بزرگان دين رحمہم اللہ المبین قرآن پاک کی بکثرت تلاوت میں مشغول رہا کرتے ۔تلاوت صرف زبانی ہی نہ ہوتی، بلکہ قرآن کے معانی اور اسرار و نکات میں خوب غور و خوض کرتے ۔ آیات رحمت آتیں تو اللہ تعالیٰ سے بخشش و مغفرت طلب کرتے، آیات عذاب آتیں تو خوف خدا کے سبب آنسو بہاتے اور گریہ و زاری کرتے ۔ قرآن مجید غمگین کیفیت کے ساتھ پڑھنے کا حکم حدیث میں ارشاد ہوا ہے ۔ چنانچہ

حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا، جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکو تو رونے کی شکل بنا لو۔

(ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی حسن الصوت بالقرآن، ۲ / ۱۲۹، الحدیث:۱۳۳۷ )

ذیل میں تلاوت میں رونے کے چند واقعات بطور ترغیب کے پیش کیے جاتے ہیں تا کہ ہمارے اندر بھی تلاوت قرآن کا ذوق پیدا ہو۔

1: حضرت ابراہیم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا :مجھے قرآن پاک سناؤ تو انہوں نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سورۂ نساء کی ابتدائی آیات سنائیں اور جب اس آیت پر پہنچے: ترجمہ کنزُالعِرفان: تو کیسا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سےایک گواہ لائیں گے اور اے حبیب! تمہیں ان سب پر گواہ اورنگہبان بناکر لائیں گے۔‘‘( النساء : 41) تو سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

(مسلم، کتاب صلوۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل استماع القرآن۔۔۔ الخ، ص ۴۰۱، الحدیث: ۲۴۸(۸۰۰) ملخصاً )

2:سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میرے والد ماجد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تو آپ رضی اللہ عنہ کو اپنے آنسوؤں پر اختیار نہ رہتا یعنی زار و قطار رونے لگ جاتے ۔ (فیضان صدّیق اکبر، صفحہ 157)

3:ایک بار امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان آیات کی تلاوت کی، اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌۙ(۷) مَّا لَهٗ مِنْ دَافِعٍۙ(۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک تیرے رب کا عذاب ضرور ہونا ہے۔ اسے کوئی ٹالنے والا نہیں ۔ آپ پر خوف خدا کے غلبہ کے سبب ایسی رقّت طاری ہوئی کہ آپ کی سانس ہی اُکھڑ گئی اور یہ کیفیت کم و بیش بیس (20) روز تک رہی۔

(فیضان فاروق اعظم ، صفحہ 151)

4:ایک مرتبہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایک نوجوان کے پاس سے گزرے ،وہ نوجوان یہ آیت ’’ فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَانِۚ(۳۷) ‘‘ (الرحمن : 27) (ترجمہ کنز الایمان:"پھر جب آسمان پھٹ جائے گا تو گلاب کے پھول سا ہوجائے گا" جیسے سرخ نری ( سرخ رنگا ہو چمڑا)۔ آپ وہیں رک گئے اور دیکھا کہ اس نوجوان پر کپکپی طاری ہو گئی ہے اور آنسؤوں نے اس کا گلا بند کر دیا ہے ،وہ روتا رہا اور یہی کہتا رہا:اس دن میری خرابی ہو گی جس دن آسمان پھٹ جائے گا ۔ (تفسیر صراط الجنان سورہ ٔرحمٰن، تحت الآیۃ: 37-38)

اے کاش! ہمیں بھی تلاوت قرآن میں آنسو بہانے والی آنکھ نصیب ہوجائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


           رب تعالیٰ نے بندوں کی اصلاح کے لیے اور انہیں آداب زندگی سکھانے کے لیے رسل و انبیاء کو مبعوث فرمایا اور ان پر کتب اور صحائف نازل فرمائے تاکہ راہ حق کے متلاشی علم کے نور سے اپنے سینوں کو منور کریں ۔مختلف انبیاء علیہمُ السّلام پر مختلف کتابیں اور صحیفے نازل ہوئے ۔آخری آسمانی کتاب قرآن پاک ہمارے پیارے پیارے آقا محمد مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل ہوئی قرآن پاک لاریب کتاب ہے (ترجمہ سورۃ بقرہ آیت 2 )اس میں ہر خشک و تر کا بیان ہے(ترجمہ سورۃ انعام آیت 59) اور اس میں رب تعالیٰ نےجگہ بہ جگہ جنت دوزخ ،عذاب وثواب کا ذکر فرمایا اور اس کی تلاوت کرتے ہوئے بہت سے عاشقان قرآن جھومتے ہیں اور عذاب الہی والی آیات پڑھ کر عذاب الہی کے خوف سے اور رحمت والی آیات پڑھ کر رحمت الہی کی امید سے ان کی آنکھوں سے آنسوں رواں ہوجاتے ہیں ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : جب یہ آیت نازل ہوئی اَفَمِنْ هٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَۙ(۵۹) وَ تَضْحَكُوْنَ وَ لَا تَبْكُوْنَۙ(۶۰)ترجَمۂ کنزُالایمان:تو کیا اس بات سے تم تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو اور روتے نہیں ۔ ( سورۃ النجم آیت 59 ، 60) تو اصحاب صفہ اس قدر روئے کہ ان کے رخسار آنسوؤں سے تر ہوگئے اور انہیں دیکھ کر رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی رونے لگے ۔ ( شعب الایمان، جلد 1 ، ص 489 ، دارلکتب العلمیہ)

ایک روز نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود سے ارشاد فرمایا : میرے سامنے تلاوت کرو ۔ عرض کی میں آپ کے سامنے کیا پڑھوں آپ پرہی قرآن اترا ہے ارشاد فرمایا :میں چاہتا ہوں کہ دوسروں سے سنو ں چنانچہ آپ تلاوت کر رہے تھے اور رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی چشمان مبارک سے آنسو بہتے رہے۔

(صحیح البخاری ، کتاب فضائل قرآن ، حدیث نمبر : 5055 )

قلب مضطر چشم تر سوز جگر سینہ تیاں طالب آہ و فغاں جان جہاں عطار ہے

(وسائل بخشش ، صفحہ222)

قاری نے ایک دن اس آیت کریمہ کی تلاوت کی هٰذَا كِتٰبُنَا یَنْطِقُ عَلَیْكُمْ بِالْحَقِّؕ-اِنَّا كُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۲۹) ترجَمۂ کنزُالایمان: ہمارا یہ نوشتہ تم پرحق بولتا ہے ہم دیکھتے رہتے تھے جو تم نے کیا ۔ (سورۃ الجا ثیہ، آیت : 29 )

اسے سن کر حضرت سید عبدالواحد بن زید رحمۃُ اللہِ علیہ اتنا روئے کے بے ہوشی طاری ہوگئی ۔

حضرت قاسم بن معین رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک بار امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃُ اللہِ علیہ نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَ السَّاعَةُ اَدْهٰى وَ اَمَرُّ(۴۶) ترجَمۂ کنزُالایمان: بلکہ ان کا وعدہ قیامت پر ہے اور قیامت نہایت کڑی اور سخت کڑوی ۔ (سورۃ القمر آیت :46 ) طلوع فجر تک یہی آیت دہراتے رہے اور گریہ زاری کرتےرہے ۔

(حکایتیں اور نصیحتیں ،335 )

حضرت اسمابنت ابی بکر رضی اللہُ عنہا کے غلام ابو عمر بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃُ اللہِ علیہ گورنر تھے میں جدہ سے ان کے لیے تحائف لے کر مدینہ منورہ زادھا اللہ شرفا ً و تعظیماً پہنچا تو وہ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد مسجد میں ہی موجود تھے اور گود میں قرآن پاک لیے تلاوت کر رہے تھے اور ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی ۔

(سیرت و مناقب عمر بن عبد العزیز لابن جوزی ، صفحہ 42 ، دارلکتب العلمیہ )

اللہ تعالی ہمیں دلی سوز کے ساتھ تلاوت قرآن کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

عطا کر مجھے ایسی رقت خدایا کروں روتے روتے تلاوت خدایا


دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 132 صفحات پر مشتمل کتاب" توبہ کی روایات اور حکایات" صفحہ 75 تا 77 پر ہے : حضرت سیدنا صالح مُرِّی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ایک اجتماع میں اپنے بیان کے دوران سامنے بیٹھے ہوئے ایک نوجوان سے فرمایا :" کوئی آیت پڑھو-" تو اس نے سُوْرَۃ المؤمن کی آیت نمبر 18 تلاوت کی:

ترجمہ کنزالایمان: اور انہیں ڈراؤ اس نزدیک آنے والی آفت کے دن سے جب دل گلوں کے پاس آجائیں گے غم میں بھرے ۔ اور ظالموں کا نہ کوئی دوست نہ کوئی سفارشی جس کا کہا مانا جائے ۔ (پ24 ،المؤمن: 18)

یہ آیت مبارکہ سن کر آپ رحمۃُ اللہِ علیہ یہ نے فرمایا: کوئی ظالم کا دوست یا مددگار کس طرح ہو سکتا ہے؟ کیونکہ وہ تو اللہ تعالی کی گرفت( یعنی پکڑ) میں ہوگا بے شک تم سرکشی کرنے والے گنہگاروں کو دیکھو گے کہ انہیں زنجیروں میں جکڑ کر جہنم کی طرف لے جایا جا رہا ہو گا اور وہ بَرَہْنہ( یعنی ننگے) ہوں گے ان کے جسم بوجھل چہرے سیاہ (یعنی کالے) اور آنکھیں خوف سے نیلی ہوں گی وہ چِلائیں گے ہم ہلاک ہو گئے! ہم برباد ہو گئے! ہمیں زنجیروں میں کیوں جکڑا گیا ہے؟ ہمیں کہاں لے جایا جا رہا ہے؟ اور ہمارے ساتھ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ فرشتے انہیں آگ کےکوڑوں سے مارتے ہوئے ہانکیں گے کبھی وہ منہ کے بل گریں گے اور کبھی انہیں گھسیٹ کر لے جایا جائے گا جب رو رو کر ان کے آنسو ختم ہو جائیں گے تو خون کے آنسو بہنے لگیں گے، ان کے دل دَہل جائیں گے اور حیران و پریشان ہوں گے اگر کوئی انہیں دیکھ لے تو ان پر نگاہ نہ جما سکے، نہ ہی اپنا دل سنبھال سکے، یہ ہَولناک منظر دیکھنے والے کے بدن پر لرزہ طاری ہو جائے ۔

یہ فرمانے کے بعد حضرت صالح مُرِّی رحمۃ اللہ علیہ بہت روئے اور ایک آہ سَرددلِ پُر درد سے کھینچ کر فرمایا:" افسوس! کیسا دل ہلا دینے والا منظر ہوگا یہ کہہ کر پھر رونے لگے، آپ رحمۃ اللہ علیہ کو روتا دیکھ کر حاضرین بھی رونے لگے ،اتنے میں ایک نوجوان کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا: "یا سیدی! کیا یہ سارا منظر بروز قیامت ہوگا؟ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے جواب دیا:" ہاں، یہ منظر زیادہ طویل نہیں ہوگا کیونکہ جب انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا تو ان کی آواز آنا بند ہو جائیں گی، یہ سن کر نوجوان نے ایک چیخ ماری اور کہا: "افسوس میں نے اپنی زندگی گزار دی، افسوس میں کوتاہیوں کا شکار رہا افسوس! میں خدائے باری تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری میں سستی کرتا رہا آہ! میں نے اپنی زندگی بیکار ضائع کر دی " یہ کہہ کر وہ رونے لگا کچھ دیر بعد اس نے رب کائنات عزوجل کی بارگاہ بے کس پناہ میں یوں مناجات کی:

" میرے پروردگار عزوجل میں گنہگار توبہ کے لئے حاضر دربار ہوں، مجھے تیرے سوا کسی سے کوئی سروکار نہیں، گناہوں سے معافی دیکر مجھے قبول فرما لے، مجھ سمیت تمام حاضرین پر اپنا فضل وکرم فرما اور ہمیں جود و نوال( یعنی عطا و بخشش) سے مالامال کر دے ، میں نے گناہوں کی گٹھڑی تیرے سامنے رکھ دی ہے اور سچے دل سے تیری بارگاہ میں حاضر ہوں، اگر تو مجھے قبول نہیں فرمائے گا تو یقیناً میں ہلاک ہوجاؤں گا ۔" اتنا کہہ کر وہ نوجوان غش کھا کر گِر پڑا اور چند روز بستر علالت پر گزار کر (یعنی بیمار رہ کر) موت سے سے ہمکَنار ہو گیا ۔ اس کے جنازے میں بے شمار لوگ شریک ہوئے، رو رو کر اس کے لیے دعائیں کی گئیں۔ حضرت سیدنا صالح مُرِّی رحمۃُ اللہِ علیہ اکثر اس کا ذکر اپنے بیان میں کیا کرتے۔ ایک دن کسی نے اس نوجوان کو خواب میں دیکھا تو پوچھا: اللہ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ تو تو اس نے جواب دیا "مجھے حضرت سیدنا صالح مُرِّی رحمۃُ اللہِ علیہ کے اجتماع سے برکتیں ملی اور مجھے جنت میں داخل کر دیا گیا۔

(کتاب التَّوَّابِین ص 250۔202)

اللہ رب العزت کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے باعمل مبلغین کا بیان کس قدر پُر اثر ہوتا ہے، خوف خدا رکھنے والے مبلغ کا بیان تاثیر کا تیر بن کر گنہگار کے جگر سے آرپار ہو جاتا اور بسا اوقات اس کی دنیا اور آخرت سنوار دیتا ہے ۔ سیدنا صالح مُرِّی رحمۃُ اللہِ علیہ یہ بڑے زبردست قاری بھی تھے ،آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کی قراءت میں سوز ہی سوز ہوتا تھا آپ رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: ایک بار میں نے خواب میں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت کی سعادت پائی، تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے صالح! یہ تو قرءات ہوئی رونا کہاں ہے؟ (احیاء العلوم ،ج 1، ص 368)

اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے رونا مستحب ہے۔ فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے: قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے روؤ اور اگر رو نہ سکو تو رونے کی سی شکل بناؤ ۔ (سنن ابن ماجہ، ج 2 ، ص 129 ، حدیث : 1337 )

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! تلاوت کرتے یا سنتے ہوئے رِقت طاری ہونا آنکھوں سے آنسو جاری ہونا یقیناً بڑی سعادت کی بات کے مگر شیطان کے وار سے خبردار! رہنا ایک ایسا عمل ہے کہ اس میں ریا کا خطرہ بہت زیادہ رہتا ہے۔ لہذا دعا وغیرہ میں بالخصوص دوسروں کے سامنے رونے میں ریا سے بچنا ضروری ہے کہ ریاکار عذاب نار کا حقدار ہوتا ہے تلاوت و نعت میں اخلاص کے ساتھ رونے رلانے کا شوق بڑھانے کے لئے دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے ہر دم وابستہ رہئے، اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے کُڑھتے رہیے، نمازوں کی پابندی جاری رکھیئے، سنتوں پر عمل کرتے رہئے، اور اس مدنی مقصد" مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے" کہ حصول کی خاطر پابندی سے ہر ماہ کم از کم تین دن کے سنتوں کی تربیت کے مدنی قافلے میں عاشقان رسول کے ہمراہ سنتوں بھرا سفر بھی کیجیئے ۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کے ہمیں اپنے عشق میں رونے والی آنکھیں عطا فرمائےاور خوب تلاوت قرآن کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(نیکی کی دعوت صفحہ 198 تا 201)


قرآن پاک اللہ پاک کا ایسا بے مثل کلام ہے کہ جب کوئی اس کی تلاوت کرتا یا سنتا ہے تو اس کلام کی ہیبت اس پر ایسے طاری ہوتی ہے کہ اس کی آنکھوں سے سیل اشک رواں ہوجاتے ہیں، اس کی ھجکیاں بندھ جاتی ہیں، ان کا رواں رواں خوف خدا سے لرز رہا ہوتا ہے ۔ رب تعالیٰ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے :

تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْۚ ترجَمۂ کنزُالایمان: اس سے بال کھڑے ہوتے ہیں ان کے بدن پر جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ۔ (الزمر : 23 )

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ "جب اللہ تعالیٰ کے خوف سے بندے کے بال کھڑے ہو جائیں تو اس کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جس طرح خشک درخت سے اس کے پتے جھڑتے ہیں ۔ ( شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۹۱ ، الحدیث: ۸۰۳ )

یاد رہے کہ تلاوت قرآن کے دوران رونا مستحب ہے۔ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام سے خاتم النبيين صلی اللہ علیہ وسلم تک،اور ان سے لے کر آج تک اللہ کے ایسے نیک بندے موجود ہیں کہ جب اللہ پاک کا کلام پڑھتے یا سنتےہیں تو ان کے دل نرم ہو جاتے ہیں اور آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بندھ جاتی ہے ۔

تلاوت میں رونے کے متعلق کچھ روایات:

حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا، جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکو تو رونے کی شکل بنا لو۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی حسن الصوت بالقرآن ، ۲ / ۱۲۹ ، الحدیث: ۱۳۳۷ )

حضرت ابو معمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے سورۂ مریم کی تلاوت اور (سجدہ کرنے کے بعد) فرمایا ’’یہ سجدے ہیں تو رونا کہا ں ہے؟ ( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی البکاء عند قراء تہ ، ۲ / ۳۶۵ ، الحدیث: ۲۰۵۹ )

دوران تلاوت رونے والوں کے واقعات :

ایک مرتبہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو قرآن سنانے کا حکم فرمایا جب آپ سورۃ النساء کی اس آیت پر پہنچے۔ فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًاﳳ(۴۱) ترجمہ کنزُالعِرفان : تو کیسا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سےایک گواہ لائیں گے اور اے حبیب! تمہیں ان سب پر گواہ اورنگہبان بناکر لائیں گے۔ (النساء : 41)

تو سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

( مسلم،کتاب صلوۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل استماع القرآن۔۔۔ الخ، ص ۴۰۱ ، الحدیث: ۲۴۸، ۸۰۰)

قرآن مجید تو ایسا اثرانگیز کلام ہے کہ بعض اوقات اسلام قبول کرنے سے پہلے زمانۂ کفر میں بھی قرآن کی تلاوت سننے سے سننے والے کی حالت غیر ہو جاتی ہے ۔

چنانچہ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ یہ اسیران بدر کے متعلق گفتگو کرنے مکہ سے مدینہ آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز میں سورۂ طور کی تلاوت فرما رہے تھے۔ تلاوت سنتے ہی ان کے دل ودماغ میں دہشت طاری ہو گئی جیسے جیسے تلاوت سنتے گئے دل کی دنیا زیروزبر ہوتی گئی حتی کہ نماز کے بعد اسلام قبول کر لیا۔

( قرآن اور اور حاملین قرآن، ص96)

اللہ پاک ہمیں ان کے خوف خدا سے حصہ نصیب فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم