اللہ تعالی نے فرمایا: وَ اِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰۤى اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّۚ-یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ ۔

(المائدہ، آيت : 83)

ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جب سنتے ہیں وہ جو رسول کی طرف اترا تو ان کی آنکھیں دیکھو کہ آنسوؤں سے اُبل رہی ہیں، اس لئے کہ وہ حق کو پہچان گئے، کہتے ہیں اے ربّ ہمارے ہم ایمان لائے تو ہمیں حق کے گواہوں میں لکھ لے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کی آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:قرآن کو غم کے ساتھ پڑھوکیونکہ یہ غم کے ساتھ نازل ہوا۔

( معجم الاوسط 2/166، حدیث :2904)

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مکی مدنی سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا، جب تم اسے پڑھو تو رو ؤ، اگر رو نہ سکو تو رونے جیسی شکل بنا لو۔"( ابن ما جہ2/129، حدیث :1337)

ہمارے اسلافِ اکرام کاتلاوتِ قرآن کا کیا انداز تھا، آئیے تلاوتِ قرآن میں رونے والوں کے دو واقعات سنتے ہیں۔

آیت مکمل نہ پڑھ سکے:

ایک رات حضرت سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ سورۃ اللیل پڑھ رہے تھے، جب اس آیت پر پہنچے فَاَنْذَرْتُكُمْ نَارًا تَلَظّٰى ترجمہ کنزالایمان:تو میں تمہیں ڈراتا ہوں، اس آگ سے جو بھڑک رہی ہے۔(پ30، اللیل:14)

تو روتے روتے آپ کی ہچکی بندھ گئی آگے نہیں پڑھ سکے، نئےسرےسےتلاوت شروع کی، جب اس آیت پرپہنچے تو پھر وہی کیفیت طاری ہوئی اور آگے نہیں پڑھ سکے،بالآخر یہ سورت چھوڑ کر دوسری سورت پڑھی۔(سیرت ابن عبد الحکم، ص42)

آیت سن کر جان نکل گئی:

حضرت سیّدنا منصور بن عماررحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں ایک اندھیری رات سفر پر روانہ ہوا، راستے میں ایک جگہ بیٹھ گیا، اچانک میں نے کسی نوجوان کے رونے کی آواز سنی، جو روتے ہوئے اس طرح کہہ رہا تھا ، اے میرے پروردگار! میں نے تیری نافرمانی،تیری مخالفت کی بناء پر نہیں کی اور نہ ہی گناہ کرتے وقت میں تیرے عذاب سے بے خبر تھا، بلکہ میری بدبختی نے گناہ کو میرے لئے مزیّن کر دیا، ہائےمیری بربادی! اب مجھےتیرےعذاب سے کون بچائے گا، ہائے افسوس! میں نے ساری جوانی تیری نافرمانی میں گزار دی، میں بار بار توبہ کرتا، پھر گناہ کر ڈالتا اب تو توبہ کرتے ہوئے شرم آتی ہے، حضرت منصور بن عمار فرماتے ہیں اس نوجوان کی گر یہ و زاری سن کر میں نے قرآن پاک کی یہ آیت تلاوت کی یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ (پارہ 28، تحریم: 6)

ترجمہ کنزالایمان:"اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ، جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اس پر سخت کرّے فرشتے مقرر ہیں۔

جب میں نے یہ آیت تلاوت کی تو مجھے ایک چیخ سنائی دی اور پھر خاموشی طاری ہو گئی، اس کے بعد میں وہاں سے آگے روانہ ہو گیا، صبح جب اسی مکان کے قریب آیا تو وہاں کسی کا جنازہ رکھا دیکھا، میں نے پوچھا"یہ کس کا جنازہ ہے؟ ایک بوڑھی عورت نے بتایا"یہ میرے بیٹے کی لاش ہے، کل رات یہ نماز پڑھ رہا تھا کہ کوئی شخص گلی سے گزرا اور اس نے ایسی آیت پڑھی، جس میں جہنم کی آگ کا تذکرہ تھا، پس اس آیت کو سن کر میرا بیٹا تڑپنے لگا اور اس نے روتے روتے جان دے دی"یہ سن کر حضرت سیدنا منصور بن عمار وہاں سے چلے آئے اور اپنے آپ کو مخاطب کر کے فرمانے لگے" اے عمار! ایسے ہوتے ہیں ڈرنے والے۔"(عیون الحکایات، ج1، ص102)