تلاوتِ
قرآن کے وقت رونے کی ترغیب:
قراٰنِ
کریم کی تلاوت کرتے ہوئے رونا مستحب ہے۔ حضرت سعد بن ابی
وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور
پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
ارشاد فرمایا ’’یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا، جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر
رو نہ سکو تو رونے کی شکل بنا لو۔( ابن ماجہ، کتاب
اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی حسن الصوت بالقرآن، ۲ / ۱۲۹، الحدیث: ۱۳۳۷)
عطا کر مجھے ایسی رقّت
خدایا
کروں روتے
روتے تِلاوت خدایا
یہ
اللہ تعالیٰ کے جلیلُ
القدر بندوں کا طریقہ ہے کہ بلند مراتب پر پہنچنے کے باوجودبھی ان کی دلی کیفیات
یہ ہوتی ہیں کہ جب ان کے سامنے کلامِ الٰہی کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو انہیں سن کر
وہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے رونے
لگتے ہیں جیسا کہ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر 83 میں بیان ہوا، اسی طرح ان کی ایک
اور کیفیت بیان کرتے ہوئےاللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ اِذَا سَمِعُوْا مَاۤ
اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰۤى اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا
عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّۚ-یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ
الشّٰهِدِیْنَ( سورۃ المائدہ آیت83)
ترجمہ کنز الایمان: اور جب سنتے ہیں وہ جو رسول کی طرف اترا تو ان
کی آنکھیں دیکھوکہ آنسوؤں سے اُبل رہی ہیں اس لیے کہ وہ حق کو پہچان گئے کہتے ہیں
اے رب ہمارے ہم ایمان لائے تو ہمیں حق کے گواہوں میں لکھ لے۔
یقیناًذکرِ الٰہی کے وقت عشق و محبت میں رونا اعلیٰ
عبادت ہے۔ اسی طرح عذابِ الٰہی کے خوف اور رحمتِ الٰہی کی امید میں رونا بھی عبادت
ہے ۔بہت سےقاری قرآن، قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے جھومتے اور روتے ہیں ، یہ قرآن کریم سے لذت و سُرور حاصل ہونے
کی وجہ سے ہوتا ہے ۔
رسول
اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا رونا:
حضرت
عبید بن عمیر رضی
اللہُ عنہفرماتے ہیں کہ: میں نے
حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا سے پوچھا کہ آپ نے حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سب سے زیادہ عجیب بات جو دیکھی ہو،
وہ ہمیں بتادیں۔ پہلے تو وہ خاموش ہوگئیں، پھر فرمایا: ایک رات حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا:’’اے عائشہ! مجھے چھوڑو، آج رات میں اپنے رب کی عبادت کروں۔‘‘ میں نے عرض
کیا: اللہ کی قسم! مجھے آپ کا قرب
بھی پسند ہے اور جس کام سے آپ کو خوشی ہو وہ بھی پسند ہے، چنانچہ حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اُٹھے
اور وضو کیا، پھر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے اور نماز میں روتے رہے اور اتنا روئے
کہ آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
گود گیلی ہوگئی اور بیٹھ کر اتنا روئے کہ آپ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی داڑھی آنسوؤں سے ترہوگئی، پھر سجدہ میں اتنا
روئے کہ زمین تر ہوگئی، پھر حضرت بلال رضی اللہُ عنہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو نماز کی اطلاع دینے آئے، جب انہوں نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو روتے ہوئے دیکھا تو
عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ رو رہے ہیں؟ حالانکہ اللہ
تعالیٰ نے آپ کے سبب اگلوں پچھلوں کے تمام گناہ معاف کردیئے ہیں۔حضور
صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تو کیا میں شکر گزار بندہ
نہ بنوں؟ آج رات مجھ پر ایسی آیت نازل ہوئی ہے کہ جو آدمی اسے پڑھے اور اس میں غور
وفکر نہ کرے، اس کے لیے ہلاکت ہے، وہ آیت یہ ہے:’’إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ
وَالْأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَأٰیٰتٍ لِّأُوْلِیْ
الْأَلْبَابِ‘‘۔
( آل عمران:۱۹۰)
ترجمہ:…’’بلاشبہ آسمانوں
اور زمین کے بنانے میں اور رات ودن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لیے
نشانیاں ہیں۔‘‘
(اخرجہ ابن حبان فی
صحیحہ، کذا فی الترغیب:۳۳۲ بحوالہ حکایۃ الصحابہ:۳/۱۵۰، ۱۴۹ )
صالح
مُرِّی رحمۃُ
اللہِ علیہ اورقرآن سُن کر رونا:
حضرتِ
سَیِّدُنا صالح مُرِّی نے ایک اجتماع میں اپنے
بیان کے دوران سامنے بیٹھے ہوئے ایک نوجوان سے فرمایا: ’’کوئی آیت پڑھو۔‘‘ تو اس
نے سُوْرَۃُ الْمُؤْمِن کی آیت نمبر18 تلاوت کی :
وَ
اَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْاٰزِفَةِ اِذِ الْقُلُوْبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ
كٰظِمِیْنَ۬ؕ-مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَّ لَا شَفِیْعٍ یُّطَاعُؕ (پ۲۴، المؤمن:۱۸)
ترجَمۂ کنزُالایمان::اورانہیں ڈراؤ اس نزدیک آنے والی
آفت کے دن سے جب دل گلوں کے پاس آجائیں گے غم میں بھرے ۔ اور
ظالموں کا نہ کوئی دوست نہ کوئی سفارشی جس کا کہا مانا جائے۔
یہ آیت مبارکہ سننے کے بعد آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے طویل
خطاب فر مایا پھر حضرت سَیِّدُنا صالح مُرِّی رحمۃُ اللہِ علیہ بَہُت ر وئے
اور ایک آہِ سرد، دلِ پُر درد سے کھینچ کر فرمایا:’’افسوس! کیسا دل ہِلا دینے
والا منظر ہوگا۔‘‘ یہ کہہ کر پھر رونے لگے،آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کو روتا دیکھ
کرحاضِرین بھی رونے لگے ۔
عبد
الرحمٰن بن ابو لیلیٰ کا فرمان:
حضرت عبد الرحمٰن بن ابو لیلیٰ رضی اللہُ عنہ نے سورۂ مریم کی تلاوت
کی ، جب وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ’’خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُكِیًّا‘‘ پر پہنچے تو انہوں نے سجدۂ تلاوت کیا اور جب سجدے سے سر
اٹھایا تو فرمایا ’’یہ سجدہ ہے تورونا کہاں ہے؟( شرح البخاری لابن بطال ، کتاب فضائل القرآن ، باب البکاء عند قراء ۃ
القرآن ، ۱۰ / ۲۸۲ )
ان کے اس قول سے یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ سجدہ کر کے رونے
والے لوگ اب کہاں ہیں ؟ اب تو لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ سجدہ تو
کرلیتے ہیں لیکن ان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر نہیں ہوتیں ۔ ان
بزرگوں کے یہ فرمان دراصل ہماری تربیت اور اِصلاح کے لئے ہیں ، اے
کاش! ہمیں بھی تلاوتِ قرآن کے وقت اللہ تعالیٰ کے خوف سے رونا نصیب ہو جائے۔
اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم