افسوس! فی زمانہ جھوٹی گواہی دینا ایک معمولی کام سمجھا جاتا ہے اور الزام تراشی کرنا تو اس قدر عام ہے کہ کوئی حد ہی نہیں، جس کا جو دل کرتا ہے وہ دوسروں پر الزام لگادیتا اور جگہ جگہ ذلیل کرتا ہے اور ثبوت مانگیں تو یہ دلیل کہ میں نے کہیں سُنا تھا یا مجھے کسی نے بتایا تھا یا آپ کی بات کا مطلب ہی یہی تھا، اب کس نے بتایا؟ بتانے والا کتنا مُعْتَبر تھا؟ اُس کو کہاں سے پتا چلا؟ اس کے پاس کیا قابل قبول ثبوت ہیں؟ اس نے بات کرنے والے کے دل کا حال کیسے جان لیا؟ کوئی معلوم نہیں۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا(۳۶)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان:اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بےشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔ (پ 15، بنی اسرائیل: 36)

تفسیر: جس بات کا علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑنے سے مراد یہ ہے کہ جس چیز کو دیکھانہ ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا ہے اور جس بات کو سُنانہ ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے سنا ہے۔ ایک قول کے مطابق اس سے مراد یہ ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو۔ حضرت سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا: اس سے مراد یہ ہے کہ کسی پر وہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو۔ (مدارک، ج 1، ص 714)تمام اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں جھوٹی گواہی دینے، جھوٹے الزامات لگانے اور اس طرح کے دیگر جھوٹے اقوال کی ممانعت کی گئی ہے۔

یادر ہے! کہ جھوٹی گواہی دینا اور کسی پر جان بوجھ کر غلط الزام لگانا انتہائی مذموم فعل ہے۔ یہاں ان سے متعلق تین احادیث ملاحظہ ہوں:

(1)جھوٹے گواہ کے قدم بٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لئے جہنم واجب کر دے گا۔ (ابنِ ماجہ، ج3، ص123، حدیث: 2373)

(2)جس نے کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کیا تو اللہ تعالیٰ جہنم کے پل پر اُسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پالے۔ (ابو داؤد، ج 4، ص354، حدیث: 4883)

(3)جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے (جہنمیوں کے خون اور پیپ جمع ہونے کے مقام رَدْغَۃُ الخَبَال میں اُس وقت تک رکھے گاجب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پالے۔(مصنف عبد الرزاق، ج11،ص425، حدیث: 20905)

کان، آنکھ اور دل کے بارے میں سوال ہوگا:

آیت کے آخر میں فرمایا کہ کان، آنکھ اور دل سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا، یہ سوال اس طرح کا ہو گا کہ تم نے اُن سے کیا کام لیا؟ کان کو قراٰن و حدیث، علم و حکمت، وعظ و نصیحت اور ان کے علاوہ دیگر نیک باتیں سننے میں استعمال کیا یا لغو، بےکار، غیبت، اِلزام تراشی، زنا کی تہمت، گانےباجے اور فحش سننے میں لگایا۔ یونہی آنکھ سے جائز و حلال کو دیکھا یا فلمیں، ڈرامے دیکھنے اور بدنگاہی کرنے میں استعمال کیا اور دل میں صحیح عقائد اور اچھے اور نیک خیالات و جذبات تھے یا غلط عقائد اور گندے منصوبے اور شہوت سے بھرے خیالات ہوتے تھے۔اللہ تعالیٰ ہمیں جھوٹی گواہی اور الزام تراشی سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین


الحمدللہ ہم مسلمان ہیں اور اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام ہماری سماجی، معاشی، معاشرتی، اخلاقی الغرض زندگی کے ہر شعبہ حیات میں راہنمائی کرتا ہے۔ گواہ بننا اور گواہی دینا ایک ایسا عمل ہے جس کی مسلمان مرد و عورت کو زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ضرورت پڑ سکتی ہے۔ شریعت کے اس معاملے میں بھی واضح اصول و قوانین موجود ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے دنیا میں انسان کو انسان سے باہمی ربط دے کر ایک دوسرے کی ضرورت بنایا ہے، بعض دینی اور دنیاوی معاملات میں بسا اوقات ایسی صورتیں بھی سامنے آتی ہیں کہ صاحبِ معاملہ کسی پر کسی چیز کا دعویٰ کرتا ہے کہ یہ میرا حق ہے لیکن تنہا اُس کے اقرار یا دعوے یا بیان کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاتا۔ اس لیے نہیں کہ وہ ناقابل اعتبار ہے بلکہ اس لیے کہ اگر محض دعوے اور بیان کی رُو سے کسی کی کسی بھی چیز پر حق، ثابت ہو جایا کرے تو دنیا سے امان اُٹھ جائے اور لوگوں کا جینا دو بھر ہوجائے۔

بیہقی ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے راوی کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر لوگوں کو محض اُن کے دعوے پر چیز دلائی جائے تو بہت سے لوگ خون اور مال کے دعوے کر ڈالیں گے۔ لیکن مدعی کے ذمہ بینہ (گواہ)ہے اور منکر پر قسم۔(السنن الکبری للبیہقي،کتاب الدعوٰی والبینات،باب البینۃ علی المدعی……إلخ، الحدیث: 21201، ج10،ص427)اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا(۳۶)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان:اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بےشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔(پ 15، بنی اسرائیل: 36)

تفسیر:جس بات کا عِلم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑنے سے مُراد یہ ہے کہ جس چیز کو دیکھا نہ ہو اُس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا ہے اور جس بات کو سُنا نہ ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے سنا ہے۔ ایک قول کے مطابق اس سے مراد یہ ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو۔ حضرت سَیِّدُنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا: اس سے مراد یہ ہے کہ کسی پر وہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو۔(مدارک،ج1، ص714)تمام اَقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں جھوٹی گواہی دینے، جھوٹے الزامات لگانے اور اس طرح کے دیگر جھوٹے اقوال کی مُمانَعَت کی گئی ہے۔

اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ- اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ (الفرقان: 72)یعنی کامل ایمان والے گواہی دیتے ہوئے جھوٹ نہیں بولتے اور وہ جھوٹ بولنے والوں کی مجلس سے علیحدہ رہتے ہیں، اُن کے ساتھ میل جول نہیں رکھتے۔(مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ:72، ص811)

اس سے معلوم ہو اکہ جھوٹی گواہی نہ دینا اور جھوٹ بولنے سے تعلق نہ رکھنا کامل ایمان والوں کا وصف ہے۔ یاد رہے کہ جھوٹی گواہی دینا انتہائی مذموم عادت ہے اور کثیر اَحادیث میں اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔ احادیث مبارکہ میں جہاں سچی گواہی دینے کی فضیلتیں بیان کی ہیں وہیں جھوٹی گواہی کی وعیدیں بھی جھوٹے گواہوں کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔ آئیے پہلے ہم احادیث مبارکہ سے جھوٹی گواہی کے متعلق پڑھتے ہیں۔

(1)حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ عزوجل کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالی: ومن احیاہا، 4/358، الحدیث: 6871)

(2)رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ میں تم لوگوں کو سب سے بڑے گناہ نہ بتاؤں؟ تین بار آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسی طرح فرمایا۔ صحابہ نے عرض کیا، ہاں یا رسول! آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا، اللہ کا کسی کو شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس وقت تک ٹیک لگائے ہوئے تھے لیکن اب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا، ہاں اور جھوٹی گواہی بھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس جملے کو اتنی مرتبہ دہرایا کہ ہم کہنے لگے کاش! آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاموش ہوجاتے۔(صحیح بخاری، کتاب گواہیوں کا بیان، باب جھوٹی گواہی کے متعلق کیا حکم ہے؟ حدیث نمبر: 2654)

(3)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادۃ الزور، 3/123، الحدیث:2373)

(4)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے،حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مردکا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر)جہنم (کا عذاب)واجب کر لیا۔(معجم الکبیر، عکرمۃ عن ابن عباس، 11/172، الحدیث: 11541)

(5)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔(سنن الکبری للبیہقی، کتاب الوکالۃ، باب اثم من خاصم او اعان فی خصومۃ بباطل، 6/136، الحدیث:11444)

(6)ابو داؤد و ابن ماجہ نے خریم بن فاتک اور امام احمد و ترمذی نے ایمن بن خریم رضی اﷲ عنہما سے روایت کی رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز صبح پڑھ کر قیام کیا اور یہ فرمایا کہ جھوٹی گواہی شرک کے ساتھ برابر کر دی گئی پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی:

فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات سےایک اللہ کے ہوکر کہ اس کا ساجھی(شریک)کسی کو نہ کرو۔(پ17،الحج:30، 31- سنن ابوداود، باب فی شھادۃ الزور، الحدیث: 3599، ج3، ص427)

(7)بخاری و مسلم میں عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے مروی رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سب سے بہتر میرے ز مانہ کے لوگ ہیں پھر جو اُن کے بعد ہیں پھر وہ جو اُن کے بعد ہیں پھر ایسی قوم آئے گی کہ اُن کی گواہی قسم پر سبقت کرے گی اور قسم گواہی پر یعنی گواہی دینے اور قسم کھانے میں بے باک ہوں گے۔(صحیح البخاری، کتاب الشھادات،باب لایشھد علی شہادۃ جور۔۔۔۔إلخ،الحدیث:2652،ج2،ص193)

(8)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ بات علامات قیامت میں سے ہے کہ سلام صرف پہچان کے لوگوں کو کیا جانے لگے گا، تجارت پھیل جائے گی، حتی کہ عورت بھی تجارتی معاملات میں اپنے خاوند کی مدد کرنے لگے گی، قطع رحمی ہونے لگے گی، جھوٹی گواہی دی جانے لگے گی، سچی گواہی کو چھپایا جائے گا اور قلم کا چرچا ہوگا۔(مسند احمد، باب حضرت عبداللہ بن مسعود کی مرویات، حدیث نمبر: 3676)

(9)حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جان بوجھ کر جھوٹی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی۔ (کنزالعمال، کتاب گواہیوں کا بیان، باب جھوٹا گواہ، حدیث نمبر: 17802)

