پچھلے دنوں رابطہ برائے وکلاء کے زیرِ اہتمام سول کورٹ حیدرآباد میں اجتماعِ میلاد کا انعقاد کیاگیا جس میں کثیر تعداد میں وکلا حضرات نے شرکت کی۔

مبلغِ دعوتِ اسلامی نے سنتوں بھرا بیان کرتے ہوئےوکلاکو دعوتِ اسلامی کی دینی وفلاحی سرگرمیوں کے بارے میں بریفنگ دی جس پر انہوں نے دعوتِ اسلامی کی دینی وفلاحی خدمات کو سراہا۔(رپورٹ: عبد الواحد عطاری شعبہ رابطہ برائے وکلاء،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


دعوتِ اسلامی کےتحت 19اکتوبر2021ءبروزمنگل بھکر کابینہ کے شہر کلورکوٹ میں جشنِ عیدِ میلادالنبیﷺکےموقع پر ذمہ دارانِ دعوتِ اسلامی نے عاشقانِ رسول کےہمراہ جلوسِ میلاد کاانعقاد کیاجس کاآغاز دربار مالی شاہ سے ہوا۔

یہ جلوسِ میلاد شہر کے اہم شاہراہوں سے گزرتاہوا مدنی مرکزفیضانِ مدینہ کلورکوٹ میں پہنچا ،اس دوران کثیر عاشقان رسولﷺ نے شرکت کی سعادت حاصل کی جن میں کئی دینی،سماجی اور سیاسی شخصیات بھی شریک تھیں۔

واضح رہےپنجاب پولیس کے اہلکار وں نے جلوسِ میلاد کو مکمل سیکورٹی فراہم کرتے ہوئے اسے اختتام تک پہنچایا۔(رپورٹ: حمزہ علی عطاری، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، فرماتی ہیں :میں نےنبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو پورا ہنستے نہ دیکھا، حتی کہ میں آپ کے انتہائی تالو کو دیکھ لیتی، آپ مسکرایا کرتے تھے۔(بخاری شریف، مراۃ المناجیح)

حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنستے کبھی نہ تھے، مسکراتے بہت تھے، حضرت جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب سے مسلمان ہوا، مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پردہ نہ کیا اور مجھے نہ دیکھا، مگر تبسم فرمایا یعنی جس موقع پر اجازت لے کر حاضر ہونا ہوتا، مجھے بغیر اجازت حاصل کئے حاضری کی اجازت تھی اور آپ مجھے دیکھا کرتے تو تبسم فرماتے۔آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا یہ دیکھنااظہارِ خوشی یا اظہارِ کرم کے لئے ہوتا تھا۔

حضرت عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے حضور پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔(شمائل ترمذی:218)

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں اس شخص کو بخوبی جانتا ہوں،جو سب سے پہلے جنت میں داخل ہو گا اور اس شخص کو بھی جو سب سے آخر میں جہنم سے نکالا جائے گا۔ قیامت کے دن ایک شخص کو دربارِ الٰہی میں پیش کیا جائے گا کہ اس کے چھوٹے گناہ اس کے سامنے رکھ دو اور اس کے بڑے گناہ اس سے مخفی رکھو۔ پھر کہا جائے گا: فلاں دن تو نے یہ کیا تھا؟فلاں دن تو نے یہ کیا تھا؟ وہ اقرار کرے گا،انکار نہ کر سکے گا اور اپنے بڑے گناہوں پر خوفزدہ ہو گا! پس کہا جائے گا :اسے ہر گناہ کے بدلے میں ایک نیکی دی جائے تو وہ بول اٹھے گا: میرے تو اور بھی بہت گناہ ہیں، جو میں نے یہاں نہیں دیکھے، جناب ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: پس قسم ہے میں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھا کہ آپ ہنسے، یہاں تک کہ اگلے دانت نظر آئے۔(شمائل ترمذی، حدیث 221)یعنی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ہنسنا، آپ کا مسکرانا تعجب کی وجہ سے تھا، جب اس شخص نے صغائر کو نیکیوں میں تبدیل ہوتے دیکھا تو اس کے اندر نیکیوں کی حرص و طمع پیدا ہوئی تو بول اٹھا: میرے بڑے گناہوں کی وجہ سے بھی مجھے نیکیاں دی جائیں۔

تبسم میں ہزار حکمتیں ہیں، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ہر ادا میں ربّ کریم کی حکمتیں ہوتی ہیں۔


پچھلے دنوں دعوتِ اسلامی کے شعبہ رابطہ برائے تاجران کےتحت کراچی ریجن کے ذمہ دارحمزہ علی عطاری نے دیگر اسلامی بھائیوں کے ہمراہ جشنِ عیدِ میلادالنبیﷺ کے موقع پر جلوسِ میلاد میں شرکت کی۔

اس موقع پر مولانا منور عطاری قادری،مولاناکاشف عطاری مدنی،مولانارفیق عطاری(امام فیضانِ عطار مسجد)، ناظمِ جامعۃالمدینہ حافظ جواد عطاری مدنی ،مولاناریاض عطاری قادری(امام خطیب انوارمدینہ مسجد)، حافظ مجاہد عطاری (امام فیضان مصطفٰی مسجد)، ارم مسجد کی کمیٹی کے صدر ، جنرل سیکرٹری، مریم مسجد کی کمیٹی کے اراکين سمیت ڈیفنس ویو اور جونیجوٹاؤن  کراچی کےعاشقانِ رسول شریک تھے۔(رپورٹ: حمزہ علی عطاری، کانٹینٹ: غیاث الدین عطاری)

میرے پیارے پیارے  آقا، سید الانبیاء، خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی حیاتِ مبارکہ ہمارے لئے کامل نمونہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ کے نبی بھی تھے اور بشریت کے تقاضوں کے باعث خوشی اور غمی ہر طرح کے جذبات سے مزین بھی تھے۔ کیونکہ غم پر غمگین ہونا اور خوشی پر مسرور ہونا ، انسانی فطرت کا خاصہ ہے ، لہٰذا بار ہاایسے مواقع آئے جب میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرائے اور اسی بنا پر مسکرانا میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنتِ مبارکہ قرار پائی۔توجہ رہے !مسکرانا سنت ہے ، قہقہہ سنت نہیں ۔

حدیثِ مبارکہ ہے:اَلْقَہْقَہَۃُ مِنَ الشَّیْطَانِ وَالتَّبَسُّمُ مِنَ اللہ یعنی قہقہہ شیطان کی طرف سے ہے اور مُسکرانا اللہ پاك کی طرف سے ہے۔(جامع صغیر، حرف القاف ، ص386، حدیث: 6196 )صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے:میں نے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو کبھی کھلکھلا کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ جس سے آپ کے حلق کا حصہ نظر آجائے ۔آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرایا کرتے تھے۔

آج ہم آقا کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے متبسّم ہونے سے متعلق واقعات سے مشرف ہوں گی۔قربان جائیں! اپنے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی مسکراہٹ اور ان کی غیرت پر یوں ہی ایک مرتبہ غزوۂ خندق کے موقع پر اتنا مسکرائے کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک داڑھیں دکھائی دینے لگیں۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک کافر کے پاس ڈھال تھی ۔جبکہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بہت زبردست تیر انداز تھے۔کافر بار بار ڈھال سے اپنی پیشانی کو بچا لیتا تھا مگر جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اپنا تیر اس کافر پر یوں داغا کہ جیسے ہی کافر نے ڈھال سے اپنا سر اوپر کیا ،ویسے ہی تیر اس کی پیشانی پر لگا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔یہ منظر دیکھ کر کر نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اتنا مسکرائے کہ داڑھیں مبارک دکھائی دینے لگیں۔( شمائل ترمذی)

غزوۂ بدر میں حضور علیہ الصلاۃ و السلام اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک سائبان میں قیام فرمایا ۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رات کو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اونگھ آگئی ۔جب آنکھ مبارک کھلی تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے ہوئے باہر تشریف لائے اور یہ آیت تلاوت فرما رہے تھے:سَیُہۡزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوۡنَ الدُّبُرَ ﴿۴۵ (سورة القمر، تفسير ابن كثير)یہ تو کفار کی شکست پر مسکرانا تھا۔ ایک بار پھر کچھ یوں ہوا کہ حضور علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمانِ عالیشان ہے:میں نماز پڑھ رہا تھا اور جبرائیل علیہ السلام میرے پاس سے گزرے، وہ میری طرف دیکھ کر ہنسے تو میں بھی ان کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا۔(راوی عبداللہ بن ریاب،اسد الغابہ ابن اثیر)

سبحن اللہ! میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ذاتِ پاک ایسی تھی کہ فرشتوں کے سردار بھی آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی فرماتے تھے ۔یوں ہی ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے ہوئے باہر تشریف لائے اور فرمایا: ہرگز ایک عسر (مشکل) دو یسروں ( آسانیوں) پر غالب نہیں آسکتی، کیونکہ ارشاد ِباری ہے:فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ۙ﴿۵﴾اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ؕ﴿۶ (سورهٔ انشرح تفسیر ابن جریر طبری)


پچھلے دنوں دعوتِ اسلامی کے شعبہ رابطہ برائے وکلاءکے زیرِ اہتمام ڈسٹرکٹ بار ملتان میں سنتوں بھرے اجتماع کا انعقاد ہوا جس میں کم وبیش  400 وکلا نےشرکت کی۔

اس موقع پر زون ذمہ دار نے سنتوں بھرابیان کرتے ہوئے دعوتِ اسلامی کی دینی وفلاحی خدمات کوبیان کیاجس پر انہوں نے دعوتِ اسلامی کی کاوشوں کو سراہا۔(رپورٹ: عبد الواحد عطاری شعبہ رابطہ برائے وکلاء،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، فرماتی ہیں :میں نےنبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو پورا ہنستے نہ دیکھا، حتی کہ میں آپ کے انتہائی تالو کو دیکھ لیتی، آپ مسکرایا کرتے تھے۔(بخاری شریف، مراۃ المناجیح)

حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے بہت تھے، حضرت جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب سے مسلمان ہوا، مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پردہ نہ کیا اور مجھے نہ دیکھا، مگر تبسم فرمایا یعنی جس موقع پر اجازت لے کر حاضر ہونا ہوتا، مجھے بغیر اجازت حاصل کئے حاضری کی اجازت تھی اور آپ مجھے دیکھا کرتے تو تبسم فرماتے۔آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا یہ دیکھنااظہارِ خوشی یا اظہارِ کرم کے لئے ہوتا تھا۔

حضرت عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے حضور پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔(شمائل ترمذی:218)

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں اس شخص کو بخوبی جانتا ہوں،جو سب سے پہلے جنت میں داخل ہو گا اور اس شخص کو بھی جو سب سے آخر میں جہنم سے نکالا جائے گا۔ قیامت کے دن ایک شخص کو دربارِ الٰہی میں پیش کیا جائے گا کہ اس کے چھوٹے گناہ اس کے سامنے رکھ دو اور اس کے بڑے گناہ اس سے مخفی رکھو۔ پھر کہا جائے گا: فلاں دن تو نے یہ کیا تھا؟فلاں دن تو نے یہ کیا تھا؟ وہ اقرار کرے گا،انکار نہ کر سکے گا اور اپنے بڑے گناہوں پر خوفزدہ ہو گا! پس کہا جائے گا :اسے ہر گناہ کے بدلے میں ایک نیکی دی جائے تو وہ بول اٹھے گا: میرے تو اور بھی بہت گناہ ہیں، جو میں نے یہاں نہیں دیکھے، جناب ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: پس قسم ہے میں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھا کہ آپ ہنسے، یہاں تک کہ اگلے دانت نظر آئے۔(شمائل ترمذی، حدیث 221)یعنی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ہنسنا، آپ کا مسکرانا تعجب کی وجہ سے تھا، جب اس شخص نے صغائر کو نیکیوں میں تبدیل ہوتے دیکھا تو اس کے اندر نیکیوں کی حرص و طمع پیدا ہوئی تو بول اٹھا: میرے بڑے گناہوں کی وجہ سے بھی مجھے نیکیاں دی جائیں۔تبسم میں ہزار حکمتیں ہیں، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ہر ادا میں ربّ کریم کی حکمتیں ہوتی ہیں۔


دعوتِ اسلامی کے شعبہ حج وعمرہ کے زیرِ اہتمام 20اکتوبر2021ءبروزبدھ حج ڈائریکٹر لاہور حاجی کیمپ زاہد محمود کی اہلیہ کےایصالِ ثواب کے لئے سنتوں بھرے اجتماع کاانعقاد ہواجس میں کثیر تعداد میں افسران نے شرکت کی جن میں سیشن جج فیصل آباد تنویر اکبر ، سینئر سول جج احسن محمود، سپریڈنٹ سیشن کوٹ زاہد شفیع اور ایڈیشنل رجسٹرارلاہور ہائی کورٹ شاہد شفیع شامل تھے۔

نگران ِشعبہ قاری محمد شوکت عطاری نے سنتوں بھرا بیان کرتے ہوئے ایصالِ ثواب کےفوائد بیان کئے۔اس دوران نگرانِ شعبہ نے دعوتِ اسلامی کی دینی وفلاحی خدمت کے حوالے سے بریفنگ دی جس پر ڈائریکٹر جج نے پاکستان بھر کے حاجی کیمپس میں شعبہ حج و عمرہ (دعوتِ اسلامی)کی خدمات کو سراہا۔بعدازاں نگرانِ شعبہ نے دعا بھی کروائی۔ (رپورٹ: رکن زون عبدالرزاق عطاری ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محفل اگرچہ سنجیدگی سے بھرپور ہوتی تھی اور اپنے علم کا سمندر لئے ہوتی تھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنی خوشی طبعی کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مقبول تھے اور ایک بے تکلف دوست کی طرح ان کے ساتھ تعلقات رکھے ہوئے تھے، اسی مناسبت سے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے کے5 واقعات ملاحظہ کیجئے:

1۔ ترمذی کی روایت ہے:حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں ایک بوڑھی عورت حاضر ہوئی اور عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! میرے لئےدعاکیجئےکہ اللہ پاک مجھے جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے! حضور کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا: بوڑھی عورتیں جنت میں داخل نہ ہوں گی! تو اس بوڑھی عورت نے حضور کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بات سنی تو روتی ہوئی چل دی، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اس بوڑھی عورت کو خبر دو کہ جنت میں بوڑھی ہو کر نہیں جائے گی،بلکہ اللہ پاک نے فرمایا ہے:اِنَّاۤ اَنۡشَاۡنٰہُنَّ اِنۡشَآءً﴿ۙ۳۵﴾فَجَعَلْنٰہُنَّ اَبْکَارًا﴿ۙ۳۶۔ ترجمہ:ہم نے ان عورتوں کو خاص بنایا ہے،ہم نے ان کو ایسا بنایا،جیسی کنواریاں۔(کتاب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹیں، ص80)

2۔9 ہجری میں جب غزوۂ تبوک کے موقع پر حضور کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اپیل کی کہ وہ حسبِ توفیق جنگ میں شمولیت کے لئے مال ومتاع پیش کریں،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تیں سو اونٹ،سو گھوڑے اور سو اوقیہ چاندی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں پیش کئے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے گھر کا آدھا سامان لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے،حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے چالیس ہزار درہم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں پیش کئے اور جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی باری آئی تو آپ نے اپنے گھر کا تمام سامان پیش کر دیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مسکراتے ہوئے پوچھا : ابوبکر! گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم گھر والوں کے لئے اللہ اور اس کا رسول ہی کافی ہے۔(کتاب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹیں، ص 68)

3: حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب حضور کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یمن بھیجا تو آپ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک نہایت مشکل مقدمہ آیا، جس میں ایک ایسی عورت پیش ہوئی،جس نے ایک ماہ کے اندر تین مردوں کے ساتھ خلوت کی تھی اور اب اس کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی تھی، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس بچے کی دیت کے تین حصے کئے اور پھر قرعہ ڈالا، وہ قرعہ جس شخص کے نام نکلا، آپ رضی اللہ عنہ نے وہ بچہ اس شخص کے حوالے کر دیا،جبکہ باقی دونوں اشخاص کو دیت کےتین حصّوں کے دو حصّے کر کے دے دیئے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے کی خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرادیئے۔(کتاب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹیں، ص 77)

4:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس ایک دیہاتی صحابی حضرت زاہر رضی اللہ عنہ جب بھی آتے تو ہدیہ لے کر آتے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بھی واپسی پر ان کو کچھ نہ کچھ عنایت ضرور کرتے تھے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرمایا کرتے تھے:زاہر رضی اللہ عنہ ہمارا دیہاتی ہے اور ہم اس کے شہری ہیں، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم انہیں بے حد عزیز رکھتے تھے۔حضرت زاہر رضی اللہ عنہ بظاہر خوبصورت نہ تھے۔ایک دن وہ بازار میں اپنا کچھ سامان فروخت کر رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پیچھے سے جا کرانھیں گود میں اُٹھا لیا،وہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو نہ دیکھ سکے اور کہنے لگے:کون ہے؟مجھے چھوڑو! پھر جب انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سینۂ مبارک سے چمٹ گئے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اعلان کرنا شروع کیا کہ کون ہے جو اس غلام کوخریدے گا؟ حضرت زاہر رضی اللہ عنہ نے عرض کی :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !آپ کو میرے بدلے کچھ نہیں ملے گا! حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مسکرا کر فرمایا:اللہ پاک کے نزدیک تیری بڑی قیمت ہے۔(کتاب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹیں، ص85)

5۔حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں غزوۂ تبوک کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ایک چھوٹے سے قبے میں موجود تھے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو سلام کیا اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے میرے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: اندر آ جاؤ، میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !سارا ہی اندر آ جاؤں؟آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا: تم سارے ہی اندر آ جاؤ، پس میں اندر چلا گیا۔

حضرت ولید بن عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضرت عوف رضی اللہ عنہ نے اس لئے کہا تھا کہ میں سارا ہی اندر آ جاؤں، کیونکہ قبہ چھوٹا تھا۔(حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹیں، ص 91)


پچھلے دنوں دعوتِ اسلامی کے اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ کے تحت مدنی مرکز فیضانِ مدینہ ملتان میں 12دن کےاشاروں کی زبان کا کورس ہوا۔

اس دوران مبلغِ دعوتِ اسلامی نے شرکائے کورس کو اشاروں کی زبان میں نعت شریف،سنتوں بھرے بیان، ذکرو دعا اور صلوۃ وسلام سمیت دیگر چیزیں سکھائیں۔

اس کے علاوہ شرکا کو دعوتِ اسلامی کے12دینی کاموں میں شمولیت اختیار کرنے کا ذہن دیاگیاجس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتوں کااظہار بھی کیا۔ (رپورٹ: محمد بدر عطاری اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


رسالہ  عشقِ رسول مع اُمّتی پر حقوقِ مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم، ، مصنف مفتی محمد قاسم،ص29 پر ہے:حضور علیہ السلام تبسم کے وقت اولوں کی طرح دکھائی دیتے اور ان سے نکلنے والے نور سے دیواریں روشن ہوجاتیں اور تبسم فرماتے تو دل کی کلیاں کھل اُٹھتیں، روتے ہوئے ہنس پڑتے اور تسکینِ قلب کا سامان کرتے۔

جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں اس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام(حدائق بخشش)

کتاب شمائلِ ترمذی، ،باب ما جاء فی ضحک رسول اللہ،ص نمبر 241۔240 پر حضرت عامر بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میرے والد حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم غزوۂ خندق کے دن ہنسے، حتی کہ آپ کے دندانِ مبارک ظاہر ہو گئے، عمر کہتے ہیں:میں نے پوچھا:کس بات پر ہنسے تھے؟انہوں نے کہا : ایک کافر ڈھال لئے ہوئے تھا اور سعد بڑے تیر انداز تھے،لیکن وہ اپنی ڈھال کو اِدھر اُدھر کر لیتا تھا، جس کی وجہ سے اپنی پیشانی کا بچاؤ کر رہا تھا(گویا مقابلہ میں سعد کاتیر لگنے نہ دیتا تھا، حالانکہ یہ مشہور تیر انداز تھے)، سعد نے ایک مرتبہ تیر نکالا (اور اس کو کمان میں کھینچ کر انتظار میں رہے)جس وقت اس نے ڈھال سے سر اُٹھایا، فوراً ایسا لگایا کہ پیشانی سے چوکا نہیں اور فوراً گرگیا، ٹانگ بھی اُوپر کو اُٹھ گئی، پس حضور اقدس علیہ السلام اس قصے پرہنسے، میں نے پوچھا: کون سی بات پر؟انہوں نے فرمایا: سعد کے اس فعل پر۔

اے کاش!ہم عاشقوں کے خواب میں آ کر ہی پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرا کر اِک نظرِ کرم فرما دیں تو ہماری عید ہو جائے گی۔نبی کریم علیہ السلام کی سنتوں میں سے ایک بہت ہی پیاری سنت مسکرا کر دیکھنا بھی ہے۔

شرح مشکوۃ، ترجمہ اشعۃ اللمعات، جلد 7، ناشر فرید بک سٹال، صفحہ نمبر 185 پر ہے :حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: میں نے نبی کریم علیہ السلام کو کبھی کھل کر پورا ہنستے ہوئے نہ دیکھا، حتی کہ میں آپ کی داڑھیں دیکھ لیتی،آپ تبسم ہی فرمایا کرتے تھے۔(البخاری)


تبسم،  ضحک اور قہقہہ میں فرق

اہلِ لغت کہتے ہیں:تبسم ضحک کی مبادیات میں سے ہے، چہرے کی خوشی سے اگر دانت نظر آئیں اور دُور تک آواز جائے تو قہقہہ ہے، ورنہ ہنسی ہے اور اگر آواز نہ آئے تو پھر یہ تبسم(مسکراہٹ) ہے۔

آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جب مسکراتے، خوش ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا چہرۂ انور روشن نظر آنے لگتا۔

حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ غزوۂ تبوک میں شریک نہ ہوئے تو آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم غزوے سے واپس تشریف لائے، منافقوں نے عدمِ شرکت کے بہانے بنائے، لیکن تین صحابہ کرام علیہم الرضوان نے جن میں حضرت کعب بھی شامل تھے، اپنی کوتاہی کا اعتراف کیا، پچاس راتوں کے مسلسل کرب کے بعد ان کی توبہ کی مقبولیت پر مشتمل آیات نازل ہوئیں، حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو خوشخبری ملی، فوراً حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر خوشی سے مسکرائے، حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جب خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ انور روشن ہو جاتا، گویا کہ آپ کا چہرہ چاند کا ٹکڑا ہے۔

دینِ اسلام ہر معاملے میں اعتدال کی تعلیم دیتا ہے، ہنسی مزاح میں بھی اعتدال ضروری ہے، ہر وقت ہنستے رہنا دل کو مردہ کر دیتا ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اِیَّاکَ وَالضَّحَکَ فَاِنَّ کَثْرَۃَ الضَّحَکِ تُمِیْتُ الْقَلْبَ ہنسی سے بچو، کیونکہ ہنسی کی کثرت دل کو مردہ کر دیتی ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:میں نے کبھی بھی رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اس قدر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کا کوّا نظر آتا، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم صرف مسکرایا کرتے تھے۔

حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ہمراہ کھانے کی دعوت پر روانہ ہوا، رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم لوگوں سے آگے تھے، آپ نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو لڑکوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا، رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ان کو پکڑنے کا ارادہ فرمایا۔حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ادھر سے ادھر چلے گئے، حضرت یعلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس سے ہنسی مزاح فرمانے لگے، یہاں تک کہ انہیں پکڑ لیا، پھر اپنا ایک ہاتھ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی گُدی کے نیچے اور دوسرا ہاتھ تھوڑی کے نیچے رکھ کر ان کا منہ چوم لیا اور فرمایا:حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، اللہ پاک حسین سے محبت کرنے والے سے محبت کرے، حسین نواسوں میں عظیم نواسہ ہے۔

حضرت عبداللہ بن حارث بن جزء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:میں نے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔

آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایااَلْقَہْقِہَۃُ مِنَ الشَّیْطٰنْ، وَالتَبَسَّمُ مِنَ اللہِ قہقہہ شیطان کی طرف سے ہے اور تبسم اللہ پاک کی طرف سے ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:میں رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا، آپ موٹے کنارے والی عبرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے، اچانک ایک بدّو آیا اور اس نے آپ کی چادر زور سے کھینچی، میں نے دیکھا: اس کی وجہ سے آپ کی گردن پر نشان پڑ گیا، پھر کہنے لگا:اے محمد!آپ کے پاس جو اللہ پاک کا عطا کردہ مال ہے اس میں مجھے کچھ دینے کا حکم دیں! حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے،آپ ہنسے اور آپ نے اس کو دینے کا حکم فرمایا۔حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم قہقہہ لگا کر نہیں ہنستے تھے، صرف مسکراتے تھے۔

بعض احادیث میں آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ہنسنا بھی مروی ہے اور ہنستے وقت آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی داڑھیں ظاہر ہونے کا ذکر ہے۔

باغِ جنت میں محمد مسکراتے جائیں گے پھول رحمت کے جھڑیں گے ہم اٹھاتے جائیں گے