بزرگان دين رحمہم اللہ المبین قرآن پاک کی بکثرت تلاوت میں مشغول رہا کرتے ۔تلاوت صرف زبانی ہی نہ ہوتی، بلکہ قرآن کے معانی اور اسرار و نکات میں خوب غور و خوض کرتے ۔ آیات رحمت آتیں تو اللہ تعالیٰ سے بخشش و مغفرت طلب کرتے، آیات عذاب آتیں تو خوف خدا کے سبب آنسو بہاتے اور گریہ و زاری کرتے ۔ قرآن مجید غمگین کیفیت کے ساتھ پڑھنے کا حکم حدیث میں ارشاد ہوا ہے ۔ چنانچہ

حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا، جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکو تو رونے کی شکل بنا لو۔

(ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی حسن الصوت بالقرآن، ۲ / ۱۲۹، الحدیث:۱۳۳۷ )

ذیل میں تلاوت میں رونے کے چند واقعات بطور ترغیب کے پیش کیے جاتے ہیں تا کہ ہمارے اندر بھی تلاوت قرآن کا ذوق پیدا ہو۔

1: حضرت ابراہیم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا :مجھے قرآن پاک سناؤ تو انہوں نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سورۂ نساء کی ابتدائی آیات سنائیں اور جب اس آیت پر پہنچے: ترجمہ کنزُالعِرفان: تو کیسا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سےایک گواہ لائیں گے اور اے حبیب! تمہیں ان سب پر گواہ اورنگہبان بناکر لائیں گے۔‘‘( النساء : 41) تو سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

(مسلم، کتاب صلوۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل استماع القرآن۔۔۔ الخ، ص ۴۰۱، الحدیث: ۲۴۸(۸۰۰) ملخصاً )

2:سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میرے والد ماجد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تو آپ رضی اللہ عنہ کو اپنے آنسوؤں پر اختیار نہ رہتا یعنی زار و قطار رونے لگ جاتے ۔ (فیضان صدّیق اکبر، صفحہ 157)

3:ایک بار امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان آیات کی تلاوت کی، اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌۙ(۷) مَّا لَهٗ مِنْ دَافِعٍۙ(۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک تیرے رب کا عذاب ضرور ہونا ہے۔ اسے کوئی ٹالنے والا نہیں ۔ آپ پر خوف خدا کے غلبہ کے سبب ایسی رقّت طاری ہوئی کہ آپ کی سانس ہی اُکھڑ گئی اور یہ کیفیت کم و بیش بیس (20) روز تک رہی۔

(فیضان فاروق اعظم ، صفحہ 151)

4:ایک مرتبہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایک نوجوان کے پاس سے گزرے ،وہ نوجوان یہ آیت ’’ فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَانِۚ(۳۷) ‘‘ (الرحمن : 27) (ترجمہ کنز الایمان:"پھر جب آسمان پھٹ جائے گا تو گلاب کے پھول سا ہوجائے گا" جیسے سرخ نری ( سرخ رنگا ہو چمڑا)۔ آپ وہیں رک گئے اور دیکھا کہ اس نوجوان پر کپکپی طاری ہو گئی ہے اور آنسؤوں نے اس کا گلا بند کر دیا ہے ،وہ روتا رہا اور یہی کہتا رہا:اس دن میری خرابی ہو گی جس دن آسمان پھٹ جائے گا ۔ (تفسیر صراط الجنان سورہ ٔرحمٰن، تحت الآیۃ: 37-38)

اے کاش! ہمیں بھی تلاوت قرآن میں آنسو بہانے والی آنکھ نصیب ہوجائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم