عقیدۂ ختم نبوت قرآن و حدیث اور اجماعِ اُمّت تینوں  سے ثابت ہے، قرآنِ مجید میں اللہ پاک کا ارشاد ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا(۴۰)ع (پ22، الاحزاب: 40)ترجمۂ کنزالایمان:”محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔“ عربی زبان میں ختم کے معنی مہر لگانا، تمام مفسرین نے اس آیتِ کریمہ میں خاتم کے معنی آخری نبی کے بیان کئے ہیں۔حدیثِ مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بنی اسرائیل کی راہ نمائی انبیائے کرام علیہم السلام کیا کرتے تھے، جب ایک نبی وفات پا جاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتا، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ایک اور جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:”میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیائے کرام علیہم السلام کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک شخص نے عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل بنائی، مگر ایک کنارے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی اور وہ اینٹ میں ہوں۔“تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس بات پر اجماع تھا کہ حضور آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا، یہی وجہ تھی کہ خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا، صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان کے خلاف جہاد کیا۔مذکورہ آیت و حدیث کے مطابق عقیدۂ ختمِ نبوت ہمارے بنیادی عقائد میں سے ہے اور یہ بہت حساس معاملہ ہے، اگر جانے انجانے میں ہم سے کوئی کوتاہی ہو گئی تو ہم اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گی، ہمیں چاہئے کہ ہم دینِ اسلام کو سمجھ کر اس پر عمل کریں اور حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اُسوہ حسنہ کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزاریں۔

غلامانِ محمدِ عربی کو سدا بیدار رہنا ہے فقط ختمِ نبوت سے مسلمانی سلامت ہے

وگرنہ اے مسلمانو! قیامت ہی قیامت ہے ہمیں عشقِ رسالت میں سدا سرشار رہنا ہے

پیغامِ محمدی اللہ پاک کا پہلا اور آخری پیغام ہے، جو کالے گورے، عرب و عجم، ترک و تاتار، ہندی و چینی، زنگ و صرنگ سب کے لئے عام ہے، جس طرح اس کا خدا تمام دنیا کا خدا ہے، تمام دنیا کا پروردگار ہے۔(رحمت اللعالمین)اسی طرح اس اللہ پاک کا رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تمام دنیا کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہیں، یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے تشریف لانے سے نبیوں اور رسولوں کا سلسلہ بند کر دیا گیا۔ اب کسی کو نبوت نہیں دی جائے گی، بس جن کو ملنی تھی مل چکی، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نبوت کا دور نبیوں کے بعد رکھا گیا، جو قیامت تک چلتا رہے گا، حضرت مسیح علیہ السلام بھی قیامت کے قریب آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ایک اُمّتی کی حیثیت سے آئیں گے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت مسیح علیہ السلام تک ہر نبی مرسل نے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کی خوشخبری سنائی، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نبوت ورسالت اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختمِ نبوت کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا تھا۔وَاَنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدَیْ ترجمہ:اور یاد رکھنا! میرے بعد کوئی نبی نہیں آ سکے گا۔سَیَکُوْنُ خُلَفَاءِترجمہ:ہاں! میرے پیچھے خلفاء ہوں گے۔حدیث: لَا نَبِیَّ بَعْدِی نبی نہیں بعد میرے کوئی۔نبی اول نبی آخر صلوٰۃ و تسلیم بر محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ۔اللہ پاک کے فیصلے اور اس کی رضا کے علم کا دوسرا بڑا ذریعہ ہمارے پاس حدیث ہے، جس میں صراحت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے سلسلۂ نبوت و رسالت کے ختم ہونے کا اعلان فرمایا ہے۔ترمذی میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مروی ہے: حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ر سالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا، میرے بعد اب کوئی رسول ہے نہ کوئی نبی، یہ اور اس طرح کی بکثرت احادیث ِصحاح صاف اور صریح الفاظ میں آئی ہیں۔ قرآن و سنت کے بعد تیسرا درجہ اجماعِ صحابہ کا ہے، تاریخ شاہد ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی وفات کے بعد جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور جن لوگوں نے ان لوگوں کی نبوت کو تسلیم کیا، ان سب کے خلاف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بالاتفاق جنگ کی، اجماعِ صحابہ کے ساتھ ساتھ علمائے مجتہدین بھی اسی فیصلے پر ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر نبوت اور رسالت کا سلسلہ ختم ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم آخری نبی ہیں۔پار9سورۂ اعراف کی آیت نمبر 158 میں ارشاد ہوتا ہے:ترجمۂ کنزالایمان: تم فرماؤ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