ختم نبوت احادیث کی روشنی
میں از بنت محمد عارف فیضان فاطمۃالزہرا کراچی
عقیدۂ ختمِ نبوت ضروریاتِ دین سے ہے کہ جس میں ذرہ برابر
شک انسان کو گمراہی کی گہری کھائی میں پھینک دیتا ہے۔ختم کا معنی ہے:مہر کرنا“ اور
یہ ہر عام سے عام شخص جان سکتا ہے کہ کسی شے پہ مہر تب ہی کی جاتی ہے جب اس میں مزید
کسی شے کی حاجت نہ ہو۔اس اعتبار سے ختمِ نبوت کا معنی ہوا نبوت پہ مہر لگ جانا یعنی اب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ،آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تشریف آوری سے نبوت کے رجسٹر پہ بھی مہر کردی گئی، اب
نہ کسی نبی کی حاجت ہے نہ نئی شریعت کی کہ اللہ پاک نے اس دین ِمحمدی کو قیامت تک کے لیے مقرر
کردیا لہٰذا اب اگر کوئی شخص ختم ِنبوت پہ حرف اٹھاتا ہے یا اس کا انکار کرتا ہے یا
اتنا بھی کہتا ہے کہ اگر کوئی نیا نبی بھی
آجائے تب بھی نبی صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے خاتم النبیین
ہونے پہ کوئی حرف نہیں آتا تو یہ محض باطل
عقیدہ اور دائرہ اسلام سے خارج کردینے والا فعل ہے۔ختمِ نبوت پہ قرآنِ پاک میں صریح
آیت اور بے شمار صحیح احادیث موجود ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:01۔ حضرت ابو زید عمر
بن اخطب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: قالا لی رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم یا ابا زید ادن منی فامسح ظھری فمسحت ظھرہ فوقعت اصابعی علی الخاتم
قلت وما الخاتم وقال شعرات مجتمعات نبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے ابو زید! میرے
قریب ہوجاؤ میری پشت پہ ہاتھ پھیرو میں نے آپ کی پشت پر ہاتھ پھیرا تو میری انگلیاں
مہر نبوت پر پڑیں۔راوی کا بیان ہے:میں نے دریافت کیا: وہ کیا تھی؟ ابو زید نے جواب
دیا :کچھ بال تھے جو اکھٹے موجود تھے۔( ترمذی وفی آخر شمائل ترمذی، جلد دوم، باب ما جاء فی خاتم النبوہ)2۔حضرت ابراھیم بن محمد رضی اللہ عنہ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہیں فرماتے ہیں: میرے والد نبیِ کریم
صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا حلیہ یوں بیان کرتے تھے۔پھر طویل
حدیث بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں: بین کتفیہ خاتم النبوہ وھو خاتم النبیین مہر
نبوت آپ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کے دونوں
کاندھوں کے درمیان تھی اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم انبیائے کرام علیہم السلام کے سلسلے کو ختم کرنے والے ہیں۔( ترمذی و فی آخری شمائل ترمذی، جلد دوم،باب ماجاء فی خاتم النبوہ)3۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل کا ملکی
انتظام ان کے انبیائے کرام علیہم السلام کرتے تھے
،جب کوئی نبی فوت ہوجاتا تو اس کا قائم مقام دوسرا نبی ہوجاتا۔ بےشک میرے بعد کوئی
نبی نہیں ہوگا البتہ بکثرت خلیفہ ہونگے۔( بخاری ،حدیث:3455۔ مسلم،حدیث: 1842۔ ابن ماجہ، حدیث:2871)4۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: حضرت آدم علیہ السلام کو ہند میں اتارا گیا تو وہ گھبرائے، پس جبریل امین علیہ السلام نے نازل ہو کر اذان دی: اللہُ اکبر، اشہد ان لا الہ الا اللہ دو دفعہ اشہد ان
محمدا رسول اللہ دو دفعہ کہا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے پوچھا:محمد(صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ) کون ہیں؟ حضرت
آدم علیہ السلام نے کہا: وہ آپ کی اولاد میں سے آخر الانبیاء ہیں۔(تاریخ دمشق ،7/319 ،حدیث:979)ان احادیث میں ختمِ نبوت کی وضاحت از خود موجود ہے ۔کسی
وضاحت کی حاجت نہیں۔اللہ پاک ہمارا جینا مرنا عقائدِ اہلسنت پہ رکھے۔ آمین۔