انسان کی زندگی اللہ پاک کی محتاج ہے، حتٰی کہ اِک اِک سانس اللہ پاک کا احسان ہے، اگر اللہ پاک کی رضامندی نہ ہو تو بندہ کوئی کام نہیں کر سکتا، اس طرح ہمارا کوئی بھی منصوبہ (plan) کامیاب نہیں ہوسکتا، جب تک اللہ پاک کو منظور نہ ہو، لیکن پھر بھی ہم سال 2022 کو گزارنے کےلئے اچھے اور نیک کام کرنے کی نیت ضرور کر سکتی ہیں کہ فرمانِ مصطفے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:مسلمان کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔(معجم کبیر، 6/ 185، حدیث: 5942)سال 2022 میں ہمیں زیادہ سے زیادہ نیکیوں کے حصول کے لئے نیک کام اور نیک و متقی اسلامی بہنوں کی صحبت اختیار کرنی چاہئے،دینِ اسلام کی تبلیغ اور اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اطاعت اور فرماں برداری کرنی چاہئے۔والدین کی عزت و آبرو کو اپنی عزت پر ترجیح دیں گی اور ان کے حقوق کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گی، جھوٹ،فریب، غیبت، چغلی اور حسد جیسی خطرناک معاشی برائیوں سے بچنے کی کوشش کریں گی۔دنیاوی مال و دولت کمانے کے لئے حلال ذرائع اور عدل و انصاف سے کام لیں گی،رشوت و کرپشن کو اپنانے سے اجتناب کریں گی،پڑوسیوں کے حقوق پورے کرنے اور غریبوں کی مدد کرنے کے لئے بھرپور کوشش کریں گی اور لڑائی جھگڑوں سے دور رہیں گی، کیونکہ حضرت عبد الرحمن بن قاسم رَضِیَ اللہُ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں:ایک بار حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ حضرت عبد الرحمن بن ابو بکر رَضِیَ اللہُ عنہ کے پاس سے گزرے تو وہ اپنے پڑوسی کو ڈانٹ رہے تھے، آپ رَضِیَ اللہُ عنہ نے ان سے فرمایا: اپنے پڑوسی کے ساتھ جھگڑا مت کرو، کیونکہ یہ تو یہیں رہیں گے، لیکن جو لوگ تمہاری لڑائی کو دیکھیں گے،وہ یہاں سے چلے جائیں گے اور مختلف قسم کی باتیں بنائیں گے۔(کنزالعمال، الجزء:9، 5/ 79 ،حدیث:25599)خود کو دوسروں کی دل آزاری اور نقصان سے بچائیں گی۔اللہ پاک ہمیں سال 2022 میں ان تمام اچھائیوں کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہِ النبی الکریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


سال 2021 ہمارے لئے ایک سبق بھی ہے کہ کس طرح ہم مصیبتوں میں صبر کرتی ہیں، نیکیاں کرتی ہیں اور گناہوں سے بچتی ہیں، ہم نے 2021 کیسے گزارا؟ یہ تو ہم ہی جانتی ہیں کہ کیا ہم نے اسے نیکیوں میں گزارا یا بُرائیوں میں گزار کر اپنے آپ کو نقصان میں ڈالا! کہیں نہ کہیں ہم نے غلطی کی ہو گی اور 2021 سے بہت کچھ سیکھا بھی ہوگا، لہٰذا نیت کر لیتی ہیں کہ 2021 میں ہم سے جو گناہ وغیرہ ہوگئے ہیں، ان سے توبہ کرکے 2022 نیکیوں میں، اللہ پاک کی عبادت کرکے اور بُرائیوں سے بچ کر گزاریں گی۔اللہ پاک قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ ٔکنزالایمان:جو ایک نیکی لائے تو اس کے لئے اس جیسی دس ہیں اور جو برائی لائے تو اسے بدلہ نہ ملے گا، مگر اس کے برابر اور ان پر ظلم نہ ہوگا۔اس آیتِ مبارکہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جب ایک نیکی کرنے پر دس گنا ثواب ہے تو جب ہم ایک سے زیادہ نیکیاں کرنے میں کامیاب ہوگئیں تو ہماری تو قسمت ہی بدل جائے گی۔وہ ربّ کریم جو ہم پر بڑا مہربان ہے، کئی گُنا ثواب عطا فرمائے گا اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر ہم برائی کی طرف جائیں گی تو اس کا کوئی بدلہ نہیں، بلکہ نقصان ہی نقصان ہے۔

آئیے!حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں دیکھتی ہیں کہ ہمیں نیکی کرنے پر کتنا اجر ملے گا! حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک فرماتا ہے:جب میرا بندہ کسی نیک کام کا ارادہ کرتا ہے اور اس پر عمل نہیں کرتا تو میں اس کی ایک نیکی لکھ دیتا ہوں اور اگر وہ اس کے مطابق عمل کرلیتا ہے تو میں اس کے لئے 10 سے لےکر سات سو گُنا تک نیکیاں لکھ دیتا ہوں، جب وہ گناہ کا ارادہ کرے اور اس پر عمل نہ کرے تو میں اسے نہیں لکھتا اور اگر اس گناہ پر عمل کرے تو صرف ایک گناہ ہی لکھتا ہوں۔(اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے)ہم سال2022 مندرجہ ذیل طریقوں سے گزار سکتی ہیں:ہم سال2022 کو اللہ پاک کی رضا والے کام میں گزار سکتی ہیں۔ ہم سال 2022 کو پانچوں نمازیں پابندی کے ساتھ پڑھنے،قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے، کثرت سے درودِ پاک پڑھنے، نیکی کا حکم دینے اور برائی سے بچتے ہوئے،نفل روزے رکھتے ہوئے،نفل نمازیں پڑھتے ہوئے، ایک دوسرے کا دل دُکھانے سے بچتے ہوئے،رسائل اور کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے، بُرائیوں سے بچتے ہوئے،اپنا محاسبہ کرتے ہوئے، مدنی مذاکرہ دیکھتے ہوئے، والدین کی اطاعت کرتے ہوئے،جھوٹ، غیبت، چغلی، حسد، تکبر، وعدہ خلافی سے بچتے ہوئے، اللہ پاک کی خوب خوب عبادت کرتے ہوئے، اپنی پڑوسنوں کی مدد کرتے ہوئے، اللہ پاک کی راہ میں خوب خوب خرچ کرتے ہوئے، غرض اور بھی نیکیاں کرتے ہوئے اور بُرائیوں سے بچتے ہوئے ہم 2022 گزار سکتی ہیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سال2022 کو نیکیوں میں گزارنے اور بُرائیوں سے بچتے ہوئے گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہِ النبی الکریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


نیا سال نئی اُمیدیں، نئی سوچ اور نئے تجربات لے کر آتا ہے،  ہر گزرتا ہوا لمحہ نئے سال کی طرف بڑھنے کی ایک نوید سناتا ہے، جو وقت گزر گیا وہ دوبارہ آ نہیں سکتا، مگر جو آنے والا ہے، اس کو بہتر بنانے کے لئے کاوش ضرور کی جا سکتی ہے، نیا سال ایک طرح کا نیا امتحان ہوتا ہے،ہر اس غلطی کو سُدھارنے کا ایک موقع جو کسی نہ کسی طرح جانے اَنجانے میں گزشتہ سال ہو گئی، ہر اس بُرائی کو ختم کرنے کا ایک موقع ہوتا ہے، جو کسی نہ کسی طرح ہماری زندگیوں کا حصّہ بن گئی ہے۔ہماری زندگی اور اس کا گزرتا ہواوقت ویسے تو ہمیں آخرت کی طرف لے جا رہا ہے، نئے سال کے آغاز کےساتھ زندگی کا ایک سال کم ہو جاتا ہے، مگر ہمارے ہاں اس کو نیا سال کہا جاتا ہے، مگر افسوس!اس طرف دھیان بہت کم جاتا ہے کہ جو بیت گیا، وہ بھی تو نیا تھا مگر ہائے! ہم نے اس کو صحیح استعمال نہ کیا، ہم اچھائیاں نہ کر پائیں، سچ اور انصاف نہ کر پائیں، خود کو بُرائیوں سے بچا نہ پائیں ۔نیا سال اگر گزارنا ہے تو خود کو سنتوں کا پابند بنا لیجئے، ہر حال میں خود کو سنتِ مصطفے کا پیروکار بنا لیجئے، اس آنے والے سال میں اگر کوئی عہد کرنا ہی ہے تو یہ کیجئے کہ میری ذات سے میرے کسی مسلمان بھائی یا بہن کو تکلیف نہیں پہنچے گی، میری ذات صرف اور صرف دوسروں کی بھلائی اور ان کے کام کے آنے میں صرف ہو گی، نہ کہ چالاکیوں اور جھوٹ، غیبت،حسد کا شکار ہو کر نئے سال میں بھی خود کو دوسروں اور سب سے بڑھ کر پیارے پیارے آقا، مدینے کے والی، نبی آخر الزمان صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے شرمسار ہو گی، نیا سال دراصل اللہ پاک کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنے اعمال کو اچھا اور مثبت کرنے کا ایک موقع عطا فرما دیا ہے۔لہٰذا اس سال خود کو دنیاوی تمام بُرائیوں سے بچا کر اپنی آخرت کا ثواب بڑھانے کی کوشش کیجئے۔اپنی ذات کو صرف اور صرف دوسروں کے لئے خیر کا ذریعہ بنائیے،جو (اچھا کام)خود کو آتا ہے وہ دوسروں کو سکھائیے، کیونکہ علم بانٹنے سے بڑھتا ہے۔ کہاوت ہے:اگر تمہارے چراغ میں روشنی کم پڑھنے لگے تو اپنے دئیے کا کچھ تیل دوسرے دیئے میں ڈال دو، ہو سکتا ہے اس کی چمک سے تمہاری چمک بھی چمک اُٹھے۔ سال 2021 کے تلخ تجربات سے سبق حاصل کر کے سال 2022 کو روشن اور مزید مثبت بنائیے، اپنا زیادہ سے زیادہ وقت دینی کاموں میں صرف کیجئے، نماز، روزہ، زکوۃ تو کرتی ہیں، مگر اس میں مزید خشوع خضوع پیدا کیجئے، قرآنِ پاک کی تلاوت کو اپنی زندگی کا لازمی جُزو بنائیے، کیونکہ دنیا کی کوئی بھی کتاب ہمیں وہ علم اور معلومات نہیں دے سکتی، جو اللہ پاک نے اپنی اس مقدس کتاب میں لکھ دیا ہے، جو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے اور اس میں ہمارے تمام مسائل کا حل ہے۔ بے شک اس میں نشانیاں ہیں عقل مندوں کو۔ 14، النحل:12)


اللہ پاک کے ہم پر احسانات بے حد و بے حساب ہیں اور اس کی عطا کی گئی نعمتوں کا شمار و حصر ناممکن ہے۔ان ہی نعمتوں میں سے اللہ پاک کی عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہماری حیات ہے۔ اس کا نہ صرف ہر سال ہر دن بلکہ ہر ہر لمحہ بہت انمول ہے۔ افسوس! ہماری زندگی کے ان قیمتی لمحات میں سے گزشتہ سال 2021 بھی غفلت میں گزر گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سالِ آئندہ 2022 کو کیسے گزارا جائے؟اس کے لئے چند نکات پیش کیے جاتے ہیں:1۔گزشتہ سال کا جائزہ لیجئے:سال 2022 کے موقع پر اپنی زندگی میں ایک سال کی کمی اور عملِ صالح کی قلت پر افسوس کرتے ہوئے گزشتہ سنِ عیسوی کا جائزہ لیجئے اور اپنا محاسبہ کیجئے کہ 2021 میں گناہوں سے بچنے میں کس حد تک کامیابی حاصل کی؟2021 کے آغاز پر کی گئی نیتوں پر استقامت رہی یا نہیں؟اپنے نیک عزائم اور اچھی نیتوں پر کتنے فیصد کامیابی حاصل ہوئی؟2۔نئے اہداف مقرر کیجئے:سالِ 2021 کا محاسبہ کرتے ہوئے سابقہ گناہوں سے گڑگڑاتے ہوئے توبہ کیجئے نیز نئے سال اچھی اچھی نیتیں کرتے ہوئے اپنے لئے نیک اہداف مثل نیک اعمال پر عمل، دینی مطالعہ، دینی کام وغیرہ مقرر کیجئے نیز ان میں سے ترجیحات متعین کیجئے کہ کون سا کام زیادہ ضروری ہے اور کس کام کو پہلے کرنا چاہئے؟ اس طرح آئندہ کے لئے لسٹ بناکر منصوبہ بندی فرمالیجئے اور بڑے اہداف کو چھوٹے چھوٹے مراحل و مقاصد میں تقسیم کیجئے کہ یہ منزل تک پہنچنے کےلئے بہت کارآمد ہے۔3۔وقت کی قدر:2022کو اپنے لئے غنیمت جانتے ہوئے اپنے اندر احساس پیدا کیجئے کہ اگر اس وقت کو ضائع کر دیا تو سوائے حسرت و ندامت کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔حضرت حسن بصری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اے آدمی! تُو ایّام ہی کا مجموعہ ہے ۔جب ایک روز گزر جائے تو سمجھ تیری زندگی کا ایک حصہ گزر گیا۔(طبقات کبرٰی للمناوی،1/259)4۔عزم و استقلال:اللہ پاک کی طرف سے دئیے گئے وقت کی قدر کرتے ہوئے اپنے نیک اہداف اور مقاصد پورے کرنے کےلئے وقتا فوقتا اپنا جائزہ لیجئے کہ اپنے مقاصد کو پورا کرنے میں کتنی کوشش رہی؟ کیا میں اب تک اپنے ارادوں پر قائم ہوں؟ یا ان سے کنارہ کشی کرلی؟ ان پر عمل درآمد نہ ہونے یا کمی آنے کی صورت میں پھر سے عزمِ مصمّم کرتے ہوئے اپنے اہداف کی تکمیل کے لئے کمر بستہ ہوجائیے اور دوبارہ سے اپنے نیک ارادوں کی تجدید کیجئے ان شاءاللہ اپنی نیک نیتوں پر ثابت قدمی کےلئے انتہائی مفید ثابت ہوگا۔5۔خود کو بدلئے: استقامت کےساتھ اپنے نیک مقاصد کو پورا کرتے ہوئے خود کو بدلنے کی بھرپور کوشش کیجئےکہ سالِ گزشتہ مجھ میں جن برائیوں کی عادت تھی ان سے نجات پاتے ہوئے اچھی عادات میں رضائے الٰہی کےلئے اضافہ کرنا ہے۔ان شاءاللہ۔اللہ پاک ہمیں 2022 اپنی رضا اور خوشنودی کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہِ النبی الکریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


محترم قارئینِ کرام! جب آپ سال کی منصوبہ بندی کرتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ وقت کی منصوبہ بندی کرتی ہیں، سال 2022 کیسے گزارنا ہے؟یہ جاننا اتنا اہم نہیں ہے، جتنا یہ جاننا اہم ہے کہ آج کا دن اور آنے والا لمحہ کیسے گزارنا ہے، تبھی رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی حدیثِ مبارکہ ہے:(آخرت کے معاملے میں) گھڑی بھر غوروفکر کرنا 60 سال کی عبادت سے بہتر ہے۔(جامع صغیرللسیوطی، ص 365،حدیث: 5897)جب لفظِ آخرت آتا ہے تو اس سے دینی اور دُنیاوی دونوں معاملات مراد ہوتے ہیں،لہٰذا حدیث ِ مبارکہ سے پتا یہ چلا کہ زیادہ اہم یہ ہے کہ آپ لمحۂ موجودہ کس طرح گزارتی ہیں، لہٰذا ایک لمحے کو بھی اچھا گزارنا سیکھیں اور آپ اچھا سال،دن یا لمحہ اس وقت گزار سکتی ہیں، جب آپ میں پہلے سے اچھا، نیا اور بہتر کر کے دکھانے کا جذبہ اور سوچ ہو، اس لئے کہا جاتا ہے:زندگی صدیوں، سالوں اور مہینوں میں نہیں بدلتی، بلکہ اس لمحے بدل جاتی ہے، جب آپ اسے بدلنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ لہٰذا سب سے پہلے تو یہ فیصلہ کریں کہ آنے والے لمحوں میں کیا کیا نہیں کرنا، اگر یہ معلوم ہو جائے کہ کن راستوں پر نہیں چلنا تو ان راستوں کی پہچان زیادہ آسان ہو جاتی ہے کہ جن پر چلنا ہوتا ہے۔اس لئے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:آدمی کے اسلام کی ایک خوبی بے مقصد کام کو چھوڑ دینا ہے۔ (اربعین نووی، حدیث: 12، ص 45)لہٰذا جو بھی planning (منصوبہ بندی) کریں، اس میں دین اور دنیا کا کوئی مقصد ضرور ہونا چاہئے۔ جیسا کہ خود کو اچھا انسان بنائیں، اپنی صحت، اخلاق پر بھرپور توجہ دیں، کئی گناہوں مثلاً جھوٹ،تکبر اور بُرے اخلاق یا نمازوں میں سستی ہو تو دور کرنے کی کوشش کریں،وہ اس طرح کہ ہر مہینے ایک بُری عادت کو لیجئے اور یہ نیت کر لیں کہ اس عادت کو مجھے خود سے نکالنا ہے۔ اسی طرح جو عادات اچھی ہوں مثلاًنفلی نمازیں، روزے، عاجزی، سلام و مصافحہ، شفقت اور برداشت کی عادت کو لیجئے اور پورا مہینا مسلسل اسے کرتی جائیں تو وہ عادت آپ کے مزاج کا حصّہ بنتی چلی جائیں گی، اسی طرح اپنے دنیاوی اور معاشرتی معاملات چاہے وہ خاندان سے ہو یا سہیلیوں سے،انہیں بہتر بنانے اور ان کی تربیت پر بھی توجّہ دیں۔ایک بات یاد رکھیں!جب بھی کوئی چیز plan کریں۔آغاز ہمیشہ چھوٹے سے یا تھوڑے سے کریں، مگر کریں مسلسل،تا کہ کامیابی بڑی ملے، کامیابی کی طرف اُٹھایا جانے والا پہلا قدم مشکل ہوتا ہے، مگر یہ یاد رکھیں! مشکل آسانی ضرور لاتی ہے۔آخر میں دعا ہے کہ اللہ پاک سال 2022 کو دینی اور دنیاوی دونوں لحاظ سے عافیت کے ساتھ گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔امین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


اللہ پاک نے انسان کا مقصدِ تخلیق قراٰنِ کریم میں کچھ یوں ارشاد فرمایا:﴿ وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶) ترجمۂ کنز الایمان: اور میں نے جن اور آدمی اتنے ہی (اسی لئے) بنائے کہ میری بندگی کریں۔ (پ27،الذّریت:56) لیکن افسوس!انسان دنیا میں آکر اپنی تخلیق کے مقصد کو بھول بیٹھا، ربِّ کریم کی عبادت سے غافل ہوگیا اور بھول گیا کہ اس کو ایک دن مرنا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ دنیاوی زندگی عارضی ہے، اس کی ہر چیز عارضی ہے۔ انسان نے اسی دنیا کو بہتر بنانا اپنا مقصدِ حیات سمجھ لیااور اپنے دن،رات، ماہ و سال مسلسل اس دنیا کو بہتر بنانے میں گزار دیئے۔ اپنے قیمتی وقت کو فضولیات میں برباد کر دیا۔یہ وقت اللہ پاک کی ایک بہت بڑی نعمت ہے مگر افسوس! انسان نے اس کی قدر نہیں کی اور اس کو غفلتوں میں گزار دیا۔ زندگی کے کتنے ہی سال، مہینے اور دن لاپرواہیوں اور گناہوں کی نذر ہو گئے۔ لیکن ابھی بھی وقت ہے، ابھی سانسیں چل رہی ہیں تو جو وقت گزر گیا اس پر غورکرتے ہوئے آنے والے وقت کو اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی رضا والے کاموں میں گزارنے کی نیت کرنی چاہئے۔ آئیے! نیت کرتے ہیں کہ آنے والا سال اللہ پاک کی عبادت اور نیکی کے کاموں میں گزاریں گے۔ان شاءاللہ

عبادتِ الٰہی: آج سے ہی سال 2022 ءکے اہداف طے کر لیتے ہیں کہ آنے والے سال میں بلا عذر شرعی ہماری کوئی نماز قضا نہیں ہو گی۔ فرائض و واجبات کا اہتمام کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ قضا نماز اور روزوں کی ادائیگی کریں گے۔ تلاوتِ قراٰن، ذکر و اذکار اور درودِ پاک میں اپنا وقت صرف کریں گے۔ اور اس سال بلکہ آنے والی زندگی کے ہر سال ہر دن بلکہ ہر لمحے کو رضائے الٰہی کے کاموں میں گزارنے کی کوشش کریں گے۔ حقوق العباد:سال 2022ءمیں ہم حقوقُ العباد کا خیال کریں گے۔ ہمارا یہ ہدف ہونا چاہئے کہ اگر ہم سے کسی کا حق تلف ہوا ہو تو اس کا حق ادا کریں گے اور معافی بھی مانگیں گے۔ والدین، رشتہ داروں اور ہمسایوں کے حقوق کا خیال کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کو پرامن بنانے کی کوشش کریں گے۔تعلیم و تَعَلُّم: تعلیم کو عام کریں گے اور اپنے ملک سے ناخواندگی کی شرح کو کم کرنے کی کوشش کریں گے۔ خود بھی علمِ دین سیکھیں گے اور دوسروں کو بھی سکھائیں گے۔ اچھی صحبت: انسان کو اچھی زندگی گزارنے کے لئے اہل ِ علم اور دانشور لوگوں کی صحبت کو اختیار کرنا چاہئے۔ وہ لوگ جو دین اور دنیا کا فہم و شعور رکھتے ہیں ان کی صحبت کو اختیار کرنے سے انسان کے علم اور عمل کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ اس لئے نیت کرتے ہیں کہ آنے والی زندگی میں نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں گے۔ صحبت بد سے دوری:وہ لوگ جو بُری صحبت اختیار کرتے ہیں وہ غلط نظریات اور غلط راستوں پر چل نکلتے ہیں۔ہمیں چاہئے کہ ہم بری صحبت سے بچیں۔آنے والے سال میں ہم یہ نیت کرتے ہیں کہ ایسوں کی صحبت سے بچیں گے جن سے عقائد و اعما ل میں خرابی پیدا ہوتی ہو۔لَغْوِیات اور حرام سے اجتناب:سال 2022ء کو لَغْوِیات اور حرام سے پاک گزاریں گے۔ بلکہ آنے والی پوری زندگی کےلئے نیت کریں کہ حرام اور فضول کاموں سے بچیں گے۔ ہر اس کام سے اجتناب کریں گے جو اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ناراضی کا سبب ہے۔ نبیِّ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن بندہ اس وقت تک اللہ پاک کی بارگاہ میں کھڑا رہے گا جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے۔ (1)اپنی زندگی کن کاموں میں گزاری؟(2) اپنے علم پر کتنا عمل کیا؟ (3) مال کیسے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اور (4) اپناجسم کن کاموں میں لگایا؟ (ترمذی،4/188، حدیث:2425) ان سوالوں کے جواب کے لئےہم میں سے ہر ایک کو اپنے احوال کا جائزہ لینا ہو گا اور پھر درستی کی طرف آنا ہو گا۔ اسی صورت میں ہم قیامت کے دن کی شرمندگی سے بچ سکیں گے۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمارا آنے والا سال بلکہ زندگی کا ہر لمحہ اس کی رضا کےمطابق گزرے اور اس کی دائمی رضا نصیب ہو جائے۔اٰمین بجاہِ النبی الکریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


اُخوت‘‘عربی زبان کا لفظ ہے جو’’اَخٌ‘‘ سے بنا ہے،اس کے معنیٰ’’بھائی چارہ،یگانگت اوربرادری‘‘کے ہیں۔اسلام میں تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، چاہے وہ کہیں بھی رہتے ہوں اور ان کا کسی بھی رنگ ونسل اور وطن سے تعلق ہو۔جو کلمہ طیبہ پڑھ کراسلام میں داخل ہو جاتا ہے وہ بحیثیت مسلمان ہمارا دینی بھائی ہے ۔اﷲ پاک نے اپنے پیارے حبیب،حضرت محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ذریعے مسلمانوں کے درمیان ایک پائیدار اور مستحکم رشتہ قائم کیا ہے۔اس رشتے کی عظمت وفضیلت،اِفادیت و اہمیت کے حوالے سے قرآنِ مجیدکی کئی آیاتِ مقدسہ اور رسول اﷲصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی بے شمار احادیث مبارکہ موجود ہیں۔قرآنِ مجید میں ارشادِ باری ہے :اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوۡنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوۡا بَیۡنَ اَخَوَیۡکُمْ ۚوَ اتَّقُوا اللہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوۡنَ 0٪ (پ26،الحجرات:10 )ترجمۂ کنزالایمان : مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔ اﷲ پاک نے اس آیتِ مبارکہ میں تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے۔حضور رحمتِ دوعالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اہلِ ایمان کے درمیان’’رشتۂ اُخوت‘‘ قائم کیا ۔یہ اتنا مضبوط اور پائیدار رشتہ ہے کہ اسے دنیا کی کوئی طاقت ختم نہیں کر سکی اور نہ کرسکے گی کیونکہ اس عظیم رشتے کی بنیاداسلام اوراﷲ ورسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی محبت پر قائم ہے۔حدیثِ پاک میں فرمایا گیا:تم اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔یہاں کامل مومن ہونے کی نفی ہے۔واقعی کامل مومن اپنے مسلمان بھائیوں سے محبت کرنے والا ہوتاہے،کیونکہ اسلام نے مسلمانوں کو اُلفت ومحبت کا درس دیا ہے۔حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے مروی ہے،حضور نبیِ پاک،صاحبِ لولاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشادفرمایا:’’اس ذات کی قسم جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے!تم جنت میں داخل نہ ہوگے جب تک ایمان نہ لاؤ اور تم مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپس میں محبت نہ کرو اور کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جسے بجا لاؤ توآپس میں محبت پیدا ہوجائے ؟اپنے درمیان سلام کو عام کرو ۔حضرت فضیل بن عیاض رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:’’انسان کا محبت ومہربانی کے ساتھ اپنے مسلمان بھائی کے چہرے کی طرف دیکھنا بھی عبادت ہے ۔ اُخوت و بھائی چارہ مسلمانوں کے درمیان وہ عظیم رشتہ ہے جس کی بدولت مسلمان جہاں کہیں بھی بستے ہوں وہ اپنے آپ کو ایک معاشرے کا حصہ سمجھتے ہیں۔اُخوت سے باہمی اختلافات اور تنازعات کو ختم کیا جاتا ہے ۔ اُخوت و بھائی چارے سے مسلمان ایک دوسرے کی مدد اور خدمت کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں،جس سے معاشرتی زندگی کو استحکام ملتا ہے اورمعاشرے میں ایک اچھی اور عمدہ فضا قائم ہوتی ہے ،نیز نیکیوں کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔اُخوت و بھائی چارے سے مسلمانوں میں اتحاد ویکجہتی پیدا ہوتی ہے ، جس سے مسلمانوں کی قوت میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے اورمسلمانوں کی یہ قوت دیکھ کرکفار کے دلوں پر رعب و دہشت طاری ہو جاتی ہے۔ اُخوت وبھائی چارے کی بنیادپر جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی مالی مدد کرتا ہے تو اسلامی معاشرے میں مالی استحکام پیدا ہوتا ہے اور معاشرے میں امن وسکون اور جذبۂ ہمدردی پیدا ہوتی ہے ۔ اُخوت و بھائی چارے کی فضا میں معاشرے کے سب افراد ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔دوسروں کا دُکھ درد محسوس کرتے ہیں۔مصیبت و آزمائش کے موقع پرایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ غم وخوشی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔


درود شریف کی فضیلت:سرکارِ  نامدار، مدینے کے تاجدار، حبیبِ پروردگار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشادِ نور بار ہے:تم اپنی مجلسوں کو مجھ پر درودِ پاک پڑھ کر آراستہ کرو، کیونکہ تمہارا درودِ پاک پڑھنا بروزِ قیامت تمہارے لئے نور ہوگا۔

