موضوع باجماعت نماز کے فضائل وَ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ0 (پ 1،البقرۃ:43) ترجمۂ کنز العرفان اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔

جماعت سے متعلق پانچ احادیث:

1۔ جو الله کے لئے چالیس دن باجماعت نماز پڑھے اور تکبیر اولیٰ پائے اس کے لئے دو( ٢)آزادیاں دی جاتی ہیں ۔ایک نار (جہنم) سے اور دوسری نفاق سے۔ (مومن کی نمازص 193)

2۔ جس نے باجماعت عشاء کی نماز پڑھی گویا اس نے آدھی رات عبادت کی اور جس نے فجر کی نماز جماعت سے پڑھی گویا اس نے پوری رات عبادت کی۔ (مومن کی نماز ص193)

3۔ الله پاک باجماعت نماز پڑھنے والے کو محبوب یعنی پیارا رکھتا ہے(مسند احمدبن حنبل جلد 2 ص 309 حدیث 5112)(فیضان نماز ص 140)

4۔ مرد کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ گھر میں اور بازار میں پچیس 25درجے زائد ہے(بخاری جلد 1 ص 233 حدیث 647)

5۔ نماز تنہا پڑھنے سے ستائس (27)درجے بڑھ کر ہے۔(بخاری جلد 1 232 حدیث 645)

باجماعت نماز کی اہمیت : علامہ سید محمود احمد رضوی فرماتے ہیں ہر عاقل بالغ ہر (یعنی آزاد) اور قادر (یعنی جو قدرت رکھتاہو) ہر مسلمان (مرد) پر جماعت سے نماز پڑھنا واجب ہے اور بلا عذر (یعنی بغیر کسی مجبوری کے )ایک بار بھی جماعت چھوڑنے والا گناہ گار ہے اور کئی بار ترک فسق ہے بلکہ ایک جماعت علما جن میں (امام) احمد بن حنبل بھی شامل ہیں وہ جماعت کو فرض عین قرار دیتے ہیں اگر فرض عین نہ مانا جائے تو اس کے واجب ہونے میں ضروری ہونے میں تو شبہ ہی نہیں حضورﷺ کا عمو می عمل یہ ہی تھا کے آپ فرض نمازیں باجماعت ادا فرماتے اِلّا (یعنی مگر)یہ کہ کوئی مجبوری پیش آجاتی (فیوض الباری جلد 3 ص 297 بتغیر قلیل) (فیضان نماز140)

باجماعت نماز کی فضیلت بہت زیادہ ہے حتّٰی کہ اگر دو آدمی بھی ہوں تو جماعت قائم کی جائے۔ ان میں ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی جیسا کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم نے ارشاد فرمایا : إِثْنَانِ فَمَا فَوْقَهُمَا جَمَاعَةٌ ’’دو یا دو کے اوپر جماعت ہے۔‘‘ (ابن ماجہ، السنن، کتاب إقامۃ الصلاة والسنۃ فيها، باب الاثنان جماعۃ، 1 : 522، رقم : 972)

باجماعت نماز کی فضیلت کے حوالے سے حضور نبی اکرم کی چند احادیث درج ذیل ہیں :

صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلَاةَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِيْنَ دَرَجَةً باجماعت نماز ادا کرنا تنہا نماز ادا کرنے پر ستائیس درجے فضیلت رکھتا ہے۔(بخاری، الصحيح، کتاب الأذان، باب فضل صلاة الجماعۃ، 1 : 231، رقم : 619)

2۔ جب آدمی اچھی طرح وضو کر کے مسجد کی طرف جاتا ہے اور اس طرح جاتا ہے کہ نماز کے سوا کوئی دوسری چیز اسے نہیں لے جاتی تو وہ جو قدم بھی اٹھاتا ہے اس کے ذریعے اس کا ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے اور ایک گناہ (کا بوجھ) ہلکا کیا جاتا ہے پھر جب وہ نماز پڑھتا ہے تو فرشتے اس پر اس وقت تک سلامتی بھیجتے رہتے ہیں جب تک وہ باوضو رہتا ہے اور اس کے لیے یہ دعا کرتے ہیں : اے اﷲ! اس پر سلامتی بھیج، اے اﷲ! اس پر رحم فرما۔ تم میں سے ہر ایک جب تک نماز کا انتظار کرتا ہے وہ نماز ہی میں ہوتا ہے۔(بخاری، الصحيح، کتاب الجماعۃ والإمامۃ، باب فضل صلاة الجماعۃ، 1 : 232، رقم : 620 3)

3۔ جو اﷲ کے لیے چالیس دن نماز باجماعت ادا کرے اور تکبیر اولیٰ پائے اس کے لیے دو آزادیاں لکھ دی جائیں گی ایک دوزخ سے دوسری نفاق سے۔(ترمذی، الجامع الصحيح، ابواب الصلاة، باب في فضل التکبيرة الاولیٰ، 1 : 281، رقم : 241 4)

4۔ جس کو یہ پسند ہو کہ وہ حالت اسلام میں کل (قیامت کے دن) اﷲ تعالیٰ سے کامل مومن کی حیثیت سے ملاقات کرے، اسے چاہئے کہ جس جگہ اذان دی جاتی ہے وہاں ان نمازوں کی حفاظت کرے (یعنی وہ نمازِ پنجگانہ باجماعت ادا کرے)۔‘‘ پھر حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : ’’اگر تم منافقوں کی طرح بلاعذر مسجدوں کو چھوڑ کر اپنے گھروں میں نماز پڑھنے لگو گے تو اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ بیٹھو گے اور اگر اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔( مسلم، الصحيح، کتاب المساجد و مواضع الصلاة، باب صلاة الجماعۃ من سنن الهدی، 1 : 452، رقم : 654 )

جان بوجھ کر نماز باجماعت ادا نہ کرنے والے کے بارے میں کیا وعید ہے؟ بغیر عذر شرعی باجماعت نماز نہ پڑھنے کو منافقت کی نشانی قرار دیا گیا ہے اور ایسے لوگوں کے لیے سخت وعید ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه : أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَيُحْطَبَ، ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلَاةِ فَيُؤَذَّنَ لَهَا، ثُمَّ آمُرَ رَجُلاً فَيَؤُمَّ النَّاسَ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَی رِجَالٍ فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوْتَهُمْ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَو يَعْلَمُ أَحَدُهُمْ : أَنَّهُ يَجِدُ عَرْقًا سَمِيْنًا، أَوْ مِرْمَاتَيْنِ حَسَنَتَيْنِ، لَشَهِدَ الْعِشَاءَ. ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! میں نے ارادہ کیا کہ لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں تو وہ اکٹھی کی جائیں، پھر نماز کا حکم دوں تو اس کے لیے اذان کہی جائے۔ پھر ایک آدمی کو حکم دوں کہ لوگوں کی امامت کرے پھر ایسے لوگوں کی طرف نکل جاؤں (جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے) اور ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اگر ان میں سے کوئی جانتا کہ اسے موٹی ہڈی یا دو عمدہ کھریاں ملیں گی تو ضرور نماز عشاء میں شامل ہوتا۔‘‘(بخاری، الصحيح، کتاب الجماعة والإمامۃ، باب وجوب صلاة الجماعۃ، 1 : 231، رقم : 618 ) واللہ اعلم ورسولہ اعلم