ایک
عجیب و غريب قوم: منقول
ہے کہ حضرت ذوالقرنین رحمۃ اللہ علیہ ایک قوم کے پاس سے گزرے تو دیکھا ان کے پاس
دنیاوی سامان نام کو بھی نہ تھا، انہوں نے بہت سی قبریں کھودرکھیں تھیں، صبح کے
وقت وہاں کی صفائی کرتے اور نماز ادا کرتے پھر صرف سبزیاں کھا کر پیٹ بھر لیتے،
کیونکہ وہاں کوئی جانور موجود نہ تھا جس کا وہ گوشت کھاتے۔ حضرت سید نا ذو القرنین
رحمۃ الله علیہ کو ان کا سادہ انداز زندگی دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی، آپ رحمۃ اللہ
علیہ نے ان کے سردار سے پوچھا: میں نے تم لوگوں کو ایسی حالت میں دیکھا ہے کہ جس
پر کسی دوسری قوم کو نہیں دیکھا، اس کی کیا وجہ ہے؟ تمہارے پاس دنیا کی کوئی چیز
نہیں ہے اور تم سونا اور چاندی سے بھی نفع نہیں اٹھاتے! سردار کہنے لگا: ہم نے
سونے اور چاندی کو اس لئے برا جانا کہ جس کے پاس تھوڑا بہت سونا یا چاندی آجاتی ہے
وہ انہی کے پیچھے دوڑنے لگتا ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا: تم لوگ قبریں کیوں
کھودتے ہو؟ اور جب صبح ہوتی ہے تو ان کو صاف کرتے ہو اور وہاں نماز پڑھتے ہو۔ بولا:
اس لئے کہ اگر ہمیں دنیا کی کوئی حرص و طمع ہو جائے تو قبروں کو دیکھ کر ہم اس سے
باز رہیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا: تمہارا کھانا صرف زمین کی سبزی کیوں ہے؟ تم
جانور کیوں نہیں پالتے تاکہ ان کا دودھ حاصل کرو، ان پر سواری کرو اور ان کا گوشت
کھاؤ؟ سردار نے کہا: اس سبزی سے ہماری گزر بسر ہو جاتی ہے اور انسان کو زندگی
گزارنے کے لیے اتنی چیز ہی کافی ہے اور ویسے بھی حلق سے نیچے پہنچ کر سب چیزیں ایک
جیسی ہو جاتی ہیں، ان کا ذائقہ پیٹ میں محسوس نہیں ہوتا۔ حضرت ذو القرنین رحمۃ
اللہ علیہ نے اس کی حکمت بھری باتیں سن کر اسے پیش کش کی میرے ساتھ چلو، میں تمہیں
اپنا مشیر (Advisor)
بنالوں گا اور اپنی دولت میں سے بھی حصہ دوں گا۔ مگر اس نے معذرت کر لی کہ میں اس
حال میں خوش ہوں۔ چنانچہ حضرت ذو القرنین وہاں سے تشریف لے گئے۔ (تاریخ مدینہ دمشق،
17/353 تا 355ملخصاً)
ہماری
حالت زار :
پیاری اسلامی بہنو! دنیا سے دل و جان سے محبت ہونے اور آخرت کی الفت میں کمی کی
وجہ سے مسلمانوں کی بھاری تعداد الله الرحیم اور اس کے رسول کریم کی یاد سے دور
ہے، جبکہ گناہوں اور فضولیات کی حرص میں مسرور (یعنی خوش) ہے۔ افسوس صد کروڑ ا
فسوس! آج کی نوجوان اسلامی بہن ساری ساری رات گناہوں بھرے پروگرامز دیکھنے سننے کو
تیار ہے مگر نماز ادا کرنے سے کتراتی ہے، کئی کئی گھنٹے ریموٹ ہاتھ میں پکڑے فلمیں
ڈرامے دیکھنے کا وقت ہے مگر رضائے الہی پانے، اپنی آخرت سنوارنے اور علم دین
سیکھنے کے لئے اپنے ہی علاقے میں ہونے والے سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کرنے کے
لئے مختلف بہانے ہیں۔ عشق مجازی کو بھڑ کانے والے گندے ناولز پڑھنے کے لئے گھنٹوں
کا وقت ہے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کو دل نہیں کرتا بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ
درست قرآن کریم پڑھنا ہی نہیں آتا اور نہ سیکھنے کا شوق ہے، بری دوستوں کی گندی
صحبت میں گھنٹوں اپنا وقت برباد کرنے کے لئے وقت ہے مگر عاشقان رسول اسلامی بہنوں
کی صحبت میں بیٹھ کر سنت مصطفیٰ ﷺ سیکھنے کا وقت نہیں۔ اس سے پہلے کہ موت آجائے،
بقیہ زندگی کو غنیمت جانتے ہوئے فوراً سارے گناہوں سے سچی توبہ کر لیں اور نیکیاں
کرنے لگ جائیں۔
وہ
ہے عیش و عشرت کا کوئی محل بھی جہاں
تاک میں ہر گھڑی ہو اجل بھی
بس
اب اپنے اس جہل سے تو نکل بھی یہ جینے کا انداز اپنا بدل بھی
جگہ
جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ
عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
علما
سے علم کیوں ضائع ہو جاتا ہے؟ حضرت عبد الله بن سلام رضی اللہ عنہ نے
حضرت کعب الاحبار رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا: کون سی چیز علما کے دلوں سے علم کو لے
جاتی ہے جبکہ وہ اسے سمجھ بھی لیتے ہیں اور یاد بھی کر لیتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا:
لالچ، نفسانی ہوس اور حاجات کی طلب۔ کسی عاقل کا قول ہے کہ انسان کا معاملہ بڑا
عجیب ہے اگر اعلان کر دیا جائے کہ اب ہمیشہ دنیا میں رہنا ہے تو یہ سن کر اسے دنیا
جمع کرنے کی حرص اتنی نہ ہو گی جتنی اب ہے حالانکہ اب نفع حاصل کرنے کی مدت کم ہے
اور زندگی چند روزہ ہے۔
اے میری بہن! تو
اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ لالچی کو رزق ملتا ہے اور عبادت گزار اس سے محروم
ہوتا ہے۔ اسی کے متعلق شاعر کہتا ہے:
اراک يزيدك الاثراء حرصا على
الدّنيا كأنك لا تموت
فهل لك غايةٌ إن صرت يومًا إليها
قلت حسبى قد رضيت
ترجمہ: میں
تجھے دیکھ رہا ہوں کہ مال داری دنیا پر تیری حرص کو بڑھارہی ہے گو یا تجھے ہی مرنا
نہیں ہے۔
کیا تیری حرص
کی کوئی انتہا بھی ہے جہاں پہنچ کر تو یہ کہے کہ بس یہ کافی ہے اب میں راضی ہوں۔ (احیاء
العلوم، 3/725)
نیکیوں
کی حرص بڑھانے کا طریقہ: اے عاشقان رسول اسلامی بہنو! دولت و
عیش و عشرت آنے جانے والی شے ہے، نیکیوں کی حرص کیجئے اور اپنا یہ ذہن بنائیے کہ
میرے پاس مال کی کثرت ہو یانہ ہو نیکیوں کی ضرور کثرت ہو۔ نیک بننے اور نیکیوں کی
حرص پیدا کرنے کے لئے اللہ والوں کے واقعات پڑھئے۔
حرص
کا علاج: پیاری
اسلامی بہنو! عام طور پر مال ہی کی حرص کی خواہش ہوتی ہے اور اس حرص کی وجہ سے
دیگر کئی طرح کی حرص پیدا ہوتی ہیں، اگر مال کی حرص سے اپنے آپ کو بچا لیا جائے تو
اللہ پاک کی عبادت کرنے، آرام و سکون کی زندگی گزارنے کی صورت بن سکتی ہے۔ مال کی
حرص کا سب سے بڑا علاج قناعت ہے، چنانچہ شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا عبد المصطفی
اعظمی رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں: اس قلبی مرض کا علاج صبر و قناعت ہے یعنی جو کچھ
خدا کی طرف سے بندے کو مل جائے اس پر راضی ہو کر خدا کا شکر بجالائے اور اس عقیدہ
پر جم جائے کہ انسان جب ماں کے پیٹ میں رہتا ہے اسی وقت فرشتہ خدا کے حکم سے انسان
کی چار چیزیں لکھ دیتا ہے۔ انسان کی عمر، انسان کی روزی، انسان کی نیک نصیبی،
انسان کی بد نصیبی، یہی انسان کا نوشتہ تقدیر ہے۔ لاکھ سر مارو مگر وہی ملے گا جو
تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے، نفس ادھر ادھر لپکے تو صبر کر کے نفس کی لگام کھینچ لو۔
اسی طرح رفتہ رفتہ قلب میں قناعت کا نور چمک اٹھے گا اور حرص ولالچ کا اندھیر
ابادل چھٹ جائے گا۔ (جنتی زیور، ص 111)
دولت
کی حرص دل سے اللہ دور کردے
عشق
رسول دے دے،کر یہ دعا رہے ہیں
تکثیر
مال وزر کی ہرگز نہیں تمنا
ہم
مانگ آپ سے بس،غم آپ کا رہے ہیں
پیاری پیاری
اسلامی بہنو! یہ ذہن بنا لیجئے کہ ہمیں صرف اور صرف نیکیوں کا حریص بننا ہے،
نیکیاں اور صرف نیکیاں کرنی ہیں۔ اللہ پاک کے سچے نبی ﷺ کا فرمان نصیحت نشان ہے:
اس پر حرص کرو جو تمہیں نفع دے۔ (مسلم، ص 2341، حدیث:
4662) حضرت امام ابو زکریا یحیی بن شرف نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں
فرماتے ہیں: یعنی اللہ پاک کی عبادت میں خوب حرص کرو اور اس پر انعام کا لالچ رکھو
مگر اس عبادت میں بھی اپنی کوشش پر بھروسہ کرنے کے بجائے اللہ پاک سے مدد مانگو۔ (شرح
صحيح مسلم للنووى، 8/512، جزء: 61 ملتقطاً)
حضرت مفتی
احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: خیال رہے کہ دنیاوی چیزوں میں قناعت اور
صبر اچھا ہے مگر آخرت کی چیزوں میں حرص اور بے صبری اعلیٰ ہے، دین کے کسی درجے پر
پہنچ کر قناعت نہ کر لو، آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ (مراۃ المناجیح، 7/211)
حرص
کا ایک اور علاج! پیاری
پیاری اسلامی بہنو! دعا مومن کا ہتھیار ہے، حرص و طمع کی نحوست سے پیچھا چھڑانے
اور قناعت کی دولت پانے کے لئے بارگاہ الہی میں گڑ گڑا کر دعا کیجئے۔
اللہ پاک کے
سچے نبی ﷺ کا فرمان حقیقت بنیاد ہے: اگر انسان کیلئے مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ
تیسری وادی کی تمنا کرے گا اور انسان کے پیٹ کو تو صرف مٹی ہی بھر سکتی ہے اور جو
شخص توبہ کرتا ہے اللہ پاک اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ (مسلم، ص 404، حدیث: 2419)
سیٹھ
جی کو فکر تھی اک اک کے دس دس کیجئے
موت
آپہنچی کہ مسٹر جان واپس کیجئے
امام محمد
غزالی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: عیش کچھ وقت کا ہے جو گزر جائے گا اور چند دنوں
میں حالت بدل جائے گی۔ اپنی زندگی میں قناعت اختیار کر، راضی رہے گا اور اپنی
خواہش ختم کر دے، آزادی کے ساتھ زندگی گزارے گا، کئی مرتبہ موت سونے، یا قوت اور
موتیوں کے سبب (ڈاکوؤں کے ذریعے) آتی ہے۔ (احیاء العلوم، 3/298)
یاد رکھئے!
مشقت دونوں میں ہے، حرص میں بھی اور قناعت میں بھی، ایک کا نتیجہ بربادی دوسری کا
آبادی! آپ کو کیا چاہئے؟ اس کا فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔ جو قناعت کرے گا ان شاء اللہ
خوشگوار زندگی گزارے گا۔ جس کے دل میں دنیا کی حرص جتنی زیادہ ہو گی اتنی ہی زندگی
میں بدمزگی بڑھے گی۔
کان
دھر کے سن! نہ بننا تو حریصِ مال وزر
کر
قناعت اختیار اے بہنا! تھوڑے رزق پر
اللہ ہمیں بخل
وکنجوسی اور حرص جیسی مذموم صفات سے محفوظ رکھے اور اپنی راہ میں خوش دلی کے ساتھ
خرچ کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