موجودہ معاشرے میں ہر انسان نفسا نفسی کا شکار ہوا پھرتا ہے اور سکون کا متلاشی ہے۔ اس سکون کی تلاش میں بعض نادان طرح طرح کے حیلے بہانوں کا سہارا لیتے ہوئے معصیت کے اندھیروں میں بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ انسان دل کے اطمینان کے لئے دنیا کی ہر رنگینی میں رنگنے کی کوشش میں جھوٹ غیبت بہتان وعدہ خلافی شراب نوشی قتل و غارتگری اور جھوٹی گواہی کے بدلے مال بٹورنے کی کوشش میں مصروف عمل ہے۔ اور اس نادان نے کبھی سمجھا ہی نہیں قرآن، جس میں رب رحمن عزوجل کا ہے فرمان عالیشان اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُؕ(۲۸)ترجَمۂ کنزُالایمان:سن لو اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے۔(پ13، اَلرَّعْد:28)

اس اندھیر نگری میں کیے جانے والے اعمال میں سے ایک جھوٹی گواہی دینے کا عمل ہے، آئیے احادیث مبارکہ سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں کہ جھوٹی گواہی دینے والے کے لیے کیا وعیدیں مذکور ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ پاک اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادۃ الزور، 3/123، الحدیث: 2373)

آج دنیا میں معمولی گرمی اور معمولی سی مشکل بھی برادشت نہیں ہوتی تو کل قیامت کے ہولناک معاملات کیسے برداشت کر سکیں گے۔ ہرگز ہم ذرہ برابر برادشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے اللہ پاک کے ہی فصل سے امان نصیب ہوگا۔ آج کے معمولی سے نفع کے لالچ ہم لوگ کسی مسلمان کی عزت پامال کرنے سے بھی جھجکتے بلا خوف و خطر مسلمان بھائی کو ذلیل کرنے کا کوئی موقع خالی جانے نہیں دیتے ایسے لوگوں کے بارے میں بھی حدیث پاک میں آیا ہے۔

حضرت معاذ بن انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو اللہ تعالیٰ جہنم کے پل پر اسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پا لے۔(ابوداؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، 4/354، الحدیث: 4883)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے (جہنم کے ایک مقام)رَدْغَۃُ الْخَبَالْ میں اس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پالے۔(کتاب الجامع فی آخر المصنّف، باب من حلّت شفاعتہ دون حدّ،10/353، الحدیث:21069)

ان روایات کو سامنے رکھنے کی شدید حاجت ہے کیونکہ آج کل کسی کو بھی غلط ثابت کرنے کے لئے چوٹی کا زور لگاتے ہوئے مقابل کو ذلیل کرنا اس قدر عام ہے کہ کوئی حد ہی نہیں، جس کا جو دل کرتا ہے وہ دوسروں پر الزام لگادیتا ہے، جگہ جگہ ذلیل کرتا ہے اور ثبوت مانگیں تو یہ دلیل کہ میں نے کہیں سنا تھا یا مجھے کسی نے بتایا تھا، اب کس نے بتایا، بتانے والا کتنا معتبر تھا؟ اس کو کہاں سے پتہ چلا؟ اس کے پاس کیا ثبوت ہیں؟ کوئی معلوم نہیں۔

افسوس فی زمانہ جھوٹی گواہی دینے کو معمولی سمجھا جاتا ہے ااوت بعض لوگ تو اپنے دوستوں کا ساتھ دینے کے لئے اس کو کار ثواب سمجھ کر سر انجام دیتے ہیں کہ ہم نے اپنے دوست کو نقصان سے بچانے کے لئے جھوٹ بولا۔۔۔ الامان و الحفیظ

اور فی زمانہ میں دیگر برائیوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ گواہی کے عمل کو بھی منظم کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ کوئی کسی کا حق نہ دبا سکے اور نہ ہی کوئی جھوٹے مقدمات کی زد میں آکر سولی چڑ ھے۔