وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر: 9) ترجمہ: اور جو اپنے
نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
کسی چیز میں
حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہونا لالچ کہلاتا ہے اس کا دوسرا
نام طمع بھی ہے۔ لالچ ایک باطنی بیماری ہے اس سے حفاظت بندے کے لیے بہت ضروری ہے
یہ معاشرے میں پایا جانے والا عام اور چھوٹا گناہ سمجھا جاتا ہے ہمیں اس چھوٹے
گناہ سے بھی بچنا ہے کہ حضرت بلال بن سعد فرماتے ہیں: گناہ کے چھوٹا ہونے کو نہ
دیکھو بلکہ یہ دیکھوں کہ تم کس کی نافرمانی کر رہے ہو۔ (الزواجر عن اقراف الکبائر،
1/ 27)
مال و دولت کی
ایسی طمع جس کا کوئی دینی فائدہ نہ ہو،یا
ایسی اچھی نیت نہ ہو جو لالچ ختم کر دے،نہایت ہی بری،گناہوں کی طرف رغبت دلانے
والی اور ہلاکت میں ڈالنے والی بیماری ہے،مال و دولت کے لالچ میں پھنسنے والا شخص
ناکام ونامراد اور جوان کے مکرو ہ جال سے بچ گیا وہی کامیاب و کامران ہے۔
رسول اللہﷺ
فرماتے ہیں: ظلم کرنے سے ڈرو کیونکہ ظلم قیامت کا اندھیرا ہے اور شح(نفس کےلالچ)
سے بچو کہ تم سے پہلی امتوں کو ہلاک کردیا کہ اسی نے ان کو ناحق قتل کرنے اور حرام
کام کرنے پر ابھارا۔ (مسلم، ص 1069، حدیث: 6576)
مروی ہے کہ
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بیت اللہ شریف کا طواف کر رہے اور یہ دعا مانگ
رہے تھے: اے اللہ! مجھے میرے نفس کی حرص سے بچا۔اس سے زائد وہ کچھ
نہیں کہتے تھے، جب ان سے اس کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: جب
مجھے میرے نفس کی حرص سے محفوظ رکھا گیا تو نہ میں چوری کروں گا،نہ زنا کروں گا
اور نہ ہی میں نے اس قسم کا کوئی کام کیا ہے۔
(صراط الجنان، 10/76)
لالچ
کے اسباب: مال
و دولت سے محبت، طول امل یعنی لمبی امیدیں، خواہشات کی کثرت، اپنے ذاتی مفادات کا
حصول، لالچ کے اسباب یوں تو بہت ہیں لیکن قلم یہاں لکھنے سے قاصر ہے۔
اللہ پاک ہمیں
لالچ اور اس جیسی تمام باطنی و ظاہری بیماریوں سے بچائے۔