نا شکری اور شکر دونوں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں ، اگر شکر گزاری اللہ کی نعمتوں کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہے تو ناشکری اللہ کے غضب اور اس کے دردناک عذاب کو واجب کرنے والی ہے ۔اللہ کا فرمان ہے:{لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ}’’ اگر تم شکر گزاری کروگے تو بیشک میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کروگے تو یقینا میرا عذاب بہت سخت ہے‘‘[ ابراہیم: ۷]

ناشکری کے چند اسباب :۱۔ اپنے سے مالداروں کی طرف دیکھنا: جب انسان دنیادی نعمتوں سے متعلق اپنے سے آسودہ حال اور مالداروں کو دیکھتا ہے تو ناشکرا بن جاتا ہے اور جب اپنے سے غریبوں اور بد حال و مفلس لوگوں کو دیکھتا ہے تو اللہ کا شکر گزار بندہ بن جاتا ہے۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ’’إِذَا نَظَرَ أَحَدُكُمْ إِلَي مَنْ فُضِّلَ عَلَيْهِ فِي المَالِ وَالخَلْقِ، فَلْيَنْظُرْ إِلَي مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْهُ‘‘ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے فرمایا :’’جب تم میں سے کوئی شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھے جو مال اور شکل و صورت میں اس سے بڑھ کر ہو تو اسے چاہئے کہ ایسے شخص کی طرف دیکھ لے جو مال اور شکل و صورت میں اس سے کم درجے کا ہے‘‘[ صحیح بخاری:۶۴۹۰]

۲۔ صرف دنیا کو مقصد زندگی سمجھ لینا : جو لوگ فکر آخرت سے بالکل غافل ہوکر دنیا کی لذتوں اور رنگینیوں میں گم ہو جاتے ہیں ایسے لوگ بھی بڑے ناشکرے ہوتے ہیں ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافروں کے بارے میں فرماتا ہے:{وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًي لَهُمْ }’’اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا فائدہ اٹھاتے اور کھاتے ہیں جس طرح چوپائے کھاتے ہیں ان کا (اصل) ٹھکانہ جہنم ہے‘‘[ محمد : ۱۲]

مذکورہ آیت کریمہ کی شرح کرتے ہوئے علامہ سمرقندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’کا فر دنیا کی زندگی سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں دنیا کی جو نعمتیں ملی ہیں انہی میں زندگی گزارتے ہیں اور چوپایوں کی طرح کھاتے ہیں کھانے پینے اور جماع کرنے کے سوا ان کی زندگی کا کوئی بھی مقصد نہیں ہوتا ، اور جہنم ہی ان کا ٹھکانہ ہے‘‘ [بحر العلوم للسمرقندی ]

۳۔ نعمتوں پر اترانا : جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ نعمتیں مجھے ملی ہیں سب میری کوششوں کا نتیجہ ہیں اس میں اللہ کا کوئی احسان نہیں ایسے لوگ کبھی اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے ایسے لوگ قارون صفت ہیں جس قارون کو اللہ نے اس کے خزانوں سمیت زمین میں دھنسادیا ۔

۴۔بخیلی اوکنجوسی کرنا : بخیلی اور کنجوسی بھی ناشکری کا ایک اہم سبب ہے کیونکہ بخیل اور کنجوس لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کریں گے تو وہ بہت جلد ختم ہوجائے گا پھر وآپس نہیں ملے گا اس لئے بخیل اور کنجوس لوگ ہمیشہ اللہ کی ناشکری کرتے ہیں،اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بخیلی اور فضول خرچی دونوں سے منع فرمایا ہے ۔فرمان الٰہی ہے :{وَالَّذِینَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَلَمْ یَقْتُرُوا وَکَانَ بَیْنَ ذَلِکَ قَوَامًا}’’ اور جب وہ خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے ہیں‘‘[الفرقان : ۶۷]

۵۔شیطان اور نفس کی پیروی کرنا: نفس اور شیطان کی پیروی بھی انسان کو نا شکری پر ابھارتی ہے کیونکہ نفس بہت حریص ہوتا ہے اور شیطان اللہ کا سب سے بڑا ناشکرا ہے اور اس کا مقصد انسانوں کو رب کا ناشکرا بنانا ہی ہے ،نفس کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے : {وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ}’’جو کوئی اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیاتو وہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں ‘‘ [الحشر :۹]

شیاطین کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے : {وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا۔إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا}’’اور اسراف اور بے جا خرچ سے بچو بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی نا شکرا ہے‘