حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا،  جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکو تو رونے کی شکل بنا لو۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا، باب فی حسن الصوت بالقرآن 2/129، الحدیث1337)

تلاوتِ قرآن کے وقت رونا مستحب ہے۔(صراط الجنان، ج3 ص10)

ہمارے بزرگان دین علیہم الرحمۃ قرآن پاک کی تلاوت کرنے کے وقت رویا کرتے تھے، آئیے ان میں سے چند کا ذکرِ خیر کرتے ہیں۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میرے والدِ ماجد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تو آپ کو اپنے آنسو پر اختیار نہ رہتا یعنی زاروقطار رویا کرتے ۔ (شعب الایمان باب فی الخوف من اللہ تعالی، 1/493)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ:

حضرت سیدنا حسن بصری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار امیر المؤمنین حضرت سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان آیات کی تلاوت کی اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌۙ مَّا لَهٗ مِنْ دَافِعٍ(پ27، الطور: 7،8)

ترجمہ کنزالایمان : بے شک تیرے ربّ کا عذاب ضرور ہونا ہے، اسے کوئی ٹالنے والا نہیں۔

آپ پرخوفِ خدا کے غلبے کے سبب ایسی رقت طاری ہوئی کہ آپ رضی اللہ عنہ کی سانس اکھڑ گئی اور یہ کیفیت کم و بیش بیس روز تک طاری رہی۔( فیضان فاروق اعظم ، 1/151)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ:

حضرت نافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب اس آیت مبارکہ اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ (پ27، الحدید:16)

ترجمہ کنزالایمان: کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ ان کے دل جھک جائیں اللہ کی یاد( کے لئے)کی تلاوت کرتے تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے اور اتنا روتے کہ آپ بے حال ہو جاتے۔( ابن عساکر، عبداللہ بن عمر بن الخطاب الخ، 31/127)

حضرت حاتم اصم رضی اللہ عنہ:

حضرت حاتم اصم رضی اللہ عنہ نے دعوتِ محاسبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے لوگو! وہ وقت یاد کرو جب سورج جو آج کروڑوں میل دور ہے، صرف سوا میل دور ہو گا، آج اس کی پشت ہماری جانب ہے، اس دن اس کا اگلا حصّہ ہماری طرف ہوگا ، زمین تانبے کی ہوگی اس دہکتی ہوئی زمین کا تصور کرو اور اس گرم توے کو دیکھو کہ یہ تو دنیا کی آگ سے گرم ہوا ہے، اس کی تپش تو انگارے کی مانند دہکتی ہوئی، تانبے کی زمین کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، پھر آپ نے یہ آیتِ مبارکہ تلاوت کی ثُمَّ لَتُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَىٕذٍ عَنِ النَّعِیْمِ (پ30، التکاثر:8)

ترجمہ کنزالایمان: بے شک ضرور اس دن تم سے نعمتوں سے پُرسش (پوچھ گچھ) ہوگی، یہ سن کر لوگ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ (تذکرۃ الاولیاء،1/222بتصرف ما)

حضرت سیّدناحسن طوسی رحمۃ اللہ علیہ :

حضرت سیدناابوعبداللہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ایک دن حضرت طوسی علیہ الرحمہ کابچہ زورزور سے رونے لگا، اس کی امی جان چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھیں، میں نے کہا بچہ آخر اس قدر کیوں رو رہا ہے؟ بی بی صاحبہ نے فرمایا: اس کے ابو حضرت طوسی علیہ الرحمہ اس کمرے میں داخل ہو کر تلاوتِ قرآن کرتے ہیں اور روتے ہیں، تو یہ بھی ان کی آواز سن کر رونے لگتا ہے۔(حلیۃ الاولیاء، 9/245)


1۔حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب کسی آیتِ عذاب کو سنتے تو غش کھا کر گر پڑتے اور اتنا بیمار ہوجاتے کہ آپ کے ساتھی آپ کی عیادت کے لئے جایا کرتے تھے، آپ کے چہرہ مبارک پر کثرت سے آنسو بہانے کے سبب دولکیریں بن گئی تھیں، آپ فرمایا کرتے تھے ''کاش میری ماں نے مجھے جنا ہی نہ ہوتا''، ایک دن آپ کہیں سے گزر رہے تھے کہ یہ آیت سنی۔

اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌۙ مَّا لَهٗ مِنْ دَافِعٍۙ(پ27، الطور: 7،8)

ترجمہ کنزالایمان :بے شک تیرے ربّ کا عذاب ضرور ہونا ہے اسے کوئی ٹالنے والا نہیں۔

تو آپ پر غشی کی کیفیت طاری ہوگئی اور آپ سواری سے گر پڑے، لوگ آپ کو گھر لے آئے پھر آپ ایک مہینہ تک گھر سے باہر نہ نکل سکے ۔ (خوف خدا ، ص50، 51)

2۔حضرت عبید بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ ہمیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فجر کی نماز پڑھائی اور سورہ یوسف کی قراءَت کی جب اس آیت پر پہنچے: وَ ابْیَضَّتْ عَیْنٰهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِیْمٌ۔

ترجمہ کنزالایمان:اور اس کی آنکھیں غم سے سفید ہوگئیں تو وہ غصہ کھاتا رہا۔ ( پ 13، یوسف 84)

تو وہ رونے لگے اور خوفِ خدا کے غلبہ کی وجہ سے آگے نہ بڑھ سکے اور رکوع کر دیا تھا۔ (خوفِ خدا، ص 52)

3۔حضرت سیّدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ اپنی زوجہ محترمہ کی گود میں سر رکھ کر لیٹے ہوئے تھے کہ اچانک رونے لگے ان کو روتا دیکھ کر زوجہ بھی رونے لگی، آپ نے ز وجہ سے پوچھا تم کیوں روتی ہو ؟انہوں نے جواب دیا آپ کو روتا دیکھ کر مجھے بھی روناآگیا، انہوں نے فرمایا مجھے تو اللہ تعالی کا یہ قول یاد آ گیا تھا وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا ۚ-كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا ۚ

ترجمہ کنزالایمان:اور تم میں کوئی ایسا نہیں جس کا گزر دوزخ پر نہ ہو۔ تمہارے رب کے ذمہ پر یہ ضرور ٹھہری ہوئی بات ہے ( پ 16، مریم: 71)

اور میں نہیں جانتا کہ اس سے بہ عافیت گزر جاؤں گا یا نہیں۔


 قرآن پاک اللہ ربّ الانام کا مبارک کلام ہے، اس کی تلاوت کرنا، سننا سنانا سب ثواب کا کام ہے، قرآن پاک کا ایک حرف پڑھنے پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔

تلاوت کی توفیق دے دے الہی

گناہوں کی ہو دور دل سے سیاہی

ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری وقت آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو آپ نے حکم فرمایا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھائیں تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ جب وہ قرآن کی تلاوت کریں گے، تو لوگوں کو ان کے رونے کی آواز کے سوا کچھ سنائی نہیں دے گا۔

ایک مرتبہ حضرت سیّدنا عمر بن عبدالعزیز علیہ رحمۃاللہ العزیز نے ممبر پر آیت پڑھی،

وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ۔ (پ 17، الانبیاء: 47)

ترجمہ کنزالایمان: ''اور ہم عدل کے ترازو رکھیں گے، قیامت کے دن''۔

تو خوف سے ایک طرف کو جھک گئے، گویا زمین پر گر رہے ہیں۔

حضرت سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب یہ آیت مبارکہ:اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُہُمْ لِذِکْرِ اللہِ۔(پ27، الحدید: 16)

ترجمہ کنزالایمان:"کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ ان کے دل جھک جائیں، اللہ کی یاد کے لئے۔

تلاوت کرتے تو رونے لگتے، یہاں تک کہ روتے ہوئے آپ کی ہچکیاں بندھ گئیں۔

تلاوت میں رونا اس قدر پسندیدہ عمل ہے، حضرت سیّدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا:" میں تمہارے سامنے سورۃالتکاثر پڑھتا ہوں، تم میں سے جو روئے گا، وہ جنت میں داخل ہو گا۔"

چنانچہ سرکارَ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پڑھا، ہم میں سے کچھ تو روئے اور کچھ نہ روئے، جو نہیں رو سکے، انہوں نے عرض کی"یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم نے رونے کی کوشش کی مگر نہ رو سکے، آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا" میں تمہارے سامنے دوبارہ پڑھتا ہوں، جو روئے گا اس کے لئے جنت ہوگی اور جو نہ رو سکے وہ رونے کی سی شکل بنا لے۔"

عبادت میں ریاضت میں تلاوت میں لگادے دل

رجب کا واسطہ دیتا ہوں، فرما دے کرم مولا

حضرت عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے سے رونے کی وجہ سے چولہے پر رکھی ہوئی ہنڈیا جیسی آواز نکل رہی تھی۔


قرآن پاک پڑھتے ہوئے رونا مستحب ہے کہ مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"قرآن پڑھو اور  روؤ، اگر تمہیں رونا نہ آئے تو رونے جیسی صورت بنا لو۔"(سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوۃ و السنۃ فیھا، باب فی حسن الصوت بالقرآن، الحدیث 1337، جلد 2 ، صفحہ 129، بتغیراً)

ایک روایت میں ہے:"دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے، جس طرح لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے، عرض کی گئی؟یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی جلا کس چیز سے ہو گی؟ارشاد فرمایا:تلاوتِ قرآن پاک اور موت کی یاد سے۔"( شعب الایمان للبہیقی، باب ‏فی تعظیم القرآن، فصل فی ارمان تلاوتہ، الحدیث 202، جلد 2 ، صفحہ 353)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ترجمہ کنز الایمان:"ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے، ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں، ان کا ایمان ترقی پائے اور اپنے ربّ ہی پر بھروسہ کریں۔"( پ9، الانفال:2)

دو حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:"کتنے ہی قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے۔"(احیاءالعلوم، جلد 1، صفحہ 827)

مسلمان قرآن پاک میں غور و فکر کرنے سے ضرور غمگین ہوں گے، اگر اس پر غم اور رونے کی کیفیت طاری نہ ہو، جیسے صاف دل والوں پر طاری ہوتی ہے تو اسے نہ رونے اور غمگین نہ ہونے پر رونا چاہئے، کیونکہ یہ سب سے بڑی مصیبت ہے۔"

حضرت سیدنا حضرمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی خوش الحان قاری نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالیہ میں قرآن مجید کی تلاوت کی تو حضرت سیدنا عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کے علاوہ تمام حاضرین رونے لگے، سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عبدالرحمن بن عوف کی آنکھیں اگرچہ اشکبار نہ ہوئیں مگر ان کا دل رو رہا ہے۔(المطالب العالبۃ بن حجر العسقلانی، کتاب المناقب، الحدیث 3978، ج8، ص 406)

حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب سجدہ سبحان پڑھو تو سجدے میں جلدی نہ کرو، یہاں تک کہ رو لو، اگر کسی کی آنکھ نہ روئے تو اس کا دل رونا چاہئے۔"( التفسیر الکبیر للرازی، مریم، تحت الآیۃ 58، جلد 7 ، صفحہ 551)

اور دل کے رونے سے مراد اس کا غم اور خوف کی کیفیت میں مبتلا ہونا ہے۔

اللہ عزوجل کا فرمانِ عالیشان:"اور پتھروں میں تو کچھ وہ ہیں جن سے ندیاں بہہ نکلتی ہیں"(پ1، البقرہ 74)کی تفسیر میں منقول ہے کہ یہاں زیادہ رونے والی آنکھ مراد ہے۔

حضرت سیّدنا ثابت بنانی قدس سرہ النورانی فرماتے ہیں:میں نے خواب میں دیکھا گویا کہ میں بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوں اور قرآن کریم کی تلاوت کر رہا ہوں، جب میں پڑھنے سے فارغ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا:"یہ تو محض قرآن کریم کی تلاوت تھی، رونا کہاں ہے؟(تاریخَ مدینہ دمشق، الرقم 8235، یزید بن ابان الرقاشی جلد 65، صفحہ 84، قول یزید الرقاشی)

حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ آیت"اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعُ"(پ27، الطور: 7)تلاوت فرمائی تو آپ کا سانس پھول گیا اور اس کی وجہ سے بیس دن تک بار بار یہی کیفیت بنتی رہی۔(کنز العمال، کتاب الفضائل، فضائل الصحابۃ، فضائل الفاروق رضی اللہ عنہ 264/6 ، الجزء الحا دی عشر ، الحدیث 35827)

ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نو جو ان کے پاس سے گزرے ، وہ نوجوان یہ آیت فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَکَانَتْ وَرْدَۃً کَالدِّھَانِ۔(پ27، الرحمن: 37) پڑھ رہا تھا، آپ وہیں رک گئے اور دیکھا کہ اس نوجوان پر کپکپی طاری ہو گئی اور آنسوؤں نے اس کا گلا بند کر دیا، وہ روتا رہا اور یہی کہتا رہا، اس دن میری خرابی ہوگی، جس دن آسمان پھٹ جائے گا، سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نوجوان سے فرمایا:"اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، تیرے رونے کی وجہ سے فرشتے بھی روئے ہیں۔( درمنثور، الرحمن، تحت الآیۃ37، 7/703)

اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی وہ آیات جن میں اللہ تعالی کے عذاب کا ذکر ہے، ان کی تلاوت کرتے وقت اللہ تعالی کے عذاب سے ڈر جانا ہمارے بزرگانِ دین کا طریقہ ہے، لہذا ہمیں بھی چاہئے کہ ایسی آیات کی تلاوت کرتے وقت اپنے دل میں اللہ تعالی کے عذاب کا خوف پیدا کریں اور خود کو عذابِ الہی سے ڈرائیں۔

 اللہ عزوجل ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ نبی الامین صلی اللہ علیہ وسلمقرآن پاک پڑھتے ہوئے رونا مستحب ہے کہ مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"قرآن پڑھو اور روؤ، اگر تمہیں رونا نہ آئے تو رونے جیسی صورت بنا لو۔"(سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوۃ و السنۃ فیھا، باب فی حسن الصوت بالقرآن، الحدیث 1337، جلد 2 ، صفحہ 129، بتغیراً)

ایک روایت میں ہے:"دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے، جس طرح لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے، عرض کی گئی؟یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی جلا کس چیز سے ہو گی؟ارشاد فرمایا:تلاوتِ قرآن پاک اور موت کی یاد سے۔"( شعب الایمان للبہیقی، باب ‏فی تعظیم القرآن، فصل فی ارمان تلاوتہ، الحدیث 202، جلد 2 ، صفحہ 353)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ترجمہ کنز الایمان:"ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے، ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں، ان کا ایمان ترقی پائے اور اپنے ربّ ہی پر بھروسہ کریں۔"( پ9، الانفال:2)

دو حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:"کتنے ہی قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے۔"(احیاءالعلوم، جلد 1، صفحہ 827)

مسلمان قرآن پاک میں غور و فکر کرنے سے ضرور غمگین ہوں گے، اگر اس پر غم اور رونے کی کیفیت طاری نہ ہو، جیسے صاف دل والوں پر طاری ہوتی ہے تو اسے نہ رونے اور غمگین نہ ہونے پر رونا چاہئے، کیونکہ یہ سب سے بڑی مصیبت ہے۔"

حضرت سیدنا حضرمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی خوش الحان قاری نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالیہ میں قرآن مجید کی تلاوت کی تو حضرت سیدنا عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کے علاوہ تمام حاضرین رونے لگے، سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عبدالرحمن بن عوف کی آنکھیں اگرچہ اشکبار نہ ہوئیں مگر ان کا دل رو رہا ہے۔(المطالب العالبۃ بن حجر العسقلانی، کتاب المناقب، الحدیث 3978، ج8، ص 406)

حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب سجدہ سبحان پڑھو تو سجدے میں جلدی نہ کرو، یہاں تک کہ رو لو، اگر کسی کی آنکھ نہ روئے تو اس کا دل رونا چاہئے۔"( التفسیر الکبیر للرازی، مریم، تحت الآیۃ 58، جلد 7 ، صفحہ 551)

اور دل کے رونے سے مراد اس کا غم اور خوف کی کیفیت میں مبتلا ہونا ہے۔

اللہ عزوجل کا فرمانِ عالیشان:"اور پتھروں میں تو کچھ وہ ہیں جن سے ندیاں بہہ نکلتی ہیں"(پ1، البقرہ 74)کی تفسیر میں منقول ہے کہ یہاں زیادہ رونے والی آنکھ مراد ہے۔

حضرت سیّدنا ثابت بنانی قدس سرہ النورانی فرماتے ہیں:میں نے خواب میں دیکھا گویا کہ میں بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوں اور قرآن کریم کی تلاوت کر رہا ہوں، جب میں پڑھنے سے فارغ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا:"یہ تو محض قرآن کریم کی تلاوت تھی، رونا کہاں ہے؟(تاریخَ مدینہ دمشق، الرقم 8235، یزید بن ابان الرقاشی جلد 65، صفحہ 84، قول یزید الرقاشی)

حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ آیت"اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعُ"(پ27، الطور: 7)تلاوت فرمائی تو آپ کا سانس پھول گیا اور اس کی وجہ سے بیس دن تک بار بار یہی کیفیت بنتی رہی۔(کنز العمال، کتاب الفضائل، فضائل الصحابۃ، فضائل الفاروق رضی اللہ عنہ 264/6 ، الجزء الحا دی عشر ، الحدیث 35827)

ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نو جو ان کے پاس سے گزرے ، وہ نوجوان یہ آیت فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَکَانَتْ وَرْدَۃً کَالدِّھَانِ۔(پ27، الرحمن: 37) پڑھ رہا تھا، آپ وہیں رک گئے اور دیکھا کہ اس نوجوان پر کپکپی طاری ہو گئی اور آنسوؤں نے اس کا گلا بند کر دیا، وہ روتا رہا اور یہی کہتا رہا، اس دن میری خرابی ہوگی، جس دن آسمان پھٹ جائے گا، سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نوجوان سے فرمایا:"اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، تیرے رونے کی وجہ سے فرشتے بھی روئے ہیں۔( درمنثور، الرحمن، تحت الآیۃ37، 7/703)

اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی وہ آیات جن میں اللہ تعالی کے عذاب کا ذکر ہے، ان کی تلاوت کرتے وقت اللہ تعالی کے عذاب سے ڈر جانا ہمارے بزرگانِ دین کا طریقہ ہے، لہذا ہمیں بھی چاہئے کہ ایسی آیات کی تلاوت کرتے وقت اپنے دل میں اللہ تعالی کے عذاب کا خوف پیدا کریں اور خود کو عذابِ الہی سے ڈرائیں۔

اللہ عزوجل ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ نبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ترجمہ کنز الایمان:"اور وہ لوگ ٹھوڑی کے بل گر گئے، روتے ہوئے اور ان کی خشوع میں اضافہ ہوا۔" (پ15، الاسراء:109)

تلاوت قرآن کے وقت رونا مستحب ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:وہ شخص جہنم میں داخل نہیں ہوگا، جو اللہ کے خوف کی وجہ سے روتا ہے۔(ترمذی فی الجہا د، احمد 10565/3، نسائی 3108 ، ابنِ ماجہ، حاکم4/260)

اس حوالے سے تین فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ ہوں:

(1) قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا ، لہذا جب تم اس کی قراءت کرو تو غم ظاہر کرو۔"(مجمع الزوائد، کتاب التفسیر، باب القراءۃ بالحزن، الحدیث: 11694، ج7، ص351، مفھوماً)

(2)"قرآن پڑھو اور روؤ، اگر تمہیں رونا نہ آئے تو رونے جیسی صورت بنا لو۔"( سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوۃ والسنۃ فیھا، باب فی حسن الصوت با القرآن،الحدیث 1337،ج2، ص129، تبغيراً)

(3) لوگوں میں سب سے اچھی آواز سے قرآن پڑھنے والا وہ شخص ہے کہ جسے تم جب قرآن پڑھتے سنو تو محسوس کرو کہ وہ اللہ تعالی سے ڈر رہا ہے۔"(سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوۃ۔۔الخ، باب فی حسن الصوت بالقرآن، الحدیث 1339، ج2، ص135، مفھوماً)

میں ادب قرآن کا ہر حال میں کرتار ہوں

ہر گھڑی اے میرے مولا تجھ سے میں ڈرتا رہوں

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کسی آیت کی تلاوت فرماتے تو آپ کی ہچکی بندھ جاتی اور کئیں دن آپ گھر میں پڑے رہتے، آپ کی عیادت کی جاتی تو لوگ آپ کو مریض گمان کرنے لگ جاتے۔"(اخرجہ الامام احمد بن حنبل فی الزھد:126)

حضرت سیدنا یحییٰ بن فضل انیسی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے مروی ہے کہ حضرت سیّدنا محمد بن منکدر رحمۃ اللہ علیہ ایک رات نماز پڑھتے پڑھتے رونے لگے اور اس قدر روئےکہ گھر والے گبھرا گئے، انہوں نے رونے کی وجہ پوچھی تو آپ نے کوئی جواب نہ دیا، بلکہ مزید رونے لگے، گھر والوں نے حضرت سیّدنا ابو حازم رحمۃ اللہ علیہ کو بلوا کر سارا واقعہ عرض کیا، آپ نے انہیں روتے دیکھ کر پوچھا"اے بھائی! کس چیز نے تمہیں رُلایا کہ تم نے گھر والوں کو بھی پریشان کر دیا، کسی بیماری کے سبب رو رہے ہیں یا کوئی اور وجہ ہے؟ حضرت سیّدنا محمد بن منکدر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :"ایک آیتِ مقدسہ میری نظر سے گزری"، پوچھا" کون سی آیت؟ فرمایا: اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے" ترجمہ کنز الایمان: انہیں اللہ کی طرف سے وہ بات ظاہر ہوئی، جو ان کے خیال میں نہ تھی۔"(پ 24، الزمر:47)

یہ سن کرحضرت سیدنا ابو حازم رحمۃ اللہ علیہ بھی رونے لگے اور بہت زیادہ روئے، گھر والوں میں سے کسی نے کہا: ہم نے آپ کو اس لئے بلایا تھا کہ آپ انہیں اس کیفیت سے نکالیں، لیکن آپ نے تو اس میں مزید اضافہ کر دیا، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اہلِ خانہ کو اپنے اور ان کے رونے کا سبب بتا دیا۔(اللہ والوں کی باتیں، ج3، ص215)

حضرت سیدنا حضرمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی خوش الحان قاری نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالیہ میں قرآن مجید کی تلاوت کی تو حضرت سیدنا عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کے علاوہ تمام حاضرین رونے لگے، سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عبدالرحمن بن عوف کی آنکھیں اگرچہ اشکبار نہ ہوئیں مگر ان کا دل رو رہا ہے۔(المطالب العالبۃ بن حجر العسقلانی، کتاب المناقب، الحدیث 3978، ج8، ص 406)

منقول ہے کہ حضرت سیّدنا ابراہیم علیہ رحمۃ اللہ القوی جب یہ ارشادِ ربّانی:

اِذَا السَّمَآءُ انْشَقَّتْ۔(پ 30، الانشقاق:1)

ترجمہ کنزالایمان: جب آسمان شق ہو۔

سنتے تو بے چین ہو جاتے، یہاں تک کہ آپ کے جوڑ تھرتھرانے لگتے۔(احیاء العلوم، ج4، ص519)

بتکلف رونے کا طریقہ یہ ہے کہ دل میں غم کو حاضر کرے کہ اس سے رونا پیدا ہوتا ہے، حقیقت میں پسندیدہ حالت وہی ہے کہ جو اللہ تعالی بندہ مؤمن کو قرآن کی آیات سمجھ لینے کی توفیق عطا فرماتا ہے، قرآن پاک کی تلاوت کا مقصد یہی ہے کہ دل پر یہ احوال پیش آئیں اور اس پر عمل کیا جائے۔ اللہ عزوجل ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


تنبیہ:

سب خو بیاں اللہ عزوجل کے لئے، جس نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کے ذریعے بندوں پر احسان فرمایا، قرآن پاک کی شان بیان کرتے ہوئے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

باطل کو اس کی طرف راہ نہیں، نہ اس کے آگے سے، نہ اس کے پیچھے سے، اتارا ہوا ہے، حکمت والے سب خوبیوں سرا ہے۔"(احیاء العلوم مترجم، جلد اول ، صفحہ نمبر 821)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے!

اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ سَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ هُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ (پ 21، سجدہ:15)

ترجمہ کنز الایمان:ہماری آیتوں پرو ہی ایمان لاتے ہیں کہ جب وہ انہیں یا دلائی جاتی ہیں، سجدہ میں گر جاتے ہیں اور اپنے ربّ کی تعریف کرتے ہوئے اس کی پاکی بولتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔"( احیاء العلوم، جلد اوّل، صفحہ نمبر837)

فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:

مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" قرآن پڑھو اور روؤ، اگر تمہیں رونا نہ آئے تو رونے جیسی صورت بنا لو۔

ایک روایت میں ہے:"جو شخص قرآن کو اچھی آواز میں نہیں پڑھتا، وہ ہم میں سے نہیں۔"(احیاء العلوم، جلد اوّل، صفحہ نمبر836)

بزرگوں کے اقوال :

٭ حضرت سیدنا صالح فری علیہ رحمۃ اللہ الوالی فرماتے ہیں:"میں نے خواب میں حضور

صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قرآن پاک کی تلاوت کی تو آپ نے استفسار فرمایا: اے صا لح!یہ تلاوت قرآن ہے تو رونا کہاں ہے۔"

٭ حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:" جب تم اللہ کے لئے آیتِ سجدہ تلاوت کرو تو سجدہ کرنے میں جلد ی نہ کرو، یہاں تک کہ رونے لگو، اگر تم میں سے کسی کی آنکھ نہ روئے تو اس کے دل کو رونا چاہئے۔"

رونے والی آنکھیں مانگو رونا سب کا کام نہیں

ذکرِ محبت عام ہے لیکن سوزِ محبت عام نہیں

بتکلف رونے کا طریقہ:

یہ کہ دل میں غم کو حاضر کر کے اس سے رونا پیدا ہوتا ہے، پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا لہذا جب تم اس کی قراءت کرو تو غم ظاہر کرو۔

غم کی کیفیت پیدا کرنے کا طریقہ:

یہ ہے کہ اس میں تنبیہات و وعیدات اور عہد و پیمان کو یاد کرے۔

ارشاد ِباری تعالیٰ:

وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْكُوْنَ وَ یَزِیْدُهُمْ خُشُوْعًا

(پ15، بنی اسرائیل، 109)

ترجمہ کنز الایمان: اور ٹھوڑی کے بل گرتے ہیں، روتے ہوئے اور یہ قرآن ان کے دل کا جھکنا بڑھاتا ہے ۔

(ا حیاء العلوم، جلد اول، صفحہ نمبر838)

واقعہ:

ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:" میرے سامنے تلاوت کرو، عرض کی"میں آپ کے سامنے کیا پڑھوں" آپ پر ہی تو قرآن اترا ہے، ارشاد فرمایا:"میں چاہتا ہوں کہ دوسرے سے سنو " چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ تلاوت کرتے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چشمانِ مبارک سے آنسو بہتے رہے۔

(ا حیاءالعلوم، جلد اول، صفحہ نمبر844)

حضرت سیّدنا عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ جب قرآن پاک کھولتے تو ان پر غشی طاری ہو جاتی تھی اور فرماتے" یہ میرے ربّ کا کلام ہے، یہ میرے ربّ کا کلام ہے۔"(احیاء العلوم، جلد اول، صفحہ نمبر848)


جو شخص خوف خدا عزوجل سے روتا ہے، وہ  ہرگز جہنم میں داخل نہیں ہوگا، جس طرح دودھ دوبارہ تھنوں میں واپس نہیں جاتا ۔(مصنف ابن شیبہ ج4، ص570، حدیث62، دارالفکر بیروت)

حضرت سیدنا یحییٰ علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام کا خوفِ خدا عزوجل:

حضرت سیدنا یحییٰ علیہ السلام جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو خوف خدا عزوجل سے اس قدر روتے کہ درخت اور مٹی کے ڈھیلے بھی ساتھ رونے لگتے، حتٰی کہ آپ علیہ السلام کے والدِ ماجد حضرت سیّدنا زکریا علیہ السلام بھی آپ علیہ السلام کو دیکھ کر رونے لگتے، یہاں تک یہ بے ہوش ہو جاتے ، آپ علیہ السلام اسی طرح مسلسل آنسو بہاتے رہتے، یہاں تک کہ ان مسلسل بہنے والے آنسوؤں کے سبب آپ علیہ السلام کے رخسار مبارک پرزخم ہوگئے۔

یہ دیکھ کر آپ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ نے آپ علیہ السلام کے رخساروں پر اُونی پٹیاں چپٹا دیں، اس کے باوجود جب آپ علیہ السلام دوبارہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو پھر رونا شروع کر دیتے، جس کے نتیجے میں وہ اُونی پٹیاں بھیگ جاتیں، جب آپ علیہ السلام کی والدہ انہیں خشک کرنے کے لئے نچوڑ تیں اور آپ علیہ السلام اپنے آنسؤوں کے پانی کو اپنی والدہ کے بازو پر گرتا ہوا دیکھتے تو بارگاہِ الٰہی عزوجل میں اس طرح عرض کرتے:

"اے اللہ عزوجل یہ میرے آنسو ہیں، یہ میری ماں ہے اور میں تیرا بندہ ہوں، جبکہ تو سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے۔"( ماخوذ از احیاء العلوم الدین، ج4، ص225، دار صادر بیروت)

حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اورحشیتِ الہی عزوجل:

حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جب قرآن مجید کی کوئی آیت سنتے تو خوفِ خدا عزوجل سے بے ہوش ہو جاتے، ایک دن ایک تنکا ہاتھ میں لے کر فرمایا:

"کاش! میں تنکا ہوتا، کوئی قابلِ ذکر چیز نہ ہوتا، کا ش میری ماں نہ جنتی، خوفِ خدا عزوجل سے آپ رضی اللہ عنہ اتنا رویا کرتے تھے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے چہرے پر آنسوؤں کے بہنے کی وجہ سے دو سیاہ نشان پڑ گئے تھے۔( مکاشفۃ القلوب، ص12، دارالکتب العلمیہ بیروت)

تفسیر آیت 83 سورۃ المائدہ: وَ اِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ (پ7، المائدہ: 83)

ترجمہ کنز الایمان: اور جب سنتے ہیں وہ جو رسول کی طرف اترا۔

جب حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نجاشی کے دربار میں جمع تھے اور مشرکینِ مکہ کا وفد بھی وہاں موجود تھا تو اس وقت نجاشی نے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ سے عرض کی:کیا آپ رضی اللہ عنہ کی کتاب میں حضرت مریم رضی اللہ عنہا کا ذکر ہے؟

حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:" قرآن پاک میں ایک مکمل سورت حضرت مریم رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے، پھر سورۃ مریم اور سورۃ طٰہ کی چند آیات تلاوت فرمائیں، تو نجاشی کی آنکھوں سے سیلِ اشک رواں ہوگیا، اسی طرح جب پھر حبشہ کا وفد سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، جس میں70 آدمی تھے اور تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے سورۃ یٰسین کی تلاوت فرمائی تو اسے سن کر وہ لوگ بھی زارو قطار رونے لگے، اس آیت میں ان واقعات کی طرف اشارہ ہے۔(مدارک، المائدہ، تحت الآیۃ :83، ص299)

حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا، جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکوتو رونے کی شکل بنا لو۔"(ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوۃ والسنۃ فیھا، باب فی حسن الصوت با لقرآن ، 129/2 ، الحدیث 1337)


قرآنِ مجید بے مثال اور جامع کتاب ہے، یہ ایسا سمندر ہے جس کے روحانی، جسمانی، ظاہری و باطنی فوائد کا احاطہ محال ہے۔ اس کی ان گنت خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ قرآن مجید میں سوز و گداز ہے بغیر سوچے سمجھے پڑھیں تب بھی تڑپا دیتا ہے۔

اللہ پاک فرماتا ہے: تَرٰۤى اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ ترجمہ کنزالایمان: تو ان کی آنکھیں دیکھو کہ آنسوؤں سے ابل رہی ہیں ۔ (پ ۷،المائدہ:٨٣)

(تفسیر نعیمی پارہ ٩،الاعراف تحت الآیۃ : ١۴۵ ، ٩/٢٠٩ )

دورانِ تلاوت رونے کا حکم:

قرآن مجید پڑھتے ہوئے رونا "مستحب" ہے۔(احیاء العلوم ج١،ص٨٣٦)

تلاوت میں رونے کی فضیلت وترغیب:

اس کی فضیلت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ انبیاء کرام علیھم السلام کا طریقہ ہے اللہ تبارک وتعالٰی انبیاء کرام علیھم السلام کا شعار بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ترجمۂ کنزالایمان:"جب ان کے سامنے رحمٰن کی آیتیں پڑھی جاتیں گِر پڑتے سجدہ کرتے اور روتے۔

(پ ١٦، مریم : ۵٨)

نیز متعدد احادیث مبارکہ میں بھی اس کی ترغیب ہے۔

ایک جگہ فرمایا: جب تم اسے پڑھو تو روؤ۔

(سنن ابن ماجہ،کتاب اقامۃ الصلوة والسنّہ فیہا ج٢،ص١٢٩،حدیث١٣٣٧)

یہ اللّہ تعالی ٰکے جلیل القدر بندوں کا طریقہ ہے کہ بلند مراتب پر پہنچنے کے باوجود بھی ان کے دل کی کیفیات یہ ہوتی ہیں کہ جب ان کے سامنے کلامِ الٰہی پڑھا جاتا ہے تو وہ رونے لگتے ہیں۔

(تفسیرِ صراط الجنان ج٣،ص١٢)

ترغیب و حصول برکت کے لئے چند واقعات ملاحظہ فرمائیے۔

1) سرکارِ اقدسﷺ کا دورانِ تلاوت رونے کا واقعہ

ایک روز حضور نبئ کریم ﷺ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: "میرے سامنے تلاوت کرو، چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ تلاوت کرتے رہے اور حضور ﷺ کی چشمانِ مبارک سے آنسو بہتے رہے"۔

(ماخوذ از صحیح البخاری،کتاب فضائل القرآن باب البکاء ج٢،ص۴١٨،حدیث۵٠۵۵) 2) سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکا قراءت میں رونے کا واقعہ

حضرت محمّد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: " میں نے ایک صبح دیکھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا چاشت کی نماز کے دوران اس آیتِ مبارکہ ترجمۂ کنزلایمان: "تو اللہ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں لو کے عذاب سے بچا لیا" (پ ٢٧، الطور:٢٧) کی بار بار تلاوت کرکے روئے جارہی ہیں میں فراغت کے انتظار میں کھڑے کھڑے تھک گیا مگر آپ اسی حالت میں رہیں یہاں تک کہ میں بازار چلا گیا پس جب واپس آکر دیکھا تو ابھی بھی آپ رضی اللہ عنہا مسلسل وہی آیت مبارکہ پڑھ کر روئے جارہی ہیں"۔

(احیاء العلوم ج ۵،ص٣٧۴)

3)امام اعظم علیہ الرحمہ کا تلاوت کے دوران رونے کا واقعہ

حضرت قاسم بن معن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

" ایک رات امام اعظم رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس آیت ترجمہ کنزالایمان:"بلکہ ان کا وعدہ قیامت پر ہے اور قیامت نہایت کڑی اور سخت کڑی"(پ٢٧، القمر:۴٦)کو طلوعِ فجر تک دہراتے رہے اور روتے رہے"۔

(کتاب اللہ کی باتیں، ص٣٣٦)

4) تلاوت میں رونے کے سبب بینائی جاتی رہی

حضرتِ سیّدنا علاء علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: "میری ایک چچا زاد بہن تھی جو بہت عبادت کرنے والی اور بکثرت تلاوت کرنے والی تھی جب وہ ایسی آیت پر پہنچتیں جس میں جہنّم کا تذکرہ ہوتا تو وہ بے اختیار رونے لگتی یہاں تک کہ مسلسل گریہ وزاری کے سبب ان کی بینائی چلی گئ"۔

(احیاء العلوم ج۵، ص٣٨۵)

سبحان اللہ! یہ نفوسِ قدسیہ کس طرح ظاہری آداب بجالاتے ہوئے باطنی خشوع و رقّتِ قلبی کے ساتھ تلاوتِ قرآن کیا کرتے۔ اللّہﷻ ان کے طفیل ہمیں خوب خوب تلاوت کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور اس میں سوز و گداز کی سعادت بھی بخشے۔

عطا کر مجھے ایسی رقّت خدایا

کروں روتے روتے تلاوت خدایا

آمین بجاہ النّبیّ الامین ﷺ


قرآن کریم وہ عظیم کتاب ہے،  جس کو ربّ تعالی نے اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا اور اس کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا اور جہاں قرآن کریم کے لاتعداد اوصاف ہیں، وہیں قرآن کریم کا ایک وصف یہ بھی ہے جب بھی کوئی قاری اس کی سمجھ کر تلاوت کرتا ہے، اس پر رقّت طاری ہو جاتی ہے اور اپنا آپ بھول جاتا ہے اس کی نظر میں بس ایک ذات کی تمنا و آرزو باقی رہتی ہے اور وہ بے اختیار رو پڑتا ہے اور آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ہے، انہی کے متعلق ربّ تعالی خود ہی اپنی عظیم کتاب قرآن مجید، پارہ 29 سورہ الزمر کی آیت نمبر 23 میں ارشاد فرماتا ہے :تَقْشَعِرْ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ ثُمَّ تَلْیْنَ جُلُوْدُھُمْ وَقُلُوْبُھُمْ اِلَی ذِکْرِ اللہِ۔

ترجمہ کنزالایمان:اس سے بال کھڑے ہوتے ہیں ان کے بدن پر، جو اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں، پھر ان کی کھالیں اور دل نرم پڑھتے ہیں، یادِ خدا کی طرف رغبت میں۔

آیئے اب ہم چند بزرگانِ دین کے واقعات ملاحظہ کرتے ہیں، جن کے سامنے کلامِ باری تعالیٰ کی تلاوت کی جاتی تو ان کے دل موم کی طرح ہوتے اور خوب روتے، حضرت سیّدنا عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ جب قرآن پاک کھولتے تو ان پر غشی طاری ہو جاتی اور فرماتے"یہ میرے پروردگار کا کلام ہے، یہ میرے ربّ عزوجل کا کلام ہے۔"

(احیاء العلوم مترجم، جلد 1، صفحہ 848، مکتبہ المدینہ)

حضرت سیّدنا صالح مری رحمۃ اللہ علیہ جب اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ حضرت سیّدنا ابو حیّز رحمۃ اللہ علیہ کے گھر تشریف لے گئے، تو انہوں نے حضرت سیّدنا صالح مری رحمۃ اللہ علیہ کا تعارف سننے کے بعد فرمایا:اچھا تمہارے ہی متعلق مشہور ہے کہ تم قرآن بہت اچھا پڑھتے ہو، میری خواہش ہے کہ تم سے قرآن سنوں، آج مجھے قرآن سناؤ" حکم ملتے ہی آپ رحمۃ اللہ علیہ نے تلاوت شروع فرما دی، ابھی تعوذ(اعوذ باللہ) بھی مکمل نہ کر پائے تھے کہ حضرت ابو جیز رحمۃ اللہ علیہ بےہو ش ہوگئے، افاقہ ہونے کے بعد جب مزید قرآن سننے کی خواہش کی تو ایک آیت سنتے ہی ایک چیخ ماری اور پھر ان کے گلے سے عجیب و غریب آواز آنے لگی اور تڑپنے لگے، پھر یکدم ساکن ہو گئے۔(عیون الحکایات مترجم، حصّہ اوّل، صفحہ 104)

حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے کہ جب حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے خواہشِ محبوب (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائش) پر تلاوت کرتے رہے تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چشمانِ مبارک (یعنی مبارک آنکھوں)سے آنسو بہتے رہے۔

(بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب القرآن، جلد 3، صفحہ 418)

ایک بار حضرت سیّدنا امام جعفر بن محمد صادق رضی اللہ عنہ حالتِ نماز میں بے ہوش ہو کر زمین پر تشریف لے آئے، اِفاقہ ہونے پر لوگوں نے اس کے متعلق پوچھا تو فرمایا" میں ایک آیت کو بار بار پڑھتا رہا، حتٰی کہ میں نے اسے اللہ عزوجل سے سنا تو اس کی قدرت کے معائنہ کے لئے میرا جسم ٹھہر نہ سکا۔(احیاءالعلوم مترجم، جلد1، صفحہ 871، مکتبہ المدینہ)

حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اولیائے عظام رحمۃ اللہ علیھم اجمعین کی زندگیاں اس طرح کے واقعات سے پُر(بھری ہوئی) ہیں، ہم اللہ عزوجل سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں بھی حلاوتِ قرآن نصیب فرمائے اور ہمیں بھی وہ آنکھیں عطا ہوں کہ جب بھی تلاوتِ قرآن کریں یاسنیں تو سیلِ اشک رواں ہو جائیں۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


اللہ تعالی نے فرمایا: وَ اِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰۤى اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّۚ-یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ ۔

(المائدہ، آيت : 83)

ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جب سنتے ہیں وہ جو رسول کی طرف اترا تو ان کی آنکھیں دیکھو کہ آنسوؤں سے اُبل رہی ہیں، اس لئے کہ وہ حق کو پہچان گئے، کہتے ہیں اے ربّ ہمارے ہم ایمان لائے تو ہمیں حق کے گواہوں میں لکھ لے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کی آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:قرآن کو غم کے ساتھ پڑھوکیونکہ یہ غم کے ساتھ نازل ہوا۔

( معجم الاوسط 2/166، حدیث :2904)

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مکی مدنی سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا، جب تم اسے پڑھو تو رو ؤ، اگر رو نہ سکو تو رونے جیسی شکل بنا لو۔"( ابن ما جہ2/129، حدیث :1337)

ہمارے اسلافِ اکرام کاتلاوتِ قرآن کا کیا انداز تھا، آئیے تلاوتِ قرآن میں رونے والوں کے دو واقعات سنتے ہیں۔

آیت مکمل نہ پڑھ سکے:

ایک رات حضرت سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ سورۃ اللیل پڑھ رہے تھے، جب اس آیت پر پہنچے فَاَنْذَرْتُكُمْ نَارًا تَلَظّٰى ترجمہ کنزالایمان:تو میں تمہیں ڈراتا ہوں، اس آگ سے جو بھڑک رہی ہے۔(پ30، اللیل:14)

تو روتے روتے آپ کی ہچکی بندھ گئی آگے نہیں پڑھ سکے، نئےسرےسےتلاوت شروع کی، جب اس آیت پرپہنچے تو پھر وہی کیفیت طاری ہوئی اور آگے نہیں پڑھ سکے،بالآخر یہ سورت چھوڑ کر دوسری سورت پڑھی۔(سیرت ابن عبد الحکم، ص42)

آیت سن کر جان نکل گئی:

حضرت سیّدنا منصور بن عماررحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں ایک اندھیری رات سفر پر روانہ ہوا، راستے میں ایک جگہ بیٹھ گیا، اچانک میں نے کسی نوجوان کے رونے کی آواز سنی، جو روتے ہوئے اس طرح کہہ رہا تھا ، اے میرے پروردگار! میں نے تیری نافرمانی،تیری مخالفت کی بناء پر نہیں کی اور نہ ہی گناہ کرتے وقت میں تیرے عذاب سے بے خبر تھا، بلکہ میری بدبختی نے گناہ کو میرے لئے مزیّن کر دیا، ہائےمیری بربادی! اب مجھےتیرےعذاب سے کون بچائے گا، ہائے افسوس! میں نے ساری جوانی تیری نافرمانی میں گزار دی، میں بار بار توبہ کرتا، پھر گناہ کر ڈالتا اب تو توبہ کرتے ہوئے شرم آتی ہے، حضرت منصور بن عمار فرماتے ہیں اس نوجوان کی گر یہ و زاری سن کر میں نے قرآن پاک کی یہ آیت تلاوت کی یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ (پارہ 28، تحریم: 6)

ترجمہ کنزالایمان:"اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ، جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اس پر سخت کرّے فرشتے مقرر ہیں۔

جب میں نے یہ آیت تلاوت کی تو مجھے ایک چیخ سنائی دی اور پھر خاموشی طاری ہو گئی، اس کے بعد میں وہاں سے آگے روانہ ہو گیا، صبح جب اسی مکان کے قریب آیا تو وہاں کسی کا جنازہ رکھا دیکھا، میں نے پوچھا"یہ کس کا جنازہ ہے؟ ایک بوڑھی عورت نے بتایا"یہ میرے بیٹے کی لاش ہے، کل رات یہ نماز پڑھ رہا تھا کہ کوئی شخص گلی سے گزرا اور اس نے ایسی آیت پڑھی، جس میں جہنم کی آگ کا تذکرہ تھا، پس اس آیت کو سن کر میرا بیٹا تڑپنے لگا اور اس نے روتے روتے جان دے دی"یہ سن کر حضرت سیدنا منصور بن عمار وہاں سے چلے آئے اور اپنے آپ کو مخاطب کر کے فرمانے لگے" اے عمار! ایسے ہوتے ہیں ڈرنے والے۔"(عیون الحکایات، ج1، ص102)


تلاوتِ قرآن کے وقت رونے کی ترغیب:

         قراٰنِ کریم کی تلاوت کرتے ہوئے رونا مستحب ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا، جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکو تو رونے کی شکل بنا لو۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی حسن الصوت بالقرآن، ۲ / ۱۲۹، الحدیث: ۱۳۳۷)

عطا کر مجھے ایسی رقّت خدایا

کروں   روتے روتے تِلاوت خدایا

یہ اللہ تعالیٰ کے جلیلُ القدر بندوں کا طریقہ ہے کہ بلند مراتب پر پہنچنے کے باوجودبھی ان کی دلی کیفیات یہ ہوتی ہیں کہ جب ان کے سامنے کلامِ الٰہی کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو انہیں سن کر وہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے رونے لگتے ہیں جیسا کہ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر 83 میں بیان ہوا، اسی طرح ان کی ایک اور کیفیت بیان کرتے ہوئےاللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَ اِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰۤى اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّۚ-یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ( سورۃ المائدہ آیت83)

ترجمہ کنز الایمان: اور جب سنتے ہیں وہ جو رسول کی طرف اترا تو ان کی آنکھیں دیکھوکہ آنسوؤں سے اُبل رہی ہیں اس لیے کہ وہ حق کو پہچان گئے کہتے ہیں اے رب ہمارے ہم ایمان لائے تو ہمیں حق کے گواہوں میں لکھ لے۔

یقیناًذکرِ الٰہی کے وقت عشق و محبت میں رونا اعلیٰ عبادت ہے۔ اسی طرح عذابِ الٰہی کے خوف اور رحمتِ الٰہی کی امید میں رونا بھی عبادت ہے ۔بہت سےقاری قرآن، قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے جھومتے اور روتے ہیں ، یہ قرآن کریم سے لذت و سُرور حاصل ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے ۔

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا رونا:

حضرت عبید بن عمیر رضی اللہُ عنہفرماتے ہیں کہ: میں نے حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا سے پوچھا کہ آپ نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سب سے زیادہ عجیب بات جو دیکھی ہو، وہ ہمیں بتادیں۔ پہلے تو وہ خاموش ہوگئیں، پھر فرمایا: ایک رات حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:’’اے عائشہ! مجھے چھوڑو، آج رات میں اپنے رب کی عبادت کروں۔‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کی قسم! مجھے آپ کا قرب بھی پسند ہے اور جس کام سے آپ کو خوشی ہو وہ بھی پسند ہے، چنانچہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اُٹھے اور وضو کیا، پھر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے اور نماز میں روتے رہے اور اتنا روئے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی گود گیلی ہوگئی اور بیٹھ کر اتنا روئے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی داڑھی آنسوؤں سے ترہوگئی، پھر سجدہ میں اتنا روئے کہ زمین تر ہوگئی، پھر حضرت بلال رضی اللہُ عنہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو نماز کی اطلاع دینے آئے، جب انہوں نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو روتے ہوئے دیکھا تو عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ رو رہے ہیں؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سبب اگلوں پچھلوں کے تمام گناہ معاف کردیئے ہیں۔حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تو کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ آج رات مجھ پر ایسی آیت نازل ہوئی ہے کہ جو آدمی اسے پڑھے اور اس میں غور وفکر نہ کرے، اس کے لیے ہلاکت ہے، وہ آیت یہ ہے:’’إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَأٰیٰتٍ لِّأُوْلِیْ الْأَلْبَابِ‘‘۔ ( آل عمران:۱۹۰) ترجمہ:…’’بلاشبہ آسمانوں اور زمین کے بنانے میں اور رات ودن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘

(اخرجہ ابن حبان فی صحیحہ، کذا فی الترغیب:۳۳۲ بحوالہ حکایۃ الصحابہ:۳/۱۵۰، ۱۴۹ )

صالح مُرِّی  رحمۃُ اللہِ علیہ اورقرآن سُن کر رونا:

حضرتِ سَیِّدُنا صالح مُرِّی ﷫نے ایک اجتماع میں   اپنے بیان کے دوران سامنے بیٹھے ہوئے ایک نوجوان سے فرمایا: ’’کوئی آیت پڑھو۔‘‘ تو اس نے سُوْرَۃُ الْمُؤْمِن کی آیت نمبر18 تلاوت کی :

وَ اَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْاٰزِفَةِ اِذِ الْقُلُوْبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كٰظِمِیْنَ۬ؕ-مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَّ لَا شَفِیْعٍ یُّطَاعُؕ ۲۴، المؤمن:۱۸)

ترجَمۂ کنزُالایمان::اورانہیں   ڈراؤ اس نزدیک آنے والی آفت کے دن سے جب دل گلوں   کے پاس آجائیں  گے غم میں بھرے ۔ اور ظالموں   کا نہ کوئی دوست نہ کوئی سفارشی جس کا کہا مانا جائے۔

یہ آیت مبارکہ سننے کے بعد آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے طویل خطاب فر مایا پھر حضرت سَیِّدُنا صالح مُرِّی رحمۃُ اللہِ علیہ بَہُت ر وئے اور ایک آہِ سرد، دلِ پُر درد سے کھینچ کر فرمایا:’’افسوس! کیسا دل ہِلا دینے والا منظر ہوگا۔‘‘ یہ کہہ کر پھر رونے لگے،آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کو روتا دیکھ کرحاضِرین بھی رونے لگے ۔

عبد الرحمٰن بن ابو لیلیٰ کا فرمان:

حضرت عبد الرحمٰن بن ابو لیلیٰ رضی اللہُ عنہ نے سورۂ مریم کی تلاوت کی ،  جب وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ’’خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُكِیًّا‘‘ پر پہنچے تو انہوں  نے سجدۂ تلاوت کیا اور جب سجدے سے سر اٹھایا تو فرمایا ’’یہ سجدہ ہے تورونا کہاں  ہے؟( شرح البخاری لابن بطال ، کتاب فضائل القرآن ، باب البکاء عند قراء ۃ القرآن ،  ۱۰ / ۲۸۲ )

ان کے اس قول سے یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ سجدہ کر کے رونے والے لوگ اب کہاں  ہیں ؟ اب تو لوگوں  کا حال یہ ہے کہ وہ سجدہ تو کرلیتے ہیں  لیکن ان کی آنکھیں آنسوؤں  سے تر نہیں  ہوتیں ۔ ان بزرگوں  کے یہ فرمان دراصل ہماری تربیت اور اِصلاح کے لئے ہیں  ، اے کاش! ہمیں  بھی تلاوتِ قرآن کے وقت اللہ تعالیٰ کے خوف سے رونا نصیب ہو جائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک کے خوف سے رونا یہ اللہ والوں کا حصہ ہے ہمارے بزرگان دین تلاوت قرآن کرتے ہوئے اللہ عزوجل کے خوف سے رویا کرتے تھے ، اپنی نیکیوں کو چھپایا کرتے تھے اور اپنی نیکیاں دوسروں پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے ۔ آئیے خوف خدا سے تلاوت قرآن کرتے ہوئے رونے والے بزرگ کا واقعہ پڑھتے ہیں:

حضرت سیدنا ابو عبداللہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: حضرت سیدنا ابو الحسن محمد بن اسلم طوسی علیہ رحمۃ اللہ القوی اپنی نیکیاں چھپانے کا بے حد خیال فرماتے یہاں تک کہ ایک بار فرمانے لگے: اگر میرا بس چلے تو میں کراماً کاتبین (اعمال لکھنے والے دونوں بزرگ فرشتوں )سے بھی چھپ کر عبادت کرو ں ۔

راوی کہتے ہیں میں بیس برس سے زیادہ عرصہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں رہا مگر جمعۃ المبارک کے علاوہ کبھی آپ رحمۃ اللہ تعالی کو دو رکعت نفل بھی پڑھتے نہیں دیکھ سکا آپ رحمۃ اللہ علیہ پانی کا کوزہ لے کر اپنے کمرے خاص میں تشریف لے جاتے اور اندر سے دروازہ بند کر لیتے تھے میں کبھی بھی نہ جان سکا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کمرے میں کیا کرتے ہیں یہاں تک کہ ایک دن آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مدنی منازور زور سے رونے لگا ، اس کی امی جان چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھی ؛میں نے کہا مدنی منا آخر اس قدر کیوں رو رہا ہے؟ بی بی صاحبہ نے فرمایا اس کے ابو (حضرت سیدنا ابو الحسن طوسی رحمۃ اللہ علیہ )اس کمرے میں داخل ہو کر تلاوت قرآن کرتے ہیں اور روتے ہیں تو یہ بھی ان کی آواز سن کر رونے لگتا ہے !شیخ ابو عبداللہ فرماتے ہیں: حضرت سید ابوالحسن طوسی علیہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ( ریا کاریوں کی تباہ کاریوں سے بچنے کی خاطر) نیکیاں چھپانے کی اس قدر سعی فرماتے تھے کہ آپ نے اس گمراہ خاص سے عبادت کرنے کے بعد باہر نکلنے سے پہلے اپنا منہ دھو کر آنکھوں میں سرمہ لگا لیتے تاکہ چہرہ اور آنکھیں دیکھ کر کسی کو اندازہ نہ ہونے پائے کہ یہ روئے تھے ۔ (حلیۃ الاولیاء ، جلد 9 ، صفحہ نمبر 254)

اللہ عزوجل کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

میرا ہر عمل بس تیرے واسطے ہو

کرا خلاص ایساعطا یا الہی

اے عاشقان رسول! اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں بھی روتے ہوئے تلاوت قرآن کرنے کی سعادت عطا فرمائےاور اخلاص کے ساتھ نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم