اللہ عزوجل نے  اپنے بندوں کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، جن کا شمار کرنا ممکن نہیں ہے اگر ہم اپنے آس پاس جہاں کہیں بھی دیکھیں تو ہمیں ہر طرف اللہ عزوجل کی نعمتیں نظر آئیں گی، دینِ اسلام ،ایمان ، ہمارےا عضا ء، والدین ، وقت ، دن و رات وغیرہ الغرض اللہ عزوجل کی اتنی نعمتیں ہیں کہ کوئی بھی انہیں لکھنے کی استطاعت نہیں رکھتا گویا کہ ہم اپنے رب کی نعمتوں کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں، اب ہم یہ غورکریں کہ ہم اللہ عزوجل کی کتنی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں اور کتنی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں ؟ تو یقینا ً ہمیں یہ یاد بھی نہیں ہوگا کہ ہم نے کتنی اور کس طرح اپنے رب کی نعمتوں کی ناشکری کی ہے۔

ناشکری کے متعلق اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا۔وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(18) تَرجَمۂ کنز الایمان: اور اگر اللہ کی نعمتیں گنو تو انہیں شمار نہ کرسکو گے بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔(پ 14، النحل 18)

حضرت سیدنا عطارد قرشی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی مكَرَّم ، صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: الله عزوجل اپنے بندے کو شکر کی توفیق عطا فرماتا ہے تو پھر اسے نعمت کی زیادتی سے محروم نہیں فرماتا کیونکہ اس کا فرمان عالیشان ہے:: لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(7) تَرجَمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے سنادیا کہ اگر احسان مانو گے تو میں تمہیں اور دوں گا اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب سخت ہے (پ 13، ابراہیم 7)

اب یہاں میں کچھ احادیث بیان کرتا ہوں

1) حضور نبی کریم روِف الرحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (امور دنیا) میں اپنے سے کم مرتبہ والے کو دیکھا کرو کیونکہ یہی زیادہ مناسب ہے تاکہ جو اللہ عزوجل کی نعمت تم پر ہے اسے حقیر نہ سمجھنے لگو۔(سنن ترمذی، ج 4، ص23، حدیث 2521

(2)… حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ (شعب الایمان، الثانی والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، 6 / 516، الحدیث: 9119

(3)…حضرت حسن رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ نا شکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔ (رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزّوجلّ، 1 / 484، الحدیث: 60

4)حضرت سیدنا امام حسن بصری عليه رحمة اللہ القوی فرماتے ہیں: بیشک الله عزوجل جب تک چاہتا ہے اپنی نعمت سے لوگوں کو فائدہ پہنچا تا رہتا ہےاور جب اس کی ناشکری کی جاتی ہے تو وہ اسی نعمت کو ان کے لئے عذاب بنادیتا ہے۔الدر المنثور، ب 2 البقرة، تحت الآية 152، ج 1، ص 369۔

5)ناشکری سے نعمت عذاب بن جاتی ہے: حضرت سید نا امام حسن بصری علیہ رحمہ اللہ القوی نے فرمایا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ جب الله عزوجل کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر کامطالبہ فرماتا ہے۔ اگر وہ اس کا شکر کریں تو اللہ عزوجل انہیں زیادہ دینے پر قادرہے اور اگر ناشکری کریں تو انہیں عذاب دینے پر بھی قادر ہے۔ وہ اپنی نعمت کو ان پر عذاب سے بدل دیتا ہے ۔ شعب الايمان للبيهقي، باب في تعديد نعم الله الحديث : 4536، ج 4، ص 127

چند مختلف صورتیں بیان کرتا ہوں۔

۱۔ اسراف کرنا۔ یہ بھی ناشکری کی صورت ہے۔۲۔فرائض ادا نہ کرنا۔۳۔ اللہ کی راہ میں مال نہ خرچ کرنا یہ مال کی ناشکری ہے۔۴۔ غیبت، چغلی بہتان وغیرہ، زبان کی ناشکری ہے۔۵۔ شراب خانوں ، جوؤں کے اڈوں کی طرف جانا پیر کی ناشکری ہے۔۶۔ گندے خیالات کی طرف دل کو جمانا یہ دل کی ناشکری ہے۔ ۷۔ خلاف شڑع تجارت کرنا یہ بھی ناشکری کی ایک صورت ہے۔۸۔ خلاف شرع تجارت کرنا یہ بھی ناشکری کی ایک صورت ہے۔۹۔ اولاد اور گھر والوں کی صحیح تربیت نہ کرنا اور دین کی طرف نہ بلانا یہ بھی ای ک طرح ناشکری ہے۔

ان چند صورتوں سے امید ہے کہ قارئین کی آنکھیں کھلی ہوں گی ، اور اس معاشرے کی بدحالی کا بھی بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا،

معزز قارئین اللہ تعالیٰ کی جو بھی نعمت ملے اور اسے ہم اس کی رضا اور اس کے احکام کے مطابق استعمال کریں گے تو یہ اس کا شکر اور اس کے احکام کے خلاف اور ناراضی والے کام کریں گے تو یہ ناشکری ہے، اللہ ہمیں شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ناشکری سے بچائے

اللہ تعالی اپنے کرم سے ہمیں اپنا شکر گذار بندہ بنائے اور اپنی عطا کردہ ہر نعمت کی ناشکری سے محفوظ فرمائے امین ثم اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


            قرآن و حدیث میں شکر کے کثیر فضائل بیان کئے گئے اور ناشکری کی مذمت کی گئی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ‘‘(ابراہیم: 7) ترجمۂ کنزُالعِرفان:اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔

حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا’’اے بنی اسرائیل! یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان فرمادیا کہ اگر تم اپنی نجات اور دشمن کی ہلاکت کی نعمت پر میرا شکر ادا کرو گے اور ایمان و عملِ صالح پر ثابت قدم رہو گے تو میں تمہیں اور زیادہ نعمتیں عطا کروں گا اور اگر تم کفر و معصیت کے ذریعے میری نعمت کی ناشکری کرو گے تو میں تمہیں سخت عذاب دوں گا۔ (روح البیان، ابراہیم، تحت الآیۃ: 5، 4 / 399-400)

(1) حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جسے شکر کرنے کی توفیق ملی وہ نعمت کی زیادتی سے محروم نہ ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے ’’ لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ‘‘ یعنی اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا۔ جسے توبہ کرنے کی توفیق عطا ہوئی وہ توبہ کی قبولیت سے محروم نہ ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے’’وَ هُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ‘‘ یعنی اور وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول فرماتا ہے ۔ (در منثور، ابراہیم، تحت الآیۃ: 7، 5 / 9)

(2)… حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ (شعب الایمان، الثانی والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، 4/ 551، الحدیث: 9119)

(3)…حضرت حسن رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ نا شکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔ (رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزّوجلّ، 1 / 484، الحدیث: 40)

(4)…سنن ابو داؤد میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ہر نماز کے بعد یہ دعا مانگنے کی وصیت فرمائی ’’اَللّٰہُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ‘‘ یعنی اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، تو اپنے ذکر، اپنے شکر اور اچھے طریقے سے اپنی عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔ (ابو داؤد، کتاب الوتر، باب فی الاستغفار، 2 / 123، الحدیث: 1522)

(5)حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی بندے پر انعام کرے پھر وہ اس نعمت کا اللہ تعالیٰ کے لئے شکر ادا کرے اور ا س نعمت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع کرے تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں اس نعمت سے نفع دیتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کے آخرت میں درجات بلند فرماتا ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انعام فرمایا اور اس نے شکر ادا نہ کیا اور نہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس نے تواضع کی تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اس نعمت کا نفع اس سے روک لیتا ہے اور اس کے لئے جہنم کا ایک طبق کھول دیتا ہے ،پھر اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اسے (آخرت میں ) عذاب دے گا یا اس سے در گزر فرمائے گا۔(رسائل ابن ابی الدنیا، التواضع والخمول، 3 / 555، رقم: 93)

اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں کثرت کے ساتھ اپنا ذکر اورشکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی نعمتوں کی ناشکری کرنے سے محفوظ فرمائے ، اٰمین۔


پیارے پیارے محترم اسلامی بھائیوں ہم کو ہر حال میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالی نے قران پاک میں بہت سی جگہوں پر ارشاد فرمایا ہے کہ تم میرے شکر گزار بندے بن جاؤ تو ہم کو چاہیے کہ ہم  اللہ کی نعمتیں جو ہم کو حاصل ہے ان پر اللہ تعالی کا شکر ادا کریں اس کی مثالیں بہت سی چیزیں ہیں جیسے ہمارا جسم کا ہر ایک حصہ اللہ تعالی کی دی ہوئی ایک نعمت ہے اسی طرح کھانا پینا سونا یہ سب اللہ تعالی کی نعمتیں ہیں تو ہم کو چاہیے کہ ہم اللہ تعالی کا ان سب چیزوں پر شکر ادا کریں کہ ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا بھی یہی عمل رہا ہے کہ وہ اللہ تعالی کا بہت شکر ادا کیا کرتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں میں سے ایک نام شاکر بھی ہے

یاد رہے جہاں قرآن و احادیث میں شکر کے فضائل موجود ہیں وہی ناشکری کی مذمت پر بھی احادیث موجود ہے

چند احادیث آپ کے گوش گزار پیش کر رہا ہوںامیرُالمؤمنین حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا:نعمتوں کے زوال سے بچو کہ جو زائل ہوجائے وہ پھر سے نہیں ملتی۔مزیدفرماتےہیں:جب تمہیں یہاں وہاں سے نعمتیں ملنے لگیں تو ناشکرے بن کر ان کے تسلسل کو خود سے دُور نہ کرو۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں،ص515)

حضرت سیِّدُنامُغِیْرہ بن شعبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں:جو تجھے نعمت عطا کرے تُو اس کا شکر ادا کر اور جو تیرا شکریہ ادا کرے تُو اُسے نعمت سے نواز کیونکہ ناشکری سے نعمت باقی نہیں رہتی اور شکر سے نعمت کبھی زائل نہیں ہوتی۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں،ص514)

رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ میں نے جہنم میں عورتوں کو بکثرت دیکھا۔ یہ سن کر صحابہ کرام علیھم الرضوان نے پوچھا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم! اس کی کیا وجہ ہے کہ عورتیں بکثرت جہنم میں نظر آئیں۔ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ عورتوں میں دو بُری خصلتوں کی وجہ سے۔ ایک تو یہ کہ عورتیں دوسروں پر بہت زیادہ لعن طعن کرتی رہتی ہیں دوسری یہ کہ عورتیں اپنے شوہروں کی ناشکری کرتی رہتی ہیں چنانچہ تم عمر بھر ان عورتوں کے ساتھ اچھے سے اچھا سلوک کرتے رہو۔ لیکن اگر کبھی ایک ذرا سی کمی تمہاری طرف سے دیکھ لیں گی تو یہی کہیں گی کہ میں نے کبھی تم سے کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔ (صحیح البخاری، کتاب الایمان ۔21۔باب کفران العشیروکفر دون کفر، رقم 29، ج۱،ص23 وایضافی کتاب النکاح89،باب کفران العشیر وھو الزوج الخ، رقم 5191، ج3،ص443)

حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّہ تعالٰی عَنْہا فرماتی ہیں، تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلَّم اپنے مکانِ عالیشان میں تشریف لائے، روٹی کا ٹکڑا پڑا ہوا دیکھا، اس کو لے کر پونچھا پھر کھا لیا فرمایا، عائشہ (رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہا ) اچھی چیز کا احترام کرو کہ یہ چیز (یعنی روٹی) جب کسی قوم سے بھاگی ہے لوٹ کر نہیں آئی۔(سنن ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ،باب النھی عن القاء الطعام،الحدیث3353،ج4،ص49) یعنی اگر ناشکری کی وجہ سے کسی قوم سے رِزق چلا جاتا ہے تو پھر وآپس نہیں آتا۔

