رب تعالیٰ نے بندوں کی اصلاح کے لیے
اور انہیں آداب زندگی سکھانے کے لیے رسل و انبیاء کو مبعوث فرمایا اور ان پر کتب
اور صحائف نازل فرمائے تاکہ راہ حق کے متلاشی علم کے نور سے اپنے سینوں کو منور کریں ۔مختلف انبیاء علیہمُ السّلام پر مختلف کتابیں اور صحیفے نازل ہوئے ۔آخری آسمانی کتاب قرآن پاک ہمارے پیارے پیارے آقا محمد مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل ہوئی قرآن پاک لاریب کتاب ہے (ترجمہ سورۃ بقرہ آیت 2 )اس میں ہر خشک و تر
کا بیان ہے(ترجمہ سورۃ انعام آیت 59) اور اس میں رب تعالیٰ نےجگہ بہ جگہ جنت دوزخ ،عذاب
وثواب کا ذکر فرمایا اور اس کی تلاوت کرتے ہوئے بہت سے عاشقان قرآن جھومتے ہیں اور
عذاب الہی والی آیات پڑھ کر عذاب الہی کے خوف سے اور رحمت والی آیات پڑھ کر رحمت
الہی کی امید سے ان کی آنکھوں سے آنسوں رواں ہوجاتے ہیں ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : جب یہ آیت نازل ہوئی اَفَمِنْ هٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَۙ(۵۹) وَ
تَضْحَكُوْنَ وَ لَا تَبْكُوْنَۙ(۶۰)ترجَمۂ کنزُالایمان:تو کیا اس بات سے تم تعجب کرتے ہو اور
ہنستے ہو اور روتے نہیں ۔ ( سورۃ النجم آیت 59 ، 60) تو اصحاب صفہ اس
قدر روئے کہ ان کے رخسار آنسوؤں سے تر ہوگئے اور انہیں دیکھ کر رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی رونے لگے ۔ ( شعب الایمان، جلد 1 ، ص 489 ، دارلکتب العلمیہ)
ایک روز نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود سے ارشاد فرمایا : میرے سامنے تلاوت کرو ۔ عرض کی میں آپ کے
سامنے کیا پڑھوں آپ پرہی قرآن اترا
ہے ارشاد فرمایا :میں چاہتا ہوں کہ دوسروں
سے سنو ں چنانچہ آپ تلاوت کر رہے تھے اور رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی چشمان مبارک سے
آنسو بہتے رہے۔
(صحیح
البخاری ، کتاب فضائل قرآن ، حدیث نمبر : 5055 )
قلب مضطر چشم تر سوز
جگر سینہ تیاں طالب
آہ و فغاں جان جہاں عطار ہے
(وسائل بخشش ، صفحہ222)
قاری نے ایک دن اس آیت کریمہ کی تلاوت
کی هٰذَا كِتٰبُنَا یَنْطِقُ عَلَیْكُمْ بِالْحَقِّؕ-اِنَّا كُنَّا نَسْتَنْسِخُ
مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۲۹) ترجَمۂ
کنزُالایمان: ہمارا یہ نوشتہ تم پرحق بولتا ہے ہم دیکھتے رہتے تھے جو تم
نے کیا ۔ (سورۃ الجا ثیہ، آیت : 29 )
اسے سن کر حضرت سید
عبدالواحد بن زید رحمۃُ اللہِ علیہ اتنا روئے کے بے ہوشی طاری ہوگئی ۔
حضرت قاسم بن معین رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ
ایک بار امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃُ اللہِ علیہ نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت
فرمائی بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَ السَّاعَةُ اَدْهٰى وَ اَمَرُّ(۴۶) ترجَمۂ کنزُالایمان: بلکہ ان کا وعدہ قیامت پر ہے اور
قیامت نہایت کڑی اور سخت کڑوی ۔ (سورۃ القمر آیت :46 ) طلوع فجر تک یہی آیت دہراتے رہے اور گریہ زاری کرتےرہے ۔
(حکایتیں اور نصیحتیں
،335 )
حضرت اسمابنت ابی بکر
رضی اللہُ عنہا کے غلام ابو عمر
بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃُ اللہِ علیہ گورنر تھے میں جدہ سے ان کے لیے تحائف لے کر مدینہ منورہ زادھا اللہ شرفا ً و تعظیماً پہنچا تو وہ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد مسجد
میں ہی موجود تھے اور گود میں قرآن پاک لیے تلاوت کر رہے تھے اور ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی
ہوئی تھی ۔
(سیرت و مناقب عمر بن
عبد العزیز لابن جوزی ، صفحہ
42 ، دارلکتب العلمیہ )
اللہ تعالی ہمیں دلی سوز
کے ساتھ تلاوت قرآن کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
عطا کر مجھے ایسی رقت
خدایا کروں
روتے روتے تلاوت خدایا