دین ِاسلا م وہ عظیم دین ہے جس میں اُخوت و بھائی چارے کو خاص اہمیت دی گئی ہےحتی کہ قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر اسلامی اُخوت و بھائی چارے کی اہمیت کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے،چنانچہ ارشادِ باری ہے:وَاعْتَصِمُوۡا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا ۪4، الِ عمران: 103)ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ کی رسی مضبوط تھام لو سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا (فرقوں میں نہ بٹ جانا)اور فرمایا:اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوۡنَ اِخْوَۃٌ (پ 26، الحجرات 10)ترجمۂ کنز الایمان: مسلمان مسلمان بھائی ہیں۔ارشاد فرمایا :مسلمان توآپس میں بھائی بھائی ہی ہیں کیونکہ یہ آپس میں دینی تعلق اوراسلامی محبت کے ساتھ مربوط ہیں اوریہ رشتہ تمام دنیوی رشتوں سے مضبوط تر ہے۔(تفسیر صراط الجنان، الحجرات، تحت الآیۃ: 10)اُخوت و بھائی چارے کی اہمیت کا مزید اندازہ ان احادیثِ کریمہ سے لگائیے:( 1 )حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے۔( مسلم، ص 1396 ،حدیث: 65(2585) ) ( 2 ) حضر ت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’سارے مسلمان ایک شخص کی طرح ہیں،جب اس کی آنکھ میں تکلیف ہوگی توسارے جسم میں تکلیف ہوگی اور اگراس کے سرمیں دردہوتوسارے جسم میں دردہوگا۔(مسلم،ص 1396،حدیث: 67(2586) ) ( 3 ) حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’مسلمان،مسلمان کا بھائی ہے وہ اس پرظلم کرے نہ اس کورُسواکرے، جوشخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں مشغول رہتاہے اللہ پاک اس کی ضرورت پوری کرتاہے اورجوشخص کسی مسلمان سے مصیبت کودورکرتاہے تو اللہ پاک قیامت کے دن اس کے مَصائب میں سے کوئی مصیبت دُورفرمادے گااورجوشخص کسی مسلمان کاپردہ رکھتاہے قیامت کے دن اللہ پاک اس کاپردہ رکھے گا۔( بخاری، 2 / 126 ، حدیث:2442 )معلوم ہوا!مسلمانوں میں باہمی اُخوت و بھائی چارہ شرعاً مطلوب ہے۔شریعتِ مطہرہ میں والدین،گھر والوں،رشتے داروں،دوستوں،پڑوسیوں،نوکروں اور عام مسلمانوں کے حقوق کے ضمن میں ایسے بےشمار احکام بیان کیے گئے ہیں،جن سے مسلمانوں میں اُخوت و بھائی چارے کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ مثلاً• مسلمان سے ملنے پر سلام کرنا• وہ دعوت دے تو قبول کرنا• چھینکے تو چھینک کا جواب دینا• بیمار ہوجائے تو عیادت کرنا• فوت ہوجائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرنا• نصیحت کا طالب ہو تو اسے نصیحت کرنا• اس کی غیر موجودگی میں اس کے اہل و مال کی حفاظت کرنا• جو اپنے لئے پسند ہو، وہی اس کیلئے پسند کرنا اور جو اپنے لئے ناپسند ہو، وہ اس کیلئے بھی ناپسند کرنا۔(احیاء العلوم ،جلد 2)اللہ کریم مسلمانوں کو اُخوت و بھائی چارے کی اہمیت سمجھنے اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ ِخاتمِ النبیین صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم


اُلفت و بھائی چارے کی فضیلت:جان لیجئے !اُلفت حسنِ اخلاق کا نتیجہ ہے اور اختلاف بداخلاقی کا نتیجہ ہے۔اچھے اخلاق کے سبب باہم اُلفت و محبت اور موافقت پیدا ہوتی ہے،جبکہ بد اخلاقی آپس میں بغض و حسد اور جدائی پیدا کرتی ہے،کیوں کہ پھل اس وقت اچھا نکلتا ہے، جب درخت اچھا ہو۔حسنِ اخلاق کی فضیلت دین میں پوشیدہ نہیں، اس کے سبب اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مدح فرمائی ہے، چنانچہ ارشادِ باری ہے:وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔ترجمۂ کنزالایمان:اور بےشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔( پ 29، القلم: 4)حسنِ اخلاق کی فضیلت پر مشتمل آیاتِ مبارکہ اور احادیثِ مبارکہ: ترجمۂ کنزالایمان:اگر تم زمین میں جو کچھ ہے سب خرچ کر دیتے، ان کے دل نہ ملا سکتے، لیکن اللہ نے ان کے دل ملا دیئے۔( پ 10، الانفال: 43)فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اَکْثَرُ مَا یَدْخِلُ النَّاسَ الْجَنَّۃَ تَقْوَی اللّٰہِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ۔جو چیز جنت میں سب زیادہ لوگوں کو داخل کرے گی ،وہ خوفِ خدا اور حسنِ اخلاق ہے۔

مجھے حسنِ اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے۔قابلِ رشک لوگ:حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے مروی حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ عرش کے گرد نور کے منبر ہوں گے، ان پر موجود لوگوں کے لباس اور چہرے نورانی ہوں گے،نہ تو وہ انبیا ہوں گے اور نہ شہدا، لیکن ان پر انبیا اور شہدا رشک کریں گے، صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم نےعرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم !ان کی صفات بیان فرما دیجیئے۔ ارشاد فرمایا:یہ وہ لوگ ہیں، جو اللہ پاک کی رضا کے لئے آپس میں محبت کرتے ہیں، اس کی رضا کی خاطر ساتھ بیٹھتے ہیں اور اسی کی رضا کے لئے ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔جب دو شخض اللہ پاک کی رضا کے لئے آپس میں محبت کرتے ہیں، اللہ پاک کو ان میں سے محبوب وہ ہوتا ہے، جو اپنے دوست سے زیادہ محبت کرتا ہے۔جب کوئی شخص اللہ پاک کی رضا کی خاطر دوسرے شخص سے شوق و محبت سے ملاقات کرتا ہے تو ایک فرشتہ اسے ندا دیتا ہے: تو پاک ہے،تیرا چلنا پاک ہے اور تیرے لئے پاک جنت ہے۔ رضائے الہٰی کے لئے بھائی چارہ قائم کرنے کی فضیلت پر اقوالِ بزرگانِ دین:1۔حضرت ابنِ سماک رحمۃُ اللہِ علیہ نے وفات کے وقت فرمایا:اےاللہ پاک تو جانتا ہے، اگر چہ میں تیری نافرمانی کیا کرتا تھا، لیکن تیرے فرماں برداروں سے محبت کرتا تھا، میرے اسی عمل کے سبب مجھے اپنا قُرب عطا فرما دے۔2۔حضرت حسن بصری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:فاسق سے قطع تعلق کرنا قُربِ خداوندی کا زریعہ ہے۔3۔حضرت عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں:جب تم سے کوئی مسلمان بھائی محبت کرے تو اسے نہ کھونا کہ ایسے دوست بہت کم ملتے ہیں۔4۔حضرت فضل بن عیاض رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:انسان کا محبت و مہربانی کے ساتھ اپنے مسلمان بھائی کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔5۔حضرت مجاہد رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا:اللہ پاک کی رضا کی خاطر آپس میں محبت کرنے والے جب ملتے ہیں اور ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتے ہیں تو ان کی خطائیں ایسے مٹتی ہیں،جیسے سردیوں میں درختوں کے خشک پتے جھڑ جاتے ہیں۔


اسلام میں اُخوت و بھائی چارے کی بڑی اہمیت ہے،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ پاک خود قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:1۔ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ کااحسان اپنے اوپریاد کرو جب تم میں بیر تھا(دشمنی تھی) اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ کردیا تو اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی ہوگئے ۔(پ4، الِ عمران : 103)ترجمۂ کنز الایمان:مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صُلْح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رَحمت ہو۔( پ26، الحجرات:10)نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اُخوتِ اسلامیہ اور اس کے حقوق کے بارے میں ارشاد فرمایا:مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اس پر خود ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بےیار و مددگار چھوڑتا ہے اور نہ اسے حقیر جانتا ہے، پھر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے قلبِ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار یہ الفاظ ارشاد فرمائے:تقویٰ کی جگہ یہ ہے، کسی شخص کے برا ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے، ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے۔(مسلم، 2/ 317)نبی ِکریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل ایمان والا نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اپنے بھائی کیلئے وہی پسند نہ کرے، جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔( بخاری، 1/ حدیث: 13)گویا کہ اُخوت و محبت کی بنیاد ایمان اور اسلام ہے یعنی سب کا ایک ربّ، ایک رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم، ایک کتاب، ایک قبلہ اور ایک دین ، دینِ اسلام ہے۔اسلام ایک عالمی دین ہے اور اس کے ماننے والے عربی ہوں یا عجمی، گورے ہوں یا کالے،کسی قوم یا قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں،مختلف زبانیں بولنے والے ہوں، سب بھائی بھائی ہیں اور ان کی اس اُخوت کی بنیاد ہی ایمانی رشتہ ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جتنی اُخوت کی بنیادیں ہیں، سب کمزور ہیں اور ان کا دائرہ نہایت محدود ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں جب بھی ان بنیادوں کا آپس میں تقابل ہوا، تو اُخوتِ اسلامیہ کی بنیاد ہمیشہ غالب رہی،آج بھی مشرق و مغرب اور دنیا کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے مسلمان جب حج میں حرمینِ شریفین میں جمع ہوتے ہیں تو ایک دوسرے سے اس گرم جوشی سے ملتے ہیں، جیسے برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔

اُمت میں اُخوتِ اسلامی پیدا کرنے کیلئے محبت، اخلاص، وحدت اور خیرخواہی جیسی صفات لازمی ہیں، جو اللہ پاک کے ہاں بڑی نعمت شمار ہوتی ہیں۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اُخوت و بھائی چارے کی اہمیت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے مسلمان بھائی کے حقوق ادا کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہِ النبی الکریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


اسلام میں اُخوت و بھائی چارےکی  بہت اہمیت ہے، اُخوت دو آدمیوں کے درمیان رابطہ ہوتا ہے،جیسے پیارے آقا، اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان پاک ہے:الارواح جنود مجندۃ فما تعارف منھا ائتلف وماتناکر منھا اختلف۔ ترجمہ: ارواح ایک مجتمع لشکر تھیں،ان میں جنہوں نے ایک دوسرے کو پہچانا، وہ آپس میں محبت کرنے لگیں اور جنہوں نے ایک دوسرے کو نہ پہچانا، وہ الگ الگ ہو گئیں۔(مسلم، حدیث 1137)ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں اور اس سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ صحابہ کس طرح آپس میں بھائی چارے کا مظاہرہ کیا کرتے تھے، ہجرت کے پہلے سال مہاجرین صحابہ جو انتہائی بے سرو سامانی کی حالت میں اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مدینے آ گئے تھے، وہ اپنے اہل و عیال کی جدائی کا صدمہ محسوس کرتے تھے، پھر اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے انصارو مہاجرین کو بھائی بھائی بنا کر ان میں رشتہ اُخوت (بھائی چارہ)قائم فرما دیا، تا کہ مہاجرین کے دلوں کو راحت نصیب ہو اور ان کے ذریعے معاش کا مسئلہ بھی حل ہو جائے۔چنانچہ مسجدِ نبوی کی تعمیر کے بعد ایک دن حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ عنہ کے مکان میں انصار و مہاجرین کو جمع فرمایا، اس وقت تک مہاجرین کی تعداد پینتالیس یا پچاس تھی، آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے انصار کو مخاطب کر کے فرمایا :یہ مہاجرین تمہارے بھائی ہیں، پھر مہاجرین و انصار سے دو دو اَشخاص کو بلا کر فرماتے گئے:یہ اور تم بھائی بھائی ہو۔ پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:یہ رشتہ حقیقی بھائی جیسا رشتہ بن گیا۔چنانچہ انصار نے مہاجر صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم کو ساتھ لے جا کر اپنے گھر کی ایک ایک چیز سامنے لا کر رکھ دی اور کہہ دیا:آپ ہمارے بھائی ہیں، اس لئے سب سامانوں میں آدھا آپ کا آدھا ہمارا ہے۔ اللہ ُاکبر!صحابہ کا جذبہ تو دیکھئے۔ایک دن حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ نے اپنے شہزادے حضرت حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ سے استفسار فرمایا:بھائی چارہ کیا ہے؟عرض کی:خوشحالی اور مصیبت میں ایک دوسرے کی غمگساری کرنا۔ ذرا سوچئے! آج کے دور میں بھائی چارے کی کس قدر ضرورت ہے!اگر ہم اس میں غفلت برتیں گی تو ہمارے معاشرے کا نقشہ ہی بدل جائے گا۔ہمیں چاہئے کہ ہم مسلمانوں کے کام آئیں، اس کے مختلف طریقے ہیں،جیسے کسی کا قرض ادا کرنا وغیرہ،کسی کی پریشانی دور کر دینا،اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:میری خاطر آپس میں محبت کرنے والے،میری محبت کے مستحق ہو گئے،میری رضا کی خاطر آپس میں ملاقات کرنے والے میری محبت کے مستحق ہوگئےاور میری رضا کی خاطر ایک دوسرے کو نصیحت کرنے والے میری محبت کے مستحق ہو گئے۔(اللہ والوں کی باتیں، 2/210)


اسلام میں اُخوت و  بھائی چارے کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔اس اہمیت کو جاننے کے لئے سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ بھائی چارہ کسے کہتے ہیں؟ حضرت امام محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:بھائی چارہ دو آدمیوں کے درمیان ایک رابطہ ہوتا ہے،جیسے نکاح میاں بیوی کے درمیان ایک رابطے کا نام ہے ۔جس طرح عقدِنکاح کچھ حقوق کا تقاضا کرتا ہے جن کو پورا کرنا حقِ نکاح قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے،عقدِ اُخوت کا بھی یہی حال ہے کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان بھائی کے مال اور ذات میں حق ہے، اسی طرح زبان اور دل میں بھی کہ تم اس کو معاف کرو، اس کے لئے دعا کرو، اخلاص و وفا سے پیش آؤ، اس پر آسانی برتو اور تکلیف و تکلّف چھوڑ دو۔ (وہ ہم میں سے نہیں،ص)ربّ کریم نے بھی قرآنِ پاک میں ایمان والوں کو بھائی سے تعبیر کیا ہے، اللہ پاک نے فرمایا:اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ۔ترجمۂ کنز الایمان : مسلمان بھائی بھائی ہیں۔(پ26،الحجرات : 10)اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اُخوت و بھائی چارے اور اس کے حقوق سے متعلق ارشاد فرمایا:ترجمہ: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اس پر خود ظلم کرتا ہے،نہ اسے حقیر جانتا ہے،پھر اپنے قلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار ارشاد فرمایا:تقویٰ کی جگہ یہ ہے۔کسی شخص کے بُرا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے،ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے۔( مسلم، 2 / 317) مندرجہ بالا آیتِ قرآنی اور حدیثِ مبارکہ سے واضح ہوا!اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اُخوت کی بنیاد ایمان اور اسلام کو قرار دیا ہے۔ ایمان کی بنیاد مضبوط اور دائمی ہے، لہٰذا بنیاد پر قائم ہونے والی اُخوت کی عمارت بھی مضبوط اور دائمی ہوگی۔اُمت کا اِتحاد اور اُخوت کا یہ رشتہ اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو بہت عز یز ہے، اسی لئے قرآنِ کریم میں جابجا اس پر زور دیا اور اختلاف اور تفریق سے روکا گیا ہے، ارشادِ باری ہے: ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ کی رسی مضبوط تھام لو سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا(فرقوں میں بٹ نہ جانا)۔4، الِ عمران: 103)اُمت کے اتحاد اور اُخوت کے رشتہ کو مضبوط رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اللہ پاک کی رسّی یعنی قرآنِ پاک اور اس کی تعلیمات کو مضبوطی سے پکڑیں۔اللہ پاک کے لئے آپس میں محبت رکھنے اور اُخوت سے رہنے کے بہت فضائل بھی ہیں۔چنانچہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:میری محبت ان لوگوں کے لئے ثابت ہوگئی،جو میرے لئے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر خرچ کرتے اور ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں۔(مسند احمد، حدیث: 22847)ہمیں نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ان تعلیمات پر عمل کرنا چاہئے جنہیں پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے قول اور فعل سے اُمّت کے سامنے پیش فرمایا، اسی سے امت میں اتحاد اور اُخوت کا رشتہ مضبوط ہوگا۔اللہ پاک امتِ اسلامیہ کو بھائی چارہ قائم رکھنے اور اُخوت کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہِ النبی الکریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


