حضرت سیدنا ثابت قدس سرّہ النورانی روزانہ ایک بار ختمِ قرآن پاک فرماتے تھے، آپ رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ
دن کو روزہ رکھتے، ساری رات قیام (عبادت)
فرماتے، جس مسجد سے گزرتے، اس میں دو رکعت( تحیۃالمسجد) ضرور پڑھتے، تحدیثِ نعمت کے طور پر فرماتے ہیں" میں نے
جامعہ مسجد کے ہر سُتون کے پاس قرآن پاک کا
ختم اور بارگاہِ الہی میں ِ گریہ کیا ہے، نماز اور تلاوتِ قرآن کے ساتھ آپ رحمۃ اللہ علیہ
کو خصوصی محبت تھی، آپ رحمۃ اللہ علیہ
پر ایسا کرم ہوا کہ رشک آتا ہے، چنانچہ وفات کے بعددورانِ تدفین اچانک ایک اینٹ سرک کر اندر چلی گئی، لوگ
اینٹ اُٹھانے کے لئے جب جھُکے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ
قبر میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے ہیں، آپ رحمۃ اللہ علیہ
کے گھر والوں سے جب معلوم کیا گیا تو
شہزادی صاحبہ نے بتایا کہ والد محترم رحمۃ اللہ علیہ
روزانہ دعا کیا کرتے تھے "یا اللہ
اگر تو کسی کو وفات کے بعد قبر میں نماز پڑھنے کی سعادت عطا فرمائے تو مجھے بھی
مشرف فرمانا۔"
دہن میلا نہیں ہوتا بدن میلا نہیں ہوتا
خدا کے اولیاء کا تو کفن میلا نہیں ہوتا
ذرا ٹھہرئیے! تدوینِ قرآن بھی
سنتے جائیے:
سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور میں کاتبینِ وحی
کی جماعت سے قرآن پاک کو جامع اور مکمل ترتیب سے مرتّب کروایا تھا اور وہ نہ صرف سنگ
سفید بلکہ کھجوروں کی چھالوں، جانوروں کی
ہڈیوں اور درختوں کے پتوں وغیرہ پر ضبطِ
تحریر میں آ چکا تھا، سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری وِصال کے بعد مسیلمہ
کذّاب نے نبوت کا دعویٰ کیا تو اس کے خلاف جنگ یمامہ میں تقریباً ستّر حافظِ قرآن
شہید ہوگئے تھے، اِس صورتحال کو دیکھتے
ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ
کے مشورے پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت رضی
اللہ عنہ کو جو کاتبانِ وحی تھے، پورے قرآن کا جمع کرنے کا کام سونپا، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے تمام تر نسخہ تحریر منگوا کر حُفّاظِ
کرام کی جماعت کی موجودگی میں تمام تر صحیفہ
مرتّب کئے، جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس رکھوایا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ والے قرآنی نسخے کو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے منگوایا اور اس کی نقلیں
کروا کر تمام علاقوں میں بھجوایا اور آج یہ وہی قرآن ہے ، جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں کروایا تھا، جو آج عالمِ اِسلام بلکہ پوری دنیا میں رائج ہے اور اسی ترتیب و تدوین پر شائع ہو رہا ہے۔ یہ
قاعدہ قابل غورہے:
1۔آیاتِ قرآنیہ تین طرح کی ہیں، بعض وہ جن کا مطلب عقل و فہم سے ورا ہے، جس تک دماغوں کی رسائی نہیں ، انہیں متشابہات کہتے ہیں۔
2۔ان میں سے بعض تو وہ ہیں، جن کے معنٰی ہی سمجھ میں نہیں آتے، جیسے الٰم،
حٰم، یٰس وغیرہ ، انہیں
مقطعات کہتے ہیں۔
3۔بعض آیات وہ ہیں، جو اس درجہ کی مخفی نہیں ہیں،
انہیں قرآنی اصطلاح میں محکمات کہتے ہیں۔
بہترین شخص حدیث مبارکہ کی روشنی میں:
حضور صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: خَیْرُکُمْ
مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ۔
"تم میں بہترین شخص وہ ہے، جس نے قرآن سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔"
اللہ مجھے
حافظِ قرآن بنادے
قرآن کے احکام پہ بھی مجھ کو چلا دے
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:"جس نے
قرآنِ کریم کی ایک آیت سکھائی، جب تک اس آیت
کی تلاوت ہوتی رہے گی، اُس کے لئے ثواب جاری رہے گا۔"
تلاوت کا جذبہ عطا کر الہی
معاف فرما میری خطا ہر الہی
حفاظت کا ذمّہ الہی عزوجل نے لیا:
قرآن کریم اللہ
تعالی کی آخری کتاب ہے اور نزولِ قرآن کو تقریباً ساڑھے چودہ سو برس گزر چکے ہیں، لیکن آج تک یہ کلام اِلٰہی زبر، زیر، پیش جیسے معمولی ردّ و بدل سے بھی محفوظ ہے، یہ وہ کتاب ہے جس کی حفاظت کا ذمّہ خود ربّتعالی نے لیا ہے، فرمان باری ہے کہ :"اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَاالذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْن،
ترجمہ کنزالایمان:"بےشک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بےشک ہم خود اس کے
نگہبان ہیں۔"(سورہ الحجر،آیت9)
جس کی حفاظت کی ذمّہ داری خالقِ کائنات نے لی ہے، تو اس کتاب میں کسی شک و
شبہ کی گنجائش نہیں ہوسکتی ہے، اللہ نے قرآن میں فرمایا:"ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہ، ترجمہ کنزالایمان:وہ بلند رتبہ کتاب (قرآن) کوئی شک کی جگہ نہیں۔(سورہ
الفاتحہ،آیت2)
نزولِ قرآن کے موقع پر:
صاحبِ قران
نے بھی قرآن پاک کی حفاظت کا انتظام کیا
ہوا تھا، جیسے جیسے قرآن پاک کی آیات نازل
ہوتی رہیں، ویسے ویسے سرکار صلی اللہ علیہ وسلم اپنے
صحابہ کرام سے ان آیات کو سورتوں میں ترتیب
سے لکھواتے رہتے، یہ صرف اتنا نہیں بلکہ
صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم
پر نازل ہونے والی آیات اور سورتوں کو حفظ کر لیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں بلکہ ساری کتاب میں کسی قسم کی کمی بیشی
تحریف و تبدیلی سے قرآن پاک کا جتنا حصّہ نازل ہوا کرتا تھا، اسے بلند آواز میں
دہراتے تھےتا کہ صحابہ کرام اپنے اپنے نسخوں اور ذہنوں میں درست کر لیں، اللہ تعالی
نے نہ صرف اپنے کلام کی حفاظت کی ذمّہ داری لی ہے بلکہ اس آخری کتاب میں کسی قسم کی کمی بیشی، تحریف و
تبدیلی سے بھی اسے پاک رکھنے کا ذمّہ لیتے ہوئے اِرشاد فرمایا:"یہ ایک اعلٰی مرتبہ کتاب ہے،
اس میں جھوٹ کا دخل نہ آگے سے، نہ پیچھے سے ہوسکتا ہے، دانا اور خوبیوں والے ربّتعالی
کی طرف سے اُتاری ہوئی ہے۔
فضائلِ قرآن:
قرآن اللہ
عزوجل کی وہ کتاب ہے، جو لوحِ محفوظ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت جبرائیل علیہ السّلام کے توسّط سےنازل ہوا، اِس مقدس کتاب کے فضائل کو شمار کرنا نا ممکن ہے،
البتہ اس کتاب کی شان یہ ہے کہ اس میں کسی
شک و شبے کی گنجائش نہیں، یہ ایسی کتاب ہے کہ اللہ ربُّ
العزت اس کے ذریعے کچھ لوگوں کو بلندی عطا فرماتا ہے اور کچھ لوگوں کو پستی کی طرف گامزن کر دیتا ہے یعنی
قرآن کے ماننے والےاور اس پر عمل کرنے والوں
کو عروج عطا ہوتا ہے اور قرآن کو نظر انداز کرنے والے ذلیل
و رُسوا ہوتے ہیں۔
یہی وہ کتاب ہے جو مؤمنوں کے لئے ہدایت اور مُبین
ہے، یہ ایسی کتاب اور ایسا کلام ہے، جو
پہاڑوں پر نازل ہو تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں اور سنگ دلوں پر نازل ہو جائے تو
موم ہو جائیں، جاہل اِس پر غور کر لیں تو ان کے دل کی دنیا بدل جائے،
قرآن پاک کی ایک شان یہ ہے کہ اسے جانی دُشمن بھی سُنے تو جانثار بن جائے، بدکار سنے تو خوفِ
خدا سے لبریز ہو جائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن سیکھنے اور
سکھانے کے عمل کو بہترین قرار دیا اور مزید فرمایا کہ:"قرآن پڑھا کرو کہ قیامت
کے دن یہ اپنے پڑھنے والوں کے لئے شفیع یعنی سفارش کرنے والا بن کر آئے گا۔" قرآن
پاک کی تلاوت اور موت کی یاد دل کو اِس
طرح صاف کر دیتی ہے جیسے زنگ آلود لوہے کو آگ، قرآن پاک میں انسانی زندگی اور مشکلات کا حل، رہنمائی کی ہدایت کا پیغام موجود ہے۔
آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" قرآن کے ہر حرف کے بدلے دس نیکیاں ملتی ہیں، میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے، بلکہ الف
ایک، لام دوسرا، میم تیسرا حرف ہے، یعنی الم پڑھنے والے کو تیس نیکیاں ملتی ہیں۔"
جو شخص قرآن پاک پڑھے اور اس پر عمل کرے تو قیامت کے دن اس کو ایسا تاج پہنایا جائے گا، جس کی
چمک آفتاب سے زیادہ ہوگی اور جو شخص قرآن کی تلاوت میں اتنا مشغول ہو کہ کوئی دعا
نہ مانگ سکے، پھر اس کو اللہ مانگنے والوں سے زیادہ عطا کرتا ہے، الغرض یہ کہ قرآن رشدو ہدایت کا وہ روشن آفتاب
ہے کہ جس سے رہتی دنیا تک فیض حاصل کیا جا سکتا ہے۔(تلاوت کی فضیلت اور دیگر
رسائل)
یہی ہےآرزو تعلیمِ قرآں عام ہو جائے
ہر اِک پرچم سے اُونچا پرچمِ اسلام ہو جائے