تنبیہ:
سب خو بیاں اللہ عزوجل کے لئے، جس نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کے
ذریعے بندوں پر احسان فرمایا، قرآن پاک کی
شان بیان کرتے ہوئے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
باطل کو اس کی طرف راہ نہیں، نہ اس کے آگے سے، نہ اس کے پیچھے سے، اتارا ہوا ہے، حکمت والے سب خوبیوں سرا ہے۔"(احیاء العلوم مترجم، جلد اول ، صفحہ
نمبر 821)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے!
اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا الَّذِیْنَ اِذَا
ذُكِّرُوْا بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ سَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ هُمْ
لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ (پ 21، سجدہ:15)
ترجمہ کنز الایمان:ہماری آیتوں پرو ہی ایمان لاتے ہیں کہ جب وہ انہیں یا
دلائی جاتی ہیں، سجدہ میں گر جاتے ہیں اور
اپنے ربّ کی تعریف کرتے ہوئے اس کی پاکی بولتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔"( احیاء
العلوم، جلد اوّل، صفحہ نمبر837)
فرمانِ مصطفی صلی
اللہ علیہ وسلم:
مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:" قرآن پڑھو اور روؤ، اگر
تمہیں رونا نہ آئے تو رونے جیسی صورت بنا لو۔
ایک روایت میں ہے:"جو شخص
قرآن کو اچھی آواز میں نہیں پڑھتا، وہ ہم میں سے نہیں۔"(احیاء العلوم، جلد اوّل، صفحہ نمبر836)
بزرگوں کے اقوال :
٭ حضرت سیدنا صالح فری علیہ رحمۃ
اللہ الوالی فرماتے ہیں:"میں نے خواب
میں حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قرآن پاک کی تلاوت
کی تو آپ نے استفسار فرمایا: اے صا لح!یہ
تلاوت قرآن ہے تو رونا کہاں ہے۔"
٭ حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:" جب تم اللہ کے لئے آیتِ سجدہ تلاوت کرو تو سجدہ کرنے میں جلد ی نہ کرو، یہاں تک
کہ رونے لگو، اگر تم میں سے کسی کی آنکھ نہ روئے تو اس کے دل
کو رونا چاہئے۔"
رونے والی آنکھیں مانگو رونا سب
کا کام نہیں
ذکرِ محبت عام ہے لیکن سوزِ محبت عام نہیں
بتکلف رونے کا
طریقہ:
یہ کہ دل میں غم کو حاضر کر کے اس سے رونا پیدا ہوتا ہے، پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا لہذا جب تم اس کی قراءت کرو تو غم ظاہر کرو۔
غم کی کیفیت پیدا کرنے کا طریقہ:
یہ ہے کہ اس میں تنبیہات و وعیدات
اور عہد و پیمان کو یاد کرے۔
ارشاد ِباری تعالیٰ:
وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْكُوْنَ وَ
یَزِیْدُهُمْ خُشُوْعًا
(پ15، بنی اسرائیل، 109)
ترجمہ کنز الایمان: اور ٹھوڑی کے بل گرتے ہیں، روتے ہوئے اور یہ قرآن ان کے دل کا جھکنا بڑھاتا ہے ۔
(ا حیاء العلوم، جلد اول، صفحہ نمبر838)
واقعہ:
ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم
نے حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:" میرے سامنے
تلاوت کرو، عرض کی"میں آپ کے سامنے
کیا پڑھوں" آپ پر ہی تو قرآن اترا ہے، ارشاد فرمایا:"میں چاہتا ہوں کہ دوسرے سے
سنو " چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ تلاوت کرتے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کی چشمانِ مبارک سے آنسو بہتے رہے۔
(ا حیاءالعلوم، جلد اول، صفحہ نمبر844)
حضرت سیّدنا عکرمہ بن ابی جہل رضی
اللہ عنہ جب قرآن پاک کھولتے تو ان پر غشی
طاری ہو جاتی تھی اور فرماتے" یہ
میرے ربّ کا کلام ہے، یہ میرے ربّ کا کلام
ہے۔"(احیاء العلوم، جلد اول، صفحہ نمبر848)