اللہ کی پناہ کہ فی زمانہ جھوٹی گواہی دینا اتنا عام ہو چکا ہے کہ کوئی اس کو مذموم فعل جانتا ہی نہیں ہے حالانکہ قرآن و حدیث میں اس کی سخت مذمت بیان ہوئی۔ اسی طرح الزام تراشی بھی اتنی عام ہوئی ہے کہ بندہ اس کو نازیبہ اور ناپسندیدہ عمل نہیں سمجھتا۔ یاد رکھیں قرآن و احادیث میں ان کی سختی سے مذمت وارد ہوئی ہے۔ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ- اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا(۳۶)ترجمہ کنزالایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بےشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے ۔ (پارہ،15، سورہ بنی اسرائیل، آیت نمبر 36)

مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مفتی قاسم صاحب دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: یعنی جس چیز کو دیکھا نہ ہو اُس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا ہے اور جس بات کو سنا نہ ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے سنا ہے۔ ایک قول ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو۔ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا اس سے مراد یہ ہے کہ کسی پر وہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو۔

ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں خلاصہ یہ ہے کہ ا س آیت میں جھوٹی گواہی دینے،جھوٹے الزامات لگانے اور اس طرح کے دیگر جھوٹے اَقوال کی مُمانعت کی گئی ہے۔ (تحت الآیۃ المذکورہ فی تفسیرِ صراط الجنان)

آئیے احادیثِ مبارکہ سے ان کی مذمت کے بارے میں پڑھیں:

(1)حضرت سیدنا ابوبکرہ نفیع بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اکرم، شاہ بنی آدم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے 3 مرتبہ ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہوں کے متعلق نہ بتاؤں؟ ہم نے عرض کی: یارسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ضرور ارشاد فرمائیں۔ ارشاد فرمایا وہ اللہ عزوجل کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ٹیک لگائے تشریف فرما تھے پھر سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا: یاد رکھو! جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا (بھی کبیرہ گناہ ہے)۔ (راوی فرماتے ہیں)آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بار بار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم کہنے لگے کہ کاش! آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاموشی اختیار فرما ئیں۔ (صحیح بخاری، کتاب الشھادات، باب ماقیل فی شھادۃ الزور، الحدیث، 2654، ص 245)

(2)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ،کتاب الاحکام، باب شھادۃ الزور، الحدیث: 2373،ص 255)

(3)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے،حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر)جہنم (کا عذاب)واجب کر لیا۔(معجم الکبیر،ج11، ص 172، الحدیث: 11541)

(4)حضرت سیدنا خُزْیم بن فاتِک اَسدِی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار مدینہ قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز فجر ادا فرمائی، جب فارغ ہوئے تو کھڑے ہوکر 3 مرتبہ ارشاد فرمایا: جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر قرار دی گئی ہے۔ پھر یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ-ترجمۂ کنز الایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات سے۔ایک اللہ کے ہوکر کہ اس کا ساجھی کسی کو نہ کرو۔(پ 17،حج، آیت:30، 31-سنن ابی داؤد، کتاب القضاء، باب فی شھادۃ الزور، الحدیث: 3599، ص398)

(5)حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جس نے کسی مسلمان کے خلاف ایسی گواہی دی جس کا وہ اہل نہیں تھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔ (مسند للامام احمد بن حنبل،ج 3، ص 585،الحدیث: 10622)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں جھوٹی گواہی سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کی توفیق عطا کرے آمین ثم آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