رِزْق کی ناشکری زوالِ رِزْق کا سبب ہوسکتی ہے تفسیر صِراطُ الجنان کی تیسری جلد کے صفحہ 543 پر ہے:جب مسلمان اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرتے، یادِ خدا سے غفلت کو اپنا شعار بنا لیتے اور اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل میں مصروف ہو جاتے ہیں اور اپنے بُرے اعمال کی کثرت کی وجہ سے خُود کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا نااہل ثابت کردیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے اپنی دی ہوئی نعمتیں وآپس لے لیتا ہے۔ تفسیر صراطُ الجنان،3/541

اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کی ناشکری کرنے سے محفوظ فرمائے آمین


خدائے احکام الحاکمین جل جلالہ کی بے شمار نعمتیں ساری کائنات کے ذرے ذر ے پر بارش کے قطروں سے زیادہ درختوں کے پتوں سے زیادہ ، دنیا بھر کے پانی کے قطروں سے زیادہ ، ریت کے ذروں سے بڑھ کر ہر لمحہ ہر گھڑی بن مانگے طوفانی بارشوں سے تیز برس رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ، ترجمہ کنزالعرفان ۔ اور میرا شکرادا کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔(پ 2۔ البقرہ 152) ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ہے: لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ، ترجمہ کنزالعرفان۔ اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔(پ 13، ابراہیم 07)

تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں ہر حالت میں الله عزوجل کا شکر ادا کرنا چاہیے تو جو اللہ عزوجل کا شکر ادا نہیں کرتا تو ان کے بارے میں اللہ عزوجل کے سخت ارشادات بھی ہیں اور احادیث مبارکہ میں بھی اس کی مذمت بیان کی گئی ہے اور اسی طرح بزرگوں کے اقوال بھی موجود ہیں،

حضرت شیخ ابن عطا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا گویا وہ ان کے زوال کا سامان پیدا کر تا ہے، اور جو شکر ادا کرتا ہے گویا وہ نعمتوں کو اسی سے باندھ کر رکھتا ہے۔ نعمتوں کے بدلے ناشکری کا نتیجہ ہلاکت و بربادی ہے۔

نعمتوں کی ناشکری میں مشغول ہونا سخت عذاب کا باعث ہے۔

احادیث مبارکہ:

1: نعمتوں کو بیان نہ کرنا ناشکری ہے،اللہ پاک کی ہم پر بہت زیادہ نعمتیں ہیں جیسا کہ اللّہ پاک نے ہمیں آنکھیں عطا فرمائی، تو ہمیں چاہیے کہ ہم ان کے ساتھ قرآن مجید پڑھے احادیث مبارکہ پڑھے، یہ نہیں کہ ہم ان کے ساتھ فلمیں ڈرامے دیکھے۔حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔(شعب الایمان۔حدیث 9119)

2: نعمتوں کو ان پر عذاب بنا دیتا ہےحضرت حسن رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ نا شکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔(رسائل ابن ابی الدنیا۔حدیث 60)

3: احسان کی ناشکری:کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے دوزخ دکھلائی گئی تو اس میں زیادہ تر عورتیں تھیں جو کفر کرتی ہیں۔ کہا گیا حضور کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خاوند کی ناشکری کرتی ہیں۔ اور احسان کی ناشکری کرتی ہیں۔ اگر تم عمر بھر ان میں سے کسی کے ساتھ احسان کرتے رہو۔ پھر تمہاری طرف سے کبھی کوئی ان کے خیال میں ناگواری کی بات ہو جائے تو فوراً کہہ اٹھے گی کہ میں نے کبھی بھی تجھ سے کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔(صحیح بخاری۔ حدیث 7563)

4: ناشکری کی وجہ سے رزق چلا جاتا ہے۔ امیر المومنین عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کی، کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم مکان میں تشریف لائے، روٹی کا ٹکڑا پڑا ہوا دیکھا، اس کو لے کر پونچھا پھر کھالیا اور فرمایا: ’’عائشہ! اچھی چیز کا احترام کرو کہ یہ چیز (یعنی روٹی) جب کسی قوم سے بھاگی ہے تو لوٹ کر نہیں آئی۔‘‘ یعنی اگر ناشکری کی وجہ سے کسی قوم سے رزق چلا جاتا ہے تو پھر وآپس نہیں آتا۔(سنن ابن ماجہ۔حدیث 3353)

5: اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو چھپانا۔حضرت جابر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جسے کوئی عطیہ دیا جائے اگر ہوسکے تو اس کا بدلہ دے دے اور جو کچھ نہ پائے وہ اس کی تعریف کردے؎ کہ جس نے تعریف کردی اس نے شکریہ ادا کیا جس نے چھپایا اس نے ناشکری کی؎ اور جو ایسی چیز سے ٹیپ ٹآپ کرے جو اسے نہ دی گئی وہ فریب کے کپڑے بننے والے کی طرح ہے۔)مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4 , حدیث نمبر:3023)

تو اس سے معلوم ہوا کہ ناشکری کرنے والے سے رزق بھی چلا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے جہنم میں بھی چلا جاتا ہے۔

ہم اللہ عزوجل سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں ہر حالت میں شکر ادا کرنی کی توفیق عطا فرمائے اور ناشکری سے بچاۓ۔۔ آمین


قرآن و حدیث میں شکر کے کثیر فضائل بیان کئے گئے اور ناشکری کی مذمت کی گئی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ‘‘(ابراہیم: 7) ترجمۂ کنزُالعِرفان:اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔

1) حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی بندے پر انعام کرے پھر وہ اس نعمت کا اللہ تعالیٰ کے لئے شکر ادا کرے اور ا س نعمت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع کرے تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں اس نعمت سے نفع دیتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کے آخرت میں درجات بلند فرماتا ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انعام فرمایا اور اس نے شکر ادا نہ کیا اور نہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس نے تواضع کی تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اس نعمت کا نفع اس سے روک لیتا ہے اور اس کے لئے جہنم کا ایک طبق کھول دیتا ہے ،پھر اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اسے (آخرت میں ) عذاب دے گا یا اس سے در گزر فرمائے گا۔(رسائل ابن ابی الدنیا، التواضع والخمول، 3 / 555، رقم: 93)

2) حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا’’اے بنی اسرائیل! یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان فرمادیا کہ اگر تم اپنی نجات اور دشمن کی ہلاکت کی نعمت پر میرا شکر ادا کرو گے اور ایمان و عملِ صالح پر ثابت قدم رہو گے تو میں تمہیں اور زیادہ نعمتیں عطا کروں گا اور اگر تم کفر و معصیت کے ذریعے میری نعمت کی ناشکری کرو گے تو میں تمہیں سخت عذاب دوں گا۔ (روح البیان، ابراہیم، تحت الآیۃ: 5، 4 / 399-400)

3) حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جسے شکر کرنے کی توفیق ملی وہ نعمت کی زیادتی سے محروم نہ ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے ’’ لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ‘‘ یعنی اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا۔ جسے توبہ کرنے کی توفیق عطا ہوئی وہ توبہ کی قبولیت سے محروم نہ ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے’’وَ هُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ‘‘ یعنی اور وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول فرماتا ہے ۔ (در منثور، ابراہیم، تحت الآیۃ: 7، 5 / 9)

(4)… حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ (شعب الایمان، الثانی والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، 6 / 516، الحدیث: 9119)

(5)…حضرت حسن رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ نا شکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔ (رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزّوجلّ، 1 / 484، الحدیث:60

اللہ پاک ہمیں اپنا شکر گزار بندہ بناۓ اور اپنی ناشکری سے محفوظ رکھے آمین


قرآن و حدیث میں شکر کے فضائل  اور ناشکری کی مذمت بیان کی گئی ہیں ناشکری کرنے سے نعمت عذاب بن جاتی ہے ناشکری کی مذمت پر بہت احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں سے چند احادیث آپکی خدمت میں پیش کرتا ہوں

حدیث نمبر 1 حضرت سیدنا کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل دنیا میں جس بندے کو اپنی کوئی نعمت عطا فرمائے پھر وہ اس پر اللہ عزوجل کا شکر ادا کرے اور اس کے سبب اللہ عزوجل کیلےتواضع کرے تو اللہ عزوجل دنیا میں اس کو اس نعمت کا نفع عطا فرمائے گا اور اس کی وجہ سے آخرت میں اس کا درجہ بلند فرمائے گا اور اللہ عزوجل دنیا میں کسی بندے کو نعمت عطا کرے لیکن وہ نہ تو اس پر اللہ عزوجل کا شکر ادا کرے اور نہ ہی اس کے سبب اللہ عزوجل کیلیے تواضع کرے تو اللہ عزوجل دنیا میں اسے نہ صرف اس کے نفع سے محروم کر دے گا بلکہ اس کے لیے آگ کا ایک طبقہ کھول دے گا اگر چاہے گا تو اسے عذاب میں مبتلا فرمائے گا اور چاہے گا تو معاف فرما دے گا ۔( الدر المنثور پارہ 2 البقر ،تحت الایتہ 152 ،جلد نمبر 1 )

حدیث نمبر 2 حضرت سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عظمت نشان ہے: نعمت کا چرچا کرنا اسکا شکر ہے اور چرچا نہ کرنا ناشکری ہے جو قلیل پر شکر نہیں کرتا وہ کثیر پر شکر نہیں کرسکتا جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ عزوجل کا شکر ادا نہیں کرسکتا مسلمانوں کی جماعت میں برکت ہے اور ان سے علیحدہ رہنا سبب عذاب ہے (ا لمسند للامام احمد بن حنبل ،حدیث نعمان بن بشیر ، الحدیث :18476 *جلد نمبر* 6 صفحہ نمبر 394)

حدیث نمبر 3 حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالی جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے جب وہ شکر کریں تو اللہ عزوجل ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ ناشکری کریں تو اللہ عزوجل ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے ( رسائل ابن ابی دنیا،کتاب الشکر للہ عزوجل، الحدیث نمبر 60 جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 484)

اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے اور ناشکری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے امین


شکر کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی نعمت کو اللہ کی طرف منسوب کرے اور نعمت کا اظہار کرے جب کہ ناشکری کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی نعمت کو بھول جائے اور اسے چھپائے۔(تفسیر صراط الجنان)ناشکری بہت بری عادت ہے اور اس کے بارے میں قرآن و حدیث میں کئی وعیدیں آئی ہیں اور ساتھ ہی اس کے کئی نقصان بھی ہیں انسان کے پاس اگر ایک چیز ہو تو دو کی خواہش کرتا ہے ،دو ہوں تو تین کی خواہش کرتا ہے، غریب ہو تو امیر ہونے کی خواہش کرتا ہے اور امیر ہو تو مزید امیر ہونے کی خواہش کرتا ہے یہاں تک کہ انسان  اپنے رب کی موجودہ نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بجائے اس کی نعمتوں کی ناشکری میں مصروف رہتا ہے

حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ بے شک اللہ جب تک چاہتا ہے اپنی نعمت سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا رہتا ہے اور جب اس کی ناشکر ی کی جاتی ہے تو وہ اسی کو عذاب بنادیتاہے۔ اور حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہہ الکریم نے ارشاد فرمایا:بے شک نعمت کا تعلق شکر کے ساتھ ہے اور شکر کا تعلق نعمتوں کی زیادتی کے ساتھ ہے، پس اللہ کی طرف سے نعمتوں کی زیادتی اسی وقت تک نہیں رکتی، جب تک کہ بندہ اس کی ناشکر نہیں کرتا۔(شکر کے فضائل ص 11)

حضرت شیخ ابن عطا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا گویا وہ ان کے زوال کا سامان پیدا کر تا ہے، اور جو شکر ادا کرتا ہے گویا وہ نعمتوں کو اسی سے باندھ کر رکھتا ہے۔ (التحریر والتنویر ج 1، ص 516)

ربِّ کریم کی ان بے شمار نعمتوں کے باوجود انسان میں ناشکری کا پہلو پایا جاتا ہے، ناشکری کی مختلف صورتیں ہیں کبھی انسان اعضا کی ناشکری کرتا ہے کبھی کسی کے مال واسباب کو دیکھ کر ناشکری میں مبتلا ہوجاتا ہے اورکبھی کسی کا منصب و اقتدار اسے ناشکری میں مبتلا کردیتا ہے نعمتوں کی ناشکری میں مشغول ہونا سخت عذاب کا باعث ہے۔(تفسیر رازی ج 19، ص 67)

اور یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان فرمادیا کہ اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔اور موسیٰ نے فرمایا: (اے لوگو!) اگر تم اور زمین میں جتنے لوگ ہیں سب ناشکرے ہوجاؤتو بیشک اللہ بے پرواہ ،خوبیوں والا ہے۔(ترجمہ کنزالعرفان سورةابراھیم آیت نمبر 7۔8)

ناشکری سے متعلق اَحادیث

(1)… حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ (شعب الایمان، الثانی والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، 6 / 516، الحدیث: 9119)

(2)…حضرت حسن رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ نا شکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔ (رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزّوجلّ، 1 / 484، الحدیث: 60)

(3)حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی بندے پر انعام کرے پھر وہ اس نعمت کا اللہ تعالیٰ کے لئے شکر ادا کرے اور ا س نعمت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع کرے تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں اس نعمت سے نفع دیتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کے آخرت میں درجات بلند فرماتا ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انعام فرمایا اور اس نے شکر ادا نہ کیا اور نہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس نے تواضع کی تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اس نعمت کا نفع اس سے روک لیتا ہے اور اس کے لئے جہنم کا ایک طبق کھول دیتا ہے ،پھر اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اسے (آخرت میں ) عذاب دے گا یا اس سے در گزر فرمائے گا۔(رسائل ابن ابی الدنیا، التواضع والخمول، 3 / 555، رقم: 93)

(4) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو لوگوں کا شکر ادا نھیں کرتا وہ اللّٰه کا شکر بھی ادا نھیں کرتا۔(سنن ترمزی الحدیث 1961، ج 3) ایک اہم بات یہ کہ ہمیں نعمتوں میں اپنے سے نیچے والے کو دیکھنا چاہیے اور عبادت میں اپنے سے اوپر والے کو دیکھنا چاہیے، یہ ذہن ہوگا تو اللہ نے چاہا تو ناشکری سے بچے رہیں گے

اگر بلند مرتبے والے کو دیکھے گا تو احساس کمتری اور حسد میں مبتلاہوجائے گا اور گر کم مرتبے والے کو دیکھے گاتو اسے اللہ عزوجل کی نعمتوں کی قدر اور اس کا شکر بجالانے کا ذہن ملے گا اس کے متعلق حضور نبی کریم روِف الرحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (امور دنیا) میں اپنے سے کم مرتبہ والے کو دیکھا کرو کیونکہ یہی زیادہ مناسب ہے تاکہ جو اللہ عزوجل کی نعمت تم پر ہے اسے حقیر نہ سمجھنے لگو۔

اللہ پاک ہم سب کو ناشکری سے بچائے کیونکہ ناشکری سے نعمت کے چھن جانے کا خوف ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں کثرت کے ساتھ اپنا ذکر اورشکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی نعمتوں کی ناشکری کرنے سے محفوظ فرمائے ، اٰمین۔


نا شکری اور شکر دونوں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں ، اگر شکر گزاری اللہ کی نعمتوں کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہے تو ناشکری اللہ کے غضب اور اس کے دردناک عذاب کو واجب کرنے والی ہے ۔اللہ کا فرمان ہے:{لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ}’’ اگر تم شکر گزاری کروگے تو بیشک میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کروگے تو یقینا میرا عذاب بہت سخت ہے‘‘[ ابراہیم: ۷]

ناشکری کے چند اسباب :۱۔ اپنے سے مالداروں کی طرف دیکھنا: جب انسان دنیادی نعمتوں سے متعلق اپنے سے آسودہ حال اور مالداروں کو دیکھتا ہے تو ناشکرا بن جاتا ہے اور جب اپنے سے غریبوں اور بد حال و مفلس لوگوں کو دیکھتا ہے تو اللہ کا شکر گزار بندہ بن جاتا ہے۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ’’إِذَا نَظَرَ أَحَدُكُمْ إِلَي مَنْ فُضِّلَ عَلَيْهِ فِي المَالِ وَالخَلْقِ، فَلْيَنْظُرْ إِلَي مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْهُ‘‘ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے فرمایا :’’جب تم میں سے کوئی شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھے جو مال اور شکل و صورت میں اس سے بڑھ کر ہو تو اسے چاہئے کہ ایسے شخص کی طرف دیکھ لے جو مال اور شکل و صورت میں اس سے کم درجے کا ہے‘‘[ صحیح بخاری:۶۴۹۰]

۲۔ صرف دنیا کو مقصد زندگی سمجھ لینا : جو لوگ فکر آخرت سے بالکل غافل ہوکر دنیا کی لذتوں اور رنگینیوں میں گم ہو جاتے ہیں ایسے لوگ بھی بڑے ناشکرے ہوتے ہیں ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافروں کے بارے میں فرماتا ہے:{وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًي لَهُمْ }’’اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا فائدہ اٹھاتے اور کھاتے ہیں جس طرح چوپائے کھاتے ہیں ان کا (اصل) ٹھکانہ جہنم ہے‘‘[ محمد : ۱۲]

مذکورہ آیت کریمہ کی شرح کرتے ہوئے علامہ سمرقندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’کا فر دنیا کی زندگی سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں دنیا کی جو نعمتیں ملی ہیں انہی میں زندگی گزارتے ہیں اور چوپایوں کی طرح کھاتے ہیں کھانے پینے اور جماع کرنے کے سوا ان کی زندگی کا کوئی بھی مقصد نہیں ہوتا ، اور جہنم ہی ان کا ٹھکانہ ہے‘‘ [بحر العلوم للسمرقندی ]

۳۔ نعمتوں پر اترانا : جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ نعمتیں مجھے ملی ہیں سب میری کوششوں کا نتیجہ ہیں اس میں اللہ کا کوئی احسان نہیں ایسے لوگ کبھی اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے ایسے لوگ قارون صفت ہیں جس قارون کو اللہ نے اس کے خزانوں سمیت زمین میں دھنسادیا ۔

۴۔بخیلی اوکنجوسی کرنا : بخیلی اور کنجوسی بھی ناشکری کا ایک اہم سبب ہے کیونکہ بخیل اور کنجوس لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کریں گے تو وہ بہت جلد ختم ہوجائے گا پھر وآپس نہیں ملے گا اس لئے بخیل اور کنجوس لوگ ہمیشہ اللہ کی ناشکری کرتے ہیں،اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بخیلی اور فضول خرچی دونوں سے منع فرمایا ہے ۔فرمان الٰہی ہے :{وَالَّذِینَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَلَمْ یَقْتُرُوا وَکَانَ بَیْنَ ذَلِکَ قَوَامًا}’’ اور جب وہ خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے ہیں‘‘[الفرقان : ۶۷]

۵۔شیطان اور نفس کی پیروی کرنا: نفس اور شیطان کی پیروی بھی انسان کو نا شکری پر ابھارتی ہے کیونکہ نفس بہت حریص ہوتا ہے اور شیطان اللہ کا سب سے بڑا ناشکرا ہے اور اس کا مقصد انسانوں کو رب کا ناشکرا بنانا ہی ہے ،نفس کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے : {وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ}’’جو کوئی اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیاتو وہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں ‘‘ [الحشر :۹]

شیاطین کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے : {وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا۔إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا}’’اور اسراف اور بے جا خرچ سے بچو بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی نا شکرا ہے‘


الله پاک نے بے شمار نعمتیں ریت کے ذروں سے زیادہ اور دنیا بھر کے پانی کے قطرات سے بڑھ کر عطا فرمائی ہیں جو کہ ہر لمحے طوفانی بارشوں سے تیز تر برس حج رہی ہیں جن کو شمار کرنا انسانی طاقت سے باہر ہے خود رب العزت نے قرآنِ کریم میں اس کا بیان فرمایا ہے ترجمہ کنزالایمان: اگر اللہ  کی نعمتیں گنو تو انہیں شمار نہ کر سکو گے(پ 14 سورہ نحل 18)

پھر جو شرف و فضیلت انسان کو حاصل ہے اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بندہ کسی بھی صورت میں اپنے خالق و مالک کی بےشمار نعمتوں سے لاتعلق نہیں ہو سکتا لہٰذا بندے کو چاہیے کہ وہ ہر وقت اپنے مولا کا شکر ادا کرتا رہے ناشکری نہ کرے کیونکہ ناشکری ایک بری صفت ہے کہ اس کی وجہ سے نعمتیں چھن جاتی ہیں ناشکری سے رب العزت ناراض ہوتا ہے اور عذاب کا حقدار بنتا ہے قرآنِ کریم میں بھی ناشکری کی مذمت بیان ہوئی ہے اور احادیث مبارکہ میں بھی اس کی مذمت بیان ہوئی ہے آئیے چند احادیث کریمہ ملاحظہ کرتے ہیں

(1) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سنا :’’ کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے ،ایک کوڑھی ، دوسرا اندھا ، تیسرا گنجا ، اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان تینوں کا امتحان لے چنانچہ ان تینوں کے پاس ایک فرشتہ بھیجا،فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور اس سے پوچھا تمہیں سب سے زیادہ کون سی چیز پسند ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ اچھا رنگ اور اچھی چمڑی کیونکہ لوگ مجھ سے گھن کھاتے ہیں ۔نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے بیان کیا کہ فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ پھیراتو اس کی بیماری دور ہوگئی اور اس کا رنگ بھی خوبصورت ہوگیا اور چمڑی بھی اچھی ہوگئی۔

فرشتے نے پوچھا کس طرح کا مال تم پسند کرتے ہو؟اس نے جواب میں اونٹ یا گائے کہا اسحاق بن عبد اللہ کو اس میں شک تھا کہ کوڑھی اور گنجے دونوں میں سے ایک نے اونٹ یا گائے کی خواہش ظاہر کی اور دوسرے نے گائے کی ، چنانچہ اسے حاملہ اونٹنی دی گئی ،اور کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے گا۔پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا تمہیں کیا چیز پسند ہے ؟اس نے کہا کہ عمدہ بال ، اور موجودہ عیب میرا ختم ہوجائے ۔کیونکہ اس کی وجہ سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں ، نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے بیان کیا کہ فرشتے نے اس کے سرپر ہاتھ پھیرااور اس کا عیب جاتا رہا اور اس کے سر میں عمدہ بال آگئے ۔فرشتے نے کہاتمہیں سب سے زیادہ کون سا مال پسند ہے ؟ اس نے کہا کہ گائے ، نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے بیان کیا کہ فرشتے نے اسے ایک حاملہ گائے دے دی ، اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت دے گا ۔ پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور پوچھا کہ تمہیں کیا چیزپسند ہے ؟اس نے کہا اللہ تعالیٰ مجھے آنکھوں کی بینائی عطا فرمادے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں ، نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے بیان کیا کہ فرشتے نے اس کی ( آنکھوں) پر ہاتھ پھیرااور اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی اسے وآپس لوٹا دی ،پھر پوچھا تمہیں سب سے زیادہ کس طرح کا مال پسند ہے ، اس نے کہا کہ بکریاں فرشتے نے اسے ایک حاملہ بکری دے دی ، پھر تینوں جانوروں کے بچے پیدا ہوئے یہاں تک کہ کوڑھی کے اونٹوں سے اس کی وادی بھر گئی ، گائے بیل سے گنجے کی وادی بھر گئی ، اور بکریوں سے اندھے کی وادی بھر گئی ۔

پھر دوبارہ فرشتہ اپنی اسی شکل میں کوڑھی کے پاس آیا اور کہا کہ میں ایک نہایت مسکین اور فقیر آدمی ہوں میرے سفر کے تمام سامان اور اسباب ختم ہو چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی سے حاجت پوری ہونے کی امید نہیں ، لیکن میں تم سے اسی ذات کا واسطہ دے کر ، جس نے تمہیں اچھا رنگ ، اچھا چمڑا اور اچھا مال عطا کیا ہے ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس سے سفر پورا کرسکوں ، اس نے فرشتے سے کہا میرے ذمہ اور بہت سے حقوق ہیں ۔فرشتے نے کہا غالباً میں تمہیں پہچانتا ہوں کیا تمہیں کوڑھ کی بیماری نہیں تھی جس کی وجہ سے لوگ تم سے گھن کھاتے تھے ؟تم ایک فقیر اور قلاش انسان تھے ، پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ چیزیں عطا کیں ؟ اس نے کہا یہ ساری دولت تو میرے بآپ دادا سے چلی آرہی ہے ؟ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں پہلی حالت پر لوٹادے ۔

فرشتہ گنجے کے پاس اپنی اسی پہلی صورت میں آیا اور اس سے بھی وہی درخواست کی،اور اس نے بھی وہی کوڑھی والا ہی جواب دیا ، فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے ۔ اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس آیا اپنی اسی پہلی صورت میں ، اور کہا کہ میں ایک مسکین آدمی ہوں ، سفر کے تمام سامان ختم ہوچکے ہیں ،اور اللہ کے سوا کسی اورسے حاجت پوری ہونے کی توقع نہیں ، میں تم سے اس ذات کاواسطہ دے کر ، جس نے تمہیں تمہاری بینائی وآپس دے دی، ایک بکر ی مانگتا ہوں جس سے اپنے سفر کی ضروریات پوری کرسکوں ، اندھے نے جواب دیا کہا کہ واقعی میں اندھا تھا ، اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے بینائی عطا فرمائی ، اور واقعی میں فقیر و محتاج تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے مالدار بنایا، تم جتنی بکریاں چاہو لے سکتے ہو ،اللہ کی قسم جب تم نے اللہ کا واسطہ دے دیا تو جتنا بھی تمہاراجی چاہے لے جائو میں تمہیں ہرگز نہیں روک سکتا، فرشتے نے کہا تم اپنا مال اپنے پاس رکھو ، یہ تو صرف امتحان تھا،اور اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور خوش ہے ،اور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہے ۔ صحيح البخاري: كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ (بَابُ حَدِيثُ أَبْرَصَ، وَأَعْمَى، وَأَقْرَعَ فِي بَنِي اسرائیل) حدیث نمبر 3464

(2)حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ (شعب الایمان، الثانی والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، ۶ / 516 الحدیث: 9119)

(3)…حضرت حسن رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ نا شکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔ (رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزّوجلّ، 1/ 484، الحدیث: 60)

اللہ تعالیٰ ہمیں ناشکری جیسی مذموم صفت سے محفوظ رکھے اور ہر وقت اپنا شکر ادا کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین


آج ہمارے معاشرے میں بہت سے گناہ عام ہو چکے ہیں اس میں ایک نا شکری بھی شامل ہے جس کی وجہ سے انسان خسارے میں پڑتا جا رہا ہے اس گناہ کی مزمت ہم احادیث  کی روشنی میں سنتے ہیں :

(1) : ابن ماجہ نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کی، کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم مکان میں تشریف لائے، روٹی کا ٹکڑ آپڑا ہوا دیکھا، اس کو لے کر پونچھا پھر کھالیا اور فرمایا: ’’عائشہ! اچھی چیز کا احترام کرو کہ یہ چیز (یعنی روٹی) جب کسی قوم سے بھاگی ہے تو لوٹ کر نہیں آئی۔‘‘ (2) یعنی اگر ناشکری کی وجہ سے کسی قوم سے رزق چلا جاتا ہے تو پھر وآپس نہیں آتا ۔حوالہ نمبر :سنن ابن ماجہ ‘‘ ،کتاب الأطعمۃ،باب النہی عن إلقاء الطعام، الحدیث:3353 ،ج 4،ص 49)

(2) ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے مروی، کہ لوگوں نے عرض کی، یارسول اﷲ ! ہم نے حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو دیکھا کہ کسی چیز کے لینے کا قصد فرماتے ہیں پھر پیچھے ہٹتے دیکھا، فرمایا: ’’میں نے جنت کو دیکھا اور اس سے ایک خوشہ لینا چاہا اورا گر لے لیتا تو جب تک دنیا باقی رہتی تم اس سے کھاتے اور دوزخ کو دیکھا اور آج کے مثل کوئی خوفناک منظر کبھی نہ دیکھا اور میں نے دیکھا کہ اکثر دوزخی عورتیں ہیں ، عرض کی، کیوں یارسول اﷲ (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ؟ فرمایا: کہ کفر کرتی ہیں ، عرض کی گئی، اﷲ (عزوجل) کے ساتھ کفر کرتی ہیں ؟ فرمایا: ’’شوہر کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان کا کفران کرتی ہیں ، اگر تُو اس کے ساتھ عمر بھر احسان کرے پھر کوئی بات بھی (خلاف مزاج) دیکھے، کہے گی، میں نے کبھی کوئی بھلائی تم سے دیکھی ہی نہیں ۔(حوالہ نمبر: ردالمحتار ‘‘ ، کتاب الصلاۃ، باب العیدین، مطلب : المختار أن الذبیح إسماعیل، ج 3 ، ص،74)

(3)حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا’’اے بنی اسرائیل! یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان فرمادیا کہ اگر تم اپنی نجات اور دشمن کی ہلاکت کی نعمت پر میرا شکر ادا کرو گے اور ایمان و عملِ صالح پر ثابت قدم رہو گے تو میں تمہیں اور زیادہ نعمتیں عطا کروں گا اور اگر تم کفر و معصیت کے ذریعے میری نعمت کی ناشکری کرو گے تو میں تمہیں سخت عذاب دوں گا۔ (روح البیان، ابراہیم، تحت الآیۃ: 5'4/399_400)

(4)حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مجھے یہ حدیث پہنچی ہے جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ کرتا ہے جب وہ شکر کریں تو اللہ پاک ان پر نعمت ذیادہ کرنے پر قادر ہےتو جب وہ نا شکری کریں تو وہ عذاب دینے پر قادر ہےتو وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے(حوالہ نمبر :رسال ابن ابی دنیا،کتاب الشکرلله عزوجل،1/484،الحدیث60)

(5)حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ (شعب الایمان، الثانی والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، ۶ / ۵۱۶، الحدیث: ۹۱۱۹)

اللّه پاک سے دعا ہے الله پاک سب مسلمانوں کو اس گناہ سے محفوظ فرمائے اللہ پاک ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین


پیارے پیارے اسلامی بھائیوں اللہ  کریم کے انعاموں اور انسانوں کے احسانوں کی ناشکری کی منحوس اور بڑھی عادت میں بہت زیادہ تعداد میں مرد وعورت گرفتار ہیں بلکہ عورتیں تو نوؤیں فیصد اس بلا میں مبتلا ہیں۔ ذرا سا کسی گھرانے کو یا کسی عورت کے کپڑے یا زیورات کو اپنے سے زیادہ خوشحال اور اچھا دیکھ لیا تو اللہ پاک عزوجل کی ناشکری کرنے لگتی ہیں اور کہنے لگتی ہیں نعوذ باللہ من ذلک خدا نے ہمیں نہ معلوم کس جرم کی سزا میں مفلس اور غریب بنادیا ہے ایسا کرنے کی بجائے ہمیں ہر حال میں خوشی ہو یا غمی دونوں میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے (ناشکری جیسی مہلک بیماری سے بچنے کیلئے پنجتن پاک کی نسبت سے ناشکری کی مذمت پر پانچ احادیث ملاحظہ فرمائیں )

حدیث نمبر 1:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جسے شکر کرنے کی توفیق ملی وہ نعمت کی زیادتی سے محروم نہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے.(لئن شكرتم لاذيدنكم) یعنی اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا جسے توبہ کرنے کی توفیق عطا ہوئی وہ توبہ کی قبولیت سے محروم نہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:(وه‍والذي يقبل التوبه عن عباده) یعنی اور وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول فرماتا ہے(در منشور ،ابراھیم، تحت الايهه 7٫5٫9)

حدیث نمبر 2۔حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور وہ جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا اور وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے (شعب الایمان ، الثان والستون من شعب الایمان ۔۔۔۔الخ فصل فی المکافاتہ بالصنا ئع 516/6 الحدیث 9119)

حدیث شریف:حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ ناشکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے(رسائل ابن ابی دنیا ، کتاب الشکر اللہ 1484/ الحدیث:2)

حدیث شریف: سنن ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہر نماز کے بعد یہ دعا مانگنے کی وصیت فرمائی (اله‍م اعني علي ذكرك ؤشكرك ؤحسن عبادتك) یعنی اے اللہ عزوجل تو اپنے ذکر اپنے شکر اور اچھے طریقے سے اپنی عبادت کرنے پر میری مدد فرما ۔(ابوداؤد ، کتاب الوتر ، باب فی الاستغفار 123/2 الحدیث 1522)

حدیث شریف:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مجھے جہنم دکھائی گئی تو دیکھا کہ اس میں اکثر ایسی عورتیں ہیں جنہوں نے شوہروں کی ناشکری کی اور ان کے احسانات کو فراموش کر دیا تھا اور تم ان میں سے کسی پر احسان کرو پھر تم سے کوئی بات خلاف مزاج دیکھ لے تو کہہ دے گی کہ میں نے تو کبھی بھی تم سے کوئی خیر اور بھلائی نہیں دیکھی ۔(بخاری شریف:9/1 حدیث 1.29 بحوالہ بکھرے موتی جلد چہارم صفحہ 49)

اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں کثرت کے ساتھ اپنا ذکر و شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی نعمتوں کی ناشکری سے محفوظ فرمائے آمین یارب العالمین


اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے  {وَ مَنْ یَّشْكُرْ: اور جو شکر اداکرے۔} یعنی جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتا ہے تووہ اپنی ذات کے بھلے کیلئے ہی شکر کرتا ہے کیونکہ شکر کرنے سے نعمت زیادہ ہوتی ہے اوربندے کو ثواب ملتا ہے اور جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی نعمتوں کی ناشکری کرے تو اس کاوبال اسی پر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس سے اور اس کے شکر سے بے پرواہ ہے اور وہ اپنی ذات و صفات اور اَفعال میں حمد کے لائق ہے اگرچہ کوئی ا س کی تعریف نہ کرے۔( روح البیان، لقمان، تحت الآیۃ: 12، 7 / 75، مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: 12، ص917، جلالین، لقمان، تحت الآیۃ: 12، ص31، ملتقطاً)

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں بیان کردہ آیت کریمہ کے جز کی تفسیر سے پتا چلتا کہ اگر کوئی اللہ عزوجل کا شکر ادا نہیں کرتا تو اس کا وبال اسی کے اوپر ہو گا تو پیارے اسلامی بھائیوں ناشکری کی مذمت احادیث میں بھی بیان ہوئی ہے تو اب آپ کی بارگاہ میں احادیث بیان کی جاتی ہیں اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں نا شکری جیسے گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے

(1). حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ (شعب الایمان، الثانی والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، 6/516، الحدیث9119)

(2)…حضرت حسن رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ نا شکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔ (رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزّوجلّ، 1 / 484، الحدیث: 60)

(3)حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں نعمتوں کے زوال سے بچو کیونکہ جو زائل ہو جائے وہ پھر سے نہیں ملتا اور مزید فرماتے ہیں کہ جو تمہیں یہاں سے وہاں سے نعمتیں ملنے لگی تو نہ شکرے بن کر ان کے تسلسل کو دور نہ کرو۔( دین و دنیا کی انوکھی باتیں ص 515)

(4)…سنن ابو داؤد میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ہر نماز کے بعد یہ دعا مانگنے کی وصیت فرمائی ’’اَللّٰہُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ‘‘ یعنی اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، تو اپنے ذکر، اپنے شکر اور اچھے طریقے سے اپنی عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔ (ابو داؤد، کتاب الوتر، باب فی الاستغفار، 2 / 123، الحدیث: 1522) اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں کثرت کے ساتھ اپنا ذکر اورشکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی نعمتوں کی ناشکری کرنے سے محفوظ فرمائے ، اٰمین۔