(10)طبرانی ابوموسیٰ رضی اﷲ عنہ سے راوی کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو گواہی کے لیے بلایا گیا اور اُس نے گواہی چھپائی یعنی ادا کرنے سے گریز کی وہ ویسا ہی ہے جیسا جھوٹی گواہی دینے والا۔(المعجم الأوسط، من اسمہ علی، الحدیث:4167،ج3،ص156)

یاد رہے کہ جھوٹی گواہی کا مطلب کسی کے اوپر جان بوجھ کر غلط الزام لگانا ہے۔ اس سے متعلق احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:

11- جس نے کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کیا تو اللہ تعالیٰ جہنم کے پل پر اُسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پا لے۔(ابو داؤد،ج 4، ص354، حدیث: 4883)

12- جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے (جہنمیوں کے خون اور پیپ جمع ہونے کے مقام)رَدْغَۃُ الْخَبَالْ میں اُس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پالے۔(مصنف عبد الرزاق،ج11، ص425، حدیث: 20905)

یاد رہے! کہ جھوٹی گواہی دینا اور کسی پر جان بوجھ کر غلط الزام لگانا انتہائی مذموم فعل ہے۔ افسوس! فی زمانہ جھوٹی گواہی دینا ایک معمولی کام سمجھا جاتا ہے اور الزام تراشی کرنا تو اس قدر عام ہے کہ کوئی حد ہی نہیں، جس کا جو دل کرتا ہے وہ دوسروں پر الزام لگا دیتا اور جگہ جگہ ذلیل کرتا ہے۔ بیان کردہآیت کی تفسیر اور احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہر ایک کو اپنے اپنے طرز ِعمل پر غور کرنے کی شدید حاجت ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو ہر حال میں سچ کو اپنانےکی توفیق عطا فرمائے۔

پیارے اسلامی بھائیو! الله پاک کا بڑا کرم ہے کہ اس نے ہمیں مسلمانوں کے گھر میں پیدا کیا اور ہمیں اسلام جیسا عظیم اور پرامن مذہب عطا کیا۔ عزیز دوستو! دین اسلام ایک پرامن دین ہے اس لئے کسی پر ظلم کرنا کسی مسلمان کی عزت پر حملہ کرنا اس کا مال دبانا ان سب چیزوں سے روکتا ہے یہاں تک کہ جانوروں پر بھی شفقت کرنے کا حکم دیتا ہے لیکن فی زمانہ لوگ اسلام و ایمان کی لازوال نعمت پا کر بھی جھوٹ غیبت حسد جھوٹی گواہی وغیرہ حقوق العباد کو ضائع کرنے کا طوق اپنے گلے میں ڈال دیتے ہیں حتّی کہ ایسے گناہوں کو گناہ ہی نہیں سمجھتے جھوٹی گواہی تو گویا کہ عام سی ہوگئی ہے حالانکہ احادیث مبارکہ میں اس کی شدید الفاظ میں مذمّت کی گئی ہے۔ چند احادیث پیش خدمت ہیں:

اپنے اوپر جہنم کو واجب کر لیا:

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے،نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے تو اُس نے (اپنے اوپر)جہنم کو واجب کر لیا۔(معجم الکبیر)

قدم ہٹنے نہ پائیں گے:

حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ)

کبیرہ گناہ:

حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ عزوجل کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ (بخاری)

جہنم کا عذاب واجب کر لیا:

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے،حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مردکا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر)جہنم (کا عذاب)واجب کر لیا۔ (معجم الکبیر)

جھوٹے گواہ سے الله پاک نا خوش ہوتا ہے:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔ (سنن الکبری للبیہقی)

پیارے اسلامی بھائیو! اسی طرح اور بھی احادیث مبارکہ موجود ہیں جس میں جھوٹی گواہی کی مذمّت کی گئی ہے بندہ جھوٹی گواہی دے کر خود خوش ہوسکتا ہے یا دوسروں کو خوش کر سکتا ہے لیکن نادان کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ الله اس سے ناخوش ہے اپنی یا کسی کی خوشی کے لئے الله پاک کو ناراض کرنا سب سے بڑی جہالت ہے اس میں ہلاکت کے سوا کچھ بھی نہیں الله پاک ہم سب کو گناہوں سے بالخصوص جھوٹی گواہی سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین


موجودہ معاشرے میں ہر انسان نفسا نفسی کا شکار ہوا پھرتا ہے اور سکون کا متلاشی ہے۔ اس سکون کی تلاش میں بعض نادان طرح طرح کے حیلے بہانوں کا سہارا لیتے ہوئے معصیت کے اندھیروں میں بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ انسان دل کے اطمینان کے لئے دنیا کی ہر رنگینی میں رنگنے کی کوشش میں جھوٹ غیبت بہتان وعدہ خلافی شراب نوشی قتل و غارتگری اور جھوٹی گواہی کے بدلے مال بٹورنے کی کوشش میں مصروف عمل ہے۔ اور اس نادان نے کبھی سمجھا ہی نہیں قرآن، جس میں رب رحمن عزوجل کا ہے فرمان عالیشان اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُؕ(۲۸)ترجَمۂ کنزُالایمان:سن لو اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے۔(پ13، اَلرَّعْد:28)

اس اندھیر نگری میں کیے جانے والے اعمال میں سے ایک جھوٹی گواہی دینے کا عمل ہے، آئیے احادیث مبارکہ سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں کہ جھوٹی گواہی دینے والے کے لیے کیا وعیدیں مذکور ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ پاک اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادۃ الزور، 3/123، الحدیث: 2373)

آج دنیا میں معمولی گرمی اور معمولی سی مشکل بھی برادشت نہیں ہوتی تو کل قیامت کے ہولناک معاملات کیسے برداشت کر سکیں گے۔ ہرگز ہم ذرہ برابر برادشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے اللہ پاک کے ہی فصل سے امان نصیب ہوگا۔ آج کے معمولی سے نفع کے لالچ ہم لوگ کسی مسلمان کی عزت پامال کرنے سے بھی جھجکتے بلا خوف و خطر مسلمان بھائی کو ذلیل کرنے کا کوئی موقع خالی جانے نہیں دیتے ایسے لوگوں کے بارے میں بھی حدیث پاک میں آیا ہے۔

حضرت معاذ بن انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو اللہ تعالیٰ جہنم کے پل پر اسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پا لے۔(ابوداؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، 4/354، الحدیث: 4883)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے (جہنم کے ایک مقام)رَدْغَۃُ الْخَبَالْ میں اس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پالے۔(کتاب الجامع فی آخر المصنّف، باب من حلّت شفاعتہ دون حدّ،10/353، الحدیث:21069)

ان روایات کو سامنے رکھنے کی شدید حاجت ہے کیونکہ آج کل کسی کو بھی غلط ثابت کرنے کے لئے چوٹی کا زور لگاتے ہوئے مقابل کو ذلیل کرنا اس قدر عام ہے کہ کوئی حد ہی نہیں، جس کا جو دل کرتا ہے وہ دوسروں پر الزام لگادیتا ہے، جگہ جگہ ذلیل کرتا ہے اور ثبوت مانگیں تو یہ دلیل کہ میں نے کہیں سنا تھا یا مجھے کسی نے بتایا تھا، اب کس نے بتایا، بتانے والا کتنا معتبر تھا؟ اس کو کہاں سے پتہ چلا؟ اس کے پاس کیا ثبوت ہیں؟ کوئی معلوم نہیں۔

افسوس فی زمانہ جھوٹی گواہی دینے کو معمولی سمجھا جاتا ہے ااوت بعض لوگ تو اپنے دوستوں کا ساتھ دینے کے لئے اس کو کار ثواب سمجھ کر سر انجام دیتے ہیں کہ ہم نے اپنے دوست کو نقصان سے بچانے کے لئے جھوٹ بولا۔۔۔ الامان و الحفیظ

اور فی زمانہ میں دیگر برائیوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ گواہی کے عمل کو بھی منظم کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ کوئی کسی کا حق نہ دبا سکے اور نہ ہی کوئی جھوٹے مقدمات کی زد میں آکر سولی چڑ ھے۔


اللہ کی پناہ کہ فی زمانہ جھوٹی گواہی دینا اتنا عام ہو چکا ہے کہ کوئی اس کو مذموم فعل جانتا ہی نہیں ہے حالانکہ قرآن و حدیث میں اس کی سخت مذمت بیان ہوئی۔ اسی طرح الزام تراشی بھی اتنی عام ہوئی ہے کہ بندہ اس کو نازیبہ اور ناپسندیدہ عمل نہیں سمجھتا۔ یاد رکھیں قرآن و احادیث میں ان کی سختی سے مذمت وارد ہوئی ہے۔ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ- اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا(۳۶)ترجمہ کنزالایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بےشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے ۔ (پارہ،15، سورہ بنی اسرائیل، آیت نمبر 36)

مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مفتی قاسم صاحب دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: یعنی جس چیز کو دیکھا نہ ہو اُس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا ہے اور جس بات کو سنا نہ ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے سنا ہے۔ ایک قول ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو۔ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا اس سے مراد یہ ہے کہ کسی پر وہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو۔

ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں خلاصہ یہ ہے کہ ا س آیت میں جھوٹی گواہی دینے،جھوٹے الزامات لگانے اور اس طرح کے دیگر جھوٹے اَقوال کی مُمانعت کی گئی ہے۔ (تحت الآیۃ المذکورہ فی تفسیرِ صراط الجنان)

آئیے احادیثِ مبارکہ سے ان کی مذمت کے بارے میں پڑھیں:

(1)حضرت سیدنا ابوبکرہ نفیع بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اکرم، شاہ بنی آدم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے 3 مرتبہ ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہوں کے متعلق نہ بتاؤں؟ ہم نے عرض کی: یارسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ضرور ارشاد فرمائیں۔ ارشاد فرمایا وہ اللہ عزوجل کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ٹیک لگائے تشریف فرما تھے پھر سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا: یاد رکھو! جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا (بھی کبیرہ گناہ ہے)۔ (راوی فرماتے ہیں)آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بار بار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم کہنے لگے کہ کاش! آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاموشی اختیار فرما ئیں۔ (صحیح بخاری، کتاب الشھادات، باب ماقیل فی شھادۃ الزور، الحدیث، 2654، ص 245)

(2)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ،کتاب الاحکام، باب شھادۃ الزور، الحدیث: 2373،ص 255)

(3)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے،حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر)جہنم (کا عذاب)واجب کر لیا۔(معجم الکبیر،ج11، ص 172، الحدیث: 11541)