الحمدُ للہ کہ اس نے ہمیں انسان بنایا اور پھر مسلمان بنایا،نیز عقل و شعور بھی عطا فرمایا۔ ہدایت کے لئے قرآنِ کریم عطا فرمایا اور اس کلامِ پاک میں فرمایا: ترجمۂ کنز العرفان:اور مسلمان مرداور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں،بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور بُرائی سے منع کرتے ہیں۔( پ10،التوبہ:71)اخوت و بھائی چارہ سنّتِ رسول سے ثابت ہے،مکےسے مدینے کی طرف ہجرت کے وقت جب مسلمان رضائے الٰہی و حکمِ مصطفےٰ پر عمل کرنے کے لئے اپنے گھر بار، کاروبار، جائیداد سب چھوڑ کر اپنے آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر آس رکھے مدینہ پہنچے تو خالی ہاتھ تھے۔ اس موقع پر میرے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے شفقت فرماتے ہوئے ایک ایک مہاجر صحابی کو ایک ایک انصاری صحابی کا بھائی بنا دیا۔ انصاری صحابہ ٔ کرام نے بھائی ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے مال، جائیداد اور گھر بار سب میں اپنے مہاجر بھائیوں کو حق دیا، اسے مواخاتِ مدینہ بھی کہتے ہیں۔چنانچہ رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے( مواخات کے تحت) حضرت عبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللہُ عنہ مہاجر کو حضرت سعد بن رَبیع انصاری رَضِیَ اللہُ عنہ کا بھائی بنادیا تو حضرت سعد رَضِیَ اللہُ عنہ نے حضرت عبدُ الرحمن رَضِیَ اللہُ عنہ سے کہا:میں انصار میں سب سے زیادہ مال دا رہوں میں اپنا مال بانٹ کر نصف آپ کو دیتا ہوں۔حضرت عبدالرحمن رَضِیَ اللہُ عنہ نے کہا:آپ کا مال آپ کے لئے برکت والا ہو، کیا یہاں کوئی بازارِ تجارت(منڈی)ہے؟حضرت سعد رَضِیَ اللہُ عنہ نے کہا:ہاں ہے اور انہیں”بَنُو قَیْنُقَاع“کے بازار کا پتا بتایا،حضرت عبدالرحمن رَضِیَ اللہُ عنہصبح منڈی گئے، شام کو منافع کا پنیر اور مکھن ساتھ لائے،اسی طرح روزانہ منڈی میں جاتے اور تجارت کرتے رہے،تھوڑے ہی عرصے میں وہ مالدار بن گئے اور انہوں نے شادی بھی کرلی۔(بخاری،2/4،حدیث:2048 ملتقطاً) اس واقعے سے ہم اندازہ لگا سکتی ہیں کہ اخوت و بھائی چارے کی کتنی اہمیت ہے!گر اخوت و بھائی چارے کی اہمیت نہ ہوتی تو نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم یہ نہ فرماتے:ایک مومن دوسرے مومن کے لئے عمارت کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے۔ (بخاری،4/107،حدیث:6026) ایک مقام پر فرمایا:مسلمانوں کی آپس میں محبت، شفقت اور رحمت کی مثال ایک جسم کی طرح ہے۔ جب جسم کاکوئی عضو بیمار ہوتا ہے تو بخار اور بے خوابی میں اس کا سارا بدن شریک ہوتا ہے۔(مسلم،ص1071،حدیث:6586)پوری اُمّت کی ترقی و خوشحالی اور استحکام،اخوت اور بھائی چارے کے فروغ میں ہے۔اگر مسلمان لسانی تعصب اور مفاد پرستی سے نکل کر بھائی بھائی بن جائیں تو آج بھی اُمّتِ مسلمہ اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کر سکتی ہے۔ جس طرح پوری امت کی ترقی و خوشحالی کا راز اخوت میں پنہاں ہے اسی طرح ایک معاشرے حتّٰی کہ ایک گھرانے کے استحکام کے لئے بھی اخوت اور بھائی چارہ کی ضرورت ہے، اسلامی بھائی چارے کی بنیاد مساوات اور باہمی محبت پر ہے۔اچھے اخلاق اور حقوق و فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ایک مثالی اسلامی معاشرہ وجود میں آئے گا۔ اسلامی دنیا کے بےتحاشا مسائل حل ہوں گے۔اگر کسی کو کسی سے کمتر نہ سمجھیں اور ہر ایک دوسرے کے ساتھ ایثار و قربانی سے پیش آئے تو اُمّتِ مسلمہ پوری دنیا کے لئے عملی نمونہ بن جائے گی۔


1۔اُخوت سے مراد آپس میں محبت و ہمدردی کرنا،غمگساری کرنا،ایک دوسرے کا غم بانٹنا،مشکل وقت میں کام آنا اور اس کی امداد کرنا وغیرہ۔دینِ اسلام میں اُخوت و بھائی چارے کو بڑی اہمیت حاصل ہے،چنانچہ اللہ پاک اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا الْمُوْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ۔ ترجمۂ کنزالایمان :مسلمان مسلمان بھائی ہیں ۔ (پ26،الحجرات:10 )یعنی مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، کیونکہ یہ آپس میں دینی تعلق اور اسلامی محبت کے ساتھ مربوط ہیں اور یہ رشتہ تمام دنیاوی رشتوں سے مضبوط ہے، لہٰذا جب کبھی دو بھائیوں میں جھگڑا واقع ہو تو ان میں صلح کرادو اور اللہ پاک سے ڈرو، تاکہ تم پر رحمت ہو، کیونکہ خوفِ خدا ایمان والوں کی آپس میں محبت و الفت کا سبب ہے۔(تفسیرصراط الجنان،9/159)2۔ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی مثل : فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہے،جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے۔(مسلم،ص 1396،حدیث: 2585)یعنی مومنوں کے دینی و دنیوی کام ایک دوسرے سے مل جل کر مکمل ہوتے ہیں،جیسے مکان کی دیوار ایک دوسرے مل کر مکان مکمل کرتی ہے۔(مراۃ المناجیح،6/549)اس کے علاوہ بھی دیگر احادیث میں مسلمانوں کی اس صفتِ محبت کو اُجاگر کیا گیا ہے،چنانچہ فرمانِ مصطفے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم :مومن محبت کرتا ہے اور اس سے محبت کی جاتی ہے اور جو شخص نہ خود محبت کرے، نہ اس سے محبت کی جائے تو اس میں کوئی بھلائی نہیں۔(احیاء العلوم،2/5713)مواخاۃِ مدینہ:ہجرتِ مدینہ کے بعد حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا انصار و مہاجرین کے درمیان اُخوت کا رشتہ قائم کردینا اور انصار صحابہ کا مہاجرین صحابہ کے لئے ایثار و فیاضی کا ثبوت دینا اسلامی و عالمی تاریخ میں سنہری حرفوں سے لکھنے کے قابل ہے، چنانچہ مسجدِ نبوی کی تعمیر کے بعد ایک دن حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے انس بن مالک رَضِیَ اللہُ عنہ کے مکان میں انصار و مہاجرین کو جمع فرمایا، اس وقت مہاجرین کی تعداد پینتالیس یا پچاس تھی،حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے انصار کو مخاطب کرکے فرمایا:یہ مہاجرین تمہارے بھائی ہیں،پھر مہاجرین و انصار میں سے دو شخص کو بلا کر فرمانے لگے یہ اور تم بھائی ہو۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ارشاد فرماتے ہی یہ رشتہ اُخوت بالکل حقیقی بھائی جیسا رشتہ بن گیا،یہاں تک کہ حضرت سعد بن ربیع انصاری رَضِیَ اللہُ عنہ جو حضرت عبد الرحمن بن عوف رَضِیَ اللہُ عنہماکے بھائی قرار پائے تھے،ان کی دو بیویاں تھیں،حضرت سعد بن ربیع رَضِیَ اللہُ عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللہُ عنہ سے کہا:میری ایک بیوی جسے آپ پسند کریں،میں اسے طلاق دے دوں اور آپ اس سے نکاح کرلیں۔ (بخاری،2/555،سیرت مصطفٰی،ص1864)۔بھائی چارہ کس سے کیا جائے؟حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ نے فرمایا:فاجر سے بھائی بندی نہ کرو کہ وہ اپنے فعل کو تیرے لئے مزین کرے گا اور یہ چاہے گا کہ تو بھی اس جیسا ہو جائے اور اپنی بدترین خصلت کو اچھا کرکے دکھائے گا اور بے وقوف سے بھی بھائی چارہ نہ کر کہ وہ خود کو مشقت میں ڈال دے گا اور تجھے نفع نہ پہنچائے گا،اس کی خاموشی بولنے سے بہتر ہے،اس کی دوری نزدیکی سے بہتر ہے اور موت زندگی سے بہتر ہے۔(تاریخ مشق، ص516، رسالہ وہ ہم میں سے نہیں،ص21)کامل مومن نہیں ہوسکتے:فرمانِ مصطفے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے، جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ (شرح مسلم للنووی،2/36، فیضانِ ریاض الصالحین،4/91)5۔بھائی بھائی ہوجاؤ:فرمانِ مصطفےصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اے اللہ پاک کے بندو! بھائی بھائی ہوجاؤ یعنی بدگمانی، حسد، بغض وغیرہ وہ چیزیں ہیں، جن سے محبت ٹوٹتی ہے اور اسلامی بھائی چارہ محبت چاہتا ہے، لہٰذا یہ عیوب چھوڑو ، تاکہ بھائی بھائی بن جاؤ۔(مراۃ المناجیح،ج6،ص608)6۔مسلمان کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت:حضرت فضیل بن عیاض رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:انسان کا محبت و مہربانی کے ساتھ اپنے مسلمان کے چہرے کی طرف دیکھنا بھی عبادت ہے۔(احیاء العلوم،2/582) اللہ پاک مسلمانوں کو اپنے باہمی تعلقات سمجھنے اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہِ خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اَصحاب رَضِیَ اللہُ عنہم اجمعین قیامت تک کے لئے تمام لوگوں کے لئے روشن ستاروں کی مانند ہیں ،جیسا کہ خود آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے فرمان کا خلاصہ ہے:میرے اَصحاب ستاروں کی مانند ہیں،انہی میں سے روشن و تابندہ ہستی خلیفۃ المسلمین،خلیفہ ثانی، یارِ غار حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ بھی ہیں۔ آپ رَضِیَ اللہُ عنہ کی شان کے کیا کہنے!خودقرآن اور صاحبِ قرآن نے آپ کی تعریف بیان فرمائی ہے۔ آپ رَضِیَ اللہُ عنہ وہ ہستی ہیں، جن کی مدح سرائی تمام صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم نے فرمائی ہے۔ آئیے!حصولِ برکت کے لئے شانِ صدیقِ اکبر ،مولا علی شیرِ خدا رَضِیَ اللہُ عنہ کی زبانی سنتی ہیں:صحابہ میں سب سے افضل:امیر المؤمنین حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ نے فرمایا:ہم سب صحابہ میں حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ سب سے افضل ہیں۔(الریاض النضرہ،1/ 138)سبحان اللہ!قربان جائیے! شانِ صدیقِ اکبر پر کہ آپ افضل البشر بعد الانبیاء ہیں۔ہر نیک کام میں سبقت:حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں:اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے!میں نے جس کام میں بھی سبقت کا ارادہ کیا،اس میں حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ مجھ سے سبقت لے گئے ۔(مجمع الزوائد، 9/ 29، حدیث 14332)محبتِ صدیقِ اکبر کا انعام:حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں:جس نے حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ سے محبت کی، قیامت کے دن وہ انہی کے ساتھ کھڑا ہوگا اور وہ جہاں تشریف لے جائیں گے، وہ بھی انہی کے ساتھ جائے گا۔(کنزالعمال،7/6،حدیث36094)صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ کا دل بہت مضبوط ہے: حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ نے برسر ِمنبر فرمایا:حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ کا دل بہت مضبوط ہے۔ (الریاض النضرہ،1/139)سب سے پہلے خلیفہ صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ:حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا:غور سے سن لو! ہم نے حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ کو ہی خلافت کا اہل سمجھا۔(مستدرک ، 4/ 27، حدیث :4519)الزام تراشوں والی سزا:حضرت علی المرتضیٰٰ رَضِیَ اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا:جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر رَضِیَ اللہُ عنہما سے افضل کہے گا تو میں اس کو مفتری کی(یعنی تہمت لگانے والے کو دی جانے والی)سزا دوں گا۔(تاریخِ ابن عساکر، 30/ 383)حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ بارگاہِ رسالت میں حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ کے مقام و مرتبے سے بخوبی آگاہ تھے، جبھی تو فرماتے ہیں:میں صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ کی تمام نیکیوں میں سے ایک نیکی ہوں۔الغرض فرمانِ مولیٰ علی سے شانِ صدیقِ اکبر خوب ظاہر ہوتی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ وہ ارفع و اعلیٰ شخصیت کے مالک ہیں جن کی عظمت کے قائل تمام ہی صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم اور خود سردارِ اولیا آپ کی شان کے قائل ہیں۔سبھی اَصحاب سے بڑھ کر مقرب ذات ہے ان کی ،رفیقِ سرورِ اَرض و سَما صدیقِ اکبر ہیں۔اللہ پاک ہمیں فیضانِ صدیقِ اکبر سے مالامال فرمائے۔اٰمین بجاہِ النبی الکریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کےسب سے پہلے خلیفہ ہیں۔ اسلام میں آپ کا درجہ اور مرتبہ بہت ہی بلند ہے۔حضرت صدیقِ اکبر کے ایثار پر اللہ پاک کی خوشنودی:حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ تمام اصحابِ رسول میں سب سے زیادہ سخی تھے، اللہ پاک کا ارشاد ہے:ترجمۂ کنزالایمان:اور عنقریب سب سے بڑے پرہیزگارکو اس آگ سے دور رکھا جائے گا۔جو اپنا مال دیتا ہے تاکہ اسے پاکیزگی ملے۔مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ آیت آپ ہی کی شان میں نازل ہوئی۔(تاریخ الخلفاء/ 157)حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ کی شان میں حضرت حسان بن ثابت رَضِیَ اللہُ عنہ کے اشعار:ابنِ سعید نے زہری سے روایت کیا:رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رَضِیَ اللہُ عنہ سے فرمایا:تم نے حضرت ابوبکر(رَضِیَ اللہُ عنہ) کی شان میں بھی کچھ کہا ہے؟انہوں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا:سناؤ!تو حضرت حسان بن ثابت رَضِیَ اللہُ عنہ نے یہ اشعار پڑھے:و ثانی اثنین فی الغارِ المنیف قد طاف عدو بہ اذ صعد الجبلا یعنی حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ عنہ حضرت رسالتِ مآب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے یارِ غار ہیں۔ جب آپ پہاڑ پر چڑھتے ہیں تو دشمن بھاگ جاتا ہے۔وکان حب رسولُ اللّٰہِ قد علموا من البریہ لم یعدل بہ رجلا تمام لوگ جانتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے ان کو کتنی محبت ہے۔ آپ کو اتنی محبت کسی سے بھی نہیں ہوئی۔ان اشعار کو سُن کر رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تبسم فرمایا اور حضرت انس نے فرمایا: اے حسان! تم نے سچ کہا۔(تاریخ الخلفاء/ 168) شانِ صدیقِ اکبر بزبانِ حیدرِکرار:جنت کا اجازت نامہ:ایک بار حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ اور حضرت مولا علی،شیرِ خدا رَضِیَ اللہُ عنہ کی ملاقات ہوئی تو حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ حضرت مولیٰ علی رَضِیَ اللہُ عنہ کو دیکھ کر مسکرانے لگے۔حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ نے پوچھا:آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ نے فرمایا:میں نے رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : پُلِ صراط سے وہی گزرے گا جس کو علیُّ المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ تحریری اجازت نامہ دیں گے۔یہ سن کر حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ بھی مسکرا دئیے اور کہنے لگے:میں آپ کو رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف سے آپ کے لئے بیان کردہ خوشخبری نہ سناؤں؟ رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:پُلِ صراط سے گزرنے کا تحریری اجازت نامہ صرف اُسی کو ملے گا، جو حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ عنہ سے محبت کرنے والا ہوگا۔(الریاض النضرہ،1/201)اللہ!میرا حشر ہو بوبکر اورعمر،عثمانِ غنی و حضرت مولیٰ علی کے ساتھ۔حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ کے ارشادات:٭جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر رَضِیَ اللہُ عنہما سے افضل کہے تو میں اس کو مفتری کی(یعنی بہتان لگانے والے کو دی جانے والی سزا)دوں گا۔(تاریخِ ابنِ عساکر،30/383)٭اس اُمّت میں نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد سب سے بہتر (حضرت) ابوبکر و عمر رَضِیَ اللہُ عنہما ہیں۔(تاریخِ ابن ِعساکر،30/346 ملتقظاً)٭امام ذہبی رحمۃُ اللہِ علیہنے فرمایا:یہ قول حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ سے تواتر سے منقول ہے۔(تاریخ الخلفاء،ص 34) ٭حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ شکر کرنے والوں اور اللہ پاک کے پسندیدہ بندوں کے امین ہیں، آپ ان سب سے زیادہ شکر کرنے والے اور سب سے زیادہ اللہ پاک کے پسندیدہ ہیں۔(تفسیرطبری، پ4، ال ِعمران، تحت الآیۃ: 3،144/455)٭ہم میں سب سے زیادہ بہادر حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ عنہ ہی ہیں۔(مسند بزار3/14، حدیث: 761)٭یاد رکھو! وہ(یعنی حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ) انسانوں میں سب سے زیادہ رحم دل، نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے یارِ غار اور اپنے مال سے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو سب سے زیادہ نفع پہنچانے والے ہیں۔(الریاض النضرۃ،1/138)٭ہم سب صحابہ میں حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ عنہ سب سے افضل ہیں۔(الریاض النضرہ،1/138)٭حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ نے قسم کھا کر ارشاد فرمایا:اللہ پاک نے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ عنہ کا نام صدیق آسمان سے نازل فرمایا۔(معجم کبیر ،1/55،حدیث:14)


اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام صحابہ ہی مقتدیٰ بہٖ(یعنی جن کی پیروی کی جائے)، ستاروں کی مانند اور شمعِ رسالت کے پروانے ہیں،لیکن حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ وہ عظیم صحابی ہیں جو انبیائے کرام علیہمُ السلام کے بعد مخلوق میں سب سے افضل ہیں، جو محبوبِ خدا ہیں، جو عتیق بھی ہیں،صدیق بھی ہیں، صادق بھی ہیں اورصدیقِ اکبر بھی ہیں۔جن کے والدین صحابی، اولاد صحابی، اولاد کی اولاد بھی صحابی ہے۔صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس۔ یہ ان کی کتابِ زندگی کا عنوان تھا، وہ شخصیت جن کے فضائل کلامُ اللہ اور احادیثِ مبارکہ میں آئے ہیں۔خود صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم اور اسلاف رحمۃُ اللہِ علیہم بھی جن کے فضائل بیان کریں انہی صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ کی شان جن کی زبانی پڑھنے کی سعادت حاصل کریں گی وہ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ حضرت مولا مشکل کشا ،علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ کی ذاتِ بابرکت ہے۔

بیاں ہو کس زباں سے مرتبہ صدیقِ اکبر کا ہے یار ِغار ِمحبوبِ خدا صدیقِ اکبر کا

چار باتوں میں سبقت:حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں: بلا شبہ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ ان چار باتوں میں مجھ سےسبقت لے گئے:(1)انہوں نے مجھ سے پہلے اظہار اسلام کیا(2)مجھ سے پہلے ہجرت کی(3)رسولِ پاکصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کےیارِ غار ہونے کا شرف پایا اور (4) سب سے پہلے نماز قائم فرمائی۔(فیضانِ صدیقِ اکبر، ص657 بحوالہ الریاض النضرۃ، 89/1، تاریخ ابنِ عساکر، 291/30)تمام نیکیوں میں سے ایک نیکی:حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:میں تو حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ کی تمام نیکیوں میں سے صرف ایک نیکی ہوں۔(فیضانِ صدیقِ اکبر، ص657 بحوالہ تاریخِ ابن عساکر،383/30، کنز العمال، جز:12، 6/224،حدیث:35631) صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ سے محبت کا انعام:حضرت علی المرتضیٰ، شیرِ خدا رَضِیَ اللہُ عنہ ارشاد فرماتے ہیں: جس نے حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ سے محبت کی،قیامت کے دن وہ ان ہی کے ساتھ کھڑا ہوگااور جہا ں وہ تشریف لے جائیں گے وہ بھی ان ہی کے ساتھ ساتھ جائے گا۔(فیضانِ صدیقِ اکبر،ص656 بحوالہ کنزالعمال، جز:13، 6/7،حدیث:36096، تاریخ ابن عساکر، 128/39) سب سےزیادہ معزز شخصیت:حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں:اس اُمت میں اللہ پاک کے محبوب، دانائے غیوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد اللہ پاک کے نزدیک سب سے زیادہ معزز صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ ہیں اور ان کا رتبہ سب سے زیادہ بلند ہے کیونکہ انہوں نے رسولُ اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد سب سے پہلے قرآنِ مجید،فرقانِ حمید کو جمع کرنا شروع کیا ،نیز رسولُ اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دین کو اس کی قدیم حسن و خوبیوں کے ساتھ قائم فرمایا۔(فیضانِ صدیقِ اکبر،ص661 بحوالہ جمع الجوامع، 1/39، حدیث: 158) پُلِ صراط سے گزرنے کا اجازت نامہ:ایک بارحضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ اور حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ کی ملاقات ہوئی تو حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ کو دیکھ کر مسکرانے لگے۔ حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ نے پوچھا: آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ نے فرمایا: میں نے رسولُ اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ فرماتے سنا:پُلِ صراط سے وہ ہی گزرے گا جس کو علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ تحریری اجازت نامہ دیں گے۔ یہ سن کر حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ بھی مسکرادئیے اور عرض کرنے لگے: کیا میں آپ کو رسولُ اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف سے آپ کے لیے بیان کردہ خوشخبری نہ سناؤں؟ رسولُ اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:پُلِ صراط سے گزرنے کا تحریری اجازت نامہ صرف اسی کو ملے گا جو حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ سے محبت کرنے والا ہوگا۔(فیضانِ صدیقِ اکبر، ص666 بحوالہ الریاض النضرۃ،1/207) بہتان لگانے والے کی سزا:حضرت علی المرتضیٰ، شیرِ خدا رَضِیَ اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا: جو شخص مجھے حضرت ابو بکر و عمر رَضِیَ اللہُ عنہما پر فضیلت دے گا میں اس کو مُفتری(یعنی بہتان لگانے والے) کی سزا دوں گا۔(فیضانِ صدیقِ اکبر، ص659 بحوالہ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، 3/99، تاریخِ ابنِ عساکر، 365/44)اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم 


محمدِ مصطفے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے یارِ غار، مسلمانوں کے پہلے خلیفہ،امیر المؤمنین حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ کا نامِ مبارک عبداللہ، کنیت ابو بکر اور صدیق و عتیق القاب ہیں۔صدیق کا معنی ہے:بہت زیادہ سچا۔ آپ زمانۂ جاہلیت میں ہی اس لقب سے مشہور ہو گئے تھے، کیونکہ آپ ہمیشہ سچ بولتے تھے۔ جبکہ عتیق کا معنی ہےآزاد۔آپ قریشی ہیں اور ساتویں پشت میں شجرۂ نسب رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے خاندانی شجرے سے مل جاتا ہے۔آپ رَضِیَ اللہُ عنہ عامُ الفیل کے تقریباً اڑھائی سال بعد مکے شریف میں پیدا ہوئے۔زبانِ جبرائیل سے صدیق:حضرت نزال بن سبرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں:ہم لوگ حضرت علی المرتضیٰ، شیرِخدا رَضِیَ اللہُ عنہ کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے اور وہ خوش طبعی فرما رہے تھے۔ ہم نے ان سے عرض کی:اپنے دوستوں کے بارے میں کچھ ارشادفرمایئے۔فرمایا: رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے تمام اصحاب میرے دوست ہیں۔ہم نے عرض کی: حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ کے بارے میں بتایئے۔فرمایا: ان کے تو کیا کہنے!یہ تو وہ شخصیت ہیں جن کا نام اللہ پاک نے جبریلِ امین اور پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زبان سے صدیق رکھا ہے۔ (مستدرک،4/4،حدیث: 4462)بہادر اور جرأت مند:حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:غزوہ ٔبدر کے روز ہم نے دو عالم کے مالک ومختار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت اور نگہداشت کے لئے ایک سائبان بنایا، تا کہ کوئی کافر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر حملہ کر کے تکلیف نہ پہنچا سکے، اللہ پاک کی قسم! ہم میں سے کوئی بھی آگے نہیں بڑھا،صرف حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ ننگی تلوار ہاتھ میں لئے آگے تشریف لائے اور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس کھڑے ہو گئے ،پھر کسی کافر کی جرأت نہ ہو سکی کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے قریب بھی بھٹکے۔اس لئے ہم میں سب سے زیادہ بہادر حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ ہی ہیں۔(کنزالعمال، الجزء: 12، 6/ 235،حدیث: 35685)حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ کا شجاعت و بہادری میں کوئی ثانی نہیں، آپ رتبہ و مقام میں تمام صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم میں سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں۔ آپ کی رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے محبت اور احترام کی کوئی مثال نہیں۔ آپ ہر طرح کے مصائب میں رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ ہوتے تھے۔ہجرت کے رفیقِ سفر:حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے :حضرت جبریلِ امین علیہِ السَّلام نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پوچھا:میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا؟ عرض کی:یا رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم! آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر رَضِیَ اللہُ عنہ ہجرت کریں گے اور وہ صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ ہیں۔وصال شریف:عاشقِ اکبر حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ 22 جمادی الاخریٰ،سن 13 ہجری،بروز پیر شریف،63سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے۔(سنن کبری للبھیقی،3/557، حدیث: 6663) بوقتِ وفات زبانِ مبارک پر آخری کلمات یہ تھے:اے پروردگار!مجھے اسلام پر موت عطا فرما اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔ (الریاض النضرۃ، 1/258)اللہ پاک ہمیں بھی نیک ہدایت عطا فرمائے اور عاشقانِ رسول کے صدقے ہمارے صغیرہ اور کبیرہ گناہ معاف فرما دے۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم


یارِ غارویارِ مزار حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ ایسےصحابی رسول ہیں جن سے مولا علی رَضِیَ اللہُ عنہ کو والہانہ محبت تھی۔ حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ نے بذاتِ خود شانِ صدیقِ اکبر کو بیان فرمایا ہے،چنانچہ حضرت علی، حیدرِ کرار رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں:خیرُ ھٰذہ الاُمَّۃِ بعد نبیھا ابو بکر ثم عمریعنی اس اُمّت میں،اس اُمّت کے نبی کے بعد سب سے بہتر حضرت ابوبکر ہیں، پھر حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عنہما ۔(مسندامام احمد ، 1/ 106، مقام صدیقِ اکبر،ص 59)معلوم ہوا!حضرت مولیٰ علی رَضِیَ اللہُ عنہ بھی حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ کے سب سے افضل ہونے کے قائل تھے۔حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ نے منبر پر خطبہ ارشاد فرمایا اور حمد و ثنا کے بعد فرمایا:مجھے پتا چلا ہے کہ کچھ لوگ مجھے حضرت ابوبکر و عمر رَضِیَ اللہُ عنہما پر فضیلت دے رہے ہیں!اگر میں اس معاملے میں مقدم ہوں تو سزا کا حق دار ہوں،تقدیم سے پہلے مجھے سزا نا پسند ہے،(جس نے مجھے حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ پر فضیلت دی،جس نے ایسا کہا)وہ جھوٹا ہے۔اس کو وہی سزا دی جائے گی جو جھوٹے کو دی جاتی ہے۔رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں سے بہتر حضرت ابوبکر پھر عمر رَضِیَ اللہُ عنہما ہیں۔(مقامِ صدیقِ اکبر،ص71- فضائلِ صحابہ لامام احمد ،1/633)معلوم ہوا!جب حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ کو حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ پر فضیلت دی گئی تو آپ کا منبر پر جلوہ افروز ہو کر غم و غصّے کا اعلان کرنا کوئی عام بات نہ تھی۔آپ کا مبارک انداز بتا رہا ہے کہ یہ مسئلہ کئی مسائل سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا کہ نہ صرف آپ نے افضل کہنے والوں کا ردّ فرمایا، بلکہ انہیں جھوٹا قرار دے کر سزا کا حق دار بھی بتایا۔بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی،حضرت مولیٰ علی رَضِیَ اللہُ عنہ اپنی زبانِ مبارک سے شانِ صدیق بیان فرما رہے ہیں کہ ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ ہی رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد زیادہ حق دار ہیں،وہ غار کے ساتھی اور دو میں سے دوسرے ہیں۔نیز ہم ان کی بزرگی اور بڑائی کے قائل ہیں۔رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنی حیاتِ طیبہ میں انہی کو نماز پڑھانے کا حکم دیا۔(مستدرک ، 3/ 64-سنن کبری للبیہقی، 8/151-مقام صدیقِ اکبر،ص 76)معلوم ہوا!حضرت مولیٰ علی رَضِیَ اللہُ عنہ والہانہ محبت بھرے انداز میں حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ کی مدح و ستائش،عظمت و رفعت،منزلت و مر تبت اور امتیازی خصوصیات کو بیان فرمایا،نیز اپنے کلام کو مضبوط کیا کہ انکار کی گنجائش نہ رہی۔اللہ پاک ہمیں بھی صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہِ النبی الکریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم۔ہر صحابیِ نبی ،جنتی جنتی،صدیق و عمر جنتی جنتی