کا ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے اور ایک گناہ (کا بوجھ)
ہلکا کیا جاتا ہے پھر جب وہ نماز پڑھتا ہے تو فرشتے اس پر اس وقت تک سلامتی بھیجتے
رہتے ہیں جب تک وہ باوضو رہتا ہے اور اس کے لیے یہ دعا کرتے ہیں : اے اﷲ! اس پر سلامتی
بھیج، اے اﷲ! اس پر رحم فرما۔ تم میں سے ہر ایک جب تک نماز کا انتظار کرتا ہے وہ نماز
ہی میں ہوتا ہے۔( بخاری، الصحيح، کتاب الجماعۃ
والإمامۃ، باب فضل صلاة الجماعۃ، 1 : 232، رقم : 6203)۔
3۔ جو اﷲ کے لیے
چالیس دن نماز باجماعت ادا کرے اور تکبیر اولیٰ پائے
اس کے لیے دو آزادیاں لکھ دی جائیں گی ایک دوزخ سے دوسری نفاق سے۔( ترمذی، الجامع الصحيح، ابواب الصلاة، باب فی فضل
التکبيرة الاولیٰ ، 1 : 281، رقم :
241 4)
4۔ جس کو یہ پسند
ہو کہ وہ حالت اسلام میں کل (قیامت کے دن) اﷲ تعالیٰ سے
کامل مومن کی حیثیت سے ملاقات کرے، اسے چاہئے کہ جس جگہ اذان دی جاتی ہے وہاں ان نمازوں
کی حفاظت کرے (یعنی وہ نمازِ پنجگانہ باجماعت ادا کرے)۔ پھر حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما نے فرمایا
: اگر تم منافقوں کی طرح بلاعذر مسجدوں کو
چھوڑ کر اپنے گھروں میں نماز پڑھنے لگو گے تو اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ بیٹھو گے اور
اگر اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔مسلم

اللہ
پاک کے فضل و کرم سے ہمیں جو بےشمار اِنعامات عطا ہوئے ہیں، اِنہیں انعامات میں سے
نماز بھی بِلاشبہ ایک عظیم الشّان اِنعام ہے۔ اس میں اللہ پاک نے ہمارے لئے دونوں
جہاں کی بھلائیاں رکھ دی ہیں۔ اسی طرح نمازِ باجماعت کی دولت بھی کوئی معمولی
اِنعام نہیں، یہ بھی ہمارے لئے بے شُمار نیکیاں حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
باجماعت
نماز پڑھنے والا کتنا خوش نصیب ہے کہ اسے پچیس یا ستائیس گنازیادہ ثواب ملتا ہے۔
کسی دنیاوی غرض کے بغیر صرف نماز کی نیت سے مسجد کی طرف چلنے میں ہر قدم پر درجات
کی بلندی اور گناہوں کی مغفرت جیسے عظیم انعامات ملتے ہیں، پھر جب تک نماز کے انتظار
میں بیٹھا رہے، نماز ہی کا ثواب ملتا ہے اور معصوم فرشتے اس کے لئے دعائے مغفرت
کرتے ہیں۔ اگر ہمیں یہ معلوم ہوجائے کہ ہمارے پاس جو مال ہے وہ اپنے شہر میں ایک روپے
کا بِکے گا اور اگراسے سُمندر پار جا کر فروخت کریں تو 25یا27 روپے میں بِکے گا،
تو شاید ہر شخص سمندر پار جا کر ہی اپنا مال فروخت کرے، کیونکہ25یا27 گنانفع
چھوڑنا کوئی بھی گوارا نہیں کرے گا۔ مگر کس قدر حیرت کی بات ہے کہ گھر سے صِرف چند
قدم چل کر مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے میں ایک نماز پر ستائیس نماز کا ثواب ملتا
ہے، مگر پھر بھی بہت سے لوگ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے بجائے بِلاعذر گھروں میں
نماز پڑھ لیتے ہیں۔ ایسا بالکل نہیں ہونا چاہئے بلکہ حکمِ الٰہی کی اطاعت کرتے
ہوئے مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنی چاہیے۔
باجماعت
نماز کی فضیلت اور بلاعذرِ شرعی ترکِ جماعت کی وعید کا درج ذیل احادیث مبارکہ سے
بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
1_جماعت
کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ (بخاری،کتاب
الاذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ،1 / 232، الحدیث:
645)
2_ایک
دن صبح کی نماز پڑھ کر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: فلاں حاضر ہے؟ لوگوں نے عرض کی، نہیں، فرمایا: فلاں حاضر ہے؟
لوگوں نے عرض کی، نہیں، فرمایا:یہ دونوں
نمازیں منافقین پر بہت گراں ہیں، اگر جانتے
کہ ان میں کیا (ثواب) ہے تو گھٹنوں کے بل گِھسٹتے آتے اور بے شک پہلی صف
فرشتوں کی صف کے مثل ہے اور اگر تم جانتے
کہ اس کی فضیلت کیا ہے تو اس کی طرف سبقت کرتے مرد کی ایک مرد کے ساتھ نماز بہ
نسبت تنہا کے زیادہ پاکیزہ ہے اور دو کے ساتھ بہ نسبت ایک کے زیادہ اچھی اور جتنے
زیادہ ہوں، ﷲ پاک کے نزدیک زیادہ محبوب ہیں۔ (سنن أبي داود، کتاب الصلاۃ، باب في
فضل صلاۃ الجماعۃ، الحدیث : 554 ، ج 1 ، ص 230)
3_جو
40 دن اس طرح باجماعت نماز ادا کرے کہ اس کی تکبیرِ اولیٰ فوت نہ ہو تو اللہ کریم اس کیلئے دو براءَ تیں
لکھ دیتا ہے، ایک آگ سے اور دوسری نفاق سے۔ (شعب الايمان للبيہقی، باب فی
الصلوات، فصل فی الجماعۃ، الحديث:2882، ج 3،
ص 61)
4_مرد
کی باجماعت نماز کا ثواب اس کی گھر یا بازار میں پڑھی جانے والی نماز کے مقابلے میں
بیس اور اس سے کچھ زیادہ درجے ہے اور یہ اس لئے ہے کہ جب ان میں سے کوئی اچھی طرح
وضو کرکے صرف نماز ہی کی نِیَّت سے مسجد کی طرف چلتا ہے اور نماز کے علاوہ اس
کاکوئی اور مقصد نہیں ہوتا تو مسجد میں پہنچنے تک ہر ہر قدم کے بدلے اس کا درجہ
بلند ہوتا ہے اور ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے۔ مسجدمیں داخل ہونے کے بعد جب تک وہ نماز
کے انتظار میں رہتا ہے، نماز ہی میں شمار ہوتا ہے اور جب تم میں سے کوئی شخص نماز
کی جگہ بیٹھا رہتا ہے توجب تک کسی کو تکلیف نہ دے یا بےوضو نہ ہو تو فرشتے اس کے
لئے رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں: یااللہ! اِس پر رحم فرما، یااللہ!
اِسے بخش دے، یَااللہ! اِس کی توبہ قبول فرما۔ (مسلم، کتاب الصلاۃ، باب فضل صلوۃ
الجماعۃ وانتظار الصلاۃ، ص 333، حدیث:649)
5_منافقین
پر سب نَمازوں سے بھاری فجر اور عشاء کی نَماز ہے، اگر جان لیتے کہ اِن دونوں
نَماز وں میں کیا ہے تو ضرور حاضرہوتے اگرچہ گھسٹتے ہوئے آتےاور بیشک میں نے
اِرادہ کیا کہ میں نَماز قائم کرنے کاحکم دوں اور کسی شخص کو نَماز پڑھانے پر مقرر
کروں، پھر کچھ لوگو ں کو اپنے ساتھ چلنے کےلئے کہوں جو لکڑیاں اٹھائے ہوئے ہوں،
پھر اُن لوگوں کی طرف جاؤں جو نَماز میں حاضر نہیں ہوتے اور اُن کے گھروں کو آگ سے
جلا دوں۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب فضل العشاء فی الجماعۃ، 1 / 235،
حدیث: 657)
اللہ
پاک مسلمانوں کو پانچویں نمازیں باجماعت ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ
خاتم النبیین ﷺ