عقیدہ ختم نبوت پر عقلی و قیاسی دلیل: ختم نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقائد میں سے ہے جو اسلام کے اصول و ضروریات دین میں شمار کئے گئے ہیں یہ وہ اہم ترین عقیدہ ہے جو اسلام کا قلب و جگر اور دین کا مرکز و محور ہے قرآن مجید کی ایک سو سے زائد آ یت مبارکہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو سو دس احادیث کریمہ متواترہ سے یہ مسٔلہ ثابت ہے مسلمانوں کا سب سے پہلے اجماع اسی مسٔلہ پر منعقد ہوا کہ مدعی نبوت کو قتل کیا جائےحضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کے مبارک حیات طیبہ میں اسلام کے تحفظ کے لیے جتنی بھی جنگیں لڑی گئیں ان میں شہید ہونے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعداد 259 ہے جبکہ عقیدہ ختم نبوت کی دفاع و تحفظ کے لیے تاریخ اسلام میں پہلی جنگ یمامہ کے میدان میں لڑی گئی اس میں شہید ہونے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعداد 1200 ہے جن میں 700قران مجید کے حافظ اور عالم تھے صحابہ کرام کی بڑی تعداد اس عقیدے کی تحفظ کے لیے جام شہادت نوش کر گئ اس سے ختم نبوت کے عقیدے کی عظمت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔عقیدہ ختم نبوت ادلہ اربعہ میں سے چوتھی قسم قیاس و عقل سے بھی ثابت ہے ادلہ ثلاثہ سے تو یہ عقیدہ اظہر من الشمس کی طرح واضح ہے اسی طرح عقلاً و قیاسا ًبھی یہ مسٔلہ واضح ہے ۔ وہ اس طرح سے کہ اگر ہم اپنے گردو پیش میں نظر دوڑائیں تو ہمیں ہر پیکر وجود کی تین حالتیں ملیں گی :

ابتداء۔ارتقاء ۔انتہاء ۔ کیا انسان کیا حیوان کیا جمادات کیا نباتات ہر شے ان ہی تین حالتوں میں محصور نظر آ ئے گی ۔ انسان پیدا ہوتا ہے جوان ہوتا ہے مرجاتا ہے کلی مسکراتی ہے پھول بنتی ہے مرجھاتی ہے چاند ہلال کی صورت میں طلوع ہوتا ہے بڑھتے بڑھتے ماہ کامل بنتا ہے پھر اسکے بعد غائب ہو جاتا ہے غرض کا ئنات کی جس شئے کو بھی دیکھیں ابتداء۔ارتقاء۔ انتہاء کے مرحلوں سے گذرتی نظر آتی ہے یہاں تک کہ ایک دن ایسا بھی آنے والا ہے جبکہ دنیا ہی اپنی بے شمار رنگینیوں کے ساتھ اختتمام پذیر ہو جائے گی پھر جب صورت حال یہ ہے تو کون کہ سکتا ہے کے نبوت جو ایک بار آگئ تو اسکا سلسلہ کبھی بھی ختم نہیں ہو گا جس طر ح ہر شے اپنے نقطئہ ارتقاء پر پہنچ کر ختم ہو جاتی ہے اسی طرح اگر سلسلہ نبوت بھی اپنے نقطئہ ارتقاء پر پہنچ کر ختم ہو جائے تو کونسا امر مانع ہے ۔اب رہا یہ سوال کہ نبوت اپنے ارتقاء کو پہنچی یا نہیں اگر پہنچ گئی تو سمجھ لیجئے کہ اختتام واقع ہو گیا کیونکہ قانون فطرت کے مطابق ارتقاء کی آخری منزل اختتام ہی ہے اگر نہیں پہنچی تو نئی نبوت کا انتظار کر نے والے بیشک انتظار کر یں مگر پہلے اتنا بتادیں کے کسی بھی متفقہ نبوت سے لےکر آج تک ،جس پر مسلم عقیدے کے مطابق چودہ سو سال، مسیحی عقیدے کے مطابق دو ہزار برس، یہودی عقیدے کے مطابق 80 کے قریب پہنچ گئی ہے یا اس سے زیادہ کی جو مدت گزگئی ہے اس میں کوئی نیا نبی کیوں نہیں آیا کیا اس کا کھلا مطلب یہ نہیں کہ بھیجنے والے نے اس کا دروازہ ہی بند کردیا ہے لہذا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی خاتم النبيين ہیں ۔ اللہ کریم ہمارے ذہنوں کو عقائد رذائلہ قبول کرنے سے محفوظ فرمائے ۔ آمین 


محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں  کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعدکوئی نبی نہیں  آئے گا اورنبوت آپ پر ختم ہوگئی ہے اور آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں  مل سکتی حتّٰی کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نازل ہو ں  گے تو اگرچہ نبوت پہلے پاچکے ہیں  مگر نزول کے بعد نبی  کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی شریعت پر عمل پیرا ہوں  گے اور اسی شریعت پر حکم کریں  گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معظمہ کی طرف نماز پڑھیں  گے۔

نبی  کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے آخری نبی ہونے سے متعلق چند اَحادیث ملاحظہ ہوں:

(1)…حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’میری مثال اورمجھ سے پہلے انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے بہت حسین وجمیل ایک گھربنایا،مگراس کے ایک کونے میں  ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ،لوگ اس کے گردگھومنے لگے اورتعجب سے یہ کہنے لگے کہ اس نے یہ اینٹ کیوں  نہ رکھی؟پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا میں  (قصر ِنبوت کی) وہ اینٹ ہوں  اورمیں خاتم النبیین  ہوں ۔( مسلم ، ص1255، الحدیث: 2286)

(2)حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللہ پاک نے میرے لیے تمام روئے زمین کولپیٹ دیااورمیں  نے اس کے مشرقوں  اورمغربوں  کودیکھ لیا۔ (اور اس حدیث کے آخر میں  ارشاد فرمایا کہ) عنقریب میری امت میں تیس کذّاب ہوں  گے، ان میں سے ہرایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں  خاتم النبیین  ہوں  اورمیرے بعدکوئی نبی نہیں  ہے ۔

( ابوداؤد، 4 / 132، الحدیث: 4252)

(3)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:’’مجھے چھ وجوہ سے انبیاءِ کرام علیہم الصلاۃ والسلام  پر فضیلت دی گئی ہے ۔(1)مجھے جامع کلمات عطاکیے گئے ہیں ۔ (2)رعب سے میری مددکی گئی ہے۔ (3)میرے لیے غنیمتوں  کوحلال کر دیا گیا ہے۔ (4)تمام روئے زمین کومیرے لیے طہارت اورنمازکی جگہ بنادیاگیاہے ۔(5)مجھے تمام مخلوق کی طرف (نبی بنا کر) بھیجاگیاہے۔ (6)اورمجھ پرنبیوں  (کے سلسلے) کوختم کیاگیاہے۔( مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، ص266، الحدیث: 5(523))

(4)…حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے ،رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’بیشک میرے متعدد نام ہیں ، میں  محمد ہوں ، میں  احمد ہوں ، میں  ماحی ہوں  کہ اللہ تعالیٰ میرے سبب سے کفر مٹاتا ہے، میں  حاشر ہوں  میرے قدموں  پر لوگوں  کا حشر ہوگا، میں  عاقب ہوں  اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں ۔

( ترمذی، 4 / 382، الحدیث: 2849)

(5)…حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’میں  تمام رسولوں  کا قائد ہوں  اور یہ بات بطورِ فخرنہیں  کہتا، میں  تمام پیغمبروں  کا خاتَم ہوں  اور یہ بات بطورِ فخر نہیں  کہتا اور میں  سب سے پہلی شفاعت کرنے والا اور سب سے پہلا شفاعت قبول کیا گیا ہوں  اور یہ بات فخر کے طور پر ارشاد نہیں  فرماتا

( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، 1 / 63، الحدیث: 170)

(6)…حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’بیشک میں  اللہ تعالیٰ کے حضور لوحِ محفوظ میں خاتم النبیین (لکھا) تھا جب حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام اپنی مٹی میں  گندھے ہوئے تھے۔(مسند امام احمد ،6 / 87، الحدیث:17163)

(7)…حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک رسالت اور نبوت ختم ہوگئی ،اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ کوئی نبی۔( ترمذی،4 / 121،الحدیث:2279)

(8)…حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تعالٰی وجہَہُ الکریم  سے ارشادفرمایا:اَمَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوسٰی غَیْرَ اَنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ ‘‘

(مسلم، ص1310، (2404)

یعنی کیا تم اس پر راضی نہیں  کہ تم یہاں  میری نیابت میں  ایسے رہو جیسے حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃالسلام جب اپنے رب سے کلام کے لئے حاضر ہوئے تو حضرت ہارون علیہ الصلاۃ والسلام کو اپنی نیابت میں  چھوڑ گئے تھے، ہاں  یہ فرق ہے کہ حضرت ہارون علیہ الصلاۃ والسلام  نبی تھے جبکہ میری تشریف آوری کے بعد دوسرے کے لئے نبوت نہیں  اس لئے تم نبی نہیں  ہو۔

(9)…حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم نبیٔ  کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شَمائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں  :حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دو کندھوں  کے درمیان مہر ِنبوت تھی اور آپ خاتم النبیین تھے۔(ترمذی،4 / 121،الحدیث:2279)

(10)…حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے،حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو!بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں  اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں  ،لہٰذا تم اپنے رب کی عبادت کرو، پانچ نمازیں  پڑھو،اپنے مہینے کے روزے رکھو،اپنے مالوں  کی خوش دلی کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرو ،اپنے حُکّام کی اطاعت کرو (اور) اپنے رب کی جنت میں  داخل ہو جاؤ۔(معجم الکبیر، 8 / 115، الحدیث: 7535)

یاد رہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نبی ہونا قطعی ہے اور یہ قطعیَّت قرآن و حدیث و اِجماعِ امت سے ثابت ہے ۔ قرآن مجید کی صریح آیت بھی موجود ہے اور اَحادیث تَواتُر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں اور امت کا اِجماعِ قطعی بھی ہے، ان سب سے ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آخری نبی ہیں  اور آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں  ۔ جو حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے وہ ختمِ نبوت کا منکر، کافر اور اسلام سے خارج ہے۔

نوٹ: یہ مواد صراط الجنان سے ماخوذ ہے۔


اللہ عزوجل سچا اور اس کا کلام سچا، مسلمان پر جس طرح لا اله الا الله ماننا ، الله سبحانه و تعالیٰ کو احد صمد لا شريك له جاننا فرضِ اول اور مناط ایمان ہے یونہی محمدرسول الله صلى الله علیہ و سلم کو خاتم النبیین ماننا ان کے زمانے میں خواہ ان کے بعد کسی نبی جدید کو یقیناً محال و باطل جاننا فرضِ اول و جزء ایقان ہے۔وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-"ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے (فتاویٰ رضویہ جلد 15 صفحہ 631 تخرج شدہ رضا فاؤنڈیشن)

صحیح البخاری شریف کی طویل حدیث ِشفاعت میں سیدنا ابو ہریرة رضي الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:فياتون محمدا فيقولون يا محمد انت رسول الله و خاتم الأنبياء اولین و آخرین حضور خاتم النبیین افضل المرسلین صلى الله علیہ و آلہ و سلم کے حضور آ کر عرض کریں گے آپ الله تعالىٰ کے رسول اور تمام انبیاء کے خاتم ہیں ہماری شفاعت فرمائیں۔(صحیح البخاری ، حدیث 4712 صفحہ 1169 مطبوعہ دار ابن کثیر دمشق بیروت)

کنز العمال شریف میں ہے:اني عندالله في ام الكتاب خاتم النبيين و إن آدم لمنجدل في طينته" بے شک بالیقین میں الله عزوجل کے حضور لوح محفوظ میں خاتم النبیین لکھا تھا اور ہنوز آدم اپنی مٹی میں پڑے تھے(كنزالعمال جلد 11 صفحہ 449 حدیث 32114 مطبوعہ بیروت)

صحیح مسلم شریف میں سیدنا ابو ہريرة سے روایت ہے ، بےشک رسول الله صلى الله علیہ و سلم نے فرمایا مجھے فضیلت دی گئی انبياء كرام عليہم السلام پر چھ (6) وجہ سے ، (۱)مجھے جامع کلمات عطا ہوئے(۲) مخالفوں کے دل میں رعب ڈالنے سے میری مدد کی گئی(۳)میرے لئے غنیمتیں حلال ہوئیں (۴)میرے لئے زمیں کو پاک کرنے والی اور مسجد بنایا گیا (۵) مجھے اگلی پچھلی تمام مخلوق کے لئے رسول بنایا گیا اور مجھ سے انبياء ختم کیے گئے صلى الله علیہ وسلم

(صحيح مسلم ، صفحہ 246 ، حديث 1054 ،دارالفكر بيروت)

سيدنا جابر رضى الله عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں " بين كتفي آدم مكتوب محمد رسول الله خاتم النبيين " آدم علیہ السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان میں لکھا ہوا تھا محمد رسول الله خاتم النبيين (خصائص الكبرىٰ جلد 1 صفحہ 14 حديث 29 المكتبۃ الحقانیہ )

علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃاللہ علیہ نقل كرتے ہیں "انه عليه الصلاة و السلام خاتم النبيين و انه لا نبي بعده " بے شک بالیقین آپ علیہ الصلاة و السلام خاتم النبیین ہیں اور ان کے بعدکوئی نبی نہیں ۔(الازهار المتناثرة في اخبار المتواترة صفحہ 175 حديث 239 دارالفكر بيروت)

نہیں ہے اور نہ ہوگا بعد آقا کے نبی کوئی

وہ ہیں شاہِ رسل ختمِ نبوت اس کو کہتے ہیں


یہ بات مسلم ہے کہ ہمارے آ قا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آخری نبی ہیں اور آ پ ہی کے سرِ مبارک پر ختم نبوّت کے تاج کو سجایا گیا ،اب آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مزید کوئی نبی نہیں آ سکتا ،کیونکہ یہ قطعیت  قرآن وحدیث اور اجماعِ امت سے ثابت ہے ۔

اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کو قرآن پاک میں یوں ارشاد فرمایا :مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔

( سورۃ الاحزاب : 40 )

ختمِ نبوّت کے متعلق احادیث:

یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آ خری نبی ہونے سے متعلق احادیث ملاحظہ فرمائیں

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قالَ: إنَّ «مَثَلِي ومَثَلَ الأنْبِياءِ مِن قَبْلِي، كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنى بَيْتًا فَأحْسَنَهُ وأجْمَلَهُ، إلّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِن زاوِيَةٍ، فَجَعَلَ النّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ، ويَعْجَبُونَ لَهُ، ويَقُولُونَ هَلّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ؟قالَ: فَأنا اللَّبِنَةُ وأنا خاتِمُ النَّبِيِّينَ»

(صحیح البخاری، جلد دوم ، کتاب المناقب، باب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم)

ترجمہ :کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیاءکی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایا اور اس میں ہر طرح کی زینت پیدا کی لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹ گئی ۔ اب تمام لوگ آتے ہیں اور مکان کو چاروں طرف سے گھوم کر دیکھتے ہیں اور تعجب میں پڑجاتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ یہاں پر ایک اینٹ کیوں نہ رکھی گئی ؟ تو میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں ۔

حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ قالَ: خَلَّفَ رَسُولُ اللهِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عَلِيَّ بْنَ أبِي طالِبٍ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ فَقالَ: يا رَسُولَ اللهِ تُخَلِّفُنِي فِي النِّساءِ والصِّبْيانِ؟ فَقالَ: «أما تَرْضى أنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنزِلَةِ هارُونَ مِن مُوسى؟ غَيْرَ أنَّهُ لا نَبِيَّ بَعْدِي»(صحیح مسلم، جلد دوم ،کتاب الفضائل ،باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ )

ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوئہ تبوک کے لیے تشریف لے گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا نائب بنایا ۔ علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جارہے ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر خوش نہیں ہوکہ میرے لیے تم ایسے ہوجیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے ۔ لیکن فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں اس پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا فرمان:

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شمائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ "حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں مبارک کندھوں کر درمیان مہرِ نبوت تھی اور آ پ خاتم النبیین تھے"(ترمذی، کتاب الرؤیا عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب ذھبت النبوّہ وبقیت المبشّرات)

نبوت حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو چکی ہے۔ لہذا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی حیثیت سے کسی نبی کے آ نے کو ماننے یا ممکن بتانے والا آیات قرآنی اور احادیث مبارکہ کا منکر ہے اور قرآن وحدیث کا منکر کافر و مرتد ہے ۔

سیدی امامِ اہلسنت ، اعلحضرت فرماتے ہیں:

مِہرِ چَرخِ نبوت پہ روشن درود

گُلِ باغ ِ رِسالت پہ لاکھوں سلام

فتحِ بابِ نبوت پہ بے حد درود

ختمِ دورِ رسالت پہ لاکھوں سلام


حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نبی ہونا قطعی ہے اور یہ قطعیَّت قرآن و حدیث و اجماعِ امت سے ثابت ہے ۔ قرآن مجید کی صریح آیت بھی موجود ہے اور اَحادیث تَواتُر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں اور امت کا اجماعِ قطعی بھی ہے، ان سب سے ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں ۔ جو حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے وہ ختمِ نبوت کا منکر، کافر اور اسلام سے خارج ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ ( سورۃ الاحزاب : 40 )

حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکوئی نبی نہیں آئے گا اورنبوت آپ پر ختم ہوگئی ہے اور آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی حتّٰی کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہو ں گے تو اگرچہ نبوت پہلے پاچکے ہیں مگر نزول کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر عمل پیرا ہوں گے اور اسی شریعت پر حکم کریں گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معظمہ کی طرف نماز پڑھیں گے۔

( تفسیر صراط الجنان ، الاحزاب، تحت الآیۃ: 40)

امام ِاہلسنّت اور عقیدہ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم:

سیدی و سندی اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ اہلسنّت کی ترجمانی کرتے ہوئے ختمِ بنوت کے بارے میں عقیدہ بیان فرماتے ہیں کہ: اللہ عزوجل سچا اور اس کا کلام سچا، مسلمان پر جس طرح لَا ٓاِلٰـہَ اِلَّا اللہُ ماننا، اللہ سُبْحٰنَہٗ وَتَعَالٰی کو اَحد، صَمد، لَا شَرِیْکَ لَہ (یعنی ایک، بے نیاز اور اس کا کوئی شریک نہ ہونا) جاننا فرضِ اوّل ومَناطِ ایمان ہے، یونہی مُحَمَّدٌ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ماننا ان کے زمانے میں خواہ ان کے بعد کسی نبی ٔجدید کی بِعثَت کو یقینا محال وباطل جاننا فرضِ اَجل وجزء اِیقان ہے۔ ’’وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ‘‘ نص ِقطعی قرآن ہے، اس کا منکر نہ منکر بلکہ شبہ کرنے والا، نہ شاک کہ ادنیٰ ضعیف احتمال خفیف سے توہّم خلاف رکھنے والا، قطعاً اجماعاً کافر ملعون مُخَلَّد فِی النِّیْرَان (یعنی ہمیشہ کے لئے جہنمی) ہے، نہ ایسا کہ وہی کافر ہو بلکہ جو اس کے عقیدہ ملعونہ پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ جانے وہ بھی کافر، جو اس کے کافر ہونے میں شک و تَرَدُّد کو راہ دے وہ بھی کافر بَیِّنُ الْکَافِرْ جَلِیُّ الْکُفْرَانْ (یعنی واضح کافر اور اس کا کفر روشن) ہے۔ ( فتاویٰ رضویہ، رسالہ: جزاء اللہ عدوہ باباۂ ختم النبوۃ، 15 / 630)

ختمِ نبوت سے متعلق چند اَحادیثِ مبارکہ:

جس طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نبی ہوتا متعدد آیاتِ قرآنی سے ثابت ہے اس طرح کئی احادیثِ متواترہ سے بھی ثابت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہے آپ کے بعد ہوئی نبی نہیں آ سکتا اُن احادیثِ مبارکہ میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں :

(1)حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: ’’اَمَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوسٰی غَیْرَ اَنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ

(مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل علیّ بن ابی طالب رضی اللہ عنہ)

یعنی کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تم یہاں میری نیابت میں ایسے رہو جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام جب اپنے رب سے کلام کے لئے حاضر ہوئے تو حضرت ہارون علیہ السلام کو اپنی نیابت میں چھوڑ گئے تھے، ہاں یہ فرق ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نبی تھے جبکہ میری تشریف آوری کے بعد دوسرے کے لئے نبوت نہیں اس لئے تم نبی نہیں ہو۔

(2) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’مجھے چھ وجوہ سے انبیاءِ کرام علیہم الصلاۃ والسلام پر فضیلت دی گئی ہے ۔(1)مجھے جامع کلمات عطاکیے گئے ہیں ۔ (2)رعب سے میری مددکی گئی ہے۔ (3)میرے لیے غنیمتوں کوحلال کر دیا گیا ہے۔ (4)تمام روئے زمین کومیرے لیے طہارت اورنمازکی جگہ بنادیاگیاہے۔(5)مجھے تمام مخلوق کی طرف (نبی بنا کر) بھیجاگیاہے۔ (6)اورمجھ پرنبیوں (کے سلسلے) کوختم کیاگیاہے۔(مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ)

(3) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک رسالت اور نبوت ختم ہوگئی ،اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ کوئی نبی۔(ترمذی،کتاب الرؤیا عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،باب ذہبت النبوّۃ وبقیت المبشَّرات،4 / 121،الحدیث:2279)

(4) حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللہ پاک نے میرے لیے تمام روئے زمین کولپیٹ دیااورمیں نے اس کے مشرقوں اورمغربوں کودیکھ لیا۔ (اور اس حدیث کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ) عنقریب میری امت میں تیس(30) کذّاب ہوں گے، ان میں سے ہرایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اورمیرے بعدکوئی نبی نہیں ہے ۔

(ابوداؤد، کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن ودلائلہا، 4/ 132، الحدیث: 4252)

(5) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’میری مثال اورمجھ سے پہلے انبیاء علیہ السلام کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے بہت حسین وجمیل ایک گھربنایا،مگراس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ،لوگ اس کے گردگھومنے لگے اورتعجب سے یہ کہنے لگے کہ اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی ؟پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں (قصر ِنبوت کی) وہ اینٹ ہوں اورمیں خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ہوں۔(مسلم، کتاب الفضائل، باب ذکر کونہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین،)

(6) حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو!بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں ،لہٰذا تم اپنے رب کی عبادت کرو، پانچ نمازیں پڑھو،اپنے مہینے کے روزے رکھو،اپنے مالوں کی خوش دلی کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرو ،اپنے حُکّام کی اطاعت کرو (اور) اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ۔

(معجم الکبیر، 8 / 115، الحدیث: 7535)


 ختم نبوت کے معنی یہ ہیں کہ حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا۔حضرت عیسی علیہ السلام پہلے ہی نبوت پاچکے ہیں اور قرب قیامت میں بعد نزول حضور خاتم النبیین صل اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو ہی نافذ فرمائیں گے۔ختم نبوت قرآن مجید کے ساتھ ساتھ احادیث متواترہ سے بھی ثابت ہے چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں:

1:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:إِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي یعنی بیشک! میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

(صحیح البخاری حدیث 3455 ملتقطاً)

2:حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے فرمایا:تمہارا میرے ساتھ وہی مقام ہے جو ہارون علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام کےساتھ تھا مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

(صحیح مسلم حدیث 6217)

3:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے، لہٰذا میرے بعد کوئی رسول اور کوئی نبی نہ ہوگا۔( سنن الترمذی حدیث 2272)

4:حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:عنقریب میری امت میں تیس (30) کذّاب(بڑے جھوٹے) پیدا ہوں گے، ان میں ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(سنن ابی داؤد حدیث 4252)

5:جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں تمام رسولوں کا قائد ہوں اور فخر نہیں اور میں خاتم النبیین ہوں اور فخر نہیں۔

(سنن الدارمی، حدیث 50)

ختم نبوت امت مسلمہ کا ہمیشہ سے قطعی و اجماعی عقیدہ رہا ہے، جو شخص کسی بھی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرے، ختم نبوت کا انکار کرے، شکوک وشبہات کا اظہار کرے یا ختم نبوت کے اجماعی معنی کے خلاف اپنی طرف سے معنی گھڑے تو ایسا شخص بلا شک و شبہہ کافر و مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے ۔ آمین

فتحِ بابِ نبوت پہ بے حد درود

ختمِ دورِ رسالت پہ لاکھوں سلام

(حدائق بخشش )


اسلام کی بنیاد توحید اور آخرت کے علاوہ جس اساسی عقیدے پر ہے، وہ یہ ہے کہ نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر نبوت اور رسالت کے مقدس سلسلے کی تکمیل ہو گئی اور آپ کے بعد کوئی بھی شخص کسی بھی قسم کا نبی نہیں بن سکتا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کسی پر وحی آ سکتی ہے اور نہ ایسا الہام جو دین میں حجت ہو۔ اسلام کا یہی عقیدہ ’’ختم نبوت‘‘ کے نام سے معروف ہے اور سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے وقت سے لے کر آج تک پوری امت مسلمہ کسی ادنی اختلاف کے بغیر اس عقیدے کو جزوِ ایمان قرار دیتی آئی ہے۔ قرآن کریم کی بلا مبالغہ بیسیوں آیات اورپیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سینکڑوں احادیث اس کی شاہد ہیں۔ یہ مسئلہ قطعی طور پر مسلّم اور طے شدہ ہے۔

ختم نبوت کی تعریف :اللہ تعالی نے اس دنیا میں نبوت کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے فرمائی اور اس کی انتہاء پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ذات اقدس پر فرمائی ۔۔

اور آپ خاتم الانبیاء ہیں آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ۔ پس شریعت کی اصطلاح میں اس کو ختم نبوت کہتے ہیں ۔

آئیے قران پاک سے چند آیات مبارکہ سنتے ہیں جس میں اللہ پاک نے اپنے آ خری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے آخری نبی ہونے کی گواہی دی اللہ پاک قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے : مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ ( سورۃ الاحزاب : 40 )

حافظ ابن کثیررحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت چند احادیث نقل کرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں ۔ ”اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حدیث متواتر کے ذریعہ خبر دی کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تاکہ لوگوں کو معلوم رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد جس نے بھی اس مقام (یعنی نبوت) کا دعویٰ کیا وہ بہت جھوٹا، بہت بڑا افترا پرداز، بڑا ہی مکار اور فریبی، خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہوگا، اگرچہ وہ خوارق عادات اور شعبدہ بازی دکھائے اور مختلف قسم کے جادو اور کرشموں کا مظاہرہ کرے۔“ (تفسیر ابن کثیررحمۃ اللہ علیہ، جلد3 صفحہ494)

ایک جگہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا (سورۂ سبا: 28)ترجمہ کنزالایمان: اور اے محبوب ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر ایسی رسالت سے جو تمام آدمیوں کو گھیرنے والی ہے خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا ۔ قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَاﰳ۔ ترجمہ کنزالایمان: تم فرماؤ اے لوگو میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول ہوں۔ (سورۂ اعراف: 158)

یہ دونوں آیتیں صاف اعلان کررہی ہیں کہ حضور علیہ السلام بغیر استثنا تمام انسانوں کی طرف رسول ہوکر تشریف لائے ہیں۔

جیسا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: انا رسول من ادرکت حیا و من یولد بعدی۔ترجمہ: ”میں اس کے لئے بھی اللہ کا رسول ہوں جس کو اس کی زندگی میں پالوں اور اس کے لئے بھی جو میرے بعد پیدا ہو۔“

(کنز العمال جلد11 صفحہ 404 حدیث 31885، خصائص کبریٰ صفحہ 88جلد 2)

پس ان آیتوں سے واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا، قیامت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی صاحب الزماں رسول ہیں۔

آئیے اب ختم نبوت کے مطلق پیارے آقا صلى الله عليہ و سلم کی چند احادیث ملاحظہ ہوں

(1)”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری اور مجھ سے پہلے انبیا ءکی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے بہت ہی حسین و جمیل محل بنایا مگر اس کے کسی کونے میں ا یک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس کے گرد گھومنے اور اس پر عش عش کرنے لگے اور یہ کہنے لگے کہ یہ ایک اینٹ کیوں نہ لگادی گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں وہی (کونے کی آخری) اینٹ ہوں اور میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں۔“

(صحیح بخاری کتاب صفحہ501 جلد 1،صحیح مسلم صفحہ248 جلد 2)

(2)”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے چھ چیزوں میں انبیا کرام علیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے: (۱) مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے(۲) رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی (۳)مال غنیمت میرے لئے حلال کردیا گیا ہے (۴)روئے زمین کو میرے لئے مسجد اور پاک کرنے والی چیز بنادیا گیا ہے (۵) مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا ہے (۶) اورمجھ پرنبیوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے۔“

(صحیح مسلم صفحہ 199،مشکوٰۃ ،جلد 1، صفحہ512)

(3)”سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون کو موسیٰ (علیہ السلام) سے تھی، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔“ (بخاری صفحہ633 جلد2)

(4)”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلاۃو السلام نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کی قیادت خود ان کے انبیاء کیا کرتے تھے، جب کسی نبی کی وفات ہوتی تھی تو اس کی جگہ دوسرا نبی آتا تھا لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔“

(صحیح بخاری صفحہ491 جلد 1، صحیح مسلم صفحہ126 جلد2،مسند احمد صفحہ297 جلد 2)

اللہ تعالی سے دعا کہ اللہ پاک ہمیں پیارے آقا صلى الله علیہ و سلم کی سچی محبت نصیب فرما اور آپ صلى الله عليہ و سلم کی بےادبی اور آپ کے بے ادبوں سے بچا ۔آمین بجاہ الکریم صلى الله علیہ و سلم

فتح باب نبوت پے بے حد درود

دور ختم رسالت پے لاکھوں سلام

( حدائق بخشش)


قرآن و سنّت احادیث نبوی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے ثابت ہے کہ نبوت و رسالت کا سلسلہ حضرت محمد رسول ﷲ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختم کردیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سلسلۂ نبوت کی آخری کڑی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کسی شخص کو منصب نبوت پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ قرآن مجید کی سورۃ احزاب آیت نمبر40 میں ہے: ترجمہ: ’’محمد (صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اﷲ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے ختم پر ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ ( سورۃ الاحزاب : 40 )

اس آیتِ کریمہ کی تشریح میں مشہور مفسرِ قرآن امام ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید الطبری رحمہ اللہ (متوفی 310 ھ) نے لکھا ہے:’’بمعنی أنہ آخر النبیین‘ اس معنی میں کہ آپ آخری نبی ہیں۔ (تفسیر طبری، مطبوعہ دار الحدیث القاہرہ مصر، 9/ 244)

اس آیت کے علاوہ بہت سی دوسری آیات بھی ہیں، جن سے اہل اسلام ختم نبوت پر استدلال کرتے ہیں، جن کی تفصیل مطول کتابوں میں ہے۔

اس آیتِ کریمہ کی متفقہ تفسیر سے ثابت ہوا کہ خاتم النبیین کا مطلب آخر النبیین ہے اور اسی پر اہلِ اسلام کا اجماع ہے۔

ساری امت کا اس پر اجماع ہے اور تمام علما ء و مفسرین اور محدثین کا اس پر اتفاق ہیں کہ ’’خاتم النبیین‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد نہ کسی قسم کا کوئی نبی ہوگا اور نہ کسی قسم کا کوئی رسول ہو گا۔ اس پر بھی اجماع ہے کہ اس لفظ میں کوئی تاویل یا کوئی تخصیص نہیں،لہذا اس کا منکر یقیناً اجماع امّت کا منکر ہے۔

قرآن مجید، احادیثِ صحیحہ اور اجماع امت سے ثابت ہے کہ سیدنا محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب: رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم آخری نبی اور آخری رسول ہیں، آپ کے بعد قیامت تک نہ کوئی رسول پیدا ہوگا اور نہ کوئی نبی پیدا ہوگا۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے متواتر احادیث میں اپنے خاتم النبیین ہونے کا اعلان فرمایا اور ختم نبوت کی ایسی تشریح بھی فرما دی کہ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے آخری نبی ہونے میں کسی شک و شبہ اور تاویل کی گنجائش باقی نہیں رہی۔

عقیدۂ ختم نبوت قرآن مجید کی ایک سو آیات سے ثابت ہے اور دو سو دس احادیث مبارکہ میں وضاحت سے بیان کیا گیا ہے مگر یہاں اختصار کے مدنظر صرف چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں۔

سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے (بسندِ عامر بن سعد بن ابی وقاص) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے (سیدنا) علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) سے فرمایا:

أما ترضی أن تکون مني بمنزلۃ ھارون من موسی إلا أنہ لانبوۃ بعدي ترجمہ:کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہارا میرے ساتھ وہ مقام ہو جو ہارون کا موسیٰ کے ساتھ تھا، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبوت نہیں ہے۔ (صحیح مسلم: 32/ 2404، ترقیم دارالسلام: 6220)

سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :و أنا العاقب اور میں عاقب (آخری نبی) ہوں۔ (صحیح بخاری: 3532، 4892 والزہری صرح بالسماع عندہ، صحیح مسلم: 2354، دارالسلام: 6105، 6107)

امام ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ (ثقہ بالاجماع اور جلیل القدر تابعی) نے العاقب کی تشریح میں فرمایا: ’’الذي لیس بعدہ نبي‘‘ وہ جس کے بعد کوئی نبی (پیدا) نہ ہو۔

(صحیح مسلم، ترقیم دارالسلام: 6107)

شرحبیل بن مسلم اور محمد بن زیاد کی سند سے روایت ہے کہ سیدنا ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:أیھا الناس! أنہ لانبي بعدي و لا أمۃ بعدکم اے لوگو! بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔ (المعجم الکبیر للطبرانی 8/132 ح 7535 وسندہ حسن، السنۃ لابن ابی عاصم 2/715۔ 716 ح 1095، دوسرا نسخہ: 1061)

سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے (بسندِ عامر بن سعد بن ابی وقاص) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے (سیدنا) علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) سے فرمایا:أما ترضی أن تکون مني بمنزلۃ ھارون من موسی إلا أنہ لانبوۃ بعدي کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہارا میرے ساتھ وہ مقام ہو جو ہارون کا موسیٰ کے ساتھ تھا، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبوت نہیں ہے۔ (صحیح مسلم: 36/ 2404، ترقیم دارالسلام: 6220)