(4)حضرت سیدنا خُزْیم بن فاتِک اَسدِی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار مدینہ قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز فجر ادا فرمائی، جب فارغ ہوئے تو کھڑے ہوکر 3 مرتبہ ارشاد فرمایا: جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر قرار دی گئی ہے۔ پھر یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ-ترجمۂ کنز الایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات سے۔ایک اللہ کے ہوکر کہ اس کا ساجھی کسی کو نہ کرو۔(پ 17،حج، آیت:30، 31-سنن ابی داؤد، کتاب القضاء، باب فی شھادۃ الزور، الحدیث: 3599، ص398)

(5)حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جس نے کسی مسلمان کے خلاف ایسی گواہی دی جس کا وہ اہل نہیں تھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔ (مسند للامام احمد بن حنبل،ج 3، ص 585،الحدیث: 10622)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں جھوٹی گواہی سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کی توفیق عطا کرے آمین ثم آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

عزیز دوستو! اس پرفتن دور میں انسان کا گناہوں سے بچنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے، لیکن ایک سچے پکے مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر قسم کے چھوٹے بڑے گناہوں سے بچے اور کبھی انجانے میں اگر کوئی گناہ صادر ہو بھی جائے تو اس پر شرمندہ ہو، دل میں ندامت ہو اور اپنے رب کے حضور اس گناہ کی معافی مانگے۔ عزیز دوستو! بہت سے گناہ تو وہ ہیں کہ جن کی مذمت احادیث مبارکہ میں کئی بار آئی ہے، انہیں گناہوں میں سے ایک گناہ جھوٹی گواہی بھی ہے کہ جس کی وعید پر نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک فرمان موجود ہیں چنانچہ حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، فرماتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر تھے اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کیا میں تمہیں گناہوں میں سب سے بڑے گناہ سے آگاہ نہ کروں؟ تین مرتبہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: وہ گناہ یہ ہیں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا یا فرمایا جھوٹی بات کہنا رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ٹیک لگائے ہوئے تھے تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیٹھ گئے اور بار بار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم نے دل میں کہا کہ کاش! آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاموشی اختیار فرماتے۔ دیکھا آپ نے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جھوٹی گواہی کو بھی بڑے گناہوں میں سے بتایا اور اپنے صحابہ کو تاکید کے ساتھ یہ بات بتائی کہ جھوٹی گواہی سے بچتے رہیں۔اسی طرح ایک اور مقام پر نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے کبائر گناہوں کے متعلق سوال کیا گیا تو نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، کسی کی ناحق جان لینا، والدین کی نافرمانی کرنا، پھر فرمایا کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ نہ بتا دوں؟ فرمایا: جھوٹی بات یا فرمایا کہ جھوٹی گواہی سب سے بڑا گناہ ہے۔ ایک اور مقام پر اللہ کے رسول نے جھوٹی گواہی دینے کو اللہ پاک کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے برابر بتایا چنانچہ حضرت خریم بن فاتک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز فجر پڑھی پھر جب فارغ ہوئے تو سیدھے کھڑے ہوئے پھر تین مرتبہ فرمایا کہ جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے والے کے برابر کی گئی ہے پھر آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی کہ بچو گندگی یعنی بتوں سے، بچو جھوٹی بات سے اللہ کی طرف جھکتے ہوئے اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ۔ ان احادیث مبارکہ میں جھوٹی گواہی کی مذمت صاف واضح ہے، اللہ پاک ہمیں ہر قسم کے چھوٹے بڑے گناہوں سے محفوظ فرمائے بالخصوص ہمیں ہر قسم کی جھوٹی گواہیوں سے محفوظ فرمائے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ امین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

جھوٹی گواہی یہ ہے کہ کوئی اس بات کی گواہی دے جس کا اس کے پاس ثبوت نہ ہو۔ ارشاد ہوتا قرآن پاک میں ہے فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)ترجمہ کنز الایمان: تودور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات سے۔ ارشاد فرمایا کہ پس تم بتوں کی گندگی سے دور رہوجن کی پوجا کرنا بدترین گندگی سے آلودہ ہونا ہے اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو۔ اور یہاں جھوٹی بات سے کیا مراد ہے، اس کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد جھوٹی گواہی دینا ہے۔(صراط الجنان)

خاص جھوٹی گواہی دینے کی کثیر احادیث میں شدید مذمت بیان کی گئی ہے ان میں سے چند احادیث ملاحظہ ہوں۔

جھوٹی گواہی دینا گناہ کبیرہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اﷲ کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(بخاری، باب قولہ تعالیٰ: ومن احیاحا، حدیث 16871)

جھوٹے گواہ کے لئے جہنم واجب ہے: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے جہنم واجب کر دے گا۔ (ابن ماجہ، الحدیث: 237)

جھوٹے گواہ کے حکم میں کون ہے؟: حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔(سنن الکبری للبیہقی، کتاب الوکالۃ، باب اثم من خاصم او اعان فی خصومۃ بباطل، 6 / 136، الحدیث: 11444)

جھوٹے گواہ نے اپنے اوپر جہنم واجب کرلی:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے اس نے اپنے اوپر جہنم کے عذاب کو واجب کرلیا۔(معجم الکبیر:1154)

