قرآن پاک اللہ پاک کا ایسا بے مثل کلام ہے کہ جب کوئی اس کی تلاوت کرتا یا سنتا ہے تو اس کلام کی ہیبت اس پر ایسے طاری ہوتی ہے کہ اس کی آنکھوں سے سیل اشک رواں ہوجاتے ہیں، اس کی ھجکیاں بندھ جاتی ہیں، ان کا رواں رواں خوف خدا سے لرز رہا ہوتا ہے ۔ رب تعالیٰ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے :

تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْۚ ترجَمۂ کنزُالایمان: اس سے بال کھڑے ہوتے ہیں ان کے بدن پر جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ۔ (الزمر : 23 )

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ "جب اللہ تعالیٰ کے خوف سے بندے کے بال کھڑے ہو جائیں تو اس کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جس طرح خشک درخت سے اس کے پتے جھڑتے ہیں ۔ ( شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۹۱ ، الحدیث: ۸۰۳ )

یاد رہے کہ تلاوت قرآن کے دوران رونا مستحب ہے۔ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام سے خاتم النبيين صلی اللہ علیہ وسلم تک،اور ان سے لے کر آج تک اللہ کے ایسے نیک بندے موجود ہیں کہ جب اللہ پاک کا کلام پڑھتے یا سنتےہیں تو ان کے دل نرم ہو جاتے ہیں اور آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بندھ جاتی ہے ۔

تلاوت میں رونے کے متعلق کچھ روایات:

حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا، جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکو تو رونے کی شکل بنا لو۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی حسن الصوت بالقرآن ، ۲ / ۱۲۹ ، الحدیث: ۱۳۳۷ )

حضرت ابو معمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے سورۂ مریم کی تلاوت اور (سجدہ کرنے کے بعد) فرمایا ’’یہ سجدے ہیں تو رونا کہا ں ہے؟ ( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی البکاء عند قراء تہ ، ۲ / ۳۶۵ ، الحدیث: ۲۰۵۹ )

دوران تلاوت رونے والوں کے واقعات :

ایک مرتبہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو قرآن سنانے کا حکم فرمایا جب آپ سورۃ النساء کی اس آیت پر پہنچے۔ فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًاﳳ(۴۱) ترجمہ کنزُالعِرفان : تو کیسا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سےایک گواہ لائیں گے اور اے حبیب! تمہیں ان سب پر گواہ اورنگہبان بناکر لائیں گے۔ (النساء : 41)

تو سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

( مسلم،کتاب صلوۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل استماع القرآن۔۔۔ الخ، ص ۴۰۱ ، الحدیث: ۲۴۸، ۸۰۰)

قرآن مجید تو ایسا اثرانگیز کلام ہے کہ بعض اوقات اسلام قبول کرنے سے پہلے زمانۂ کفر میں بھی قرآن کی تلاوت سننے سے سننے والے کی حالت غیر ہو جاتی ہے ۔

چنانچہ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ یہ اسیران بدر کے متعلق گفتگو کرنے مکہ سے مدینہ آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز میں سورۂ طور کی تلاوت فرما رہے تھے۔ تلاوت سنتے ہی ان کے دل ودماغ میں دہشت طاری ہو گئی جیسے جیسے تلاوت سنتے گئے دل کی دنیا زیروزبر ہوتی گئی حتی کہ نماز کے بعد اسلام قبول کر لیا۔

( قرآن اور اور حاملین قرآن، ص96)

اللہ پاک ہمیں ان کے خوف خدا سے حصہ نصیب فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم