نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلَّم کا فرمان ہے: خَيْرُكُمْ مَن تَعَلَّمَ القُرْآنَ وعَلَّمَهُ ترجمہ:تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ (صحيح البخاری: 5027 )

اس روایت کے اگلے حصے میں ہے کہ حضرت ابو عبد الرحمن سلمی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت سے حجاج کے گورنر بننے تک قرآن پڑھایا اور فرمایا کہ

یہی حدیث ہے جس نے مجھے یہاں بیٹھا رکھا ہے۔

فتح الباری میں اس حدیث کی شرح میں ہے : قرآن مجید اشرف العلوم ہے پس جو شخص قرآن مجید سیکھے اور دوسروں کو سکھائے وہ اس سے زیادہ شرف والا ہو گا۔جو غیر قرآن کو سیکھے اور سکھائے ۔بلاشبہ جو قرآن کو سیکھنے اور سیکھانے کو جمع کرنے والا ہے وہ اپنی بھی تکمیل کرتا ہے اور دوسروں کی بھی ۔وہ نفع قاصر اور نفع متعدی کو جمع کرتا ہے اس وجہ سے وہ سب سے افضل ۔

(فتح الباری بشرح البخاری، جلد 15،ص152،مطبوعہ الرسالۃ العالمیہ)

وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَاۤ اِلَى اللّٰهِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ(۳۳)

ترجمہ کنز الایمان: اور اس سے زیادہ کس کی بات اچھی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیکی کرے اور کہے میں مسلمان ہوں۔ (حم السجدۃ : 33)

ان امور کی دعوت دینے میں قرآن مجید بھی ہے۔

تو معلوم ہوا کہ قرآن کی تعلیم دینے والا بہترین لوگوں میں سے ہے۔

خیر الکلام کلام اللہ ، یعنی کہ سب سے اچھا کلام اللہ کا کلام ہے، اس کلام کو سیکھنے سکھانے والا خیر الناس ہوا ، یعنی لوگوں میں سے بہترین ۔

بندے کو رب سے قریب کرنے والی چیزوں میں سے ایک اہم کام تلاوت قرآن ہے تو گویا قرآن سیکھانے والا دوسرے مسلمان کو رب سے قریب کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔

قرآن پڑھنے والے کو ہر ہر حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں اور سیکھانے والا بھی اجر کا مستحق ہوتا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلَّم کا فرمان ہے:مَن دَلَّ على خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ فاعِلِهِ ۔ ترجمہ:جس شخص نے نیکی کی طرف رہنمائی کی تو اس کو اس نیک کام کرنے والے کی مثل اجر ملے گا۔(الصحیح المسلم :1893)

تو سیکھ کر پڑھنے والا جب تک پڑھتا رہے گا سیکھانے والا اجر پاتا رہے گا۔

ایک حدیث شریف میں ہے: جس شخص نے کتابُ اللہ کی ایک آیت یا علم کا ایک باب سیکھایا اللہ عَزَّوَجَلَّ تا قِیا مت اس کا اجر بڑھا تا رہیگا۔ (تاریخ دمشق لابن عساکِر ج۵۹ ص۲۹۰) 

ذُوالنُّورین، جامع القراٰن حضرتِ سیِّدُنا عثمان ابنِ عفّان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رِوایت ہے کہ تا جدارِ مدینۂ منوّرہ، سلطانِ مکّۂ مکرّمہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا : جس نے قراٰنِ مُبین کی ایک آیت سیکھائی اس کے لیے سیکھنے والے سے دُگنا ثواب ہے۔

ایک اور حدیثِ پاک میں حضرتِ سیِّدُنااَنَس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے رِوایت ہے کہ خاتَمُ الْمُرْسَلین، شفیعُ الْمُذْنِبیْن، رَحمَۃٌ لِّلْعٰلمین صلی اﷲ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : جس نے قراٰنِ عظیم کی ایک آیت سکھائی جب تک اس آیت کی تلاوت ہوتی رہے گی اس کے لیے ثواب جاری رہے گا۔ (جَمْعُ الْجَوامِع ج۷ ص ۲۸۲، ۲۲۴۵۵۔ ۲۲۴۵۶،تلاوت کی فضیلت، مطبوعہ مکتبہ المدینہ )

حضرت عاصم بن کلیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مسجد میں لوگوں کے قرآن پڑھنے اور پڑھانے کی آوازیں سنیں تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلَّم کو سب سے زیادہ پسند ہیں ۔

(العجم الاوسط للطبرانی، 121)

تو قرآن پڑھانے والا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پسندیدہ ہے۔

خیرکم والی حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی مراۃ المناجیح میں لکھتے ہیں : قرآن سیکھنے سکھانے میں بہت وسعت ہے ۔بچوں کو قرآن کے ہجے روزانہ سکھانا، قاریوں کا تجوید سیکھنا سکھانا ، علما کا قرآنی احکام بذریعہ حدیث و فقہ سیکھنا سکھانا، صوفیا کرام کا اسرار و رموز قرآن بسلسلہ طریقت سیکھنا سکھانا ، سب قرآن ہی کی تعلیم ہے۔(مرآۃ المناجیح، جلد 3، ص230)


زندگی کھانے پینے،  زندہ رہنے اور مر جانے کا نام نہیں، بلکہ اس دنیا میں اللہ عزوجل نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے اور اپنا نائب بنا کر بھیجا اور مسلمان ہونے کی وجہ سے ہمیں یہ فرض سپُرد کیا گیا ہے کہ ہم لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور برائیوں سے روکیں، اِرشادِ باری تعالی ہے:

"اور اس سے زیادہ کس کی بات اچھی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیکی کرے اور کہے میں مسلمان ہوں۔"(پارہ 24، حٰم سجدہ، 33)

اسی طرح حدیث مبارکہ میں ہے کہ"تم میں سے بہتر وہ ہے جس نے قرآن سیکھا اور سکھایا۔"

" لوگوں میں اچھا وہ ہے، جو لوگوں کو نفع دیتا ہے۔"

ان حدیث مبارکہ سے قرآن مجید کی فضیلت اور اس کے پڑھانے والے کی عظمت واضح ہو جاتی ہے ، جس طرح قرآن کریم تمام کلاموں سے بہتر ہے، اسی طرح وہ انسان بھی تمام انسانوں سے بہتر ہے، جو خود اس کا علم حاصل کرے اور اسے دوسروں کو سکھائے، اسی سلسلے میں امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی تحریک ہے، آؤ تحریک چلائیں، قرآن سیکھیں اور سکھائیں۔


قرآن مجید کی تلاوت کرنے اور پڑھانے کے بہت فضائل ہیں،  اللہ عزوجل اِرشاد فرماتا ہے:
وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۠، ترجمہ کنزالایمان:" اور بےشک ہم نے آسان کیا قرآن یاد کرنے کے لیے تو ہے کوئی یاد کرنے والا۔"(پارہ27، سورہ قمر، آیت نمبر 22)

تفسیر صر اط الجنان میں ہے، قرآن یاد کرنے والوں کے لئے آسان ہے، حضرت علامہ مفتی نعیم الدّین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، اس آیت میں قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنے، قرآن پاک کی تعلیم دینے، اس میں مشغول رہنے اور اسے حفظ کرنے کی ترغیب ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن پاک یاد کرنے والے کی اللہ تعالی کی طرف مدد ہوتی ہے اور اس کو حفظ کرنا سَہل و آسان فرما دینے ہی کا ثمرہ ہے کہ عربی، عجمی، بڑے حتٰی کہ بچے تک بھی اس کو یاد کر لیتے ہیں اور اس کے علاوہ کوئی مذہبی کتاب ایسی نہیں ہے، جو یاد کی جاتی ہو اور سہولت سے یاد ہو جاتی ہو۔(تفسیر صراط الجنان)

حدیث مبارکہ ہے، عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال:خیرکم من تعلم القرآن وَعَلَّمَہٗ۔

ایک اور روایت ہے، ان افضلکم من تعلم القرآن وَعَلَّمَہٗ۔ "یعنی قرآن مجید سیکھنا اور سکھانا دونوں اجرِ عظیم ہے۔"( بخاری شریف)

اس حدیث میں اس پر دلیل ہے کہ تمام نیک کاموں میں سب سے افضل قرآن مجید کو پڑھنا ہے، کیونکہ جب قرآن مجید کو پڑھنے والا اور پڑھانے والا سب سے بہتر اور سب سے افضل ہے تو یہ اس کو مستلزم ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت سب سے افضل عمل ہے اور جب تک عُلوم باقی رہیں گے، قرآن مجید کی تعلیم سب سے افضل رہے گی۔

حافظ شہابُ الدّین احمد بن علی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:" کہ قرآن مجید اَشرف العلوم ہے، پس جو شخص قرآن مجید سیکھے اور دوسروں کو سکھائے، وہ اس سے زیادہ اشرف ہوگا جو غیر قرآن مجید کو سیکھے اور سکھائے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جو قرآن مجید کی تعلیم اور تعلم کو جمع کرنے والا ہو، وہ اپنے نفس کی بھی تکمیل کرتا ہے اور دوسروں کی بھی تکمیل کرتا ہے اور وہ النفع القاصر النفع التعمدی کا جامع ہے، اس وجہ سے وہ سب سے افضل ہے۔

ایک حدیثِ مبارکہ میں اس کے پھیلانے کا بھی فرمایا گیا ہے ۔

اللہ عزوجل خوب عمل کرنے اور پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قرآن پاک ایک فضیلت اور عظمت والی کتاب ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب جو اللہ تعالی کے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اتری۔ اس کتاب کی عظمت کا یہ تقاضا ہے کہ یہ ایک مقدس کتاب ہے۔

قرآن پاک کی ابتدا سورۃ الفاتحہ لفظ الحمد اللہ سے ہوتی ہے جس کا مطلب تعریف کی گئ۔

یہ مبارک کتاب مبارک مہینے مبارک رات 27 رمضان المبارک کو نازل ہوا۔

جس رات کے دامن میں قرآن پاک نازل ہو وہ رات تو افضل ہو۔ وہ رات ہزار مہینوں سے اشرف ہو۔ تو قرآن پاک تو افضل ہی ہو گا۔

جو قرآن کو اپنی روح میں بسا لیں جو اپنے اعمال کو قرآن پاک کی تعلیمات کے تابع کر لے اپنے دنوں کو قرآن کے اجالوں میں گزارے جو راتوں کو قرآن پاک کی تلاوت میں بسر کریں دن کی تنہائی اور رات کے اجالوں میں پڑھے وہ کتنا اشرف ہو گا۔

امام فخر الدین رازی فرماتے ہیں تمام آسمانی کتابیں صحیفوں کا خلاصہ اور نچوڑ قرآن کریم ہے یہی وجہ ہے قرآن پاک پر ایمان لانا تمام آسمانی کتابوں پر ایمان لانے کے برابر ہے۔ اور قرآن کا انکار تمام الہامی کتابوں کا انکار ہے۔

بے شک اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے پاس ایک لوح اور روشن کتاب آ چکی ہے جس سے اللہتعالی اپنی رضا پر چلنے والوں کو سلامتی کے راستے دیکھاتا ہے۔اور اپنے حکم سے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے اور ان کو سیدھی راہ پر چلاتا ہے۔

مسلمان ممالک میں بچوں کو قرآن پاک کی تعلیمات لازمی دی جاتی ہیں۔ قرآن پاک کی عظمت کا تقاضا یہ ہے کہ بچوں کو اگر دنیاوی کتابیں نہ یاد بھی ہو تو اسے قرآن پاک پڑھنا آ جاتا ہے۔ قرآن پاک ایک نور ہے اور دلوں کو نور پہنچاتا ہے،اطمینان قلب پیدا کرتا ہے۔

قرآن پاک پڑھا کرو یہ اپنے پڑھنے والوں کا سفارشی بن کر آئے گا۔ قیامت کے دن جب انسان ایک ایک نیکی کو ترستا ہو گا۔ قرآن رب کو راضی کروائے گا۔

رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن قرآن اپنے پڑھنے والوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔ قرآن کہے گا اے اللہ میرے پڑھنے والے سے راضی ہو جا چنانچہ اللہتعالی اس سے راضی ہو جائے گے ۔ پھر کہا جائے گا قرآن پڑھتا جا اور جنت کے درجے چڑھتا جا اور اس کی ہر آیت کے بدلے میں اس کی ایک نیکی بڑھے گی۔

یہ کتاب ہر عیب سے پاک ہے ۔ اس میں کسی قسم کا بھی شک نہیں ۔ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ قرآن پاک کو ترجمہ و تفسیر کے ساتھ پڑھے اور عمل کرے ۔ اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کو بھی دین پر لائے اور اس پر زندگی گزارے۔


قرآن پڑھانے  کے فضائل

Mon, 5 Apr , 2021
3 years ago

قرآن پاک اللہ تعالیٰ نے لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر لیلۃالقدر کی ستائیسویں شب کو نازل فرمایا پھر آہستہ آہستہ کرکے  تقریبا 23 برس میں حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر نازل ہوا، قران پاک کے باقی نام فرقان، برہان، مصحف، الکتاب بھی ہیں۔

آیت مبارکہ:اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِترجمۂ کنزالایمان:بے شک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا۔ (پ30،القدر:1)

یعنی بے شک ہم نے اس قرآن مجید کو لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف یکبارگی شب قدر میں نازل کیا۔ (صراط الجنان)

حدیث مبارکہ کی روشنی میں :خیر کم من تعلم القرآن و علمہ ترجمہ : تم میں افضل وہ ہے جو قرآن سیکھنے اور سیکھائے۔

سورة یسین کی فضیلت :آقا علیہ السلام نے فرمایا، قرآن پاک کی ایک سورت تیس آیتوں والی ہے اس نے میری امت کے لیے ایک شخص کی سفارش کی اللہ نے اس کی مغفرت فرمادی یہ سورة تبارک ہے۔(ابوداؤد، نسائی شریف)

سورة التکاثر کی فضیلت :

پیارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، تم میں سے کوئی اس کی طاقت نہیں رکھتا کہ وہ روزانہ ایک ہزار آیتوں کی تلاوت کرے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کی، اس کی طاقت کون رکھتا ہے، ارشاد فرمایا، کیا تم میں سے کوئی (الھکم التکاثر) پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتا۔( مستدرک کتاب فضائل قرآن)یعنی، یہ سورت پڑھنے کا ثواب ایک ہزار آیتیں پڑھنے کے برابر ہے۔

قربِ الہی کے حصول کا افضل ترین ذریعہ :

حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا، میں اللہ پاک کو خواب میں دیکھنا تو عرض کی، سب سے افضل وہ کون سی چیز ہے جس کے ذریعے مقرب بندے تیری بارگاہ میں قربِ حاصل کرسکتے ہیں، ارشاد فرمایا، اے احمد ! میرے کلام (قرآن کریم) کے ذریعے۔ عرض کی، یارب سمجھ کر ( تلاوت کرنے سے) یا بغیر سمجھے (تلاوت کرنے سے)؟ ارشاد فرمایا: ( دونوں طرح خواہ وہ) سمجھ کر ( تلاوت کرے) یا بغیر سمجھے ، (تلاو ت کرے)۔ (بحوالہ صراط الجنان)

معجزہ :

چاروں آسمانی کتابوں میں اللہ پاک نے قران کریم کو خاص شرف عطا فرمایا ہے کہ امت محمدیہ (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کا ہر چھوٹا بڑا ہر ایک اپنے دلوں میں محفوظ کرسکتا ہے جب کہ باقی کتابیں صرف انبیا ئےکرام علیہم السلام کو ہی حفظ ہوتی تھی۔

بنیادی معلومات :

اللہ پاک نے قران کریم میں اپنے پیارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو مختلف ناموں سے پکارا ، کبھی اے محبوب فرمایا، تو کبھی یارسول اللہ کہہ کرمخاطب فرمایا ، جب کہ نام محمد قرآن پاک میں چار مرتبہ اور احمد ایک مر تبہ آیا، قران مجید میں ۲۷ ستائیس انبیا کرام کے نام آئے اور (۷) چھ انبیا کرام کے نام پراللہ پاک نے سورتیں نازل فرمائیں ان میں سے سورہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سورہ ابراہیم، سورہ یوسف ، سورہ یونس، سورہ نوح اور سورہ ہود ہیں، (۴) مساجد کا ذکر قرآن پاک میں آیا، مسجد الحرام، مسجد النبوی ، مسجد الاقصی مسجد القرار۔

بعض جانوروں کے نام پر اللہ پاک نے قران کریم میں سورة نازل فرمائیں ان میں سورة البقرہ ، سورة الفیل ، سورة النمل اور سورة النحل واقع ہیں، وہ صحابہ کرام جنہوں نے قرآن کریم حفظ کیا ان میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ، حضر تِ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ، حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ ،قران پاک میں ایک سورة عورت کے نام پر بھی نازل ہوئی اور وہ سورة مریم ہے اور کثرت سے عورتوں کے احکام سورة نور میں بیان فرمائے گئے۔

حدیث مبارکہ ہے: اپنی عورتوں کو سورہ نور کی تعلیم دو،ایک سورت دن کے نام پر سورة الجمعہ ہے۔ بعض سورتیں قرآن پاک میں میں وقت کے نام پر نازل ہوئیں، سورة الفجر ، سورة العصر سورة الضحیٰ اور سورة الیل شامل ہیں۔

ہے کلام الہی میں شمس وضحے تیرے چہرے نورا فزا کی قسم

قسم شب تار میں راز یہ تھا کہ حبیب کی زلف دوتاکی قسم

(وسائل بخشش)

اللہ پاک نے قران کریم کو اتنا جامع بنایا ہے کہ یہ ہر طبقہ زندگی کے لیے كافی ہے، ہر شخص کی ضرورت کا کفیل ہے قیامت تک آنے والوں کے لیے ہدایت اور نور ہے۔ جس رات میں قرآ ن نازل ہوا وہ لیلۃالقدر کہلائی اس کی فضیلت پر قران کریم میں سورة نازل فرمائی، یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس رات میں فرشتے اور جبرئیل علیہ السلام اللہ کے حکم سے اترتے ہیں اور یہ رات صبح طلوع ہونے تک سلامتی ہے، ذرا سوچیں جب یہ رات قرآن مجید کے نزول کی وجہ سے اتنی برکتوں اور فضیلتوں والی ہوگی تو جو شخص اپنی روح میں اس برکت والے پاک کلام کو اتارے گا تووہ فضیلتوں عظمتوں والا کیوں نہ ہوگا، الغرض یہ کہ قرآن پڑھنے کو اپنا معمول بنالیجئے اور دین و دنیا میں اس کی بے شمار فیوض و برکات سے فائدہ حاصل کریں۔


حضرت سیدنا ثابت قدس سرّہ النورانی روزانہ ایک بار ختمِ قرآن پاک فرماتے تھے، آپ رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے، ساری رات قیام (عبادت) فرماتے، جس مسجد سے گزرتے، اس میں دو رکعت( تحیۃالمسجد) ضرور پڑھتے، تحدیثِ نعمت کے طور پر فرماتے ہیں" میں نے جامعہ مسجد کے ہر سُتون کے پاس قرآن پاک کا ختم اور بارگاہِ الہی میں ِ گریہ کیا ہے، نماز اور تلاوتِ قرآن کے ساتھ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو خصوصی محبت تھی، آپ رحمۃ اللہ علیہ پر ایسا کرم ہوا کہ رشک آتا ہے، چنانچہ وفات کے بعددورانِ تدفین اچانک ایک اینٹ سرک کر اندر چلی گئی، لوگ اینٹ اُٹھانے کے لئے جب جھُکے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ قبر میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے ہیں، آپ رحمۃ اللہ علیہ کے گھر والوں سے جب معلوم کیا گیا تو شہزادی صاحبہ نے بتایا کہ والد محترم رحمۃ اللہ علیہ روزانہ دعا کیا کرتے تھے "یا اللہ اگر تو کسی کو وفات کے بعد قبر میں نماز پڑھنے کی سعادت عطا فرمائے تو مجھے بھی مشرف فرمانا۔"

دہن میلا نہیں ہوتا بدن میلا نہیں ہوتا

خدا کے اولیاء کا تو کفن میلا نہیں ہوتا

ذرا ٹھہرئیے! تدوینِ قرآن بھی سنتے جائیے:

سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور میں کاتبینِ وحی کی جماعت سے قرآن پاک کو جامع اور مکمل ترتیب سے مرتّب کروایا تھا اور وہ نہ صرف سنگ سفید بلکہ کھجوروں کی چھالوں، جانوروں کی ہڈیوں اور درختوں کے پتوں وغیرہ پر ضبطِ تحریر میں آ چکا تھا، سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری وِصال کے بعد مسیلمہ کذّاب نے نبوت کا دعویٰ کیا تو اس کے خلاف جنگ یمامہ میں تقریباً ستّر حافظِ قرآن شہید ہوگئے تھے، اِس صورتحال کو دیکھتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مشورے پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو جو کاتبانِ وحی تھے، پورے قرآن کا جمع کرنے کا کام سونپا، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے تمام تر نسخہ تحریر منگوا کر حُفّاظِ کرام کی جماعت کی موجودگی میں تمام تر صحیفہ مرتّب کئے، جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس رکھوایا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ والے قرآنی نسخے کو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے منگوایا اور اس کی نقلیں کروا کر تمام علاقوں میں بھجوایا اور آج یہ وہی قرآن ہے ، جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں کروایا تھا، جو آج عالمِ اِسلام بلکہ پوری دنیا میں رائج ہے اور اسی ترتیب و تدوین پر شائع ہو رہا ہے۔ یہ قاعدہ قابل غورہے:

1۔آیاتِ قرآنیہ تین طرح کی ہیں، بعض وہ جن کا مطلب عقل و فہم سے ورا ہے، جس تک دماغوں کی رسائی نہیں ، انہیں متشابہات کہتے ہیں۔

2۔ان میں سے بعض تو وہ ہیں، جن کے معنٰی ہی سمجھ میں نہیں آتے، جیسے الٰم، حٰم، یٰس وغیرہ ، انہیں مقطعات کہتے ہیں۔

3۔بعض آیات وہ ہیں، جو اس درجہ کی مخفی نہیں ہیں، انہیں قرآنی اصطلاح میں محکمات کہتے ہیں۔

بہترین شخص حدیث مبارکہ کی روشنی میں:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ۔

"تم میں بہترین شخص وہ ہے، جس نے قرآن سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔"

اللہ مجھے حافظِ قرآن بنادے

قرآن کے احکام پہ بھی مجھ کو چلا دے

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:"جس نے قرآنِ کریم کی ایک آیت سکھائی، جب تک اس آیت کی تلاوت ہوتی رہے گی، اُس کے لئے ثواب جاری رہے گا۔"

تلاوت کا جذبہ عطا کر الہی

معاف فرما میری خطا ہر الہی

حفاظت کا ذمّہ الہی عزوجل نے لیا:

قرآن کریم اللہ تعالی کی آخری کتاب ہے اور نزولِ قرآن کو تقریباً ساڑھے چودہ سو برس گزر چکے ہیں، لیکن آج تک یہ کلام اِلٰہی زبر، زیر، پیش جیسے معمولی ردّ و بدل سے بھی محفوظ ہے، یہ وہ کتاب ہے جس کی حفاظت کا ذمّہ خود ربّتعالی نے لیا ہے، فرمان باری ہے کہ :"اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَاالذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْن،

ترجمہ کنزالایمان:"بےشک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بےشک ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔"(سورہ الحجر،آیت9)

جس کی حفاظت کی ذمّہ داری خالقِ کائنات نے لی ہے، تو اس کتاب میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہوسکتی ہے، اللہ نے قرآن میں فرمایا:"ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہ، ترجمہ کنزالایمان:وہ بلند رتبہ کتاب (قرآن) کوئی شک کی جگہ نہیں۔(سورہ الفاتحہ،آیت2)

نزولِ قرآن کے موقع پر:

صاحبِ قران نے بھی قرآن پاک کی حفاظت کا انتظام کیا ہوا تھا، جیسے جیسے قرآن پاک کی آیات نازل ہوتی رہیں، ویسے ویسے سرکار صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام سے ان آیات کو سورتوں میں ترتیب سے لکھواتے رہتے، یہ صرف اتنا نہیں بلکہ صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی آیات اور سورتوں کو حفظ کر لیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں بلکہ ساری کتاب میں کسی قسم کی کمی بیشی تحریف و تبدیلی سے قرآن پاک کا جتنا حصّہ نازل ہوا کرتا تھا، اسے بلند آواز میں دہراتے تھےتا کہ صحابہ کرام اپنے اپنے نسخوں اور ذہنوں میں درست کر لیں، اللہ تعالی نے نہ صرف اپنے کلام کی حفاظت کی ذمّہ داری لی ہے بلکہ اس آخری کتاب میں کسی قسم کی کمی بیشی، تحریف و تبدیلی سے بھی اسے پاک رکھنے کا ذمّہ لیتے ہوئے اِرشاد فرمایا:"یہ ایک اعلٰی مرتبہ کتاب ہے، اس میں جھوٹ کا دخل نہ آگے سے، نہ پیچھے سے ہوسکتا ہے، دانا اور خوبیوں والے ربّتعالی کی طرف سے اُتاری ہوئی ہے۔

فضائلِ قرآن:

قرآن اللہ عزوجل کی وہ کتاب ہے، جو لوحِ محفوظ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت جبرائیل علیہ السّلام کے توسّط سےنازل ہوا، اِس مقدس کتاب کے فضائل کو شمار کرنا نا ممکن ہے، البتہ اس کتاب کی شان یہ ہے کہ اس میں کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں، یہ ایسی کتاب ہے کہ اللہ ربُّ العزت اس کے ذریعے کچھ لوگوں کو بلندی عطا فرماتا ہے اور کچھ لوگوں کو پستی کی طرف گامزن کر دیتا ہے یعنی قرآن کے ماننے والےاور اس پر عمل کرنے والوں کو عروج عطا ہوتا ہے اور قرآن کو نظر انداز کرنے والے ذلیل و رُسوا ہوتے ہیں۔

یہی وہ کتاب ہے جو مؤمنوں کے لئے ہدایت اور مُبین ہے، یہ ایسی کتاب اور ایسا کلام ہے، جو پہاڑوں پر نازل ہو تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں اور سنگ دلوں پر نازل ہو جائے تو موم ہو جائیں، جاہل اِس پر غور کر لیں تو ان کے دل کی دنیا بدل جائے، قرآن پاک کی ایک شان یہ ہے کہ اسے جانی دُشمن بھی سُنے تو جانثار بن جائے، بدکار سنے تو خوفِ خدا سے لبریز ہو جائے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن سیکھنے اور سکھانے کے عمل کو بہترین قرار دیا اور مزید فرمایا کہ:"قرآن پڑھا کرو کہ قیامت کے دن یہ اپنے پڑھنے والوں کے لئے شفیع یعنی سفارش کرنے والا بن کر آئے گا۔" قرآن پاک کی تلاوت اور موت کی یاد دل کو اِس طرح صاف کر دیتی ہے جیسے زنگ آلود لوہے کو آگ، قرآن پاک میں انسانی زندگی اور مشکلات کا حل، رہنمائی کی ہدایت کا پیغام موجود ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" قرآن کے ہر حرف کے بدلے دس نیکیاں ملتی ہیں، میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک، لام دوسرا، میم تیسرا حرف ہے، یعنی الم پڑھنے والے کو تیس نیکیاں ملتی ہیں۔" جو شخص قرآن پاک پڑھے اور اس پر عمل کرے تو قیامت کے دن اس کو ایسا تاج پہنایا جائے گا، جس کی چمک آفتاب سے زیادہ ہوگی اور جو شخص قرآن کی تلاوت میں اتنا مشغول ہو کہ کوئی دعا نہ مانگ سکے، پھر اس کو اللہ مانگنے والوں سے زیادہ عطا کرتا ہے، الغرض یہ کہ قرآن رشدو ہدایت کا وہ روشن آفتاب ہے کہ جس سے رہتی دنیا تک فیض حاصل کیا جا سکتا ہے۔(تلاوت کی فضیلت اور دیگر رسائل)

یہی ہےآرزو تعلیمِ قرآں عام ہو جائے

ہر اِک پرچم سے اُونچا پرچمِ اسلام ہو جائے


قرآن مجید کے فضائل میں سے ایک یہی فضیلت کافی ہے کہ یہ اللہ عزوجل کی کتاب ہے اور اس کی صفت ہے جو کہ اللہ عزوجل نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی، یہی وہ کتاب مبین ہے، جس نے دینِ حق کی پہچان کرائی، لہذا جو شخص قرآن مجید پڑھنے، پڑھانے کو اپنا مسکن بنائے گا گویا اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص نسبت حاصل ہوگی اور وہ اللہ عزوجل کے خاص سایہ رحمت میں ہوگا۔

بہترین شخص کون؟

نبی مکرم، نورِ مجسم، رسول ِمحتشم، شاہِ بنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ معظم نشان ہے:"تم میں بہترین شخص وہ ہے، جس نے قرآن سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔"

سعد بن عبیدہ نے بیان کیا کہ ابو عبد الرحمن سلمی نے لوگوں کو حضرت عثمان رضی اللہُ عنہ کے زمانہ خلافت سے حجاج بن یوسف کے عراق کے گورنر ہونے تک قرآن مجید کی تعلیم دی، وہ کہا کرتے تھے کہ"یہ ہی حدیث ہے، جس نے مجھے اس جگہ( قرآن مجید پڑھانے) کے لئے بٹھا رکھا ہے۔"( صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، 21، حدیث 5027)

قرآن سیکھنے اور سکھانے میں بڑی وسعت ہے، بچوں کو قرآن کے ہجے روزانہ سکھانا، قاریوں کا تجوید سیکھنا سکھانا، علماء کا قرآنی احکام بذریعہ حدیث وفقہ سیکھنا سکھانا، صوفیائے کرام کا اسرارِ رموزِ قرآن بسلسلہ طریقت سیکھنا سکھانا سب قرآن ہی کی تعلیم ہے، لہذا یہ حدیث فقہائے کرام کے اس فرمان کے خلاف نہیں کہ فقہ سیکھنا تلاوتِ قرآن سے افضل ہے، کیونکہ فقہ احکامِ قران ہے اور تلاوت میں الفاظِ قرآن ، کیونکہ کلام اللہ تمام کلاموں سے افضل ہے لہذا اس کی تعلیم تمام کاموں سے بہتر ہے۔

( مراةالمناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، جلد سوم، کتاب فضائل القرآن، فصل اول، ص239)

ایک آیت سکھانے کا ثواب:

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس نے قرآنِ کریم کی ایک آیت سکھائی، جب تک اس آیت کی تلاوت ہوتی رہے گی، اُس کے لیے ثواب جاری رہے گا۔"( جمع الجوامع، جلد7، ص282 ، حدیث22456)

قرآنِ مجید، فرقانِ حمید کی ایک آیت پر جب اتنا ثواب ہے تو قرآن کریم مکمل پڑھنے پر کتنا ثواب ہوگا، قرآن مجید کے ایک حرف پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں، سکھانے والے کو سیکھنے والے سے دُو گنا اجر ملتا ہے، قرآن مجید سکھانے والوں کو آخرت میں بہترین ثواب ملے گا۔

طبرانی میں ہے کہ حضرت عاصم بن کلیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی بن طالب رضی اللہ عنہ نے مسجد میں لوگوں کے قرآن پڑھنے اور پڑھانے کی آواز سنی تو فرمایا: انہیں مبارک ہو کہ یہ وہ لوگ ہیں جو سب سے زیادہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھے۔

مذکورہ بالا احادیث قرآن کریم کے پڑھانے پر دلالت کرتی ہیں، لیکن یہ یاد رہے! کہ جتنی بھی فضیلتیں احادیث میں بیان ہوئیں وہ تب ہی حاصل ہوں گی، جب کہ قرآن مجید خالص اللہ کی رضا کے لئے پڑھا یا جائے، تجوید و قراءت کا خیال رکھا جائے، قرآن پاک کو پڑھانے کے ساتھ ہم اخلاص کے ساتھ اس پر عمل کیا جائے۔

اے کاش! ہمارے نوجوانوں میں بھی قرآن مجید کی محبت، اسے سیکھنے سکھانے، اس پر عمل کرنے کا جذبہ جوش مارنے لگے اور ان کے ذریعے ہمارے دین کا غیر مسلموں میں بھی بول بالا ہو۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قرآن مجید فرقان حمید اللہ ربّ الانام کا مبارک کلام ہے ، اس کا پڑھنا، پڑھانا اور سننا سنانا سب ثواب کا کام ہے، قرآن پاک پڑھنے کے جس طرح کئیں فضائل ہیں، اسی طرح قرآن پاک پڑھانے کے بھی کئیں فضائل ہیں، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:" تم میں بہترین شخص وہ ہے، جس نے قرآن سیکھا اور سکھایا۔"( صحیح البخاری)

حضرت سیّدنا ابو عبدالرحمن سُلَمی رضی اللہُ عنہ مسجد میں قرآنِ پاک پڑھایا کرتے تھے اور فرماتے:" اِسی حدیثِ مبارکہ نے مُجھے یہاں بٹھا رکھا ہے۔"

قرآن شفاعت کر کے جنت میں لے جائے گا:

حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اِکرم، نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ معظم ہے:"جس شخص نے قرآن سیکھا اور سکھایا اور جو کچھ قرآن پاک میں ہے، اُس پر عمل کیا، قرآن شریف اس کی شفاعت کرے گا اور جنت میں لے جائے گا۔"

سبحان اللہ عزوجل!قرآن پاک سیکھنے اور سکھانے اور اس پر عمل کرنے والوں کی قرآن پاک شفاعت کرے گا۔

ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں اور قرآن پاک پڑھانے کے بے شمار فضائل میں سے ایک اور فضائل ملاحظہ فرمائیں:"جس شخص نے کتاب اللہ کی ایک آیت یا علم کا ایک باب سکھایا، اللہ عزوجل تا قِیامت اس کا اَجْر بڑھاتا رہے گا۔"

اسی طرح ایک اور حدیث پاک میں قرآن پاک سکھانے کی فضیلت معلوم ہوتی ہے، چنانچہ حدیث میں ہے:"جس نے قرآن عظیم کی آیت سکھائی، جب تک اس کی تلاوت ہوتی رہے گی، اس کے لئے ثواب جاری رہے گا۔"( جمع الجوامع)

افسوس! اِسلامی معلومات کی کمی کی وجہ سے آج لوگوں کی بڑی تعداد قرآن پاک سیکھنے اور سکھانے کے فضائل سے نابلد ہے۔

اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمیں خود بھی قرآن سیکھنے اور دوسروں کو سکھا کر اجرِعظیم کمانے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


1۔حدیث کا مفہوم:

نورِ مجسم، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مُعظم ہے :خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرآنَ وَعَلَّمَہٗ۔ "یعنی تم میں سے بہترین شخص وہ ہے، جس نے قرآن سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔"

(صحیح البخاری، ج3، ص410)

حضرت سیّدنا ابو عبدالرحمٰن سلمی رضی اللہ عنہ مسجد میں قرآنِ پاک پڑھایا کرتے تھے اور فرماتے "اِسی حدیث نے مجھے یہاں بٹھا رکھا ہے۔"( فیض القدیر، ج3، ص 618)

2۔حدیث کامفہوم:

پیارے آقا نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مُعظم ہے:" جس شخص نے قرآن پاک سیکھا اور سکھایا اور جو کچھ قرآن پاک میں ہے، اِسی پر عمل کیا، تو قرآن پاک اِس کی شفاعت کرے گا اور اسے جنت میں لے جائے گا ۔

3۔حدیث کا مفہوم:

روایت ہے، حضرتِ انس رضی اللہ عنہ سے کہ" جس شخص نے قرآن مجید کی ایک آیت یادین کی کوئی سُنت سکھائی، قیامت کے دن اللہ عزوجل اس کے لئے ایسا ثواب تیار فرمائے گا کہ اس سے بہتر ثواب کسی کے لئے بھی نہیں ہوگا۔"( جمع الجوامع للسیوطی، ج7، ص381، حدیث22454)

4۔حدیث کا مفہوم:

حدیث میں ہے:" جس شخص نے کتاب اللہ کی ایک آیت یا علم کا ایک باب سکھایا، اللہ عزوجل تاقیامت اس کا اجر بڑھاتا رہے گا۔"( تاریخِ دمشق، ا بن عساکر، ج59 ، ص390)

عطا ہو شوق مولا مدرسہ میں آنے جانے کا

خدایا! ذوق دے قرآن پڑھنے کا پڑھانے کا



قرآن پڑھانے کے بے شمار فضائل ہیں،  ان میں سے چند یہ ہیں:

1۔حدیث کا مفہوم:

نورِ مجسم، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مُعظم ہے :خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرآنَ وَعَلَّمَہٗ۔ "یعنی تم میں سے بہترین شخص وہ ہے، جس نے قرآن سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔"

(صحیح البخاری، ج3، ص410)

حضرت سیّدنا ابو عبدالرحمٰن سلمی رضی اللہ عنہ مسجد میں قرآنِ پاک پڑھایا کرتے تھے اور فرماتے "اِسی حدیث نے مجھے یہاں بٹھا رکھا ہے۔"( فیض القدیر، ج3، ص 618)

2۔حدیث کامفہوم:

پیارے آقا نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مُعظم ہے:" جس شخص نے قرآن پاک سیکھا اور سکھایا اور جو کچھ قرآن پاک میں ہے، اِسی پر عمل کیا، تو قرآن پاک اِس کی شفاعت کرے گا اور اسے جنت میں لے جائے گا ۔

3۔حدیث کا مفہوم:

روایت ہے، حضرتِ انس رضی اللہ عنہ سے کہ" جس شخص نے قرآن مجید کی ایک آیت یادین کی کوئی سُنت سکھائی، قیامت کے دن اللہ عزوجل اس کے لئے ایسا ثواب تیار فرمائے گا کہ اس سے بہتر ثواب کسی کے لئے بھی نہیں ہوگا۔"( جمع الجوامع للسیوطی، ج7، ص381، حدیث22454)

4۔حدیث کا مفہوم:

حدیث میں ہے:" جس شخص نے کتاب اللہ کی ایک آیت یا علم کا ایک باب سکھایا، اللہ عزوجل تاقیامت اس کا اجر بڑھاتا رہے گا۔"( تاریخِ دمشق، ا بن عساکر، ج59 ، ص390)

عطا ہو شوق مولا مدرسہ میں آنے جانے کا

خدایا! ذوق دے قرآن پڑھنے کا پڑھانے کا



قرآن پڑھانے کے بے شمار فضائل ہیں،  ان میں سے چند یہ ہیں:

1۔حدیث کا مفہوم:

نورِ مجسم، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مُعظم ہے :خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرآنَ وَعَلَّمَہٗ۔ "یعنی تم میں سے بہترین شخص وہ ہے، جس نے قرآن سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔"

(صحیح البخاری، ج3، ص410)

حضرت سیّدنا ابو عبدالرحمٰن سلمی رضی اللہ عنہ مسجد میں قرآنِ پاک پڑھایا کرتے تھے اور فرماتے "اِسی حدیث نے مجھے یہاں بٹھا رکھا ہے۔"( فیض القدیر، ج3، ص 618)

2۔حدیث کامفہوم:

پیارے آقا نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مُعظم ہے:" جس شخص نے قرآن پاک سیکھا اور سکھایا اور جو کچھ قرآن پاک میں ہے، اِسی پر عمل کیا، تو قرآن پاک اِس کی شفاعت کرے گا اور اسے جنت میں لے جائے گا ۔

3۔حدیث کا مفہوم:

روایت ہے، حضرتِ انس رضی اللہ عنہ سے کہ" جس شخص نے قرآن مجید کی ایک آیت یادین کی کوئی سُنت سکھائی، قیامت کے دن اللہ عزوجل اس کے لئے ایسا ثواب تیار فرمائے گا کہ اس سے بہتر ثواب کسی کے لئے بھی نہیں ہوگا۔"( جمع الجوامع للسیوطی، ج7، ص381، حدیث22454)

4۔حدیث کا مفہوم:

حدیث میں ہے:" جس شخص نے کتاب اللہ کی ایک آیت یا علم کا ایک باب سکھایا، اللہ عزوجل تاقیامت اس کا اجر بڑھاتا رہے گا۔"( تاریخِ دمشق، ا بن عساکر، ج59 ، ص390)

عطا ہو شوق مولا مدرسہ میں آنے جانے کا

خدایا! ذوق دے قرآن پڑھنے کا پڑھانے کا



قرآن مجید سکھانے کے بہت سے فضائل ہیں،  اجمالی طور پر اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ یہ اللہ تعالی کا کلام ہے، فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:"بے شک تم میں سے افضل وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔"(بخاری شریف)

فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:"جو شخص طلبِ علم کے لئے کسی راستے پر چلا، اللہ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے اور جب بھی لوگ اللہ تعالی کے گھروں( مسجدوں) میں سے کسی گھر (مسجد) میں ہوتے ہیں، اللہ تعالی کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور آپس میں اسے سیکھتے سکھاتے ہیں تو ان لوگوں پر سکون و اطمینان نازل ہوتا ہے، رحمتِ الہی انہیں ڈھانپ لیتی ہے، فرشتے پر باندھ کر ان پر چھائے رہتے ہیں اور اللہ تعالی ملائک اعلی کے فرشتوں میں ان کا ذکر کرتا ہے ۔"( ابو داؤد، مسلم)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پسندیدہ لوگ :

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے جب مسجد میں لوگوں کے قرآن پڑھنے، پڑھانے کی آواز سنی تو فرمایا:انہیں مبارک ہو، یہ وہ لوگ ہیں جو سب سے زیادہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھے۔(طبرانی)

فرمانِ باری تعالیٰ:ترجمہ کنزالایمان:"اور یاد کرو جب اللہ نے عہد لیا ان سے جنہیں کتاب عطا

ہوئی کہ تم ضرور لوگوں سے اسے بیان کر دینا۔"(پ4 ، آلِ عمران، 187)

جب نبی کریم، رؤف الرحیم نے یہ آیِ مبارکہ تلاو فرمائی تو ارشاد فرمایا:اللہ عزوجل نے جس عالم کو علم عطا فرمایا ہے، اس سے وہی عہد لیا جو انبیاء کرام علیہم السلام سے لیا تھا کہ وہ اسے لوگوں سے بیان کردے گا اور نہیں چھپائے گا۔

سببِ قُربِ الہی عزوجل:

عقلی اعتبار سے بھی علم کی فضیلت پوشیدہ نہیں، عالم لوگوں کے اخلاق کو سنوارتا ہے اور اپنے علم کے ذریعے ایسی چیزوں کی طرف دعوت دیتا ہے، جو اللہ عزوجل کا قرب عطا کرتیں، فرمانِ باری تعالی:"اپنے ربّ کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقے پر بحث کرو، جو سب سے بہتر ہو۔"

اللہ والے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"لوگوں میں سے کچھ اللہ والے ہیں، صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!وہ کون لوگ ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"وہ قرآن پڑھنے، پڑھانے والے ہیں ، جو اللہ والے ہیں اور اس کے نزدیک خاص لوگ ہیں۔"( سنن ابنِ ماجہ، 215، لباب الاحیاء)