دورِ حاضر میں جہاں دینِ اسلام کو بہت سے فتنوں نےگھیر رکھا ہے اس پُر فتن دور میں بھی اپنے ایمان کی حفاظت ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے جس کے لئے عقیدے کی پختگی بہت اہم ہے ۔عقیدۂ ختم ِنبوت ایمان کی بنیادی ضرورت میں سے ہے اور اس بات پہ ایمان لانا شرط بھی ہے کہ ہمارے آقا، نُورِ مُجَسم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئےگا ۔ اگر کوئی کسی نئے نبی کے لیے نبوت ملنا ممکن جانے کہ کسی کو نبوت مل سکتی ہے تو وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہو کر کافر ہو جائےگا ،اسے کافرو مر تد کہا جائے گا اور اس کو مرتدو کافر نہ ماننے والا بھی کافرو مرتد ہو جائے گا۔اول:اسلام  ناگزیرطور پر ایک مذہبی کمیونٹی ہے جس کی حدود متعین ہیں:(1)توحیدِ الٰہی پر ایمان،(2)جملہ رسولوں پر ایمان اور(3) محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ختمِ نبوت پر ایمان۔ایمان کا آخر حصہ یعنی عقیدہ ٔختمِ نبوت در اصل وہ عنصر ہے جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان حدِّ فاصل کا تعین کرتا ہے اور یہ فیصلہ کرنے کی استعداد بخشتا ہے کہ کوئی شخص  اسلام کا حصہ ہےیا نہیں۔ اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک یہ بھی ہے اللہ پاک نے نبوت کا سلسلہ ہمارے خَاتَمُ النّبِیّین،نُورِ مجسم، بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا کے نُورِ پُر نُور حضرت محمدصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختم فرما دیا۔ اس عقیدے سے انکار کرنا یا ذرہ بھر شک کرنا بھی ایمان کو غارت کر سکتا ہے۔یہ اتنا عظیم عقیدہ ہے جو قرآنِ پاک کی بہت سی آیاتِ مبارکَہ ،احادیث مبارکَہ اور پوری امت کے اجماع سے ثابت ہے۔قرآنِ پاک کی لا تعدادایسی آیاتِ مبارکَہ ہیں جن میں ختمِ نبوت پہ مہر ثابت ہے،ان میں سے مرکزی آیتِ کریمہ جو قرآنِ پاک میں ہے:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا(۴۰)ع ترجمۂ کنزالعرفان: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والاہے۔

خدا خود نعت لکھتا ہے تری قرآن کی صورت عجب ہے شانِ محبوبی، وجاہت ختم ہے تجھ پر

مر زائی فرقہ سادہ مسلمانوں میں گمراہی پھیلا نے کے لئےخاتم النبیین کا یہ معنی کرتا ہے کہ آپصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا مرتبہ تمام انبیائے کرام علیہ السلام میں اتنا عظیم ہے کہ تمام انبیا ئے کرام علیہ السلام کے مراتب وہاں ختم ہو جاتے ہیں،گویا آپصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مرتبے میں آخری نبی ہیں اس کے یہ معنی نہیں کہ آپ زمانے کے اعتبار سے آخری نبی ہیں جیسے کہا جاتا ہے:فلاں محدث خَاتَمُ المُحدّ ثِین ہے یعنی تمام مُحدّثین کا علم اس پہ ختم ہو جاتا ہے ،اس کا یہ معنی نہیں کہ اس کے بعد کوئی محدث دنیا میں نہیں آئے گا! یہی معنی خَاتَمُ النَّبِیّین کا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مرزائی لوگ کہتے ہیں:ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمکو خا تم النبیین مانتے ہیں لیکن مرتبے کے اعتبار سے نہ کہ زمانے کے اعتبار سے۔مگر مرزائیوں نے یہ معنی کر کے قرآنِ کریم میں تحریف کی جبکہ خود سرکار دو عالم، نُورِ مُجَسم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمنے بہت سی احادیث میں لفظ خَاتَمُ النبیین کی تفسیر فرما دی جس کا معنی آخری نبی ہے، آپ اللہ پاک کے آخری رسول ہیں، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمبعد نہ کوئی آیا نہ آسکے گا،نیز نبوت کا با ب آپصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمپہ ختم ہے۔

نبوت ختم ہے تجھ پر، رسالت ختم ہے تجھ پر تِرا دیں ارفع و اعلی، شریعت ختم ہے تجھ پر

میری دانست میں قادیانیوں کے سامنے صرف دو راستے کھلے ہیں: (1)یا صاف طریقے سے بہائیوں کی تقلید کریں یا (2)اسلام میں نظریۂ خاتمیت (ختم نبوت)کے بارے میں اپنی تعبیرات کو ترک کر دیں اور اس نظرئیے کو اس کے جملہ مضمرات سمیت قبول کر لیں۔ان کی عیارانہ تعبیریات محض ان کی  اسلام کے زمرے میں رہنے کی خواہش کا نتیجہ ہے تاکہ وہ بدیہی طور پر اس کے فوائد سے بہرہ مند ہوتے رہیں ۔ اس بات کا اعلان خود آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنی حیات ظاہری میں فرما دیا تھا جیسا کہ تِر مِذی شریف کی حدیث میں ہے ۔(1)اَ نا خَا تَمُ النبیین لَا نَبِیَّ بَعدِی یعنی میں آخری نبی ہوں ،میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (تِرمِذی،4/93،حدیث:2226) آپصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے غیب کی خبر دیتے ہوئےپہلے ہی ارشاد فرمایاتھا:عنقریب میری اُمت میں 30کذّاب یعنی نبوت کی جھوٹھے دعو یدار ہو گئے اور ان میں سے ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خَا تَمُ النبیین ہوں ،میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ (ابو داؤد،4/132حدیث:4254)(2)فرمانِ مصطفےٰصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم:اے لوگوں!بےشک میرے بعد کوئی نبی نہیں، تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔(معجم کبیر،8/115،حدیث:7535)(3) مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا اور مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔ (مشکوٰۃ،ص512)

تو آکر بعد میں بھی سب پہ بازی لے گیا پیارے یہ ہمت ختم ہے تجھ پر، یہ سبقت ختم ہے پیارے

(4)اِنَّ الرِّسَالَۃ وَالنُّبُوَّۃ قَد انْقَطعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِی وَلَا نَبِی۔ (ترمذی، کتاب الروی، باب: ذہبت النبوۃ ا، 4/ 163 ، رقم: 2272)ترجمہ: اب نبوت اور رسالت کا انقطاع عمل میں آ چکا ہے ،لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی۔آخر میں ایک حدیثِ پاک بھی ملاحظہ ہو،چنانچہ نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میری اور تمام انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک عمدہ اور خوبصورت عمارت بنائی اور لوگ اس کے آس پاس چکّر لگا کر کہنے لگے:ہم نے اس سے بہترین عمارت نہیں دیکھی مگر یہ ایک اینٹ(کی جگہ خالی ہے جو کھٹک رہی ہے)تو میں(اس عمارت کی)وہ(آخری)اینٹ ہوں۔ (مسلم،ص965،حدیث:5959)

شریعت کے محل کا آخری پتھر ہے تو پیارے ادھورے کو کیا پورا یہ سنت ختم ہے تجھ پر

ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ایسا عقیدہ ہے جس کے بارے میں امت میں کوئی تضاد نہیں، کوئی تفریق نہیں، کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں۔ امتِ مسلمہ جسے دنیا میں ہزاروں افتراق انتشار کے مسائل میں الجھایا گیا ہے عقیدہ ٔختم نبوت کے بارے میں اب بھی پوری یکسوئی اور عظم کے ساتھ کھڑی ہے،اس پر کوئی سمجھوتہ ہی نہیں ،کوئی تفریق ہی نہیں بلکہ اس کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے اس عقیدے کوہلکا سا بھی چھیڑو تو دل تڑپ اٹھے گا کیونکہ یہ پوری امتِ مسلمہ کا اجتماعی عقیدہ ہے ۔امت ِمحمدیہ کے لئے اللہ پاک کی طرف سے عظیم رحمت اور نعمت ہے‘ اس کی پاسداری اور شکر پوری امتِ محمدیہ پر واجب ہے۔

رسولِ ما رسالت ختم کرد رونق از ما محفلِ ایام را او رسل را ختم و ما اقوام را

یعنی ’’خدا نے ہم پر شریعت ختم کردی ہے جیسے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمپر رسالت ختم کردی ہے۔محفل ِایام (دنیا) کی رونق ہمارے وجہ سے ہے،حضور پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمآخری رسول ہیں اور ہم آخری امت۔‘‘


حضور اَقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا آخری نبی ہونا قطعی ہے اور یہ قطعیت قرآن و حدیث اور اجماعِ اُمّت سے ثابت ہے اور احادیث تو اتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہے اور اُمّت کا اجماعِ قطعی بھی ہے، عقیدۂ ختمِ نبوت ضروریاتِ دین میں سے ہے۔ختمِ نبوت کا قرآن سے ثبوت:قرآنِ کریم میں ارشاد باری ہے:ترجمۂ کنزالایمان:محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والاہے۔(پارہ 22، الاحزاب:40)یہ آیتِ مبارکہ بالکل واضح طور پر مصطفے کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کو واضح کرتی ہے۔ عقیدہ ختمِ نبوت احادیث کی روشنی میں:اب مزید اس عقیدے کو احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں سُننے سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیا علیہم السلام کی مثال اس شخص کی طرح ہے، جس نے بہت حسین و جمیل ایک گھر بنایا، مگر اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس کے گرد گھومنے لگے اور تعجب سے کہنے لگے : اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی؟پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا:میں (قصرِ نبوت کی) وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔(مسلم، کتاب الفضائل، ص1255، حدیث2286)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک رسالت و نبوت ختم ہوگئی، اب میرے بعد کوئی رسول ہے، نہ کوئی نبی۔(ترمذی، کتاب الرؤیا، 4/121، حدیث2279)حضرت علیُّ المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے شمائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دو کندھوں کے درمیان مُہرِ نبوت تھی اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خاتم النبیین ہیں۔(ترمذی، کتاب المناقب5/364، حدیث3658)ختمِ نبوت اور امام اہلِ سنت، اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ:اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں:محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو خاتم النبیین ماننا، ان کے زمانے میں خواہ ان کے بعد کسی نبی جدید کی بعثت کو یقیناً قطعاً محال و باطل جاننا فرضِ اَجل و جزوِ ایقان ہے، وَلٰکِنَّ رَّسُولُ اللہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیینَ نصِ قطعی قرآن ہے، اس کا منکر، نہ منکر بلکہ شک کرنے والا، نہ شک کہ ادنیٰ ضعیف احتمال سے توہم خلاف رکھنے والا قطعاً اجماعاً کافر ملعون مخلد فی النیران ہے، نہ ایسا کہ وہی کافر ہو، بلکہ جو اس کے اس عقیدہ ملعونہ پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ جانے، وہ بھی کافر ہونے میں شک و تردّد کو راہ دے، وہ بھی کافر ہے، ای کافر جلی الکفران(یعنی واضح کافر اور اس کا کُفر روشن ہے)۔امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ اپنے کلام میں کیا خوب فرماتے ہیں:

بعد آپ کے ہرگز نہ آئے گا نبی نیا واللہ ایمان ہے میرا، اے آخری نبی


رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی رسالت و نبوت کو تسلیم کرنا ایمان کے لئے اساس کی حیثیت رکھتا ہے، ایمان تب مکمل ہوتا ہے، جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو محض نبی یا رسول ہی نہ مانا جائے، بلکہ آپ کو خاتم النبیین بھی تسلیم کیا جائے۔قرآنِ مجید اسلامی تعلیمات کا پہلا اور مضبوط ترین ماخذ ہےاور جو امر قرآنِ مجید میں بیان ہوا، وہ مسلمانوں کے لئے حرفِ آخر شمار ہوتا ہے، ختمِ نبوت کے حوالے سے قرآنِ مجید میں واضح راہ نمائی موجود ہے، چنانچہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ترجمہ کنزالایمان:محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والاہے۔(پارہ 22، الاحزاب:40)اس آیتِ مبارکہ کو عقیدۂ ختمِ نبوت کے حوالے سے انتہائی اعلیٰ مقام اور بنیادی حیثیت حاصل ہے، کیونکہ اس آیت کا حصّہ خاتم النبیین اس عقیدے کی براہِ راست خبر دیتا ہے، عقیدۂ ختمِ نبوت نہ صرف مسلمانوں کے ایمان بالرسالت کی تکمیل کرتا ہے، بلکہ یہی عقیدہ دنیا میں مدعیانِ نبوت کی تکذیب بھی کرتا ہے، چنانچہ اس عقیدے کی رُو سے نبوتِ محمدی اَبدی اور دائمی ہے۔(کتاب عقیدہ ختم نبوت، صفحہ 25)

حدیثِ مبارکہ میں آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنی ختمِ نبوت کا اعلان اس طرح فرمایا کہ میں لوحِ محفوظ پر اللہ پاک کے پاس بھی خاتم النبیین ہوں، اُم الکتاب کے اندر میں خاتم النبیین ہوں اور میری ختمِ نبوت اَزل سے طے شدہ ہیں اور اللہ پاک کے نزدیک میری نبوت ثابت ہے۔(کنز العمال،/3212)حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ہمارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :سارے رسولوں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور تمام رسولوں سے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہیں۔(جامع الاحادیث،3/315) سیّد عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:جو بالخصوص معراج کی رات آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مسجد اقصی میں انبیاعلیہم السلام کے سامنے تقریر کی تھی، اس میں آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ تمام تعریفیں اس رب کریم کی ہیں، جس نے مجھے فاتح بھی بنایا اور خاتم بھی بنایا ہے، یعنی جنت کے دروازہ کو کھولنے والا نبوت کے دروازے کو بند کرنے والا بنایا ہے۔(ابن کثیر، 4013(جزوِ خاص)ختمِ نبوت کے حوالے سے سب سے اَہم اور سب سے ضروری ذمّہ داری یہ ہے کہ ہر مسلمان پر انفرادی طور پر اور پوری اُمّتِ مسلمہ اجتماعی طور پر اپنا یہ عقیدہ مضبوط رکھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خاتم النبیین ہیں۔(کتاب عقیدۂ ختم نبوت اور ہماری ذمہ داریاں، ص31)عقیدۂ ختمِ نبوت نہ صرف قرآنِ مجید امر احادیثِ نبوت سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے، بلکہ عہدِ رسالت سے لے کر آج تک اس امر پر اُمّتِ مسلمہ کا اِجماع ہے کہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ختمِ نبوت پر پُختہ عقیدہ اور کامل یقین رکھے اور جس طرح وہ دیگر عقائد کا اظہار کرتا ہے، ویسے ہی وہ ختمِ نبوت کا بھی اظہار کرے۔اللہ کریم ہمیں اپنے عقائد کی حفاظت کرنے اور بُرے عقیدے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


عقیدۂ ختم نبوت:اِسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے کہ اللہ پاک نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو تمام انبیاو مرسلین علیہم السلام کے آخر میں مبعوث فرمایا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر رسالت و نبوت کا سلسلہ ختم فرمادیا، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی آیا ہے اور نہ آسکتا ہے۔نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے خود اپنی زبانِ مبارک سے متعدد بار اپنے آخری نبی ہونے کو بیان فرمایا ہے، چنانچہ اس ضمن میں چند فرامینِ مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ملاحظہ ہوں:1۔بے شک رسالت اور نبوت منقطع ہو چکی ہے، پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا، نہ کوئی نبی۔(تر مذی، 4/121، حدیث2279)حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی قُربِ قیامت میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نائب و اُمّتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے اور اپنی شریعت کے بجائے دینِ محمدی کی تبلیغ کریں گے۔(خصائص کبری2/329)2۔میں سب سے آخری نبی ہوں اور تم سب سے آخری امت ہو۔(ابن ماجہ، 4/414، حدیث 4077)3۔بے شک میں اللہ پاک کے حضور لوحِ محفوظ میں خاتم النبیین(لکھا ہوا) تھا، جب حضرت آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔(کنز العمال جزء6:11/188، حدیث31957)4۔غزوۂ تبوک کے لئے روانہ ہوتے ہوئے، نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:اے علی!تم کو مجھ سے وہ نسبت ہے، جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(مسلم، ص1006، حدیث6217)5۔بے شک میں سب نبیوں میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے۔(مسلم، ص553، حدیث3376)6۔میری اور مجھ سے پہلے انبیا علیہم السلام کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی شخص نے ایک حسین و جمیل عمارت بنائی۔ مگر اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس عمارت کے گرد گھومنے لگے اور تعجب سے کہنے لگے: اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی؟میں(قصرِ نبوت کی)وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔(مسلم، صفحہ 965، حدیث 5961) حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے غیب کی خبر دیتے ہوئے فرمایا تھا:7۔عنقریب میری اُمّت میں 30 کذّاب(یعنی بہت بڑے جھوٹے) ہوں گے، ان میں سے ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔(ابو داؤد4/132، حدیث 4252) عقیدۂ ختم نبوت کا منکر یا اس میں شک و تردّد کرنے والا کافر ہے۔ (فتاوی رضویہ، جلد 15، صفحہ 578)اسی لئے صحابہ کرام علیہم الرضوان نے مسیلمہ کذاب اور اسود جیسے منکرینِ ختمِ نبوت کے خلاف جہاد کیا اور انہیں کیفرِ کردار تک پہنچایا۔ سیّدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں:

نہ رکھی گل کے جوش حسن نے گلشن میں جا باقی چٹکتا پھر کہاں غنچہ، کوئی باغِ رسالت کا

اللہ پاک ہمیں ناموسِ رسالت کی حفاظت کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم


ختمِ نبوت ضروریاتِ دین سے ہے،  ضروریاتِ دین سے مراد اِسلام کے وہ قطعی، اجماعی اور بنیادی اُمُور ہیں کہ ان میں سے کسی کا کوئی مسلمان انکار درکنار، اس میں کوئی شک بھی کرے تو شرعاً کافر شمار ہوگا اور کوئی کافر مسلمان چاہے تو اس کے مانے بغیر اِسلام میں داخل نہ سمجھا جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اللہ پاک کا نبی ماننا بھی ضروریاتِ دین سے ہے اور آپ کو خاتم النبیین(باعتبارِ زمانہ آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم)ماننا بھی ضروریاتِ دین سے ہے، جس طرح مسلمان ہونے اور مسلمان رہنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نبی ہونے پر ایمان رکھنا ضروری ہے اور دین کے بنیادی اُمُور سے ہے، اِسی طرح آپ کو بااعتبارِ زمانہ سب نبیوں سے آخری نبی ماننا بھی ضروری اور اسلام کے بنیادی امور سے ہے، آپ کی تشریف آوری سے نبیوں کے سلسلے پر مہر لگ گئی ہے، اب کسی کو نبوت نہیں دی جائے گی، بس جس کو ملنی تھی مل چکی، اس لئے آپ کی نبوت کا دور سب نبیوں کے بعد رکھا، وہ قیامت تک چلتا رہے گا، حضرت مسیح علیہ السلام بھی بحیثیت آپ کے ایک اُمّتی کے آئیں گے، خود ان کی نبوت و رسالت کا عمل اس وقت جاری نہ ہوگا، اگر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بڑے واضح اور شگاف الفاظ میں آخری نبی ہونے کا اعلان نہ فرماتے تو ممکن تھا کہ کوئی جھوٹا قرآنِ کریم کے خود ساختہ معانی بیان کرکے لوگوں کو گمراہ کرتا رہتا، لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا منصب معلمِ کتاب و حکمت ہے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ آپ خاتم النبین کی واضح اور دو ٹوک وضاحت نہ فرمائیں، اس لئے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے متعدد مواقع پر اس چیز کا اعلان فرمایا کہ میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ ہوں: بخاری کتاب الانبیاء باب ما ذکر عن بنی اسرائیل،حدیث نمبر 662 پر ہے:ارشاد فرمایا:بنی اسرائیل کا سیاسی نظام ان کے انبیاء علیہم السلام چلاتے تھے، جب ایک نبی کا وصال ہو جاتا تو دوسرا نبی ان کا جانشین ہو جاتا اور یقیناً میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، البتہ خلفاء ہوں گے، یہ حدیثِ مبارکہ کتنی وضاحت سے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے آخری نبی ہونے کو بیان کر رہی ہے، اور لا نبی بعدی کے اعلان کے بعد کسی کو کسی بھی قسم کا نبی ماننا کفر ہے۔ایک اور حدیث: مسلم، کتاب الفضائل، باب ذکر کونہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خاتم النبیین،حدیث نمبر5844 ہے، ارشاد فرمایا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا : میری اور مجھ سے پہلے انبیا علیہم السلام کی مثال اس شخص کی طرح ہے، جس نے ایک مکان بنایا اور کیا ہی حسین و جمیل مکان بنایا، مگر اس کے کونوں میں سے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خا لی تھی، لوگ اس کے گرد گھوم کر خوش ہو رہے تھے اور کہہ رہے تھے: یہ ایک اینٹ کیوں نہیں رکھی گئی؟آپ نے فرمایا:میں (قصرِ نبوت کی آخری)وہ اینٹ ہوں اور میں آخری نبی ہوں ۔امام مسلم ایک دوسری روایت کے آخر میں یہ الفاظ بھی روایت کرتے ہیں:میں اینٹ کی جگہ ہوں اور انبیا علیہم السلام (کی آمد) کا سلسلہ ختم کر دیا۔نفس مصدر، حدیث نمبر5846:اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد انبیا علیہم السلام کی آخری مسجد ہے۔(کنزالعمال، با حوالہ ختم نبوت، ص256)

احادیث کے وسیع ذخیرہ میں سے صرف چند احادیث مبارکہ پیش کی گئی ہیں، کیا ان احادیثِ مبارکہ کو پڑھنے کے بعد یہ حقیقت روزِ روشن سے بڑھ کر عیاں نہیں ہو جاتی کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اتنے واضح ارشادات کے بعد بھی آپ کے بعد کسی کو نبی ماننا سوائے گمراہی اور کُفر کے اور کچھ نہیں ہے۔


عقیدۂ ختم نبوت کی تعریف:اللہ پاک نے بنی نوع انسان کی ہدایت و راہ نمائی کے لئے اپنے انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا، یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا تو ہمارے آقا ،محمد مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختم ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کے آخری نبی ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نیا نبی پیدا نہیں ہوگا، جو شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کسی نئے شخص کو نبی مانے یا نبی پیدا ہونے کا عقیدہ رکھے، وہ پوری اُمّتِ مسلمہ کے اجماع کے مطابق کافر و مرتد ہے۔(تحفظِ ختمِ نبوت، ص2)ختمِ نبوت قرآنِ کریم سے:عقیدۂ ختم نبوت قرآن و احادیث سے ثابت ہے، چنانچہ قرآنِ پاک پارہ22 سورۂ احزاب، آیت نمبر 40 میں اللہ کریم ارشادفرماتاہے، ترجمہ کنزالایمان:” محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔“تاریخِ انبیاشاہد ہے کہ جب کوئی نیا دین آیا، اسے کوئی نیا نبی لے کر آیا، اب تکمیلِ دین کی وجہ سے کوئی نیا دین نہیں آتا تو نیا نبی نہیں آئے گا، اس لئے تکمیلِ نبوت کے ساتھ تکمیلِ دین بھی ہوگئی، لہٰذا نبوت و رسالت آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختم، دین حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر مکمل، شریعت حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر مکمل، سلسلہ وحی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختم، آسمانی کتاب حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختم اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خاتم النبیین ہیں۔

لکھتا ہوں خونِ دل سے یہ الفاظِ احمریں بعد اَز رسولِ ہاشمی کوئی نبی نہیں

ختمِ نبوت کے متعلق احادیثِ مبارکہ:

1۔نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک رسالت و نبوت ختم ہوگئی تو میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا نہ نبی۔(جامع صغیر، ج اول،ص67)

2۔حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:سرورِ کونین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یہ کہ میری اُمّت میں سے 30 جھوٹے پیدا ہوں گے، جن میں سے ہر ایک نبی ہونے کا دعویٰ کرے گا،حالانکہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(ابوداؤد، کتاب الفتن والملاحم، حدیث4252)3۔سرورِکائنات صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:میرے بہت سے نام ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، ماحی ہو یعنی مجھ سے خداپاک کفر کو مٹاتا ہے، میں حاشرہوں، یعنی قیامت کے دن لوگ میرے قدموں میں جمع کئے جائیں گے، میں عاقب ہوں اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔(بخاری و مسلم شریف)4۔بنی اسرائیل کا سیاسی نظام ان کے انبیا علیہم السلام چلاتے تھے، جب ایک نبی کا وصال ہو جاتا تو دوسرا نبی ان کا جانشین ہو جاتا اور یقیناً میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔(بخاری شریف)5۔حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کسی اَلوداع ہونے والے شخص کی طرح ہمارے پاس تشریف لائے، آپ نے تین مرتبہ فرمایا:میں نبی اُمّی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔(مسند احمد، جلد 2، صفحہ 212) لہٰذا اس عقیدےپر قرآن و حدیث کی نصوصِ قطعیہ شاہد ہیں، جن سے ثابت ہوگیا کہ اب حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا اور عقل و نقل کے ناقابلِ تردید دلائل اس کی پُشت پر موجود ہیں۔

نگاہِ عشق و مستی میں، وہی اوّل، وہی آخر وہی قرآن وہی فرقان، وہی یٰسین وہی طہٰ

وہ دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے کُل جس نے غبارِ راہ کو بخشا، فروغِ وادی سینا


مہر ِچراغِ نبوت پہ روشن دُرود

گلِ باغِ رسالت پہ لاکھوں سلام

ختمِ نبوت یعنی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا خاتم النبیین ہونا، نبوت کا باب حضور سیّد المرسلین پر بند ہوا، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا خاتم النبیین ہونا، یعنی بعثت میں آخر جمیع انبیاء ومرسل بلا تاویل، بلا تخصیص ہو نا ضرورتِ دین سے ہے، جو اس کا منکر ہو یا اس میں ادنیٰ شک و شبہ کو بھی راہ دے، کافر، مرتد و ملعون ہے۔ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا(۴۰)ع (پ22، الاحزاب: 40)ترجمۂ کنزالایمان:محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔احادیث:حدیث شریف (متواتر)میں ہے: لا نبی بعدی میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(بخاری،ص461، حدیث:3455)ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا:میرے بعد کوئی نبی اگر ہوتا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہوتے، لیکن نبوت کا باب(دروازہ) بند ہو چکا ہے۔صحیح بخاری و صحیح مسلم اور سننِ نسائی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یہی مثال بیان کرکے ارشاد فرمایا: وانا خاتم النبین میں وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔(مسلم، کتاب الفضائل، صفحہ 966، حدیث: 5961)نبی اکرم کا آخری نبی ہونا قطعی ہے:حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا آخری نبی ہونا قطعی ہے اور یہ قرآن حدیث و اجماعِ اُمّت سے ثابت ہے، قرآنِ پاک کی صر یح آیت بھی موجود ہے، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا آخری نبی ہونا حدیث سے ثابت ہے:حدیث:انی اشھد عدد تراب الدنیا ان مسلمہ کذاب میں گواہی دیتا ہوں، دنیا کے اندر مٹی کے زرّوں کے برابر گواہی دیتا ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:جتنے آسمان اور زمین کے اندر فرشتے ہیں، ان کی تعداد کے برابر گواہی دیتا ہوں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں، جو حضور پُر نور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت ملنا ممکن جانے، وہ ختمِ نبوت کا منکر، کافر اور اسلام سے خارج ہے۔حدیث:حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک میرے متعدد نام ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں کہ اللہ پاک میرے سبب سے کفر مٹاتا ہے، حا شر ہوں، میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہو گا، میں عاقب ہوں اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔حدیث: مسلم شریف و مسند امام احمد و ابو داؤد و ترمذی وابن ِماجہ وغیرہا میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:بےشک میری اُمّت میں یا میری اُمّت کے زمانے میں 30 کذّاب ہوں گے کہ ہر ایک اپنے آپ کو نبی کہے گا اور میں خاتم النبین ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔حدیث: امام احمد مسند اور طبرانی اور ضیائے مقدسی، صحیح مختارہ میں حذیفہ رضی اللہ عنہ سے راوی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:میری امتِ دعوت میں 27 دجال کذاب ہوں گے اور ان میں چار عورتیں ہوں گی، حالانکہ بے شک میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

فتحِ باب نبوت پہ بے حد دُرود ختمِ دورِ رسالت پہ لاکھوں سلام


حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اللہ پاک کا آخری نبی ماننا اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے زمانے میں یا آپ کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں آ سکتا، یہ عقیدہ، عقیدۂ ختمِ نبوت کہلاتا ہے ۔نبیِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اللہ پاک کا آخری نبی نہ ماننے والا قرآنِ کریم کا انکار کرنے والا ہے اور قرآنِ کریم کامنکرکافرہے، خود اللہ پاک نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ختمِ نبوت کو قرآن ِپاک میں بیان فرمایا:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-ترجمۂ کنز الایمان:محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے۔(پ 22، الاحزاب:40)

آتے رہے انبیاء کَمَا قِیْلَ لَھُمْ وَالْخَاتَمَہٗ حَقَّکُمْ کہ خاتم ہوئے تم

یعنی جو ہوا دفتر تنزیل تمام آخر میں ہوئی مہر کہ اَکْمَلْتُ لَکُمْ

تاجدارِ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے خود اپنی مبارک زبانِ حق ترجمان سے اپنا آخری نبی ہونا بیان فرمایا ہے۔ آپ کے چند مبارک فرامین ملاحظہ کیجئے:1۔رسولِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّینَ وَلَا فَخَرَ میں خاتم النبیین ہوں اور یہ بطورِ فخر نہیں کہتا۔ (تاریخ کبیر للبخاری،4/236، حدیث: 5731)فَاِ نِّی آخِرُ الْاَنْبِیَاءِ وِاِنَّ مَسْجِدِی آخِرُ الْمَسَاجِدبے شک میں سب نبیوں میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے( جیسے کسی نبی نے خود تعمیر کیا ہے۔)(مسلم، ص553، حدیث: 3376)اِنَّ الرَّسَالَۃَ وَالنَّبُوَّۃَ قَدْ اِنْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّبے شک رسالت اور نبوت منقطع ہو چکی ہے،پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا،نہ کوئی نبی۔(ترمذی، 4/121، حدیث:2279) اَنَا آخِرُ الْاَنْبِیَاءِ وَ اَنْتُمْ آخِرُ الْاُمَم میں سب سے آخری نبی ہوں اور تم سب سے آخری اُمَّت ہو۔(ابن ماجہ، 4/414، حدیث: 4077)اَنَا مُحَمَّدٌ النَّبِیُّ الْاُمِّیُّ اَنَا مُحَمَّدٌ النَّبِیُّ الْاُمِّیُّ ثَلَاثاًوَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ میں محمد ہوں، اُمّی نبی ہوں، تین مرتبہ ارشاد فرمایا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(مسند احمد، 2/655، حدیث: 7000)سَیَکُوْنُ فی اُمَّتِی ثَلَاثُوْنَ کَذَّابُوْنَ کُلُّھُمْ یَزْعُمُ اَنَّہٗ نَبِیّ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّینَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ عنقریب میری اُمّت میں تیس جھوٹے دجّال پیدا ہوں گے، ان میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے اور میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(ابو داؤد، حدیث: 4251)(اے علی!)تم کو مجھ سے وہ نسبت ہے، جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(مسلم شریف، حدیث:6217)

نہیں ہے اور نہ ہوگا بعد آقا کے نبی کوئی وہ ہیں شاہِ رُسُل، ختمِ نبوت اس کو کہتے ہیں

لگا کر پُشت پر مہر ِنبوت حق پاک نے انہیں آخر میں بھیجا، خاتمیت اس کو کہتے ہیں


نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اللہ پاک کا آخری نبی ماننا اِسلام کا بنیادی عقیدہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کسی طرح کا کوئی نیا نبی و رسول نہ آیا ہے اور نہ ہی آ سکتا ہے، یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی قیامت کے نزدیک جب تشریف لائیں گے تو سابق وصفِ نبوت و رسالت سے متصف ہونے کے باوجود ہمارے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نائب و اُمّتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے اور اپنی شریعت کے بجائے دینِ محمدی کی تبلیغ کریں گے۔(خصائصِ کبریٰ، 2/329)یہ عقیدہ ضروریاتِ دین سے ہے، اس کا منکر اور اس میں ادنیٰ سا بھی شک و شبہ کرنے والا کافر و مرتد اور ملعون ہے۔خود تاجدارِ مدینہ، خاتم النبین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنی مبارک زبان سے اپنے آخری نبی ہونے کا بیان کیا ہے۔ختمِ نبوت کے سات حروف کی نسبت 7 فرامینِ مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم:1۔نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اے لوگو!بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی اُمّت نہیں۔(معجم کبیر، 8/115، حدیث:7535)2۔بے شک میں اللہ پاک کے حضور لوحِ محفوظ میں خاتم النبیین(لکھا ہوا) تھا، جب حضرت آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گُندھے ہوئے تھے۔(کنزالعمال، جزء:6،11/188، حدیث :31957)3۔بے شک رسالت اور نبوت ختم ہوگئی،اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے،نہ کوئی نبی۔ (ترمذی،4/121، حدیث:2279)4۔میرے متعدد نام ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں کہ اللہ پاک میرے سبب سے کُفر کو مٹاتا ہے، میں حاشر ہوں،میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہوگا، میں عاقب ہوں اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔(ترمذی،4/382، حدیث:2849)5۔میری اور مجھ سے پہلے انبیائے کرام علیہم السلام کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی شخص نے ایک حسین و جمیل عمارت بنائی۔ مگر اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی،لوگ اس(عمارت)کے گرد گھومنے لگے اور تعجب سے کہنے لگے کہ اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی؟ میں(قصرِ نبوت کی)وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔(مسلم، صفحہ 965، حدیث: 5961)6۔اے علی!تم کو مجھ سے وہ نسبت ہے،جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(مسلم، صفحہ 1006، حدیث:6217)7۔میں خاتم النبیین ہوں اور یہ بات بطورَ فخر نہیں کہتا۔(معجم اوسط، 1/63، حدیث: 170-تاریخ کبیر للبخاری، 4/236، حدیث5731)

نہیں ہے اور نہ ہوگا بعد آقا کے نبی کوئی وہ ہیں شاہِ رُسل، ختمِ نبوت اس کو کہتے ہیں(قبالہ بخشش، ص115)


دینِ اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ پاک نے نبوت و رسالت کا سلسلہ خاتم النبیین، جنابِ احمد مجتبیٰ، محمد مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختم فرما دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی رسول نہ آیا ہے، نہ آ سکتا ہے اور نہ آئے گا، اس عقیدے سے انکار کرنے والا یا اس میں ذرّہ برابر بھی شک رکھنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پہلے ہی غیب کی خبر دیتے ہوئے ارشاد فرما دیا ہے :عنقریب میری اُمّت میں تیس کذّاب ہوں گے اور ان میں ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔(ابو داؤد، 4/132، حدیث:4252)سرکارِ نامدار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا آخری نبی ہونا صریح احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے، آئیے! اس حوالے سے احادیث مبارکہ ملاحظہ کیجئے:1۔بے شک رسالت اور نبوت ختم ہوگئی، اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے، نہ کوئی نبی۔(ترمذی، 4/121، حدیث: 2279)2۔اے لوگو!بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی اُمّت نہیں۔(معجم کبیر، ج8، ص115، حدیث:7535)3۔میری اور مجھ سے پہلے انبیائے کرام علیہم السلام کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی شخص نے ایک حسین و جمیل گھر بنایا، مگر اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس کے گرد گھومنے لگے اور تعجب سے کہنے لگے :اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی؟میں(قصرِ نبوت کی)وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔(مسلم، صفحہ 965، حدیث: 5961)4۔بے شک میں سب نبیوں میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے(جسے کسی نبی نے خود تعمیر کیا ہے۔)(مسلم، صفحہ 553، حدیث: 3376)5۔بے شک رسالت اور نبوت منقطع ہوچکی ہے، پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہو گا، نہ کوئی نبی۔(ترمذی،4/121، حدیث:2279)6۔بے شک میں سب سے آخری نبی ہوں اور تم سب سے آخری اُمّت ہو۔(ابن ماجہ، 4/416، حدیث:4077)7۔میں خاتم النبیین ہوں اور یہ بطورِ فخر نہیں کہتا۔(معجم اوسط، 1/63، حدیث: 170، تاریخ کبیر للبخاری، 4/236، حدیث:5731)

نہیں ہے اور نہ ہوگا بعد آقا کے نبی کوئی وہ ہیں شاہِ رُسل، ختمِ نبوت اس کو کہتے ہیں

لگا کر پُشت پر مہر ِنبوت حق تعالی نے انہیں آخر میں بھیجا خاتمیت اس کو کہتے ہیں(قبالہ بخشش)


خاتم النبیین رحمت اللعالمین شفیع المذنبین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا نبوت آپ پر ختم ہوگئی آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی  حتی کہ حضرت عیسی علیہ السلام نازل ہوں گے تو وہ بھی شریعت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہوں گے اگرچہ پہلے نبوت پا چکے ہیں۔ یاد رہے کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نبی ہونا قطعی ہے اور یہ قطعیت قرآن و احادیث متواترہ سے ثابت ہے۔ قرآن:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ ( سورہ الاحزاب : 40 )

احادیث:

حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’بیشک میں  اللہ تعالیٰ کے حضور لوحِ محفوظ میں خاتم النبیین (لکھا) تھا جب حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام اپنی مٹی میں  گندھے ہوئے تھے۔

(مسند امام احمد ،6 / 87، الحدیث:17163)

2۔حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’میں  تمام رسولوں  کا قائد ہوں  اور یہ بات بطورِ فخرنہیں  کہتا، میں  تمام پیغمبروں  کا خاتَم ہوں  اور یہ بات بطورِ فخر نہیں  کہتا اور میں  سب سے پہلی شفاعت کرنے والا اور سب سے پہلا شفاعت قبول کیا گیا ہوں  اور یہ بات فخر کے طور پر ارشاد نہیں  فرماتا ۔

( معجم الاوسط، 1 / 63، الحدیث: 170)

3۔حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے ،رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’بیشک میرے متعدد نام ہیں ، میں  محمد ہوں ، میں  احمد ہوں ، میں  ماحی ہوں  کہ اللہ تعالیٰ میرے سبب سے کفر مٹاتا ہے، میں  حاشر ہوں  میرے قدموں  پر لوگوں  کا حشر ہوگا، میں  عاقب ہوں  اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں ۔

( ترمذی، 4 / 382، الحدیث: 2849)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے چھ چیزوں میں انبیا کرام علیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے: (۱) مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے(۲) رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی (۳)مال غنیمت میرے لئے حلال کردیا گیا ہے (۴)روئے زمین کو میرے لئے مسجد اور پاک کرنے والی چیز بنادیا گیا ہے (۵) مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا ہے (۶) اورمجھ پرنبیوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے۔“

(صحیح مسلم صفحہ 199،مشکوٰۃ ،جلد 1، صفحہ512)

5۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: بے شک میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس آدمی کی طرح ہے، جس نے بہت اچھے طریقے سے ایک گھر بنایا اور اسے ہر طرح سے مزین کیا، سوائے اس کے کہ ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ (چھوڑ دی) پھر لوگ اس کے چاروں طرف گھومتے ہیں اور (خوشی کے ساتھ) تعجب کرتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ اینٹ یہاں کیوں نہیں رکھی گئی؟ آپ (صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم) نے فرمایا: پس میں وہ (نبیوں کے سلسلے کی) آخری اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔

(صحیح بخاری: 3535، صحیح مسلم: 22/ 2286، دارالسلام: 5961)

6۔حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللہ پاک نے میرے لیے تمام روئے زمین کولپیٹ دیااورمیں نے اس کے مشرقوں اورمغربوں کودیکھ لیا۔ (اور اس حدیث کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ) عنقریب میری امت میں تیس(30) کذّاب ہوں گے، ان میں سے ہرایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اورمیرے بعدکوئی نبی نہیں ہے ۔

(ابوداؤد، کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن ودلائلہا، 4/ 132، الحدیث: 4252)

7۔سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے (بسندِ عامر بن سعد بن ابی وقاص) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے (سیدنا) علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) سے فرمایا:أما ترضی أن تکون مني بمنزلۃ ھارون من موسی إلا أنہ لانبوۃ بعدي کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہارا میرے ساتھ وہ مقام ہو جو ہارون کا موسیٰ کے ساتھ تھا، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبوت نہیں ہے۔ (صحیح مسلم: 36/ 2404، ترقیم دارالسلام: 6220)

حکم :۔(ختم نبوت کے منکر) اعلی حضرت امام احمد رضا خان فرماتے ہیں ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمہ فرماتے ہیں: اللہ عزوجل سچا اور اس کا کلام سچا، مسلمان پر جس طرح لَا ٓاِلٰـہَ اِلَّا اللہُ ماننا، اللہ سُبْحٰنَہٗ وَتَعَالٰی کو اَحد، صَمد، لَا شَرِیْکَ لَہ (یعنی ایک، بے نیاز اور اس کا کوئی شریک نہ ہونا) جاننا فرضِ اوّل ومَناطِ ایمان ہے، یونہی مُحَمَّدٌ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ماننا ان کے زمانے میں خواہ ان کے بعد کسی نبی ٔجدید کی بِعثَت کو یقینا محال وباطل جاننا فرضِ اَجل وجزء اِیقان ہے۔ ’’وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ‘‘ نص ِقطعی قرآن ہے، اس کا منکر نہ منکر بلکہ شبہ کرنے والا، نہ شاک کہ ادنیٰ ضعیف احتمال خفیف سے توہّم خلاف رکھنے والا، قطعاً اجماعاً کافر ملعون مُخَلَّد فِی النِّیْرَان (یعنی ہمیشہ کے لئے جہنمی) ہے، نہ ایسا کہ وہی کافر ہو بلکہ جو اس کے عقیدہ ملعونہ پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ جانے وہ بھی کافر، جو اس کے کافر ہونے میں شک و تَرَدُّد کو راہ دے وہ بھی کافر بَیِّنُ الْکَافِرْ جَلِیُّ الْکُفْرَانْ (یعنی واضح کافر اور اس کا کفر روشن) ہے۔ ( فتاویٰ رضویہ، رسالہ: جزاء اللہ عدوہ باباۂ ختم النبوۃ، 15 / 630)

مدینہ:تفسیر جلالین میں ہے:و قولہ علیہ السلام لا نبی بعدی و من بعد نبینا نبی یکفر لانہ انکرا نص و کذٰلک لو شک لان النبی تبین الحق من الباطل،یعنی اہلسنت و جماعت کا موقف و عقیدہ ہے کہ ہمارے نبی کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا ۔اللہ پاک کی اس فرمان کی وجہ سے وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس فرمان کی بناء پر کہ لا نبی بعدی ۔

لہٰذا جو ختم نبوت کا منکر ہے وہ کافر اور خارج عن الإسلام ہے۔(تفسیر جلالین 2/403)


اللہ پاک نے قرآن مجید میں حضور نبی کریم شفیع امم رسول محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں فرمایا :۔ : مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔

( سورۃ الاحزاب : 40 )

اس آیت مبارکہ کے چھوٹے سے حصے میں رب عزوجل نے اپنے حبیب کی شان میں بہت کچھ ہم پر واضح کر دیا اگر کوئی سمجھنے والا ہو۔ جو لوگ کہتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم جیسے ہیں ہم جیسے بشر ہیں پھر کہتے کہ وہ کیوں کر نبی ہو سکتے ہیں ۔تو میرے رب نے فرمایا: کہ اے لوگوں سن لو محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی کے باپ نہیں، وہ صرف اللہ کے رسول ہیں اور وہ آخری نبی ہیں خاتم النبیین یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔آپ پر نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ۔ اب اگر کوئی آپ کو آخری نبی نہیں مانتا تو وہ کافر و گمراہ اور بد مذہب ہوگا اور دائرہ اسلام سے خارج ہوگا۔

میرے پیارے میٹھے اسلامی بھائیوں یہ ایک اہم اور پیچیدہ مسئلہ ہے یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ ہم یہ اعتقاد رکھیں کہ اب قیامت تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا اور جب حضرت عیسی علیہ السلام تشریف لائیں گے تو وہ بھی ہمارےحضور کے دین پر چلیں گے اور ہمارے حضور کے دین کی پیروی کریں گے۔

بڑا کٹھن ہے راستہ جو آ سکو تو ساتھ دو

یہ زندگی کا فاصلہ مٹا سکو تو ساتھ دو

ہزار امتحان یہاں ہزار آزمائشیں

ہزار دکھ ہزار غم اٹھا سکو تو ساتھ دو

بڑی غور وفکر کرنے کی بات ہے کہ رات کے اندھیری میں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم رو رو کر اپنی امت کی بخشش مانگتا ہو آج اس نبی کی توہین ہو رہی ہے ۔اے امتیوں کہا ہے تمہاری غیرت نے کہا ہے تمہاری محبت رسول!

حدیث شریف میں ہے کہ حضرت ضحاک بن نوفل رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :لا نبی بعدی ولا امۃ بعد امتی

ترجمہ:میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری امت کے بعد کوئی امت نہیں ہوگی۔

( المعجم الکبیر لطبرانی 8/303،حدیث:8199)

پھر ایک اور جگہ میرے آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : نحن الآخرون من اہل الدنیا والاولون یوم القیامۃ المقضی لھم قبل الخلائق ، ہم اہل دنیا میں سے سب سے آخر میں آئے ہیں اور روز قیامت کے اولین ہیں جن کا تمام مخلوقات سے پہلے حساب ہوگا۔( صحیح مسلم ،حدیث:982)

ان دو حدیثوں میں میرے آقا علیہ السلام کا واضح فرمان کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا میری امت آخری امت ہے یعنی اس امت کے ختم ہوتے ہی قیامت کا ظہور ہوگا۔ جب حضور کا یہ فرمان سنیں تو بس آنکھیں بند ۔ اب ختم نبوت کا دروازہ بند ۔

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللہ پاک نے میرے لیے تمام روئے زمین کولپیٹ دیااورمیں نے اس کے مشرقوں اورمغربوں کودیکھ لیا۔ (اور اس حدیث کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ) عنقریب میری امت میں تیس(30) کذّاب ہوں گے، ان میں سے ہرایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اورمیرے بعدکوئی نبی نہیں ہے ۔

(ابوداؤد، کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن ودلائلہا، 4/ 132، الحدیث: 4252)

اور اب یہ بات ہم سب پر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس سے پہلے بھی ایسے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے نبوت کا دعوی کیا اور عبرت کی موت مرے۔

خلاصہ عرض یہ ہے کہ اسلام کی بنیاد توحید اور آخرت کے علاوہ جس اساسی عقیدہ پر ہے وہ یہ کہ نبی آخریالزمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت اور رسالت کے مقدس سلسلے کی تکمیل ہوگئی۔ اور آپ کے بعد کوئی شخص کسی بھی قسم کا نبی نہیں ہو سکتا ۔ختم نبوت سے مراد یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ پاک نے اس دنیا میں بھیج کر بعثت انبیاء کا سلسلہ ختم فرما دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا ذکر قرآن حکیم میں بھی موجود ہے ،آپ کے بعد کسی پر وحی نہیں آ سکتی۔ اسلام کا یہی عقیدہ ختم نبوت سے معروف ہے۔

پوری امت مسلمہ کسی ادنی اختلاف کے بغیر اس عقیدے کو جزو ایمان قرار دیتی آئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سینکڑوں احادیث اس کی شاہد ہیں۔ یہ مسئلہ قطعی طور پر مسلم اور طے شدہ ہے۔ اور اس پر کئی مصنفین نے کتاب لکھی ہے۔ عقیدہ ختم نبوت و تحفظ و ناموس رسالت سے نئی نسل کو آگاہ کرنا دینی اور ملی فریضہ ہے۔

فتح باب نبوت پہ بے حد درود

ختم دور رسالت پہ لاکھوں سلام