اُخوت سے مراد بھائی چارہ ہے۔قرآنِ پاک کے الفاظ اِنَّمَا الْمُوْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ۔ترجمۂ کنز الایمان:مسلمان بھائی بھائی ہیں۔(پ 26، الحجرات : 10) میں اُخوتِ اسلامی معاشرے کا ایک اہم پہلو ہے، آپس میں بھائی بھائی ہونے کی حیثیت سے تمام مسلمان ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ اور خوشی و غم میں شریک ہوتے ہیں، اُخوت و بھائی چارے کا احساس، محبت و الفت، باہمی تعاون، بے لوث خدمت اور قربانی کے جذبات کو اُبھارتا ہے اور فروغ دیتا ہے، اس طرح معاشرہ تمام لوگوں کے لئے پُرامن اور پُر آسائش بن جاتا ہے۔ اُخوت و بھائی چارےکی فضا میں معاشرے کے سب افراد ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، ایک دوسرے کے دُکھ دَرد محسوس کرتے ہیں، مصیبت کے وقت ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں،غم و خوشی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں،اسلامی معاشرےو بھائی چارگی کی بنیاد اللہ پاک کے اس فرمان پر ہے:وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۔ ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ کی رسی مضبوط تھام لو سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا(فرقوں میں بٹ نہ جانا)۔4، الِ عمران: 103)مسلمان چونکہ آپس میں بھائی بھائی ہیں، اس لئے کہا گیا ہے:اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ اپنے بھائیوں کے حقوق کا بھی خیال رکھیں،اس لئے ہمیں اپنی زبان سے کسی مسلمان کو کوئی ایذا نہیں پہنچانی چاہئے۔ اگر ہم کسی کو جھگڑتے ہوئے دیکھیں تو ہمیں اُخوت و بھائی چارگی کو مدِّنظر رکھتے ہوئے ان میں صلح کرا دینی چاہئے اور بھائی چارگی کا حق ادا کرنا چاہئے۔اُخوت و بھائی چارگی کی سب سے بڑی مثال ہمیں حج کے موقع پر مکے شریف میں دیکھنے کو ملتی ہے،جہاں دنیا بھر سے لاکھوں کروڑوں مسلمان فریضۂ حج ادا کرنے آتے ہیں اور سب ایک ہی وقت میں ایک ہی طرح کی عبادات انجام دیتے ہیں۔ہمارے پیارے نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:”تم سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہو۔“اُخوتِ اسلامی اللہ پاک کی مہربانی ہے۔اُمّتِ مسلمہ سے تعلق رکھنے والے تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور تمام مسلمان ایک دوسرے کے سگے بھائیوں کی طرح ہیں۔جس طرح ایک مسلمان یا ایک بھائی دوسرے بھائی کے کام آتا ہے، اسی طرح تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کرنا چاہئے کہ اس طرح کرنے سے غریب و محتاج اور مسلمان کی مالی اِمداد ہوتی ہے اور معاشرے میں ایک پُرسکون خوشگوار فضا قائم ہوتی ہے۔رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے باہمی تعلق کو کہیں بھائی کہہ کر بیان فرمایا تو کہیں جسمِ واحد قرار دیا اور کہیں مضبوط دیوار کی مانند قرار دیا، جس کی ایک اینٹ دوسرے کی تقویت کا باعث بنتی ہے۔


زندگی ایک کمزور ڈور کی مانند ہے جو کسی بھی وقت ٹوٹ سکتی ہے۔لہٰذا جو مختصر گھڑیاں ہمیں نصیب ہیں ہم کوشش کریں کہ انہیں اپنے پیاروں کے ساتھ اس شاندار انداز میں استعمال کریں کہ ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں۔اسلام ایک پسندیدہ دین اور راہِ عمل ہے جو تمام شعبہ ہائے زندگی پر محیط ہے۔یہ ہر معاملے میں انسان کی راہ نمائی کرتا ہے اور دین و دنیا دونوں کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ایمان،طاقت،تقویٰ، احسان،اتحاد،اتفاق، عفو و درگزر اور اُخوت و بھائی چارہ ایسی قدریں ہیں جن کو قرآنِ کریم میں اسلام کہا گیا ہے جو اجتماعی زندگی کے ہر گوشے کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔اسلامی اُخوت اور بھائی چارے کا سلسلہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے قائم فرمایا جس کی وجہ سے مسلمان ایک مضبوط رشتے میں منسلک ہوگئے اور اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دینے لگے۔اُخوت و بھائی چارے کی اہمیت اور اس کے تقاضوں کو حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے ارشادات میں بیان فرمایا ہے جس سے اس کی پوری روح سمجھ آ سکتی ہے۔ حضورِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر فرمایا:ا ے لوگو! میری بات سنو اور اچھی طرح جان لو!ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔وہ اس سے خیانت نہیں کرتا،اس سے جھوٹ نہیں بولتا اور نہ تکلیف کے وقت اسے تنہا چھوڑتا ہے۔ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی آبرو،مال اور خون حرام ہے۔(ترمذی)اُخوت،محبت اور بھائی چارے کے جذبے سے قرونِ اُولیٰ کے مسلمان سرشار ہوئے اور حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوئے۔اُخوت اور بھائی چارے کی بنیاد اس امر پر قائم ہوتی ہے کہ انسان ایسی اعلیٰ اقدار پر ایمان رکھتا ہو جو اسے دوسرے انسان کے ساتھ حسنِ سلوک پر آمادہ کرے۔ایسی اعلیٰ اقدار صرف دینِ اسلام میں ہی ملتی ہیں۔اسلام میں اُخوت و بھائی چارے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:کوئی بندہ اس وقت تک پورا مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔(بخاری و مسلم)ایمان کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آدمی جس بات کو اپنے لیے برا سمجھتا ہے دوسرے کے لیے بھی برا سمجھے۔کیونکہ خودغرضی ایمان کی شایانِ شان نہیں ہے۔کامل مومن وہی ہے جو خودغرضی کے جراثیم سے پاک ہو اور دوسرے مسلمان بھائیوں کا ہر طرح سے خیرخواہ ہو۔ چنانچہ ہر مسلمان کو دیکھ لینا چاہیے کہ وہ کسی دوسرے مسلمان سے بحیثیت اس کے مسلمان ہونے کے کس قدر اُخوت کا مظاہرہ کرتا ہے۔حضرت جریر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ عنہ کہتے ہیں: آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھ سے تین باتوں پر بیعت لی تھی:ایک یہ کہ نماز قائم کروں گا، دوسری یہ کہ زکوٰۃ دیتا رہوں گااور تیسری یہ کہ ہر مسلمان کا خیرخواہ رہوں گا۔ (بخاری کتاب الایمان) قرآنِ کریم میں اُخوت و بھائی چارے کی اہمیت کچھ اس طرح بیان کی گئی ہے:ارشادِ باری ہے: (پ26،الحجرات:10 )ترجمۂ کنزالایمان :مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔یہ آیت ِکریمہ دنیا کے تمام مسلمانوں میں ایک عالمگیر برادری قائم کرتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اللہ اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بتائے ہوئے راستوں پر چل کر زیادہ سے زیادہ محبت،پیار،اتحاد،اتفاق اور اُخوت و بھائی چارے کی فضا قائم کریں۔آئیے!ہم سب مل کر عہد کریں کہ فروعی اور نزاعی اختلافات ختم کر کے بھائی چارے کی فضا قائم کریں گی۔اللہ پاک کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر ایک ہو جائیں گی۔


اخوت: عربی زبان کا لفظ ہے، جو اَخٌ سے ماخوذ ( نکلا) ہے، اس کے معنی ہیں:بھائی، اُخوت کا معنیٰ ہے: باہمی بھائی چارہ، بھائی بندی اور برادری ۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان ایک دوسرے کے لئے حقیقی بھائیوں جیسے پاکیزہ جذبات ہوں، محبت، بھائی چارہ ہو، ایک دوسرے کے غم گسار، مددگار اور دُکھ درد بانٹنے والے ہوں، اسلامی تعلیمات کی رُو سے کلمہ طیبہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اُخوت کی بنیاد اور تمام مسلمانوں کے درمیان مشترک اکائی ہے۔یہ کلمہ اُخوت کی روح اور تمام اسلامی تعلیمات کا محور ہے، جب کوئی شخص کلمہ طیبہ پڑھتا ہے تو وہ اسلامی اُخوت اور برادری کا ایک رُکن بن جاتا ہے۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تمام مومنوں کو باہمی اُخوت و محبت میں ایک جسم کی مانند قراردیا کہ جسم کا اگر کوئی حصّہ تکلیف میں ہو تو اس کی وجہ سے سارا جسم بے قرار اور بے چین ہوجاتا ہے ۔اُخوت کی اہمیت:بہت سی قومیں اور مذاہب اپنے درمیان اُخوت کے دعویدار ہیں، مگر ان کی اُخوت کا معیار مادی وخونی رشتے اور مال و دولت ہیں۔ وہاں روحانی مضبوطی اور اخلاقی اقدار مفقود ہیں، مگر اسلام نے اپنی تعلیمات اور رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اُسوۂ حسنہ کی شکل میں مسلمانوں میں ایک ایسی اُخوت قائم کی ہے،جو خونی اور مادی رشتوں سے مضبوط ترین ہے،اس کی جڑیں روحانی و اخلاقی اقدار سے منسلک ہونے کی وجہ سے گہرا اور مضبوط ہیں۔اس اُخوت میں مادی و خونی رشتوں اور مال و دولت کے اَثرات کو بنیاد نہیں بنایا گیا، بلکہ خدا خوفی، توحید اور اطاعتِ رسول ہے۔رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے عرب کے لوگوں سے ربط،لڑائی جھگڑے، غیرمہذب بکھری ہوئی قوم کو رشتۂ اُخوت میں منسلک کرکے اُخوت و ایثار کی عملی اور علمی تعلیم کے بندھن سے مضبوط کر کے ایک عظیم متحدہ قوم بنایا کہ جس کی عظمت، باہمی اُخوت اور اتحاد کے چرچے عالَم میں پھیل گئے، جس کا نام سنتے ہی اہلِ روم و ایران لرز جاتے تھے، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ان کی ایسی تربیت فرمائی کہ آپس میں لڑنے جھگڑنے والی قوم مُعَلّمِ اُخوت و اتحاد بن گئی،باہمی اُخوت و صحبت کی وجہ سے تھوڑے عرصے میں اس وقت کی سب سے بڑی مہذب اور منظم سلطنت قائم ہوگئی۔اس کے حوالےسے قرآنِ کریم میں کئی آیات ہیں اور حدیثِ مبارکہ ہیں، چنانچہ قرآن ِپاک میں ہے:ترجمۂ کنزالایمان:اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ پیدا کردیا پس اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے ۔اُخوتِ اسلامی اور ارشاداتِ رسول: رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے متعدد ارشادات میں اُخوتِ اسلامی کی اہمیت، افادیت اور عظمت کو اُجاگر کیا ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے: رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس کے معاملے میں خیانت نہیں کرتا، دانستہ(جان بوجھ) کر اس کو کوئی جھوٹی اطلاع نہیں دیتا اور نہ ہی اس کو رُسوا کرتا ہے، ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر سب کچھ حرام ہے، اس کا خون (جان) اس کا مال اور اس کی عزت و آبرو۔ ایک اور حدیث میں ہے، حضرت انس رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے:تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی چیز پسند نہ کرے، جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔حوالہ جات:( الِ عمران، ابن ماجہ، مسند امام احمد، بخاری، ترمذی، ابن ماجہ، مشکوٰۃ المصابیح)


اُخوت کا معنی  ہے:بھائی چارہ/احساس۔ یہ لفظ سننے میں ہی اس قدر اطمینان بخش اور مخلص ہے کہ انسان نااُمیدی میں بھی بے پناہ طاقت حاصل کر لیتا ہے۔ ہمارا دین بھی ہمیں اُخوت و بھائی چارے کا درس دیتا ہے۔انصارِ مدینہ نے تو اس کا عملی نمونہ بھی دکھا دیا،چنانچہ ہجرت کر کے آئے مہاجرینِ مکہ کو نہ صرف مدینے میں گرم جوشی سے خوش آمدید کہا ، بلکہ اپنے گھر، سامان، مویشی، یہاں تک کہ اپنی جائیدادیں تک بانٹ لیں۔ اسی موقع پر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ایک حدیث ہے :ایک مومن دوسرے کے لئے دیوار کی مانند ہے کہ ہر اینٹ دوسری اینٹ کو تقویت دیتی ہے۔قرآن ِپاک میں اللہ کریم نے فرمایا: ترجمۂ کنزالایمان :مسلمان مسلمان بھائی ہیں ۔ (پ26،الحجرات:10 )اگر ہم معاشرے میں اُخوت اور بھائی کی چارے کی اہمیت اور ضرورت کو دیکھیں تو کسی طور پر بھی اسے پسِ پُشت نہیں ڈالا جاسکتا، آج تک دنیا میں وہی قومیں اور معاشرے کامیاب ہوئے ہیں،جنہوں نے صراطِ مستقیم پر چلتے ہوئے اُخوت و بھائی چارے کو اپنایا اور ایسا کرنے سے کسی قوم کے مہذب ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔آج اگر ہم دنیا میں دن بدن پھیلتی ہوئی بے چینی اور اَفراتفری کی فضا کو دیکھتی ہیں تو اس کی وجہ بھی برداشت اور قوت کی کمی ہے۔ہر انسان دوسرے سے اعلیٰ اور افضل مقام حاصل کرنے کے چکروں میں ہے، پھر چاہے اس کے لئے اُسے دوسروں کی عزت، احساسات اور اور اَقدار کو کچلنا ہی کیوں نہ پڑے، یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا کے مسلمان بے چینی اور اِنتشار کا شکار ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنے اَسلاف کی روایات کو بُھلا کر محض دنیاوی مفاد اور طاقت کو اپنا شعار بنا لیا ہے، اکثر و بیشتر ہم اپنے اِردگرد مختلف آزمائشوں اور آسمانی آفتوں کے بارے میں سنتی ہیں، لیکن کیاکسی نے اس کے محرکات پر غور کیا ؟یہ زلزلے، طوفان، بارشیں، قحط، سیلاب کیوں آتے ہیں؟ وجہ مذہب اسلام، اللہ پاک کے احکامات سے رُوگردانی۔ جب ہم احساس کرنا چھوڑ دیں گی تو ہمیں کامیابی نہیں مل سکتی، کیونکہ ارشادِ ربّانی ہے:تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ رحم کی پہلی سیڑھی احساس یعنی اُخوت اور بھائی چارہ ہے، اگر میں سمندر کو کوزے میں قید کروں تو فقط اتنا ہی کہوں گی کہ اگر عالمِ دنیا میں مسلمانوں کو ایک قوم،ایک معاشرے ، ایک سوچ یا نظریے نے کامیاب یا سُرخُرو ہونا ہے تو انہیں کسی موتیوں کی پروئی ہوئی مالا کی مانند بننا ہوگا، دو جسم ہوں یا سو لیکن ایک جان ہونا ہوگا، اُخوت کو اپنا شعار بنانا ہوگا، تبھی کوئی معاشرہ، قوم، ملک، سوچ یا نظریہ فخر سے سَر اُٹھا کر کامیاب اور حاکمیت والی زندگی گزار سکتا ہے۔


پیار و محبت، اُخوت و بھائی چارہ یہ اچھے اخلاق کا پھل و نتیجہ ہیں اور اختلاف و دشمنی یہ بُرے اخلاق کا نتیجہ ہیں۔اچھے اخلاق کی وجہ سے آپس میں محبت و اُلفت اور بھائی چارہ قائم ہوتا ہے،جبکہ بُرے اخلاق آپس میں بغض و حسد اور جدائی پیدا کرتے ہیں، کیونکہ پھل اسی وقت اچھا نکلتا ہے،جب درخت اچھا ہو۔اللہ پاک کو راضی و خوش کرنے کے لئے کسی سے محبت کرنا اور دین کی خاطر بھائی چارہ قائم کرنا افضل ترین نیکی اور اچھی عادت ہے،اُخوت و بھائی چارہ اللہ پاک کی عظیم نعمت ہے اور اس کا قرآنِ پاک میں یوں اظہار فرمایا گیا ہے:ترجمۂ کنزالایمان: اور ان کے دلوں میں میل کردیا اگر تم زمین میں جو کچھ ہے سب خرچ کردیتے ان کے دل نہ ملا سکتے لیکن اللہ نے ان کے دل ملادئیے۔ (پ10،الانفال:63)بھائی چارے کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ درجہ ذیل دو احادیثِ مبارکہ سے بھی کیا جاسکتا ہے:1۔جو شخص اللہ پاک کی رضا کے لئے کسی کو اپنا بھائی بنائے تو اللہ پاک اسے جنت میں بلند درجہ عطا فرمائے گا،جس تک وہ اپنے کسی عمل کی بدولت نہیں پہنچ سکتا۔ (مسند الشامیین للطبرانی، 105/1، حدیث 157)2۔حضرت ابو ادریس خولانی رحمۃُ اللہِ علیہ نے حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ عنہ سے عرض کی:میں اللہ پاک کی رضا کے لئے آپ سے محبت کرتا ہوں، حضرت معاذ رَضِیَ اللہُ عنہ نے فرمایا:تمہیں مبارک ہو،میں نے رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا:قیامت کے دن بعض لوگوں کے لئے عرش کے گرد کرسیاں نصب کی جائیں گی،ان کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح چمک دار ہوں گے،لوگ گھبراہٹ کا شکار ہوں گے،جبکہ انہیں کوئی گھبراہٹ نہ ہوگی،لوگ خوفزدہ ہوں گے،انہیں کوئی خوف نہ ہوگا،وہ اللہ پاک کے دوست ہیں،جن پر نہ کوئی اندیشہ ہے نہ کچھ غم۔عرض کی گئی:یارسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم!یہ کون لوگ ہیں؟ ارشاد فرمایا: اللہ پاک کی رضا کے لئے آپس میں محبت کرنے والے۔(قوت القلوب ، 364/2)

اے میری اسلامی بہنو! آج ہمارے معاشرے میں بھائی چارے کا شدید فقدان ہے،کسی اور کو بھائی بنانا تو دور کی بات، آج کل تو سگے بھائیوں میں جدائیاں ہیں،ہمیں چاہئے کہ ہم معافی تلافی کرکے آپس میں بھائی چارہ قائم کریں،تاکہ معاشرہ خوبصورت اور پُر امن ہوسکے۔ہمارے درمیان کیسا اُخوت کا رشتہ ہونا چاہئے، اس بات کی کئی مثالیں اَسلاف کی سیرتوں میں ملتی ہیں، چنانچہ دو دیہی بھائیوں کی حکایت ہے:ان میں سے ایک کی حالت تبدیل ہوگئی تو کسی نے ان کے دوسرے بھائی سے کہا:آپ اس سے قطع تعلقی کرکے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟اس نے جواباً کہا: اس کے ہلاکت میں پڑجانے کی وجہ سے،اس وقت اس کو میری زیادہ ضرورت ہے کہ میں اس کا ہاتھ تھاموں اور نرمی سے اس پر عتاب کرکے اس کے لئے پہلی حالت پر لوٹ آنے کی دعا کروں۔(احیاء العلوم،2/ 667) اللہ پاک مسلمانوں کو نیک اور ایک بنادے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم