لالچ
کی تعریف:
کسی چیز سے جی نہ بھرنے اور ہمیشہ زیادتی کی خواہش رکھنے کو حرص یعنی لالچ کہتے
ہیں اور حرص رکھنے والے کو حریص یعنی لالچی کہتے ہیں۔ حرص کی تین اقسام ہیں حرص
محمود، حرص مذموم اور حرص مباح۔ ہرچیز کی حرص بری نہیں ہوتی بلکہ اچھی چیز کی حرص
اچھی اور بری چیز کی حرص بری ہے مگر اچھائی یا برائی کی طرف جانا ہمارے ہاتھ میں
ہے حرص کسی چیز کی مزید خواہش کرنے کا نام ہے چنانچہ مزید مال کی خواہش رکھنے والے
کو مال کا حریص مزید کھانے کی خواہش رکھنے والے کو کھانے کا حریص اور نیکیوں میں
اضافے کے تمنائی کو نیکیوں کا حریص جبکہ گناہوں کا بوجھ بڑھانے والے کو گناہوں کا
حریص کہیں گے لالچ اور حرص خوراک لباس مکان سامان دولت عزت شہرت الغرض ہر نعمت میں
ہوتی ہیں۔ (جتنی زیور، ص 111)
ہم حرص کی
اقسام کی تفصیل مزید سنتے ہیں: حرص محمود یعنی اچھی حرص لہٰذا نیکیوں مثلاً نماز
روزہ حج زکوٰۃ صدقہ و خیرات تلاوت ذکر اللہ درود پاک حصول علم دین صلہ رحمی
خیرخواہی اور نیکی کی دعوت عام کرنے کی حرص محمود یعنی اچھی ہے۔
حرص مذموم بری
اور قابل مذمت حرص مثلا رشوت چوری بد نگاہی زنا امرد پسندی حب جاہ فلمیں ڈرامے
دیکھنے گانے باجے سننے جوہے کی حرص غیبت تمہت چغلی گالی دینے بد گمانی لوگوں کے
عیب ڈھونڈنے اور انہیں اچھالنے آور دیگر گناہوں کی حرص مذموم یعنی بری ہے اور اس
سے بچنا لازم ہے۔
حرص مباح یعنی
جائز حرص لیکن اگر اس میں اچھی نیت ہوگی تو یہ محمود بن جائے گی اور اگر بری ہوگی
تو یہ مذموم بن جائے گی جیسے کھانا پینا دوست بنانا اما کام بنانا تحفہ دینا یا
زاہد لباس پہننا دیگر قائم مبا یعنی جائز کے ان کے کنے میں نہ گناہ نہ ثواب لہذا
ان کی حرص بھی نہ گناہ نہ ثواب البتہ اچھی نیت سے کی جائے تو اچھا اس کی حرص بھی
اچھی اور اگر بری نیت سے دیا جائے تو اس کی حرص کی وہ بری اور اس سے بچنا بھی لازم
ہے۔
ارشاد باری
تعالیٰ ہے: وَ لَتَجِدَنَّهُمْ
اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰى حَیٰوةٍۚۛ-وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْاۚۛ-یَوَدُّ
اَحَدُهُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَةٍۚ-وَ مَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهٖ مِنَ
الْعَذَابِ اَنْ یُّعَمَّرَؕ-وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ۠(۹۶) (پ 1،
البقرۃ:96)ترجمہ: بےشک تم ضرور انہیں پاؤ گے کہ سب لوگوں سے زیادہ جینے کی ہوس
رکھتے ہیں اور مشرکوں سے ایک کو تمنا ہے کہ کئی ہزار پر سے جی ہیں اور وہ اس سے اعزاز
سے دور نہ کر کرے گا اتنی عمر دی ہے جانا کہ اللہ ان کے کو تک یعنی برے عمل کو
دیکھ رہا ہے۔ مکمل
فرمان مصطفیٰ ﷺ
ہے: اگر ابن آدم کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں تب بھی تیسرے کی خواہشیں کرے گا اور
ابن آدم کا پیٹ صرف قبر کی مٹی بھر سکتی ہے۔(مسلم، ص 404، حدیث: 2419)بس ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ اور اس کے
رسول کی فرمانبرداری کرتے ہوئے وہ کام کریں جس سے وہ راضی ہو اور ہم نیکیوں کی
حریص بن جائیں سرکار ﷺ بھی ہم میں نیکیوں اور عبادت پر حرص کرنے کا فرما رہے ہیں، چنانچہ
آپ کا فرمان نعمت نشان ہے: اس پر حرص کرو جو تمہیں نفع دے اور اللہ سے مدد مانگو
عاجز نہ ہو۔ (مسلم، ص 432، حدیث: 2001)
مفتی احمدیار
خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: دنیاوی چیزوں میں قناعت اور صبر اچھا ہے مگر آخرت کی
چیزوں میں حرص اور صبر اعلی درجے کی ہے کسی درجے میں پر پہنچ کر قناعت نہ کرو بلکہ
آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ (مراۃ المناجیح، 7/112)
اب یہ سوال
پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں کون سی چیزوں کی حرص اپنانی چاہیے اور اسے کہاں استعمال کرنا
چاہیے تو یہ تو کھلی حقیقت ہے کہ حرص ہماری طبیعت میں رچی بسی ہے، ہم اسی سے مکمل
طور پر کنارہ کش نہیں ہو سکتے لیکن اس حرص کا رخ بدلنا ہمارے اختیار میں ہے ہمیں
وہ حرص اپنانی چاہیے جس سے ہمیں دنیا و آخرت کا نفع حاصل ہو اور نقصان کچھ بھی نہ
ہو، یہ خوبی صرف اور صرف نیکیوں کی حرص میں پائی جاتی ہے کیونکہ یہ حرص محمود بھی
ہے جو انسان کے آخرت کے اعلیٰ درجات میں پہنچنے کا وسیلہ بنتی ہے جبکہ حرص مذموم
میں سراسر نقصان ہے۔