مصور حسین (درجۂ سابعہ جامعۃ المدینہ گلزار
حبیب سبزہ زار لاہور، پاکستان)
الله پاک نے
بے شمار نعمتیں ریت کے ذروں سے زیادہ اور دنیا بھر کے پانی کے قطرات سے بڑھ کر عطا
فرمائی ہیں جو کہ ہر لمحے طوفانی بارشوں سے تیز تر برس حج رہی ہیں جن کو شمار کرنا
انسانی طاقت سے باہر ہے خود رب العزت نے قرآنِ کریم میں اس کا بیان فرمایا ہے ترجمہ
کنزالایمان: اگر اللہ کی نعمتیں گنو تو
انہیں شمار نہ کر سکو گے(پ 14 سورہ نحل 18)
پھر جو شرف و
فضیلت انسان کو حاصل ہے اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بندہ کسی بھی صورت میں اپنے خالق و مالک کی بےشمار نعمتوں سے لاتعلق نہیں ہو سکتا لہٰذا بندے کو چاہیے
کہ وہ ہر وقت اپنے مولا کا شکر ادا کرتا رہے ناشکری نہ کرے کیونکہ
ناشکری ایک بری صفت ہے کہ اس کی وجہ سے نعمتیں چھن جاتی ہیں ناشکری سے رب العزت
ناراض ہوتا ہے اور عذاب کا حقدار بنتا ہے قرآنِ کریم میں بھی ناشکری کی مذمت بیان
ہوئی ہے اور احادیث مبارکہ میں بھی اس کی مذمت بیان ہوئی ہے آئیے چند احادیث کریمہ
ملاحظہ کرتے ہیں
(1) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں
نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سنا :’’ کہ بنی اسرائیل میں تین شخص
تھے ،ایک کوڑھی ، دوسرا اندھا ، تیسرا گنجا ، اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان تینوں کا
امتحان لے چنانچہ ان تینوں کے پاس ایک فرشتہ بھیجا،فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس آیا
اور اس سے پوچھا تمہیں سب سے زیادہ کون سی چیز پسند ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ اچھا
رنگ اور اچھی چمڑی کیونکہ لوگ مجھ سے گھن کھاتے ہیں ۔نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیان کیا کہ
فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ پھیراتو اس کی بیماری دور ہوگئی اور اس کا
رنگ بھی خوبصورت ہوگیا اور چمڑی بھی اچھی ہوگئی۔
فرشتے نے
پوچھا کس طرح کا مال تم پسند کرتے ہو؟اس نے جواب میں اونٹ یا گائے کہا اسحاق بن
عبد اللہ کو اس میں شک تھا کہ کوڑھی اور گنجے دونوں میں سے ایک نے اونٹ یا گائے کی
خواہش ظاہر کی اور دوسرے نے گائے کی ، چنانچہ اسے حاملہ اونٹنی دی گئی ،اور کہا گیا
کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے گا۔پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے
پوچھا تمہیں کیا چیز پسند ہے ؟اس نے کہا کہ عمدہ بال ، اور موجودہ عیب میرا ختم
ہوجائے ۔کیونکہ اس کی وجہ سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں ، نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیان کیا کہ
فرشتے نے اس کے سرپر ہاتھ پھیرااور اس کا عیب جاتا رہا اور اس کے سر میں عمدہ بال
آگئے ۔فرشتے نے کہاتمہیں سب سے زیادہ کون سا مال پسند ہے ؟ اس نے کہا کہ گائے ،
نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیان
کیا کہ فرشتے نے اسے ایک حاملہ گائے دے دی ، اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت
دے گا ۔ پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور پوچھا کہ تمہیں کیا چیزپسند ہے ؟اس نے
کہا اللہ تعالیٰ مجھے آنکھوں کی بینائی عطا فرمادے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں ،
نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیان
کیا کہ فرشتے نے اس کی ( آنکھوں) پر ہاتھ پھیرااور اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی
اسے وآپس لوٹا دی ،پھر پوچھا تمہیں سب سے زیادہ کس طرح کا مال پسند ہے ، اس نے
کہا کہ بکریاں فرشتے نے اسے ایک حاملہ بکری دے دی ، پھر تینوں جانوروں کے بچے پیدا
ہوئے یہاں تک کہ کوڑھی کے اونٹوں سے اس کی وادی بھر گئی ، گائے بیل سے گنجے کی وادی
بھر گئی ، اور بکریوں سے اندھے کی وادی بھر گئی ۔
پھر دوبارہ
فرشتہ اپنی اسی شکل میں کوڑھی کے پاس آیا اور کہا کہ میں
ایک نہایت مسکین اور فقیر آدمی ہوں میرے سفر کے تمام سامان اور اسباب ختم ہو چکے
ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی سے حاجت پوری ہونے کی امید نہیں ، لیکن میں تم
سے اسی ذات کا واسطہ دے کر ، جس نے تمہیں اچھا رنگ ، اچھا چمڑا اور اچھا مال عطا کیا
ہے ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس سے سفر پورا کرسکوں ، اس نے فرشتے سے کہا میرے
ذمہ اور بہت سے حقوق ہیں ۔فرشتے نے کہا غالباً میں تمہیں پہچانتا ہوں کیا تمہیں
کوڑھ کی بیماری نہیں تھی جس کی وجہ سے لوگ تم سے گھن کھاتے تھے ؟تم ایک فقیر اور
قلاش انسان تھے ، پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ چیزیں عطا کیں ؟ اس نے کہا یہ ساری
دولت تو میرے بآپ دادا سے چلی آرہی ہے ؟ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو
اللہ تعالیٰ تمہیں پہلی حالت پر لوٹادے ۔
فرشتہ گنجے کے
پاس اپنی اسی پہلی صورت میں آیا اور اس سے بھی وہی درخواست کی،اور اس نے بھی وہی
کوڑھی والا ہی جواب دیا ، فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے ۔ اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس آیا اپنی اسی پہلی صورت میں ، اور کہا کہ میں ایک مسکین آدمی ہوں ، سفر کے تمام
سامان ختم ہوچکے ہیں ،اور اللہ کے سوا کسی اورسے حاجت پوری ہونے کی توقع نہیں ، میں
تم سے اس ذات کاواسطہ دے کر ، جس نے تمہیں تمہاری بینائی وآپس دے دی، ایک بکر ی
مانگتا ہوں جس سے اپنے سفر کی ضروریات پوری کرسکوں ، اندھے نے جواب دیا
کہا کہ واقعی میں اندھا تھا ، اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے بینائی عطا فرمائی ، اور واقعی میں فقیر و محتاج تھا اور اللہ تعالیٰ
نے مجھے مالدار بنایا، تم جتنی بکریاں چاہو لے سکتے ہو ،اللہ کی قسم جب تم نے اللہ
کا واسطہ دے دیا تو جتنا بھی تمہاراجی چاہے لے جائو میں تمہیں ہرگز نہیں روک سکتا،
فرشتے نے کہا تم اپنا مال اپنے پاس رکھو ، یہ تو صرف امتحان
تھا،اور اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور خوش ہے ،اور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہے
۔ صحيح البخاري: كِتَابُ
أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ (بَابُ حَدِيثُ أَبْرَصَ،
وَأَعْمَى، وَأَقْرَعَ فِي بَنِي اسرائیل) حدیث نمبر 3464
(2)حضرت نعمان
بن بشیر رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو تھوڑی
نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا
اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ (شعب الایمان، الثانی
والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، ۶ / 516 الحدیث: 9119)
(3)…حضرت
حسن رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے
ہیں ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ
جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب
وہ شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے
اور جب وہ نا شکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی
نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔ (رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزّوجلّ،
1/ 484، الحدیث: 60)
اللہ تعالیٰ
ہمیں ناشکری جیسی مذموم صفت سے محفوظ رکھے اور ہر وقت اپنا شکر ادا کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین