کسی چیز میں حددرجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہو جانا یا اس یا کسی چیز سے جی نہ بھرنے اور ہمیشہ اس کی خواہش رکھنے کو حرص کہتے ہیں اور حرص رکھنے والے کو حریص کہتے ہیں۔

حرص کی تین قسمیں ہیں: حرص محمود یعنی اچھی حرص، حرص مذموم اور حرص مباح یعنی جائز حرص۔ ہم نے کون سی حرص اپنانی ہے دنیا کی محبت میں زیادتی اور آخرت کی الفت میں کمی کی وجہ سے مسلمانوں کی بھاری اکثریت شوق و عبادت سے کوسوں دور گناہوں کی حرص کے بہت قریب ہے۔ حرص کی تینوں قسمیں ہمارے سامنے ہیں اور یہ کھلی حقیقت ہے کہ حرص یعنی لالچ ہماری طبیعت میں رچی بسی ہے ہم اس سے مکمل طور پر کنارہ کش نہیں ہو سکتے لیکن اس حرص کا رخ موڑنا ہمارے اختیار میں ہے اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے ہمیں کون سی حرص بنانی چاہیے اور ہمیں اس حرص کو کہاں اپنانا چاہیے تو اس کا جواب بڑا آسان سا ہے کہ ان کاموں میں جن سے دنیا و آخرت کا نفع ہی نفع حاصل ہوتا ہے نقصان کچھ نہ ہو اور یہ خوبی صرف اور نیکیوں کی حرص میں ہی پائی جاتی ہے۔

قرآن پاک میں ارشاد ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر: 9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل

فرمان مصطفیٰ ﷺ: لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں لالچ نے انہیں بخل پر آمادہ کیا اور یہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال دلایا تو انہوں نے قطع رحمی کی جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ کرنے لگے۔ (ابو داود، 2/185، حدیث: 1698) ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: جوں جوں ابنِ آدم کی عمر بڑھتی ہے اس کے ساتھ دو چیزیں بھی بڑھتی ہیں: مال کی محبت اور لمبی عمر کی خواہش۔ (بخاری، 4/224، حدیث: 6421)

بزرگان دین کو اپنا آئیڈیل بنا لیجئے جس طرح مال کے حریص لوگ مالداروں کو اپنا آئیڈیل بناتے ہیں کہ مجھے بھی انہیں کی طرح مالدار بننا ہے اسی طرح ہمیں بھی چاہیے کہ نیکیاں کرنے کا جذبہ بڑھانے اور اس راہ میں پیش آنے والی مشقتوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ پانے کے لیے اور دیگر اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ بزرگان دین کو اپنا آئیڈیل بنا لیجئے، کیونکہ ان پاکیزہ ہستیوں کی زندگیاں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔

حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کو وقت نزع قرآن پاک پڑھ رہے تھے ان سے استفسار کیا گیا کہ اس وقت میں بھی تلاوت؟ ارشاد فرمایا: میرا نام اعمال لپیٹا جا رہا ہے تو جلدی جلدی اس میں اضافہ کر لوں! جوانی نے ساتھ دیا مگر نوافل نہ چھوڑے، حضرت جنید بغدادی جب بڑھاپے کو پہنچے تو لوگوں نے عرض کی: حضور آپ ضعیف ہو گئے ہیں لہذا بعض عبادات نوافل باقاعدہ ترک فرما دیجئے آپ نے فرمایا: یہی تو وہ چیزیں ہیں جن کو ابتدا کر کے اس مرتبے کو پایا ہے اب یہ کیسے ممکن ہے کہ انتہا پر پہنچ کر ان کو چھوڑ دوں۔ سبحان اللہ! ہمارے بزرگان دین کتنی اچھی سوچ رکھنے والے تھے کہ آخری وقت میں بھی آپ نے نوافل ترک نہ فرمائیں جتنی فکر ایک دنیا دار کو اپنی دنیا بنانے کے لیے ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ ان نفوس قدسیہ کو اپنی آخرت سنوارنے کے لیے ہوتی ہے اور یہ اس کے لیے بہت زیادہ کوشش فرمایا کرتے تھے اگر ہم ان کے حالات زندگی تفصیل سے پڑھیں تو ہمیں بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ یہ حضرات کرام نیکیوں کی کس قدر حرص رکھنے والے تھے اور فرائض و واجبات کی پابندی کے ساتھ نفلی عبادتوں کے لیے بھی ان کا ذوق مثالی اور قابل رشک ہوا کرتا تھا۔