جھوٹا گواہ جہنمی ہے:پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جس نے کسی مسلمان کے خلاف ایسی گواہی دی جس کا وہ اہل نہیں تھا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔(المسند للامام احمد بن حنبل، مسند ابی ہریرۃ، الحدیث: 10622،ج3،ص585)

الله پاک ہم سب کو جھوٹی گواہی دینے سے بچائے اور ہمیں سیدھے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین

انسان کی زندگی میں سچ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے کہ سچ ایک ایسا عمدہ وصف ہے جو آدمی کی شخصیت کو نکھارتا ہے جبکہ جھوٹ ایک مہلک مرض ہے کہ یہ اعتماد کو تباہ و برباد کر دیتا ہے قرآن وحدیث میں جھوٹ کی کئی جگہ مذمت بیان کی گئی ہے ہم یہاں جھوٹی گواہی کی مذمت بیان کریں گے۔

جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے:جس طرح چوری کرنا ایک بڑا گناہ ہے اسی طرح جھوٹی گواہی دینا بھی بڑا گناہ ہے جیسا کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں اللہ عزوجل کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(بہار شریعت، جلد 2، شہادت(گواہی)کا بیان)(بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالی: ومن احیاہا، 4/358، الحدیث: 6871)

اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب:جھوٹی گواہی کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ یہ اللہ سے ناراضی کا سبب ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے جھوٹی قسم پر حلف اٹھایا تاکہ اس کے ذریعے اپنے مسلمان بھائی کا مال ہڑپ کرلے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر سخت ناراض ہو گا۔(صراط الجنان بحوالہ بخاری، کتاب الایمان والنذور، باب عہد اللہ عزّوجل، 4/290، الحدیث: 6659)

جہنم میں جانے کا سبب ہے:جھوٹی گواہی دنیا میں رسوائی کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی خسارہ کا سبب ہے جیساکہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(بہار شریعت، جلد2، شہادت کا بیان)(ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادۃ الزور، 3/123، الحدیث:2373)

جھوٹی گواہی شرک کے برابر ہے:جھوٹی گواہی اتنی بری چیز ہے کہ اس کی نحوست کو شرک کے برابر فرمایا گیا جیساکہ حضرت خریم بن فاتک اسدی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صبح کی نماز پڑھ کر کھڑے ہوئے اور تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا: جھوٹی گواہی ہی شرک کے ساتھ برابر کر دی گئی۔ پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ-ترجمۂ کنزُالعِرفان: پس تم بتوں کی گندگی سے دور رہو اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو۔ایک اللہ کیلئے ہر باطل سے جدا ہوکر (اور)اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہوئے۔(بہار شریعت، جلد 2، شہادت کا بیان)(ابو داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب فی شہادۃ الزور، 3/427، الحدیث: 3599)

جھوٹی گواہی جہنم کا حقدار کر دیتی ہے:آدمی سے جب گواہی طلب کی جائے تو اسے چاہیے کہ وہ سچی گواہی دے ورنہ جہنم کا حقدار ٹھہرے گا کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مرد مسلم کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے اس نے جھنم واجب کرلیا۔ (بہار شریعت، جلد 2، شہادت کا بیان)

جھوٹی گواہی کے بارے میں ان تمام وعیدات اور نقصانات کی معلومات کے بعد ہمیں جھوٹی گواہی دینے سے بچنا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حق بولنے اور سچی گواہی دینے کی توفیق عطا فرمائے، (آمین)

بد قسمتی سے ہم جس معاشرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں اس معاشرے میں گناہوں کا بازار سرگرم ہے،گناہوں میں سے ایک گناہ جھوٹی گواہی دینا بھی ہے اور اس کا رواج بھی بڑھتا چلا جارہا ہے شریعت مطہرہ نے جگہ جگہ اس کی ممانعت بیان فرمائی ہے آئیے اس کی مذمت پر احادیث پاک ملاحظہ کرتے ہیں:

جھوٹی گواہی کبیرہ گناہوں میں سے ہے: صحیح بخاری و مسلم میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: کبیرہ گناہ یہ ہیں اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب الکبائرواکبرھا،الحدیث: ۱۴۴۔(۸۸)، ص ۵۹)

جھوٹی گواہی شرک کے برابر ہے:ابو داؤد و ابن ماجہ نے خریم بن فاتک اور امام احمد و ترمذی نے ایمن بن خریم رضی اللہ عنہما سے روایت کی رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز صبح پڑھ کر قیام کیا اور یہ فرمایا کہ جھوٹی گواہی شرک کے ساتھ برابر کر دی گئی۔ (سنن ابو داوٗد،کتاب القضاء،باب في شھادۃ الزور،الحدیث: 3599،ج 3،ص 427)

اللہ پاک جہنم واجب فرمادے گا:ابن ماجہ عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے راوی کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(سنن ابن ماجہ،ابواب الأحکام،باب شھادۃ الزور،الحدیث: 2373،ج 3،ص 123)

گواہی چھپانے والا بھی جھوٹی گواہی دینے والے کی طرح ہے: طبرانی ابوموسیٰ رضی اللہُ عنہ سے راوی کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو گواہی کے لیے بلایا گیا اور اُس نے گواہی چھپائی یعنی ادا کرنے سے گریز کی وہ ویسا ہی ہے جیسا جھوٹی گواہی دینے والا۔ (لمعجم لاوسط،من اسمہ علی،الحدیث: 4167،ج 3،ص 156)

خود پر جہنم واجب کرلینے والا شخص: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے،نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے تو اُس نے (اپنے اوپر)جہنم کو واجب کر لیا۔(معجم الکبیر، عکرمۃ عن ابن عباس، 11/172، الحدیث: 11541)

ان تمام احادیث سے ہمیں جھوٹی گواہی دینے کی وعیدیں معلوم ہوئیں اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں اس بری صفت سے محفوظ رکھے اور ہر حال میں حق و سچ کا ساتھ دینے والا بنائے۔آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

دنیاوی معاملات کو معتدل رکھنے،معاشرے کو نظم و نسق کے ساتھ چلانے اور حقدار کو اس کا حق دلانے کے لیے، شریعت مطہرہ نے قانون شہادت (گواہی دینا)کو قائم کیا اور حق اور سچ گواہی دینے کا حکم دیا، نیز مستحق کی حق تلفی سے بچنے اوردیگرفسادات(خرابیوں)سے محفوظ رہنے کے لیے، جھوٹی گواہی دینے کی ممانعت و مذمت بیان فرمائی، اللہ پاک نے فرمایا:وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ ترجمہ کنزالایمان:اور بچو جھوٹی بات سے۔

احادیث میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس کی مذمت بیان فرمائی:

(1)جھوٹی گواہی شرک کے برابر: جھوٹی گواہی دینا اتنا سخت گناہ ہےکہ اسے اس گناہ کے برابر قرار دیا گیا جس کے بارے میں اللہ پاک نے فرمایا کہ اسے معاف نہ فرمائے گا یعنی شرک۔ چنانچہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز فجر پڑھی،پھر جب فارغ ہوئے تو سیدھے کھڑے ہو گئے،پھر تین بار ارشاد فرمایا: جھوٹی گواہی شرک کے ساتھ برابر کر دی گئی،پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)(سنن ابو داؤد،کتاب الاقضیہ، حدیث 3599)

(2)کبیرہ گناہ: گناہ دو طرح کے ہیں،(1)صغیرہ اور(2)کبیرہ،حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کبیرہ گناہوں کی تعداد 700 تک بیان فرمائی(تفسیر صاوی، ج2،ص 382)چنانچہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے گناہ کبیرہ کے بارے میں سوال کیا گیا،تو آپ نے ارشاد فرمایا: (1)اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا (2)والدین کی نافرمانی کرنا(3)کسی جان کو(ناحق)قتل کرنا اور(4)جھوٹی گواہی دینا۔(بخاری، کتاب الشہادات،حدیث 2653)لہٰذا معلوم ہوا کہ جھوٹی گواہی دینا گناہ کبیرہ بھی ہے۔

(3)جہنم واجب: جھوٹی گواہی دینے والا،جھوٹی گواہی دینے کے سبب،حق تلفی اور حقوق العباد جیسے معاملے میں گرفتار ہوتا ہے،وہیں اس سبب سے اخروی اعتبار سے جہنم کا حقدار بھی ٹھہرتا ہے،رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے،اللہ پاک اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(سنن ابن ماجہ،کتاب الاحکام،2373)

(4)جہنم واجب: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جس نے ایسی گواہی دی، جس سے کسی مرد کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے تو اس نے اپنے اوپر جہنم واجب کر لی۔(معجم الکبیر: 11541)

(5)کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑاگناہ: جھوٹی گواہی دینا گناہ کبیرہ میں سے ہے جیسا کہ حدیث نمبر دو میں گزرا لیکن ان کبیرہ گناہوں میں سے بھی سب سے بڑا گناہ ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نےفرمایا:کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ(1)اللہ کے ساتھ شریک کرنا (2)جھوٹی گواہی دینا اور(3)گواہی چھپانا ہے۔(خزائن العرفان،البقرۃ،آیت:283)

قارئین کرام!یہ ایک مذموم فعل ہے،جس سے بچنا ہماری دنیا و آخرت کی سرخروئی اور اللہ پاک کی رضا کا باعث ہے، اور نہ بچنے میں ہماری دنیا و آخرت کی بربادی اور اللہ پاک کی ناراضی ہے۔

اللہ پاک ہمیں ہر گناہ سے بالخصوص جھوٹی گواہی دینے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین


جھوٹی گواہی یہ ہے کہ کوئی اس بات کی گواہی دے جس کا اس کے پاس ثبوت نہ ہو۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰) ترجمہ کنز الایمان: تو دور رہو بتوں کی گندگی سے اور بچو چھوئی بات سے۔(حج: 30)

ارشاد فرمایا کہ پس تم بتوں کی گندگی سے دور رہو جن کی پوجا کرنا بد ترین گندگی سے آلودہ ہونا ہے اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو یہاں جھوٹی بات سے کیا مراد ہے اس کے متعلق ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد جھوٹی گواہی دینا ہے (صراط الجنان، 6/643)جھوٹی گواہی دینے کی کثیر احادیث میں بھی شدید مذمت بیان کی گئی ہے ان میں سے چند احادیث ملاحظہ ہوں:

جھوٹی گواہی دینا گناہ کبیرہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں:اللہ پاک کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو نا حق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قولہ تعالٰی: ومن احیاھا، حدیث: 16871)

جھوٹے گواہ کے لئے جہنم واجب: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے جہنم واجب کر دے گا۔ (ابن ماجہ، الحدیث: 2373)

ساتھ چلنے والا جھوٹے گواہ کے حکم میں: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے سرکار دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمے کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی نا خوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔(سنن الکبریٰ للبیہقی: 11444)

اپنے اوپر جہنم واجب کرلیا: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے اس نے (اپنے اوپر)جہنم (کا عذاب)واجب کرلیا۔ (معجم الکبیر:1154)

جھوٹا گواہ جہنمی ہے: حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: جس نے کسی مسلمان کے خلاف ایسی گواہی دی جس کا وہ اہل نہیں تھا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ (مسند امام احمد بن حنبل، ج1،ص 585،الحدیث 10422)

الله پاک ہم سب کو جھوٹی گواہی دینے سے بچائے سچی اور درست گواہی دینے اور سیدھے رستے پر چلنے کی توفیق سعید عطا فرمائے، اٰمین

ہمارے معاشرے میں جہاں جھوٹ، غیبت، چغلی، وعدہ خلافی اور بہت سی بُرائیاں پھیلی ہوئی ہیں وہیں جھوٹی گواہی دینا بھی عام ہے جو کہ ایک انتہائی بُرا کام اور کبیرہ گناہ ہے۔قراٰن و حدیث میں بھی اس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے چنانچہ قراٰنِ پاک میں ہے:﴿وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا(۳۶)﴾ ترجمۂ کنزُالایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بے شک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔(پ15، بنیٓ اسرآءیل: 36) یعنی جس چیز کو دیکھا نہ ہو اُس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا ہے اور جس بات کو سنا نہ ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے سنا ہے۔ ایک قول ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو۔(صراط الجنان،5/462)

جھوٹی گواہی کی مذمت احادیث میں بھی بیان کی گئی ہے آیئے اسی ضمن میں چند فرامینِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھئے:

(1)جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے: اللہ پاک کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہیں۔(دیکھئے:بخاری، 4/358، حدیث: 6871)

(2)جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ پاک اس کے لئے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، 3/123، حدیث: 2373)

(3)جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مردکا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر) جہنم (کا عذاب)واجب کر لیا۔(معجم کبیر،11/172، حدیث: 11541)

(4)میری اُمّت میں بہترین میرا گروہ ہے پھر وہ لوگ جو اس سے قریب ہوں پھر وہ جو ان سے قریب ہوں پھر ان کے بعد ایسی قوم ہوگی جو گواہی دے گی حالانکہ گواہ بنائی نہ جائے گی، خیانت کرے گی امانت دار نہ بنائی جائے گی، نذر مانے گی اور نذر پوری نہ کرے گی۔(مشکاۃ، 2/413، حدیث:6010)

حدیث کے جز ”حالانکہ گواہ بنائی نہ جائے گی“ اس فرمان عالی کا آسان اور قوی مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ واردات کے موقعہ پر موجود نہ کیے گئے ہوں گے بلائے نہ گئے ہوں گے مگر قاضی کے ہاں گواہی دیں گے یعنی جھوٹی گواہی جیساکہ آج کل دیکھا جارہا ہے کہ کچہریوں میں لوگ مقدمہ والوں سے پوچھتے پھرتے ہیں کہ کیا تمہیں گواہ چاہئیں تو ہم حاضر ہیں اتنے روپیہ دو جو بتاؤ اس کی گواہی دے دیں لہٰذا یہ فرمانِ عالی اس حدیث کے خلاف نہیں کہ اچھے گواہ وہ ہیں جو بغیر بلائے گواہی دیں وہاں سچی گواہی مراد ہے۔(مراٰۃالمناجیح،8/339)

جھوٹی گواہی بہت سارے گناہوں کا مجموعہ ہے:

(۱)جھوٹی گواہی میں جھوٹ بھی شامل ہوتا ہے جو خود ایک بہت بڑا گناہ ہے۔

(۲)کئی دفعہ جھوٹی گواہی میں بہتان اور الزام تراشی بھی ہوتی ہے۔

(۳)بہت سی جگہوں پر جھوٹی گواہی دینے والا رشوت لے کر کسی کے خلاف جھوٹی گواہی دے رہا ہوتا ہے۔

(۴)جھوٹی گواہی کی وجہ سے بعض اوقات مظلوم پر ظلم بھی ہو رہا ہوتا ہے۔

(۵)جھوٹی گواہی کی وجہ سے لڑائی جھگڑوں، ناچاقیوں اور نااتفاقیوں میں بھی مبتلا ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

پتا چلا کہ جھوٹی گواہی دینا اتنا بُرا فعل ہے کہ اس کی وجہ سے کئی گناہوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور یہ دنیا و آخرت میں ہلاکت کا سبب ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم تمام ہی گناہوں بالخصوص جھوٹی گواہی دینے سے خود کو بچائیں۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر طرح کے گنا ہوں سے دور رہنےاوراپنی فرماں برداری والے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم