یہ بات مسلم ہے کہ ہمارے آ قا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آخری نبی ہیں اور آ پ ہی کے سرِ مبارک پر ختم نبوّت کے تاج کو سجایا گیا ،اب آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مزید کوئی نبی نہیں آ سکتا ،کیونکہ یہ قطعیت  قرآن وحدیث اور اجماعِ امت سے ثابت ہے ۔

اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کو قرآن پاک میں یوں ارشاد فرمایا :مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔

( سورۃ الاحزاب : 40 )

ختمِ نبوّت کے متعلق احادیث:

یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آ خری نبی ہونے سے متعلق احادیث ملاحظہ فرمائیں

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قالَ: إنَّ «مَثَلِي ومَثَلَ الأنْبِياءِ مِن قَبْلِي، كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنى بَيْتًا فَأحْسَنَهُ وأجْمَلَهُ، إلّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِن زاوِيَةٍ، فَجَعَلَ النّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ، ويَعْجَبُونَ لَهُ، ويَقُولُونَ هَلّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ؟قالَ: فَأنا اللَّبِنَةُ وأنا خاتِمُ النَّبِيِّينَ»

(صحیح البخاری، جلد دوم ، کتاب المناقب، باب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم)

ترجمہ :کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیاءکی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایا اور اس میں ہر طرح کی زینت پیدا کی لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹ گئی ۔ اب تمام لوگ آتے ہیں اور مکان کو چاروں طرف سے گھوم کر دیکھتے ہیں اور تعجب میں پڑجاتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ یہاں پر ایک اینٹ کیوں نہ رکھی گئی ؟ تو میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں ۔

حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ قالَ: خَلَّفَ رَسُولُ اللهِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عَلِيَّ بْنَ أبِي طالِبٍ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ فَقالَ: يا رَسُولَ اللهِ تُخَلِّفُنِي فِي النِّساءِ والصِّبْيانِ؟ فَقالَ: «أما تَرْضى أنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنزِلَةِ هارُونَ مِن مُوسى؟ غَيْرَ أنَّهُ لا نَبِيَّ بَعْدِي»(صحیح مسلم، جلد دوم ،کتاب الفضائل ،باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ )

ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوئہ تبوک کے لیے تشریف لے گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا نائب بنایا ۔ علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جارہے ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر خوش نہیں ہوکہ میرے لیے تم ایسے ہوجیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے ۔ لیکن فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں اس پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا فرمان:

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شمائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ "حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں مبارک کندھوں کر درمیان مہرِ نبوت تھی اور آ پ خاتم النبیین تھے"(ترمذی، کتاب الرؤیا عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب ذھبت النبوّہ وبقیت المبشّرات)

نبوت حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو چکی ہے۔ لہذا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی حیثیت سے کسی نبی کے آ نے کو ماننے یا ممکن بتانے والا آیات قرآنی اور احادیث مبارکہ کا منکر ہے اور قرآن وحدیث کا منکر کافر و مرتد ہے ۔

سیدی امامِ اہلسنت ، اعلحضرت فرماتے ہیں:

مِہرِ چَرخِ نبوت پہ روشن درود

گُلِ باغ ِ رِسالت پہ لاکھوں سلام

فتحِ بابِ نبوت پہ بے حد درود

ختمِ دورِ رسالت پہ لاکھوں سلام