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کو پانچ تابعین نے روایت کیا ہے: عامر بن سعد بن ابی وقاص، سعید بن المسیب، مصعب بن سعد بن ابی وقاص، ابراہیم بن سعد بن ابی وقاص اور عائشہ بنت سعد بن ابی وقاص رحمہم اللہ اجمعین۔

سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:وأنا المقفٰی اور میں مقفیٰ (آخری نبی ) ہوں۔ (شمائل الترمذی بتحقیقی: 366۔367 وسندہ حسن، کشف الاستار للبزار3/ 120ح 2378)

سیدنا ابو موسیٰ عبد اللہ بن قیس الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:أنا محمد و أنا أحمد و المقفیٰ میں محمد ہوں، میں احمد ہوں اور المقفیٰ ہوں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 11/ 457 ح 31684 وسندہ صحیح، مسند احمد 4/ 395، صحیح مسلم: 2355، دارالسلام: 6108)

عمرو بن عبد اللہ الحضرمی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ (سیدنا) ابو امامہ الباہلی (صدی بن عجلان) رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:وأنا آخر الأنبیاء و أنتم آخر الأمم۔ اور میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔ اس حدیث کے حوالہ کے لئے دیکھیں: ماہنامہ الحدیث شمارہ 100 صفحہ 22 تا 47

شرحبیل بن مسلم اور محمد بن زیاد کی سند سے روایت ہے کہ سیدنا ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:أیھا الناس! أنہ لانبي بعدي و لا أمۃ بعدکم۔ اے لوگو! بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔

(المعجم الکبیر للطبرانی 8/136 ح 7535 وسندہ حسن، السنۃ لابن ابی عاصم 2/715۔ 716 ح 1095، دوسرا نسخہ: 1061)

اسماعیل بن عیاش کی یہ روایت شامیوں سے ہے اور انہوں نے سماع کی تصریح کر دی ہے ،لہٰذا یہ سند حسن لذاتہ اور صحیح لغیرہ ہے۔

سیدنا ثوبان (مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:وإنہ سیکون في أمتي کذابون ثلاثون کُلھم یزعم أنہ نبي، و أنا خاتم النبیین، لا نبي بعدي، اور بے شک میری اُمت میں تیس کذاب ہوں گے، ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے۔ اور میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

(سنن ابی داود: 4252 ،وسندہ صحیح)

سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:لوکان نبي بعدي لکان عمر بن الخطاب اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتے تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔ (سنن ترمذی 3686 وقال: ’’ھذا حدیث حسن غریب لا نعرفہ إلا من حدیث مشرح بن ھاعان‘‘ مسند احمد، 4/ 154، مستدرک الحاکم 3/ 85 ح 4495 وقال: ’’ھذا الحدیث صحیح الإسناد ولم یخرجاہ‘‘ وقال الذہبی: صحیح)

سیدنا ابو موسیٰ عبد اللہ بن قیس الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:أنا محمد و أنا أحمد و المقفیٰ ۔ میں محمد ہوں، میں احمد ہوں اور المقفیٰ ہوں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 11/ 457 ح 31684 وسندہ صحیح، مسند احمد 4/ 395، صحیح مسلم: 2395، دارالسلام: 6108)

عمرو بن عبد اللہ الحضرمی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ (سیدنا) ابو امامہ الباہلی (صدی بن عجلان) رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:وأنا آخر الأنبیاء و أنتم آخر الأمم اور میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔

شرحبیل بن مسلم اور محمد بن زیاد کی سند سے روایت ہے کہ سیدنا ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: ابو صالح السمان ذکوان الزیات رحمہ اللہ کی سند سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:إن مثلي و مثل الأنبیاء من قبلي کمثل رجل بنی بیتًا فأحسنہ و أجملہ إلا موضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ و یتعجبون لہ ویقولون : ھلا و ضعت ھذہ اللبنۃ؟ قال: فأنا اللبنۃ و أنا خاتم النبیین

بے شک میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس آدمی کی طرح ہے، جس نے بہت اچھے طریقے سے ایک گھر بنایا اور اسے ہر طرح سے مزین کیا، سوائے اس کے کہ ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ (چھوڑ دی) پھر لوگ اس کے چاروں طرف گھومتے ہیں اور (خوشی کے ساتھ) تعجب کرتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ اینٹ یہاں کیوں نہیں رکھی گئی؟ آپ (صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم) نے فرمایا: پس میں وہ (نبیوں کے سلسلے کی) آخری اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔

(صحیح بخاری: 3535، صحیح مسلم: 22/ 2286، دارالسلام: 5961)

منکرین ختم نبوت کا سلسلہ خود جناب کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دور اقدس سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اور پھر صحابۂ کرام رضوان اﷲ عنہم اجمعین اور امت کے تمام طبقات نے ان کا ہر سطح پر عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ کیا۔

اﷲ تعالیٰ تمام مسلمانوں کی تحریک ختم نبوت ناموس مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے حوالے سے کاوشوں کو قبول فرمائے اور کل قیامت والے دن آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی شفاعت کے حصول کا ذریعہ بنائے۔ حق تعالیٰ شانہ تمام مسلمانوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دامن سے وابستہ رہنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ (آمین ثم آمین)


ارشادباری تعالیٰ ہے :مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ ( سورۃ الاحزاب : 40 )

وضاحت:اللہ تعالیٰ نے حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تمام انبیاء و مرسلین علیہمُ الصَّلٰوۃُ والسَّلام کے آخر میں مبعوث فرمایا اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نبوت و رِسالت کا سلسلہ ختم فرما دیا، آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ یا آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد قیامت قائم ہونے تک کسی کو نبوت ملنا مُحال ہے۔ یہ عقیدہ ضروریات دین سے ہے، اس کا منکر اور اس میں ادنیٰ سا بھی شک و شبہ کرنے والا کافر، مرتد اور ملعون ہے۔

ختمِ رسالت کے آٹھ حروف کی نسبت سے8 فرامینِ مصطَفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :

(1)فَاِنِّی آخِرُ الْاَنْبِيَاءِ وَاِنَّ مَسْجِدِی آخِرُ الْمَسَاجِدِ ترجمہ: بےشک میں سب نبیوں میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے (جسے کسی نبی نے خود تعمیر کیا ہے)۔(مسلم،ص553،حدیث:3376)

(2)میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک حسین و جمیل عمارت بنائی مگر اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ اس(عمارت) کے گِرد گھومنے لگے اور تعجب سے کہنے لگے کہ اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی؟ میں (قصرِ نبوت کی) وہ اینٹ ہوں اور میں خَاتَمُ النَّبِیِّین ہوں۔ (مسلم، ص965، حدیث:5961)

بےشک رِسالت اور نبوت منقطع ہوچکی ہے، پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا اور نہ کوئی نبی۔

( ترمذی،4/121،حدیث:2279)

)3) اَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِی، ترجمہ: یعنی میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

(ترمذی، 4/93، حدیث: 2226)

(4)اَنَا آخِرُ الْاَنْبِيَاءِ وَاَنْتُمْ آخِرُ الْاُمَمِ ۔ ترجمہ: میں سب سے آخری نبی ہوں اور تم سب سے آخری اُمّت ہو۔(ابنِ ماجہ، 4/414، حدیث: 4077)

(5)ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ، فَلَا نُبُوَّةَ بَعْدِی اِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ۔ قِيْلَ: وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ:الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ يَرَاهَا الرَّجُلُ اَوْ تُرَى لَه۔ ترجمہ: یعنی نبوت گئی، اب میرے بعد نبوت نہیں مگر بشارتیں ہیں۔ عرض کی گئی: بشارتیں کیا ہیں؟ ارشاد فرمایا:اچھا خواب کہ آدمی خود دیکھے یا اس کے لئے دیکھا جائے۔(معجم کبیر، 3/179، حدیث:3051)

(6) بےشک میں اللہ تعالیٰ کے حضور لَوحِ محفوظ میں خاتم النبیین (لکھاہوا) تھا جب حضرت آدم علیہ الصلاۃ و السلام ابھی اپنی مٹی میں گُندھے ہوئے تھے۔

(کنز العمال، جزء:11،6/188، حدیث:31957)

(7) میرے متعدد نام ہیں، میں محمد ہوں، میں احمَد ہوں، میں ماحِیْ ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے سبب سے کُفر مٹاتا ہے، میں حاشر ہوں کہ میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہوگا، میں عاقِب ہوں اور عَاقِب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔ (ترمذی، 4/382، حدیث:2849)

(8) (اے علی!) تم کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو حضرت ہارون(علیہ السلام) کو حضرت موسیٰ(علیہ السلام) سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(مسلم، ص1006، حدیث:6217)


حضور نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں، یعنی اللہ تعالٰی نےسلسلۂ نبوت حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کردیا ، کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یا بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا ، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت ملنا مانے یا جائز جانے ، کافر ہے ۔

(بہارِشریعت،عقائد متعلقہ ختم نبوت،عقیدہ:36،حصہ1،ج1)

حضور خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ختم نبوت سے متعلق چند احادیث مندرجہ ذیل ہیں :

حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ و الہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ” میں خاتم النبیین ہوں“( صحیح بخاری،کتاب المناقب،باب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ،الحدیث: 3535،ج2،ص485)

فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ہے:”میں خاتم النبیین ہوں،میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے “

(سنن الترمذی ، الحدیث:2226،ج4،ص93)

حضرتِ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”بےشک رسالت اور نبوت ختم ہوگئی، اب میرے بعد کوئی رسول ہے اور نہ کوئی نبی“(سنن الترمذی ،4 /121،الحدیث:2279)

حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، حضورپُرنور صلّی اللہ علیہ و الہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”بےشک میں اللہ تعالٰی کے حضور لوحِ محفوظ میں خاتم النبیین (لکھا) تھا جب حضرت آدم علیہ السلام اپنی مٹی میں گندھے ہوئےتھے ۔(مسندامام احمد ،87/6،الحدیث:17163)

حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجھہ الکریم نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے شمائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ”حضورِ اقدس صلّی اللہ علیہ و الہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی اور آپ خاتم النبیین تھے“(سنن الترمذی ،364/5،الحدیث:3658)


عقیدہ ختم نبوت دین اسلام کا بنیادی اور حساس ترین عقیدہ ہے۔  ہر وہ شخص جس کو اللہ نے ایمان کی لازوال و بے مثال دولت باکمال سے مشرف و منور فرمایا وہ یہ جانتا ہے کہ حضور خاتم النبيين سید الانبیاء و المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبيين ہونا ضروریات دین سے ہے جس کا انکار یا جس میں تھوڑا سا بھی شک و شُبہ دائرہ اسلام سے خارج کردےگا۔ حضور خاتم النبيين صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نبی ہونا قطعی ہے اور یہ قطعیت قرآن و حدیث و اجماع امت سے ثابت ہے اسی سلسلے میں چند احادیث مبارکہ مُلاحَظہ فرمائیے:

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صلَّى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : " بے شک رسالت اور نبوت ختم ہو گئی، اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ کوئی نبی "۔

( تفسیر صراط الجنان،جلد 8، سورۃ الاحزاب تحت الآیت: 40، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

حضرت عَرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" بے شک میں اللہ کے حضور لوح محفوظ میں خاتم النبيين (لکھا) تھاجب حضرت آدم علیہ السلام اپنی مٹی میں گُندھے ہوئےتھے" (تفسیر صراط الجنان، جلد 8، سورۃ الاحزاب تحت الآیت 40، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

فتح باب نبوت پہ بے حد درود

ختم دور رسالت پہ لاکھوں سلام