ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ترجمہ کنز الایمان:"اور وہ لوگ ٹھوڑی کے بل گر گئے، روتے ہوئے اور ان کی خشوع میں اضافہ ہوا۔"
(پ15، الاسراء:109)
تلاوت قرآن کے وقت رونا مستحب
ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے
ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:وہ شخص جہنم میں داخل نہیں
ہوگا، جو اللہ کے خوف کی وجہ سے روتا ہے۔(ترمذی
فی الجہا د، احمد 10565/3، نسائی 3108 ، ابنِ ماجہ، حاکم4/260)
اس حوالے سے تین فرامینِ مصطفیٰ
صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ ہوں:
(1) قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا ، لہذا
جب تم اس کی قراءت کرو تو غم ظاہر کرو۔"(مجمع
الزوائد، کتاب التفسیر، باب القراءۃ بالحزن، الحدیث: 11694، ج7، ص351، مفھوماً)
(2)"قرآن پڑھو اور روؤ، اگر تمہیں رونا نہ آئے تو رونے جیسی صورت بنا لو۔"(
سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوۃ والسنۃ
فیھا، باب فی حسن الصوت با القرآن،الحدیث
1337،ج2، ص129، تبغيراً)
(3) لوگوں میں سب سے اچھی آواز سے قرآن پڑھنے والا وہ شخص ہے کہ جسے تم جب قرآن پڑھتے سنو تو محسوس کرو کہ وہ اللہ تعالی سے ڈر رہا ہے۔"(سنن
ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوۃ۔۔الخ، باب فی حسن الصوت بالقرآن، الحدیث 1339، ج2،
ص135، مفھوماً)
میں ادب قرآن کا ہر حال میں کرتار ہوں
ہر گھڑی اے میرے مولا تجھ سے میں ڈرتا رہوں
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
کسی آیت کی تلاوت فرماتے تو آپ کی ہچکی بندھ جاتی اور کئیں دن آپ گھر میں پڑے رہتے، آپ کی عیادت کی جاتی تو لوگ آپ کو مریض گمان کرنے لگ جاتے۔"(اخرجہ الامام
احمد بن حنبل فی الزھد:126)
حضرت سیدنا یحییٰ بن فضل انیسی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے مروی ہے کہ حضرت سیّدنا
محمد بن منکدر رحمۃ اللہ علیہ ایک رات
نماز پڑھتے پڑھتے رونے لگے اور اس قدر روئےکہ گھر والے گبھرا گئے، انہوں نے رونے کی وجہ پوچھی تو آپ نے کوئی جواب نہ
دیا، بلکہ مزید رونے لگے، گھر والوں نے حضرت سیّدنا ابو حازم رحمۃ اللہ علیہ کو بلوا کر سارا واقعہ عرض کیا، آپ نے انہیں روتے دیکھ کر پوچھا"اے بھائی! کس چیز نے تمہیں رُلایا کہ تم نے گھر
والوں کو بھی پریشان کر دیا، کسی بیماری کے
سبب رو رہے ہیں یا کوئی اور وجہ ہے؟ حضرت سیّدنا محمد بن منکدر رحمۃ اللہ علیہ نے
فرمایا :"ایک آیتِ مقدسہ میری نظر سے گزری"، پوچھا" کون سی آیت؟ فرمایا: اللہ تعالی
ارشاد فرماتا ہے" ترجمہ کنز الایمان: انہیں اللہ کی طرف سے وہ بات ظاہر
ہوئی، جو ان کے خیال میں نہ تھی۔"(پ
24، الزمر:47)
یہ سن کرحضرت سیدنا ابو حازم رحمۃ
اللہ علیہ بھی رونے لگے اور بہت زیادہ روئے، گھر والوں میں سے کسی نے کہا: ہم نے
آپ کو اس لئے بلایا تھا کہ آپ انہیں اس کیفیت سے نکالیں، لیکن آپ نے تو اس میں مزید اضافہ کر دیا، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اہلِ خانہ کو اپنے اور ان
کے رونے کا سبب بتا دیا۔(اللہ والوں کی باتیں، ج3، ص215)
حضرت سیدنا حضرمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی خوش الحان
قاری نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کی بارگاہِ عالیہ میں قرآن مجید کی تلاوت کی تو حضرت سیدنا عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کے علاوہ تمام حاضرین رونے لگے، سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا: عبدالرحمن بن عوف کی آنکھیں اگرچہ اشکبار نہ ہوئیں مگر ان کا دل رو رہا ہے۔(المطالب العالبۃ بن حجر
العسقلانی، کتاب المناقب، الحدیث 3978، ج8، ص 406)
منقول ہے کہ حضرت سیّدنا ابراہیم علیہ
رحمۃ اللہ القوی جب یہ ارشادِ ربّانی:
اِذَا السَّمَآءُ انْشَقَّتْ۔(پ 30، الانشقاق:1)
ترجمہ کنزالایمان: جب آسمان شق ہو۔
سنتے تو بے چین ہو جاتے، یہاں تک
کہ آپ کے جوڑ تھرتھرانے لگتے۔(احیاء العلوم، ج4، ص519)
بتکلف رونے کا طریقہ یہ ہے کہ دل میں غم کو حاضر کرے
کہ اس سے رونا پیدا ہوتا ہے، حقیقت میں
پسندیدہ حالت وہی ہے کہ جو اللہ تعالی بندہ مؤمن کو قرآن کی آیات سمجھ لینے کی
توفیق عطا فرماتا ہے، قرآن پاک کی تلاوت کا مقصد یہی ہے کہ دل پر یہ احوال پیش آئیں
اور اس پر عمل کیا جائے۔ اللہ عزوجل ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین