نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلَّم کا فرمان ہے: خَيْرُكُمْ مَن تَعَلَّمَ القُرْآنَ وعَلَّمَهُ ترجمہ:تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ (صحيح البخاری: 5027 )

اس روایت کے اگلے حصے میں ہے کہ حضرت ابو عبد الرحمن سلمی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت سے حجاج کے گورنر بننے تک قرآن پڑھایا اور فرمایا کہ

یہی حدیث ہے جس نے مجھے یہاں بیٹھا رکھا ہے۔

فتح الباری میں اس حدیث کی شرح میں ہے : قرآن مجید اشرف العلوم ہے پس جو شخص قرآن مجید سیکھے اور دوسروں کو سکھائے وہ اس سے زیادہ شرف والا ہو گا۔جو غیر قرآن کو سیکھے اور سکھائے ۔بلاشبہ جو قرآن کو سیکھنے اور سیکھانے کو جمع کرنے والا ہے وہ اپنی بھی تکمیل کرتا ہے اور دوسروں کی بھی ۔وہ نفع قاصر اور نفع متعدی کو جمع کرتا ہے اس وجہ سے وہ سب سے افضل ۔

(فتح الباری بشرح البخاری، جلد 15،ص152،مطبوعہ الرسالۃ العالمیہ)

وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَاۤ اِلَى اللّٰهِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ(۳۳)

ترجمہ کنز الایمان: اور اس سے زیادہ کس کی بات اچھی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیکی کرے اور کہے میں مسلمان ہوں۔ (حم السجدۃ : 33)

ان امور کی دعوت دینے میں قرآن مجید بھی ہے۔

تو معلوم ہوا کہ قرآن کی تعلیم دینے والا بہترین لوگوں میں سے ہے۔

خیر الکلام کلام اللہ ، یعنی کہ سب سے اچھا کلام اللہ کا کلام ہے، اس کلام کو سیکھنے سکھانے والا خیر الناس ہوا ، یعنی لوگوں میں سے بہترین ۔

بندے کو رب سے قریب کرنے والی چیزوں میں سے ایک اہم کام تلاوت قرآن ہے تو گویا قرآن سیکھانے والا دوسرے مسلمان کو رب سے قریب کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔

قرآن پڑھنے والے کو ہر ہر حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں اور سیکھانے والا بھی اجر کا مستحق ہوتا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلَّم کا فرمان ہے:مَن دَلَّ على خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ فاعِلِهِ ۔ ترجمہ:جس شخص نے نیکی کی طرف رہنمائی کی تو اس کو اس نیک کام کرنے والے کی مثل اجر ملے گا۔(الصحیح المسلم :1893)

تو سیکھ کر پڑھنے والا جب تک پڑھتا رہے گا سیکھانے والا اجر پاتا رہے گا۔

ایک حدیث شریف میں ہے: جس شخص نے کتابُ اللہ کی ایک آیت یا علم کا ایک باب سیکھایا اللہ عَزَّوَجَلَّ تا قِیا مت اس کا اجر بڑھا تا رہیگا۔ (تاریخ دمشق لابن عساکِر ج۵۹ ص۲۹۰) 

ذُوالنُّورین، جامع القراٰن حضرتِ سیِّدُنا عثمان ابنِ عفّان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رِوایت ہے کہ تا جدارِ مدینۂ منوّرہ، سلطانِ مکّۂ مکرّمہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا : جس نے قراٰنِ مُبین کی ایک آیت سیکھائی اس کے لیے سیکھنے والے سے دُگنا ثواب ہے۔

ایک اور حدیثِ پاک میں حضرتِ سیِّدُنااَنَس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے رِوایت ہے کہ خاتَمُ الْمُرْسَلین، شفیعُ الْمُذْنِبیْن، رَحمَۃٌ لِّلْعٰلمین صلی اﷲ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : جس نے قراٰنِ عظیم کی ایک آیت سکھائی جب تک اس آیت کی تلاوت ہوتی رہے گی اس کے لیے ثواب جاری رہے گا۔ (جَمْعُ الْجَوامِع ج۷ ص ۲۸۲، ۲۲۴۵۵۔ ۲۲۴۵۶،تلاوت کی فضیلت، مطبوعہ مکتبہ المدینہ )

حضرت عاصم بن کلیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مسجد میں لوگوں کے قرآن پڑھنے اور پڑھانے کی آوازیں سنیں تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلَّم کو سب سے زیادہ پسند ہیں ۔

(العجم الاوسط للطبرانی، 121)

تو قرآن پڑھانے والا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پسندیدہ ہے۔

خیرکم والی حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی مراۃ المناجیح میں لکھتے ہیں : قرآن سیکھنے سکھانے میں بہت وسعت ہے ۔بچوں کو قرآن کے ہجے روزانہ سکھانا، قاریوں کا تجوید سیکھنا سکھانا ، علما کا قرآنی احکام بذریعہ حدیث و فقہ سیکھنا سکھانا، صوفیا کرام کا اسرار و رموز قرآن بسلسلہ طریقت سیکھنا سکھانا ، سب قرآن ہی کی تعلیم ہے۔(مرآۃ المناجیح، جلد 3، ص230)