پیارے پیارے
محترم اسلامی بھائیوں ہم کو ہر حال میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ
اللہ تعالی نے قران پاک میں بہت سی جگہوں پر ارشاد فرمایا ہے کہ تم میرے شکر گزار
بندے بن جاؤ تو ہم کو چاہیے کہ ہم اللہ کی
نعمتیں جو ہم کو حاصل ہے ان پر اللہ تعالی کا شکر ادا کریں اس کی مثالیں بہت سی چیزیں
ہیں جیسے ہمارا جسم کا ہر ایک حصہ اللہ تعالی کی دی ہوئی ایک نعمت ہے اسی طرح
کھانا پینا سونا یہ سب اللہ تعالی کی نعمتیں ہیں تو ہم کو چاہیے کہ ہم اللہ تعالی
کا ان سب چیزوں پر شکر ادا کریں کہ ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا بھی یہی
عمل رہا ہے کہ وہ اللہ تعالی کا بہت شکر ادا کیا کرتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں میں سے ایک نام شاکر بھی ہے
یاد رہے جہاں
قرآن و احادیث میں شکر کے فضائل موجود ہیں وہی ناشکری کی مذمت پر بھی احادیث موجود
ہے
چند احادیث آپ
کے گوش گزار پیش کر رہا ہوںامیرُالمؤمنین حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ
اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا:نعمتوں کے زوال سے بچو کہ جو زائل
ہوجائے وہ پھر سے نہیں ملتی۔مزیدفرماتےہیں:جب تمہیں یہاں وہاں سے نعمتیں ملنے لگیں
تو ناشکرے بن کر ان کے تسلسل کو خود سے دُور نہ کرو۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں،ص515)
حضرت سیِّدُنامُغِیْرہ
بن شعبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں:جو تجھے نعمت عطا کرے تُو اس
کا شکر ادا کر اور جو تیرا شکریہ ادا کرے
تُو اُسے نعمت سے نواز کیونکہ ناشکری سے نعمت باقی نہیں رہتی اور شکر سے نعمت کبھی
زائل نہیں ہوتی۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں،ص514)
رسول اﷲصلی
اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ میں نے جہنم میں عورتوں کو بکثرت دیکھا۔
یہ سن کر صحابہ کرام علیھم الرضوان نے پوچھا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلّم! اس کی کیا وجہ ہے کہ عورتیں بکثرت جہنم میں نظر آئیں۔ تو آپ صلی
اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ عورتوں میں دو بُری خصلتوں کی وجہ سے۔
ایک تو یہ کہ عورتیں دوسروں پر بہت زیادہ لعن طعن کرتی رہتی ہیں دوسری یہ کہ عورتیں اپنے شوہروں کی ناشکری کرتی رہتی ہیں چنانچہ تم عمر بھر ان عورتوں کے ساتھ اچھے
سے اچھا سلوک کرتے رہو۔ لیکن اگر کبھی ایک ذرا سی کمی تمہاری طرف سے دیکھ لیں گی
تو یہی کہیں گی کہ میں نے کبھی تم سے کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔ (صحیح البخاری،
کتاب الایمان ۔21۔باب کفران العشیروکفر دون کفر، رقم 29، ج۱،ص23 وایضافی کتاب النکاح89،باب کفران العشیر وھو الزوج
الخ، رقم 5191، ج3،ص443)
حضرت سیدہ
عائشہ صدیقہ رضی اللّہ تعالٰی عَنْہا فرماتی ہیں، تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلَّم اپنے مکانِ عالیشان میں تشریف لائے، روٹی کا ٹکڑا پڑا ہوا دیکھا، اس کو لے کر
پونچھا پھر کھا لیا فرمایا، عائشہ (رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہا ) اچھی چیز کا
احترام کرو کہ یہ چیز (یعنی روٹی) جب کسی قوم سے بھاگی ہے لوٹ کر نہیں آئی۔(سنن
ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ،باب النھی عن القاء الطعام،الحدیث3353،ج4،ص49) یعنی اگر
ناشکری کی وجہ سے کسی قوم سے رِزق چلا جاتا ہے تو پھر وآپس نہیں آتا۔
رِزْق
کی ناشکری زوالِ رِزْق کا سبب ہوسکتی ہے تفسیر صِراطُ الجنان کی تیسری جلد کے صفحہ 543 پر ہے:جب مسلمان اللہ تعالیٰ
کی ناشکری کرتے، یادِ خدا سے غفلت کو اپنا شعار بنا لیتے اور اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل میں مصروف ہو جاتے ہیں اور اپنے بُرے اعمال کی کثرت کی وجہ سے خُود کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا نااہل ثابت
کردیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے اپنی دی ہوئی نعمتیں وآپس لے لیتا
ہے۔ تفسیر صراطُ الجنان،3/541
اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کی ناشکری کرنے سے محفوظ فرمائے آمین