اللہ پاک  کے محبوب، حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے:بےشک بروزِ قیامت لوگوں میں سے میرے قریب تر وہ ہوگا، جو مجھ پر سب سے زیادہ دُرود بھیجے۔

لُغوی معنی:لفظ خاتم، ختم سے بنا ہے، جس کے لُغوی معنی ہیں مہر لگانا۔اِصطلاحی معنی:اس کے معنی ہیں تمام کرنا، ختم کرنا۔کیونکہ مہریا تو مضمون کے آخر پر لگتی ہے، جس سے مضمون بند ہو جاتا ہے یا پار سل بند ہونے پر لگتی ہے، جب نہ کوئی شے اس میں داخل ہو سکے، نہ اس سے خارج، اسی لئے تمام ہونے کو ختم کیا جاتا ہے۔وضاحت:ارشادِ باری ہے:خَتَمَ اللّٰہُ عَلیٰ قُلُوبِھِمْ وَعَلیٰ سَمْعِھِمْ ترجمۂ کنزالایمان:اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر کردی۔(پ1،البقرہ:7)اس آیت مبارکہ میں ختم بمعنی مہر استعمال ہوا ہے کہ جب کفار کے دلوں اورکان پر مہر لگ گئی تو نہ باہر سے ایمان داخل ہو گا اور نہ ہی اندر سے کفر باہر نکلے گا۔اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ ترجمۂ کنزالعرفان:آج میں نے تمہارے لئے دین مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی۔(پ6،المائدہ:3)اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا دین مکمل ہے اور دین کے مکمل ہوچکنے کے بعد کسی نبی کی ضرورت نہیں اور اور نبیِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تمام نبیوں کی تصدیق کرتے ہیں، کسی نبی کی بشارت یا خوشخبری نہیں دیتے، اگر آپ کے بعد کوئی نبی ہوتا تو آپ اس کے بشیر ہوتے اور آپ سارے پیغمبروں اور ان کی اُمّتوں پر گواہ ہیں، لیکن کوئی نبی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا گواہ یا آپ کی اُمّت کا گواہ نہیں ہے، جس سے معلوم ہوا ! آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور یہ کہ سارے نبی آپ سے پہلے گزر چکے ہیں، کوئی باقی نہ رہا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب دنیا میں تشریف لائیں گے تو وہ نبیِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اُمّتی بن کر رُونما ہوں گے۔(علم القرآن)عقیدہ:حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خاتم النبیین ہیں یعنی اللہ پاک نے سلسلۂ نبوت حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختم فرما دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے زمانے میں یا بعد میں کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا، جو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے زمانے میں یا حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کسی کو نبوت ملنا مانے یا جائز جانے کافر ہے۔احادیث:1۔وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیّینَ لَانَبیَّ بَعْدِی۔2۔ قَالَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم: اِنَّ الرَّسَالَۃَ وَالنَّبُوَّۃَ قَدْ اِنْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّ۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو خاتم النبیین ماننا، ان کے زمانہ میں، خواہ ان کے بعد کسی نبی جدید کی بعثت کویقیناً قطعاً محال وباطل جاننا فرضِ اجل و جزءِ ایقان ہے۔ جو اس عقیدہ کا انکار کرے، وہ کافر ہے، بلکہ جو اس عقیدۂ ملعونہ پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ جانے، وہ بھی اور جو کافر ہونے میں شک کرے، وہ بھی کافر ہے۔(بہارِشریعت)اللہ پاک ہمیں عقیدہ ختمِ نبوت پر استقامت عطا فرمائے اور اپنا اور اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پیاری بندی بننے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم


عقیدۂ ختم نبوت قرآن و حدیث اور اجماعِ اُمّت تینوں  سے ثابت ہے، قرآنِ مجید میں اللہ پاک کا ارشاد ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا(۴۰)ع (پ22، الاحزاب: 40)ترجمۂ کنزالایمان:”محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔“ عربی زبان میں ختم کے معنی مہر لگانا، تمام مفسرین نے اس آیتِ کریمہ میں خاتم کے معنی آخری نبی کے بیان کئے ہیں۔حدیثِ مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بنی اسرائیل کی راہ نمائی انبیائے کرام علیہم السلام کیا کرتے تھے، جب ایک نبی وفات پا جاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتا، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ایک اور جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:”میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیائے کرام علیہم السلام کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک شخص نے عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل بنائی، مگر ایک کنارے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی اور وہ اینٹ میں ہوں۔“تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس بات پر اجماع تھا کہ حضور آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا، یہی وجہ تھی کہ خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا، صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان کے خلاف جہاد کیا۔مذکورہ آیت و حدیث کے مطابق عقیدۂ ختمِ نبوت ہمارے بنیادی عقائد میں سے ہے اور یہ بہت حساس معاملہ ہے، اگر جانے انجانے میں ہم سے کوئی کوتاہی ہو گئی تو ہم اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گی، ہمیں چاہئے کہ ہم دینِ اسلام کو سمجھ کر اس پر عمل کریں اور حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اُسوہ حسنہ کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزاریں۔

غلامانِ محمدِ عربی کو سدا بیدار رہنا ہے فقط ختمِ نبوت سے مسلمانی سلامت ہے

وگرنہ اے مسلمانو! قیامت ہی قیامت ہے ہمیں عشقِ رسالت میں سدا سرشار رہنا ہے

پیغامِ محمدی اللہ پاک کا پہلا اور آخری پیغام ہے، جو کالے گورے، عرب و عجم، ترک و تاتار، ہندی و چینی، زنگ و صرنگ سب کے لئے عام ہے، جس طرح اس کا خدا تمام دنیا کا خدا ہے، تمام دنیا کا پروردگار ہے۔(رحمت اللعالمین)اسی طرح اس اللہ پاک کا رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تمام دنیا کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہیں، یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے تشریف لانے سے نبیوں اور رسولوں کا سلسلہ بند کر دیا گیا۔ اب کسی کو نبوت نہیں دی جائے گی، بس جن کو ملنی تھی مل چکی، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نبوت کا دور نبیوں کے بعد رکھا گیا، جو قیامت تک چلتا رہے گا، حضرت مسیح علیہ السلام بھی قیامت کے قریب آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ایک اُمّتی کی حیثیت سے آئیں گے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت مسیح علیہ السلام تک ہر نبی مرسل نے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کی خوشخبری سنائی، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نبوت ورسالت اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختمِ نبوت کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا تھا۔وَاَنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدَیْ ترجمہ:اور یاد رکھنا! میرے بعد کوئی نبی نہیں آ سکے گا۔سَیَکُوْنُ خُلَفَاءِترجمہ:ہاں! میرے پیچھے خلفاء ہوں گے۔حدیث: لَا نَبِیَّ بَعْدِی نبی نہیں بعد میرے کوئی۔نبی اول نبی آخر صلوٰۃ و تسلیم بر محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ۔اللہ پاک کے فیصلے اور اس کی رضا کے علم کا دوسرا بڑا ذریعہ ہمارے پاس حدیث ہے، جس میں صراحت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے سلسلۂ نبوت و رسالت کے ختم ہونے کا اعلان فرمایا ہے۔ترمذی میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مروی ہے: حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ر سالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا، میرے بعد اب کوئی رسول ہے نہ کوئی نبی، یہ اور اس طرح کی بکثرت احادیث ِصحاح صاف اور صریح الفاظ میں آئی ہیں۔ قرآن و سنت کے بعد تیسرا درجہ اجماعِ صحابہ کا ہے، تاریخ شاہد ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی وفات کے بعد جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور جن لوگوں نے ان لوگوں کی نبوت کو تسلیم کیا، ان سب کے خلاف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بالاتفاق جنگ کی، اجماعِ صحابہ کے ساتھ ساتھ علمائے مجتہدین بھی اسی فیصلے پر ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر نبوت اور رسالت کا سلسلہ ختم ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم آخری نبی ہیں۔پار9سورۂ اعراف کی آیت نمبر 158 میں ارشاد ہوتا ہے:ترجمۂ کنزالایمان: تم فرماؤ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔


ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کے آخری نبی ہیں۔ اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اس جہاں میں بھیج کر بعثتِ انبیا کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ختمِ نبوت احادیث کی روشنی میں:1)فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:میں تمام نبیوں میں سے آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔2)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: پس میں آخری نبی ہوں اور بے شک میری مسجد (انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کی) مسجدوں میں سے آخری ہے۔3)حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے کندھے مبارک میں مہر ِنبوت دیکھی جیسے کبوتر کا انڈہ، اور وہ بدن سے مشابہہ تھا اور اس کا رنگ بھی دیگر اعضاء کے رنگ سے ملتا تھا۔4)فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:میری اور مجھ سے پہلے جو انبیائےکرام علیہم الصلوۃ و السلام گزرے ہیں ان کی مثال یوں ہے جیسے کسی نے ایک بڑی خوبصورت اور عمدہ عمارت بنائی اور اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی۔ لوگ اس عمارت کے گرد گھوم کر تعجب کرتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ اینٹ کیوں نہ لگائی گئی؟ پس وہ اینٹ میں ہی ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔5)فرمانِ رسولصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:بے شک میرے کئی اسماء ہیں۔میں محمد ہوں۔میں احمد ہوں۔میں ماحی ہوں کہ اللہ پاک میرے ذریعے کفر کو مٹاتا ہے۔ میں حاشر ہوں کہ میرے قدموں پر(یعنی میرے بعد) لوگوں کا حشر ہوگا اور میں عاقب ہوں وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔6)نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون کو موسی (علیہما لسلام) سے تھی مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔7)حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’میں آخری نبی ہوں اور تم آخری اُمّت ہو۔‘‘عقیدہ مومن:لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ یعنی اللہ پاک کے سوا کوئی معبود نہیں اور بےشک محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کے رسول ہیں۔


ارشادِ خداوندی ہے:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-ترجمۂ کنز الایمان:محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے۔(پ 22، الاحزاب:40)اللہ پاک کے آخری نبی، حبیب لبیب، نبیِ کریم، رؤوف رحیم، خاتم النبیین، رحمۃ اللعالمین، حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کے آخری نبی اور رسول ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد اس دنیا میں کوئی اور نبی نہیں آئے گا۔اللہ پاک نے محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ہی نبوت کا سلسلہ ختم کر دیا اور اب قیامت تک یہی ہمارے پیارے آقا، مکے مدینے کے تاجدار، ہمارے راہ نما، ہمارے دلبر، ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہی رہیں گے۔اوپر جو آیتِ مبارکہ ذکر کی گئی ہے، اس میں بیان کیا گیا کہ اللہ پاک نے رسولِ اکرم کو وہ اعزاز عطا فرمایا ہے، جو آپ کے علاوہ کسی نبی اور رسول کو عطا نہیں کیا گیا اور یہ اعزاز ختمِ نبوت ہے، رسول ِاکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ہر کمال کو اس وصفِ ختمِ نبوت کے پسِ منظر میں دیکھا جائے تو ہر وصف اپنے کمال پر نظر آئے گا ۔ ختمِ نبوت ایسا وصف اور کمال ہے جو کسی نبی اور رسول کو حاصل نہیں ہوا، اللہ پاک نے آپ کی بعثت کے ساتھ ہی نبوت کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کردیا۔دو قراءتیں:قرآن لفظ اور معنی کے مجموعہ کا نام ہے اور چونکہ عربی زبان میں ایک لفظ کئی طرح سے پڑھا جاسکتا ہے، اس لئے قراتِ قرآن کے الفاظ پڑھنے کا صحیح معیار یہ ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے اس لفظ کو کس انداز سے ادا ہوتا ہوا سُنا گیا ہے، اسی فن کا نام قراءت ہے، جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ہم تک پہنچا ہے، زیرِبحث لفظ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دو طرح ادا فرمایا۔1۔خَاتَمْ:یعنی تاء کےزبر کے ساتھ ہے۔2۔خَاتِمْ:یعنی تاء کےزیر کے ساتھ ہے۔خَاتَمْ تاء کے زبر کے ساتھ صرف دو قاریوں کی روایت ہے ، ان کے علاوہ تمام قاریوں نے خَاتِمْ تاء کے زیر کے ساتھ پڑھا اور اسی کو اختیار کیا ہے۔لوحِ محفوظ میں ذکرِ ختمِ نبوت احادیث کی روشنی میں:حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اِنِّیْ عِنْدَ اللہِ فِیْ اُمَّ الْکِتَابِ اَلْخَاتَمُ النَّبِیِّینَ وَاَنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌّ فِی طِیْنَتِہٖترجمہ:بے شک میں اللہ پاک کے نزدیک لوحِ محفوظ میں خاتم النبیین تھا اور بے شک (اس وقت) حضرت آدم علیہ السلام تخلیق کے مراحل میں تھے۔ختمِ نبوت اور رسالت:ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک رسالت اور نبوت منقطع ہوچکی ہے، پس میرے بعد کوئی نبی ہو گا اور نہ رسول ہو گا۔دنیا میں آخر، عقبیٰ میں سابق:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہم(دنیا کے اندر آئے ہیں)آخر ہیں اور قیامت کے دن (جنت کے اندر داخلے وغیرہ میں پہل کرنے والے) سابق ہیں۔


قَالَ اللّٰہُ تَبارَکَ وَتَعالیٰ:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-ترجمۂ کنز الایمان:محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے۔(پ 22، الاحزاب:40)وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ:یعنی محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم آخری نبی ہیں، اب آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ،نبوت آپ پر ختم ہوگئی اور آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی۔ یاد رہے!حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا آخری نبی ہونا قطعی ہے اور یہ قطعیت قرآن و حدیث و اجماعِ اُمت سے ثابت ہے۔ قرآنِ مجید کی صریح آیت بھی موجود ہے ،احادیث تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں اور اُمت کا اجماعِ قطعی بھی ہے، ان سب سے ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سب سے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں، جو حضور پر نور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے، وہ ختمِ نبوت کا منکر، کافر اور اسلام سے خارج ہے۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اللہ سچا اور اس کا کلام سچا، مسلمان پر جس طرح لا الہ الا اللہ ماننا، اللہٗ سبحانہٗ وتعالیٰ کو اَحَد، صَمد، لَاشَرِیکَ لَہٗ یعنی بے نیاز اور اس کا کوئی شریک نہ ہونا، جاننا فرضِ اوّل ومناطِ ایمان ہے، یونہی محمد رَّسُول اللہ (صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم )کو خاتم النبیین مانناان کے زمانے میں خواہ ان کے بعد کسی نبی جدید کی بعثت کو یقیناً محال و باطل جاننا فرضِ اَجل و جزوِ ایقان ہے۔(فتاویٰ رضویہ، رسالہ جزاء اللہ عدوہ، باب ختم النبوۃ، 15/630) نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے آخری نبی ہونے سے متعلق چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:1۔حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اللہ پاک کے پیارے اور آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اِرشاد فرمایا:بے شک میرے متعدد نام ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں کہ اللہ پاک میرے سبب کُفر کو مٹاتا ہے، میں حاشر ہوں، میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہوگا، میں عاقب ہوں اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔(ترمذی، کتاب الادب، باب ما جاءفی اسماء النبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم، 4/ 382، حدیث2849)2۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اللہ پاک کے پیارے اور آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیائے کرام علیہم السلام کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے بہت حسین و جمیل ایک گھر بنایا، مگر اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس کے گرد گھومنے لگے اور تعجب سے یہ کہنے لگے: اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی؟پھر آپ نے ارشاد فرمایا:میں(قصرِ نبوت کی)وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔(مسلم، کتاب الفضائل، باب ذکر کونہ خاتم النبیین، ص 1255، حدیث22(2286)


قرآنِ پاک میں ربّ کریم نے فرمایا ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-ترجمۂ کنز الایمان:محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے۔(پ 22، الاحزاب:40)نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اللہ پاک کا آخری نبی ماننا یہ ہمارے بنیادی عقائد(ضروریاتِ دین) میں سے ہے اور مسلمان ہونے کے لئے یہ عقیدہ بہت ضروری ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد آپ کے زمانے سے قیامت تک کوئی نبی نہیں ہوگا، جو شخص کہے کہ آپ کے بعد دوسرا نبی تھا یا ہے یا ہوگا اور جو شخص کہے کہ کسی نبی کے آنے کا امکان ہے وہ کافر ہے۔ یہی محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے خاتم الانبیاء پر ایمان کے درست ہونے کی شرط ہے۔(فتاویٰ رضویہ) اور حضرت عیسٰی علیہ السلام قیامت کے نزدیک جب تشریف لائیں گے تو سابق وصفِ نبوت و رسالت سے متصف ہونے کے باوجود ہمارے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نائب و اُمّتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے اور دینِ محمدی کی تبلیغ کریں گے۔(خصائص کبریٰ،2/329)نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے آخری نبی ہونے سے متعلق چند احادیث ملاحظہ ہوں:چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک رسالت اور نبوت منقطع ہو چکی ہے،میرے بعد نہ کوئی رسول ہو گا، نہ کوئی نبی۔(ترمذی، 4/121، حدیث: 2279)ایک اور حدیثِ مبارکہ میں ارشاد فرمایا:بے شک میں سب نبیوں میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے( جسے کسی نبی نے خود تعمیر کیا ہے)۔(مسلم، ص 553، حدیث: 3376)اور ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے غیب کی خبر دیتے ہوئے پہلے ہی ارشاد فرمادیا تھا:عنقریب میری اُمّت میں تیس کذّاب (یعنی بڑے جھوٹے) ہوں گے، ان میں سے ہر ایک گمان کرے گا وہ نبی ہے،حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔( ابوداؤد، 4/132،حدیث:42521)حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک میں اللہ پاک کے حضور لوحِ محفوظ میں خاتم النبیین(لکھا ہوا) تھا، جب حضرت آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔(کنز العمال، جز61، 11/188، حدیث:31957)اور فرمایا:میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیائے کرام علیہم السلام کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک حسین و جمیل عمارت بنائی، مگر اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس کے گرد گھومنے لگے اور تعجب سے یہ کہنے لگے :اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی؟میں(قصرِ نبوت کی)وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔(مسلم، ص 965، حدیث:5961)اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:میرے بعد نبوت میں سے کچھ باقی نہ رہے گا، مگر بشارتیں(یعنی) اچھا خواب کہ بندہ خود دیکھے یا اس کے لئے دوسرے کو دکھایا جائے۔(مسند احمد، 9/450، حدیث: 25031)

نہیں ہے اور نہ ہوگا بعد آقا کے نبی کوئی وہ ہیں شاہِ رُسُل، ختمِ نبوت اس کو کہتے ہیں

لگا کر پُشت پر مہر ِنبوت حق تعالیٰ نے انہیں آخر میں بھیجا، خاتمیت اس کو کہتے ہیں(قبالۂ بخشش، ص115)


تعارف:ختمِ نبوت سے مراد یہ عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کے آخری نبی ہیں، اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر سلسلۂ نبوت کو ختم فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو تمام جہانوں کا سردار بنا کر بھیجا ہے، انبیائے کرام علیہم السلام کو اللہ پاک نے ایک قوم کی طرف مبعوث فرمایا، جب کہ پیارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو رہتی دنیا تک سب کی طرف مبعوث فرمایا، انسان ہو یا حیوان، نباتات ہوں یا جمادات، شجر ہو یا حجر، الغرض سب آقا علیہ السلام کے دستِ قدرت میں ہیں، بعطائے ا لہی آقا علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔

ختمِ نبوت کے منکر کا حکم:جو شخص آقا علیہ السلام کے بعد یا آپ کے زمانے میں کسی اور کو نبی مانے یا نبوت ملنی جائز جانے، وہ کافر ہے۔(قانونِ شریعت، صفحہ37)ختمِ نبوت کا قرآنِ پاک سے ثبوت:ارشادِ باری ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا(۴۰)ع (پ22، الاحزاب: 40)ترجمۂ کنزالایمان:محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔(پ22،الاحزاب:40)اس آیتِ مبارکہ میں اللہ پاک نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو خاتم النبیین فرمایا ہے، اب قیامت تک نہ کوئی منصبِ نبوت پر فائز ہو گا، اور نہ ہی منصبِ رسالت پر۔ختمِ نبوت کا احادیثِ مبارکہ سے ثبوت:آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنی زبانِ ترجمان سے خود کو آخری نبی فرمایا ہے، چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اِنَّ الرَّسَالَۃَ وَالنَّبُوَّۃَ قَدْ اِنْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّ ترجمہ:اب نبوت کا انقطاع عمل میں آ چکا ہے، لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی۔(تر مذی، کتاب الر ؤیا، 4/163، باب ذھبت النبوۃ، رقم:2272)حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:حضرت سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے:اما ترضی ان تکون منی بمنزلۃ ہارون من موسی الا انہ لا نبوۃ بعدی ترجمہ:کیا تم اس بات اس پر راضی نہیں کہ تمہارا میرے ساتھ وہ مقام ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھا،سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبوت نہیں ہے۔( مسلم:32/2404) حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ایہا الناس!لا نبی بعدی ولا اُمۃ بعدکم اے لوگو!بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی اُمت نہیں۔(معجم کبیر ، 13/8 ،حدیث: 35 75)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:فانی آخر الانبیاء وان مسجدی آخر المساجد ترجمہ:پس بے شک میں آخری نبی ہوں اور بے شک میری مسجد آخری مسجد ہے(جیسے کسی نبی نے خود تعمیر کیا ہے۔)( مسلم: 1394/507)حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:وانہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انہ نبی وانا خاتم النبیین ولا نبی بعدی ترجمہ:اور بے شک میری اُمت میں سے تیس کذاب ہوں گے، ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے اور میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔( ابو داؤد:4252)ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کے آخری نبی ہیں، آپ کے بعد جو کوئی نبوت کا دعویٰ کرے، وہ جھوٹا، ملعون، خارجی، کافر و مرتد ہے، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے نہ صرف نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی نشاندہی کر دی، بلکہ اُن کی تعداد بھی بیان فرمادی۔اللہ پاک ہم سب کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


ارشادِ باری ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا(۴۰)ع ترجمۂ کنزالعرفان ؛محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والاہے۔(پ22:الاحزاب:40)اس آیتِ مبارکہ میں اور کئی آیات میں رب کریم نےبذاتِ خود دینِ اسلام کے اہم عقیدے کو بیان فرمایا ہے کہ نبوت اب ختم ہو چکی اور دین مکمل ہوچکا ہے۔ اہم point:ختم نبوت کا اعتقاد رکھنا ضروریاتِ دین میں سے ہے۔ اس کا انکار یا اس میں شک کرنے والا کافر، مرتداور ملعون ہے۔(بہار شریعت، 1/63)ختمِ نبوت کے متعلق آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے فرامین :آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک میں اللہ پاک کے حضور لوحِ محفوظ میں خاتم النبیین (لکھا ہوا) تھا جب کہ حضرت آدم علیہ السلام اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔(کنزالعمال،جزء6، 11/ 188،حدیث:31957)بےشک میرے متعدد نام ہیں۔میں مُحمد(صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم)ہوں،میں احمد ہوں،میں ماحی ہوں کہ اللہ پاک میرے سبب سے کفر مٹاتا ہے، میں حاشر ہوں میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہوگا، میں عاقب ہوں ، عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔(ترمذی،4/ 382،حدیث:2849) نبوت گئی اب میرے بعد نبوت نہیں مگر بشارتیں ہیں۔عرض کی گئی بشارتیں کیا ہیں؟ ارشاد فرمایا: اچھا خواب کہ آدمی خود دیکھے یا اس کےلئے دکھایا جائے۔(معجم کبیر،3/ 179، حدیث:3051) مجھے انبیا ئےکرام علیہم الصلوۃ و السلام پر چھ چیزوں سے فضیلت دی گئی ہے:(1)مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے ہیں۔(2)رعب سے میری مدد کی گئی ہے(3)میرے لئے غنیمتوں کو حلال کردیا گیا ہے(4)تمام روئے زمین کومیرے لیے طہارت اور نماز کی جگہ بنادیا گیا ہے(5)مجھے تمام مخلوق کی طرف (نبی بنا کر) بھیجا گیا ہے اور (6)مجھ پر نبیوں (کے سلسلے)کو ختم کردیا گیا ہے۔(مسلم،ص210،حدیث:1167)میں خاتم النبیین ہوں اور یہ بات بطور فخر نہیں کہتا۔(معجم اوسط،1/ 63،حدیث:170) ضروری وضاحت:حضرت عیسیٰ علیہ السلام قرب ِقیامت دنیا میں اب آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نائب اور امتی ہونے کی حیثیت سے تشریف لائیں گے اور آپصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی شریعت کے مطابق احکامات جاری فرمائیں گے۔

نہیں ہے اور نہ ہو گا بعد آقا کے کوئی نبی وہی ہیں شاہِ رسل،ختم ِنبوت اس کو کہتے ہیں


عقیدۂ ختمِ نبوت دینِ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔یہ ایک حساس ترین عقیدہ ہے۔ ختمِ نبوت کا انکار قرآنِ کریم کا انکار ہے۔ختم ِنبوت کا انکار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےاجماع کا انکار ہے۔ ختم ِنبوت کا انکار ساری اُمتِ محمدیہ کے علما،فقہا و اسلاف کے اجماع کا انکار ہے۔ ختمِ نبوت کو نہ ماننا رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مبارک زمانہ سے لے کر آج تک کےہر ہر مسلمان کے عقیدے کو جھوٹا کہنے کے مترادف ہے۔اس عقیدہ ٔختمِ نبوت کو احادیث میں یوں بیان فرمایا گیا ہے:بےشک رسالت اور نبوت ختم ہوگئی، اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے، نہ کوئی نبی۔

فرمانِ مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:اَنَا خَاتَمُ النّبِیینَ وَلَا فَخْرَ میں خاتم النبیین ہوں اور یہ بطورِ فخر نہیں کہتا۔ایک اور مقام پر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک رسالت اور نبوت منقطع ہو چکی ہے، پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا اور نہ کوئی نبی۔میں سب سے آخری نبی ہوں اور تم سب سے آخری اُمت ہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اِرشاد فرمایا:میں محمد ہوں، امی نبی ہوں، تین مرتبہ ارشاد فرمایا: اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:بنی اسرائیل کا نظامِ حکومت ان کے انبیائے کرام علیہم السلام چلاتے تھے، جب بھی ایک نبی جاتا، تو اس کے بعد دوسرا نبی آتا تھا اور میرے بعد تم میں کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک میں اللہ پاک کے حضور لوحِ محفوظ میں خاتم النبیین(لکھا ہوا) تھا، جب حضرت آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔

نہیں ہے اور نہ ہوگا بعد آقا کے نبی کوئی وہ ہیں شاہِ رُسُل، ختمِ نبوت اس کو کہتے ہیں

لگا کر پُشت پر مہر ِنبوت حق تعالیٰ نے انہیں آخر میں بھیجا، خاتمیت اس کو کہتے ہیں


عقیدۂ ختمِ نبوت ضروریاتِ دین سے ہے کہ جس میں ذرہ برابر شک انسان کو گمراہی کی گہری کھائی میں پھینک دیتا ہے۔ختم کا معنی ہے:مہر کرنا“ اور یہ ہر عام سے عام شخص جان سکتا ہے کہ کسی شے پہ مہر تب ہی کی جاتی ہے جب اس میں مزید کسی شے کی حاجت نہ ہو۔اس اعتبار سے ختمِ نبوت کا معنی ہوا نبوت  پہ مہر لگ جانا یعنی اب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ،آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تشریف آوری سے نبوت کے رجسٹر پہ بھی مہر کردی گئی، اب نہ کسی نبی کی حاجت ہے نہ نئی شریعت کی کہ اللہ پاک نے اس دین ِمحمدی کو قیامت تک کے لیے مقرر کردیا لہٰذا اب اگر کوئی شخص ختم ِنبوت پہ حرف اٹھاتا ہے یا اس کا انکار کرتا ہے یا اتنا بھی کہتا ہے کہ اگر کوئی نیا نبی بھی آجائے تب بھی نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے خاتم النبیین ہونے پہ کوئی حرف نہیں آتا تو یہ محض باطل عقیدہ اور دائرہ اسلام سے خارج کردینے والا فعل ہے۔ختمِ نبوت پہ قرآنِ پاک میں صریح آیت اور بے شمار صحیح احادیث موجود ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:01۔ حضرت ابو زید عمر بن اخطب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: قالا لی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا ابا زید ادن منی فامسح ظھری فمسحت ظھرہ فوقعت اصابعی علی الخاتم قلت وما الخاتم وقال شعرات مجتمعات نبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے ابو زید! میرے قریب ہوجاؤ میری پشت پہ ہاتھ پھیرو میں نے آپ کی پشت پر ہاتھ پھیرا تو میری انگلیاں مہر نبوت پر پڑیں۔راوی کا بیان ہے:میں نے دریافت کیا: وہ کیا تھی؟ ابو زید نے جواب دیا :کچھ بال تھے جو اکھٹے موجود تھے۔( ترمذی وفی آخر شمائل ترمذی، جلد دوم، باب ما جاء فی خاتم النبوہ)2۔حضرت ابراھیم بن محمد رضی اللہ عنہ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہیں فرماتے ہیں: میرے والد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا حلیہ یوں بیان کرتے تھے۔پھر طویل حدیث بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں: بین کتفیہ خاتم النبوہ وھو خاتم النبیین مہر نبوت آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دونوں کاندھوں کے درمیان تھی اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم انبیائے کرام علیہم السلام کے سلسلے کو ختم کرنے والے ہیں۔( ترمذی و فی آخری شمائل ترمذی، جلد دوم،باب ماجاء فی خاتم النبوہ)3۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل کا ملکی انتظام ان کے انبیائے کرام علیہم السلام کرتے تھے ،جب کوئی نبی فوت ہوجاتا تو اس کا قائم مقام دوسرا نبی ہوجاتا۔ بےشک میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا البتہ بکثرت خلیفہ ہونگے۔( بخاری ،حدیث:3455۔ مسلم،حدیث: 1842۔ ابن ماجہ، حدیث:2871)4۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: حضرت آدم علیہ السلام کو ہند میں اتارا گیا تو وہ گھبرائے، پس جبریل امین علیہ السلام نے نازل ہو کر اذان دی: اللہُ اکبر، اشہد ان لا الہ الا اللہ دو دفعہ اشہد ان محمدا رسول اللہ دو دفعہ کہا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے پوچھا:محمد(صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ) کون ہیں؟ حضرت آدم علیہ السلام نے کہا: وہ آپ کی اولاد میں سے آخر الانبیاء ہیں۔(تاریخ دمشق ،7/319 ،حدیث:979)ان احادیث میں ختمِ نبوت کی وضاحت از خود موجود ہے ۔کسی وضاحت کی حاجت نہیں۔اللہ پاک ہمارا جینا مرنا عقائدِ اہلسنت پہ رکھے۔ آمین۔


قرآنِ مجید میں اللہ پاک نے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی توصیف میں خاتم النبیین ارشاد فرمایا: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا(۴۰)ع (پ22،الاحزاب:40)خاتم کا لغوی معنی ہے :کسی شے کاآخری، اس آیتِ مبارکہ میں اللہ پاک نے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو خاتم النبیین فرمایا ہے، جس کا مطلب ہے: تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی، نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے زمانے میں یا آپ کے وصالِ ظاہری کے بعد کسی بھی شخص کو نبوت نہیں مل سکتی، اس لئے کہ نبوت کا سلسلہ آپ پر منقطع ہو چکا ہے۔میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:تمام اُمّتِ مرحومہ نے سلفا و خلفا یہی معنی سمجھے کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بلاتخصیص تمام انبیاء میں آخری نبی ہوئے، حضور کے ساتھ یا حضور کے بعد قیامِ قیامت تک کسی کو نبوت ملنی مُحال ہے۔(فتاویٰ رضویہ، ج14، ص332)یہ عقیدہ بہت سی احادیث سے بھی ثابت ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک میری مثال اور مجھ سے پہلے جو انبیاء گزرے ہیں، ان کی مثال یہ ہے کہ کسی نے بڑا بہترین خوبصورت محل تعمیر کیا ہو، سوائے ایک اینٹ کے، لوگ اس کے اِرد گرد گھوم کر اسے دیکھتے ہوں اور (اس کی خوبصورتی دیکھ کر) حیرت میں مبتلا ہوجاتے ہوں اور کہتے ہوں: کاش! اس جگہ اینٹ رکھ دی جاتی، پس محلِ نبوت کی وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔(بخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النبیین، ص873، رقم الحدیث3535)امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں:نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک نے چھ چیزوں کے ساتھ انبیائے کرام علیہم السلام پر مجھے فضیلت دی۔1۔مجھے جوامع الکلم عطا کیا گیا۔2۔رعب سے میری مدد کی گئی۔3۔میرے لئے غنیمتوں کو حلال کیا گیا۔4۔میرے لئے ساری زمین کو مسجد اور پاک کرنے والی بنایا گیا۔5۔مجھے ساری مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا۔6۔مجھ پر انبیائےکرام علیہم السلام بھیجنے کا سلسلہ ختم فرما دیا گیا۔( مسلم، کتاب المساجد و موضع الصلاۃ، ص237، حدیث523)ترمذی میں ہے: پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:میرے کچھ نام ہیں، میں محمد ہوں،میں احمد ہوں،میں ماحی ہوں کہ اللہ پاک میرے سبب سے کفر مٹاتا ہے اور میں حا شر ہوں،میرے قدموں پر لوگ جمع کئے جائیں گے،میں عاقب ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(ترمذی،ابواب الادب،ج5،ص135، حدیث2840) ایک اور جگہ فرمایا:بے شک رسالت اور نبوت کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے، اب میرے بعد کوئی رسول ہے اور نہ کوئی نبی۔( ترمذی، ابواب الرؤیا، ج4، ص533،حدیث2272) امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں:نبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:میری امت میں تیس جھوٹے دجال ہوں گے، ان میں سے ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔( ابو داؤد، کتاب الفتن والملاحم، ج4، ص97، حدیث4252) ایک اور روایت ہے:تمام بنی آدم حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں شفاعت کی درخواست لئے حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے: حضور! آپ اللہ پاک کے رسول ہیں اور آپ خاتم الانبیاء ہیں۔(بخاری، کتاب التفسیر، بنی اسرائیل، ص1170، حدیث4712)


نبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے تشریف لانے سے نبیوں اور رسولوں کا سلسلہ بند کر دیا گیا، اب کسی کو نبوت نہیں دی جائے گی، بس جن کو نبوت ملنی تھی، مل چکی ہے، اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا دور سب نبیوں کے بعد رکھا گیا، جو قیامت تک چلتا رہے گا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی قیامت کے قریب بحیثیت آپ کے اُمّتی کے آئیں گے، تمام نبیوں اور ہر مرسل نے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کی خوشخبری سنائی، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نبوت و رسالت اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختمِ نبوت کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا تھا، اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ولادت اور بعثت آخر میں ہوئی۔استدلال بالحدیث:عقیدۂ ختمِ نبوت سے تقریباً 210 سے زائد احادیثِ مبارکہ ثابت ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:1۔عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ قَالَ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم: کَانَتْ بَنُو اِسْرَائِیْلَ تَسُوسُھُمْ الْاَنبِیَاءُ کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہٗ نَبِی وَاِنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ فَیَکَفُرُوْنَ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل کی قیادت خود ان کے انبیائے کرام علیہم السلام کرتے تھے، جب کسی نبی کی وفات ہو جاتی تو دوسرا نبی اس کی جگہ آ جاتا تھا، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔(بخاری، باب ذکر عن بنی اسرائیل ، حدیث: 3455)عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ، قَالَ رَسُوْل اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم:وَاِنَّہٗ سَیَکُوْنُ فی اُمَّتِی ثَلَاثُوْنَ کَذَّابُوْنَ کُلُّھُمْ یَزْعُمُ اَنَّہٗ نَبِیّ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّینَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ۔حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:میری اُمّت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ان میں سے ہر ایک کہے گا:میں نبی ہوں، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(ترمذی،باب ما جاءلا تقوم الساعہ حتی یخرج کذابون، حدیث: 2219) 3۔ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت:عَنْ اَنَسِ بِن مَالِک قَالَ، قَالَ رَسُوْل اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم:اِنَّ الرِّسَالَۃَ وَالنَّبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ، فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّ۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:رسالت و نبوت ختم ہو چکی ہے، پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے، نہ نبی۔(ترمذی، باب ذھبت النبوہ وبقیت البعثرات ، حدیث: 2272)4۔لو کان بعدی نبی:عَنْ عُقْبَہَ بِنْ عَامِرٍ قَالَ، قَالَ رَسُوْل اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم:لَوْ کَانَ بَعْدِیْ نَبِیٌّ مَکَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ۔حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوتے۔(ترمذی،مناقب ابی حفص عمر بن خطاب، حدیث: 3686)5۔لیس بعدہ نبی:عَنْ جُبَیْرِبْنِ مُطْعِمٍ، اِنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم قَالَ:اَنَا اَحْمَدُ، وَاَنَا الْمَاحِی الَّذِیْ یُمْحَی بِیَ الْکُفْرُ وَاَنَا الْحَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی عَقَبِیْ، وَاَنَا الْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ۔ حضرت جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں، میرے ذریعے سے اللہ پاک کفر کو مٹا دے گا اور میں حاشر ہوں، لوگ میرے پیچھے حشر کے میدان میں لائے جائیں گے اور میں عاقب(آخر میں آنے والا) ہوں اور عاقب وہ ہوتا ہے، جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔(مسلم ، باب اسماء النبی، حدیث6105)

حاصل الکلام:ان جیسی کثیر احادیث سے ختمِ نبوت کے ثبوت ملتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم رُتبے اور زمانے، ہر حیثیت سے خاتم النبیین ہیں اور جن کو بھی نبوت ملی ہے، آپ ہی کی مہر لگ کر ملی ہے، اب کوئی جگہ باقی نہیں رہی، جسے پُر کرنے کے لئے کسی نبی کی ضرورت ہو۔

آتے رہے انبیاء کَمَا قِیْلَ لَھُمْ وَالْخَاتَمَہٗ حَقَّکُمْ کہ خاتم ہوئے تم

یعنی جو ہوا دفتر تنزیل تمام آخر میں ہوئی مہر کہ اَکْمَلْتُ لَکُمْ