عفو کا معنیٰ یہ ہے کہ آدمی اپنا حق چھوڑ دے اور بالکل بری الذّمہ ہو جائے مثلاً قصاص یا تاوان وغیرہ نہ لے، عفو یعنی معاف کرنا بردباری اور غصہ پی جانے کے علاوہ ایک الگ خوبی ہے جس کی اہمیت قرآن و حدیث میں ہونے کے ساتھ ساتھ صحابہ و تابعین اور اولیائے کرام کے کردار میں نمایاں نظر آتی ہے، چنانچہ اللہ پاک کا فرمان ہے: وَ  الْكٰظِمِیْنَ  الْغَیْظَ  وَ  الْعَافِیْنَ  عَنِ  النَّاسِؕ- وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ 4، آل عمران: 134) ترجمہ: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔ اللہ پاک نے خود اپنے پیارے محبوب ﷺ کو قرآن پاک میں حکم دیا: خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(۱۹۹) (پ 9، الاعراف: 199) ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب! معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیر لو۔

ایک جگہ فرمایا: وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18، النور: 22) ترجمہ کنز الایمان: اور چاہئے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔

معاف کرنا ایک ایسا اعلیٰ ترین وصف ہے کہ قرآن کریم میں جس کو ہمت والے کام قرار دیا گیا ہے۔ چونکہ انسان فطری طور پر ایسا ہے کہ نفس کے خلاف کوئی کام واقع ہو جائے تو آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور صبر کرنا اسکے لئے مشکل ہو جاتا ہے تو ایسی حالت میں دوسروں کو معاف کرنا نفس پر گراں گزرتا ہے اسی لئے تو جس کام میں زحمت زیادہ ہو وہ افضل عمل ہوتا ہے۔ اگرچہ معاف کرنا مشکل کام ہے مگر جب بندہ اس سے حاصل ہونے والی فضیلتوں کے بارے میں سنتا ہے تو صبر و استقامت کا دامن تھامتے ہوئے درگزر کرنے کی طرف چل پڑتا ہے۔ اسی لئے علم دین میں اضافے کی نیت سے عفو و درگزر کی فضیلت کے بارے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں،

1۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے روز اعلان کیا جائے گا: جس کا اجر اللہ کے ذمۂ کرم پر ہے، وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔پوچھا جائے گا: کس کے لئے اجر ہے ؟ وہ منادی (یعنی اعلان کرنے والا) کہے گا: ان لوگوں کے لئے جو معاف کرنے والے ہیں تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلاحساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم اوسط، 1/542،حدیث: 1998)

2۔ رحم کیا کرو تم پر رحم کیا جائے گا اور معاف کرنا اختیار کرو اللہ تمہیں معاف فرما دے گا۔ (مسند امام احمد، 2/682،حدیث: 7062)

ہم نے خطا میں نہ کی تم نے عطا میں نہ کی کوئی کمی سرورا تم پہ کروڑوں درود

اب سوال یہ ذہن میں اٹھتا ہے کہ آخر معاف کتنی دفعہ کریں؟ تو اسکے متعلق بھی حدیث مبارکہ سے جانئے کہ ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یارسول اللہ! ہم خادم کو کتنی بار معاف کریں؟ آپ خاموش رہے۔اس نے پھر وہ سوال دہرایا،آپ پھر خاموش رہے،جب تیسری بار سوال کیا تو ارشاد فرمایا: روزانہ ستر(70) بار۔ (ترمذی، 3/381، حدیث: 1956)

معلوم ہوا کہ ہمیں وقتاً فوقتاً معاف کرتے رہنا چاہیے اور قرآن پاک کی آیات پر عمل کی نیت سے اور سنت مصطفیٰ ﷺ پر عمل کی نیت سے عفو و درگزر کی عادت اپنا لیجئے اور اللہ پاک کے نیک اور محبوب بندوں میں داخل ہو جائیے۔

اللہ سے دعا ہے کہ

تو بے حساب بخش کہ ہیں بے شمار جرم دیتا ہو واسطہ تجھے شاہ حجاز کا

شرم و حیا ایک ایسی صفت ہےجس کے بغیر ایمان والوں کی زندگی ادھوری ہے۔یہ ایمان کے تقاضوں میں سے ایک اہم ترین تقاضا ہے۔اچھی صفات میں سے ایک اچھی صفت ہے۔قرآن و حدیث میں اس کی کیا اہمیت بیان ہوئی ہے نیز پیکرِ شرم و حیا،جنابِ احمدِ مجتبیٰ ﷺ کی شرم و حیا کیسی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ کئی مفید باتیں اس کے بارے میں پڑھیں گی۔سب سے پہلے یہ 2اہم باتیں ذہن نشین فرما لیجئے: ایک بات یہ کہ شرم اور حیا کے ایک ہی معنی ہیں۔دوسری بات یہ کہ شرم و حیا کسے کہتے ہیں؟اور اس سے کیا مراد ہے؟

شرم و حیا اس وصف کو کہتے ہیں جو بندے کو ہر اس چیز سے روک دے جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک نا پسندیدہ ہوں۔حضور اقدس ﷺ کی حیا کے بارے میں اللہ پاک کا قرآن میں یہ فرمان سب سے بڑا گواہ ہے کہ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-ترجمہ:بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے۔(پ22، الاحزاب: 53)

آپ ﷺ کی شانِ حیا کی تصویر کھینچتے ہوئے ایک معزز صحابیِ رسول حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ نے فرمایا:آپ ﷺ کنواری پردہ نشین عورت سے بھی کہیں زیادہ حیا دار تھے۔(بخاری،حدیث:3562)

حضور پاک ﷺ میں انتہا درجہ کی حیا تھی۔مردوں کی نسبت عورتوں میں اور عورتوں میں کنواری لڑکی اور کنواری لڑکیوں میں سے بھی پردہ کی پابند لڑکی کس قدر باحیا ہوتی ہے حضور پاک ﷺ اس سے بھی زیادہ حیا والے تھے۔اس لیے ہر قبیح قول و فعل اور قابلِ مذمت حرکات وسکنات سے عمر بھر ہمیشہ آپ کا دامنِ عصمت پاک و صاف ہی رہا اور پوری حیاتِ مبارکہ میں وقار و مروت کے خلاف آپ سے کوئی فعل یا عمل سرزد نہیں ہوا۔چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:حضور پاک ﷺ نہ فحش کلام تھے، نہ بے ہودہ گو، نہ بازاروں میں شور مچانے والے تھے۔برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیا کرتے تھے بلکہ معاف فرما دیا کرتے تھے۔آپ یہ بھی فرمایا کرتی تھیں کہ کمالِ حیا کی وجہ سے میں نے کبھی بھی حضور ﷺ کو برہنہ نہیں دیکھا۔( الشفاء،1/69)

حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما اپنے ماموں حضرت ہند بن ابی ہالہ سے حضور ﷺ کی صفتِ حیا نقل کرتے ہیں کہ آپ جب کسی پر ناراض ہوتے تو اس سے منہ پھیر لیتے اور بے توجہی فرما لیتے یا در گزر فرماتے اور جب خوش ہوتے تو حیا کی وجہ سے انکھیں گویا بند فرما لیتے اور آپ کی اکثر ہنسی تبسم ہوتی تھی ،اس وقت آپ کے دندان مبارک اولے کی طرح چمکدار سفید ظاہر ہوتے تھے۔ آپ کی مجلس علم،حیا،صبر اور امانت کی مجلس ہوا کرتی تھی۔آپ شرم و حیا میں کنواری پردہ نشین لڑکی سے کہیں زیادہ بڑھے ہوئے تھے۔جب آپ کو کوئی بات ناگوار ہوتی تو آپ کے چہرے مبارک سے پہچان لی جاتی یعنی آپ غایتِ شرم کی وجہ سے اظہارِ ناپسندیدگی بھی نہ فرماتے تھے۔(شمائل نبوی) کہتے ہیں کہ یہ قسم حیا کی سب سے اعلیٰ ہے، کیونکہ جو اپنی ذات سے بھی شرماتا ہے وہ دوسروں سے کس قدر شرمائے گا!

سبحان اللہ!ہمارے پیارے نبی ﷺ کی سیرتِ طیبہ میں آپ کا باحیا کردار کیسا تھا!اللہ کریم! ہمیں شرم و حیا کے پیکر،محبوبِ رب اکبر ﷺ کے صدقے ہم سب کو شرم و حیا جیسی عظیم صفت عطا فرمائے۔امین

حیاایک ایسی صفت ہے جس کی وجہ سے انسان برائیوں کے ارتکاب سے باز رہتا ہے۔حضور ﷺ کی شرم و حیا کے بارے میں قرآن میں اللہ پاک کا یہ فرمان سب سے بڑا گواہ ہے کہ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-ترجمہ:بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے۔(پ22، الاحزاب: 53)مفسرین نے اس آیت کے شانِ نزول سے متعلق مختلف روایات ذکر کی ہیں،ان میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگ نبیِ کریم ﷺ کے کھانے کے وقت کا انتظار کرتے رہتے تھے،پھر وہ آپ کے حجروں میں داخل ہو جاتے اور کھانا ملتے تک وہیں بیٹھے رہتے،پھر کھانا کھانے کے بعد بھی وہاں سے ہلتے نہ تھے،اس سے رسول اللہ ﷺ کو اذیت ہوتی تھی،اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔اس آیت کے شانِ نزول سے سرکارِ دو عالم ﷺ کی کمالِ حیا،شانِ کرم اور حسنِ اخلاق کے بارے میں معلوم ہوا کہ ضرورت کے باوجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ نہ فرمایا کہ اب چلے جائیں!بلکہ آپ نے جو طریقہ اختیار فرمایا وہ حُسنِ آداب کی اعلیٰ تعلیم دینے والا ہے۔حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نبیِ پاک ﷺ کی کمالِ شرم و حیا کے متعلق فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ پردہ دار کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا والے تھے۔(بخاری،1/ 503)

آپ کی ذاتِ اقدس میں نہایت درجے کی حیا تھی،غایتِ حیا کے سبب سے آپ اپنی ایک راحت کی تشریح نہ فرماتے تھے(یعنی ناپسندیدگی کا اظہار نہ فرماتے تھے)

آپ ہر قبیح قول و فعل اور قابلِ مذمت حرکات و سکنات سے عمر بھر ہمیشہ پاک صاف رہے۔پوری حیاتِ مبارکہ میں وقار و مروت کے خلاف آپ سے کوئی عمل سرزد نہیں ہوا۔چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضور ﷺ نہ فحش کلام تھے، نہ بےہودہ گو،نہ بازاروں میں شور مچانے والے تھے۔برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیا کرتے تھے بلکہ معاف فرما دیا کرتے تھے۔آپ یہ بھی فرماتی ہیں کہ کمالِ حیا کی وجہ سے میں نے کبھی بھی حضور ﷺ کو برہنہ نہیں دیکھا۔(الشفاء،1/69)

حضور ﷺ کے زمانے میں باقاعدہ استنجا خانوں کا رواج نہ تھا،لہٰذا قضائے حاجت کے لیے آپ آبادی سے دور دراز نکل جاتے،چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:آپ ﷺ آبادی سے بہت دور چلے جاتے یہاں تک کہ کوئی آپ کو دیکھ نہیں پاتا تھا۔( ابو داود)

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ حضور ﷺ کی شرم و حیا کے متعلق لکھتے ہیں:

نیچی نظروں کی شرم و حیا پر درود اونچی بینی کے رفعت پہ لاکھوں سلام

جب سرکار ِدو عالم ﷺ نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا اور ولیمے کی دعوت دی تو لوگ جماعت کی صورت میں آتے اور کھانے سے فارغ ہو کر چلے جاتے۔آخر میں تین صاحب ایسے تھے جو کھانے سے فارغ ہو کر بیٹھے رہے اور انہوں نے گفتگو کا طویل سلسلہ شروع کر دیا اور بہت دیر تک بیٹھے رہے۔مکان تنگ تھا تو اس سے گھر والوں کو تکلیف ہوئی اور حر ج واقع ہوا کہ وہ ان کی وجہ سے اپنا کام کاج کچھ نہ کر سکے۔ رسولِ کریم ﷺ اٹھے اور اپنی ازواجِ مطہرات کے حجروں میں تشریف لے گئے اور جب دورہ فرما کر تشریف لائے تو اس وقت تک یہ لوگ اپنی باتوں میں لگے ہوئے تھے۔حضور ﷺ پھر واپس ہو گئے تو یہ دیکھ کر وہ لوگ روانہ ہوئے،تب حضور ﷺ دولت سرائے میں داخل ہوئے اور دروازے پر پردہ ڈال دیا ۔اس واقعے سے حضور ﷺ کی کمالِ شرم و حیا کا پتہ چلتا ہے کہ ناگوار گزرنے کے باوجود بھی ان سے یہ نہیں فرمایا کہ آپ لوگ یہاں سے چلے جائیں۔ اللہ پاک ہمیں بھی حضور ﷺ کی شرم و حیا کا صدقہ عطا فرمائے۔ امین 


نبیِ کریم ﷺ کی عالی صفات میں سے ایک صفت حیا ہے۔چونکہ نبیِ کریم ﷺ کی ہر صفت کامل و اکمل،اعلیٰ و  ارفع ہے،اس لئے آپ کی صفتِ حیا اور مقامِ حیا بھی سب سے کامل و اکمل ،اعلیٰ و ارفع ہوگی۔

نبیِ کریم ﷺ کی شرم و حیا کا عالم:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ پردہ والی کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ با حیا تھے،جب کوئی بات ایسی دیکھتے جو آپ کو ناگوار ہوتی تو ہم لوگوں کو آپ کے چہرے سے معلوم ہوجاتا۔(بخاری،جلد سوم،حدیث:1055)

حکیمُ الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ بیان کردہ حدیث کی شرح میں ارشاد فرماتے ہیں:کنواری لڑکی کی جب شادی ہونے والی ہوتی ہے تو اسے گھر کے ایک گوشے میں بٹھا دیا جاتا ہے،اسے اردو میں مایوں بٹھانا کہا جاتا ہے،اس زمانہ میں لڑکی بہت ہی شرمیلی ہوتی ہے،گھر والوں سے بھی شرم کرتی ہے،کسی سے کھل کر بات نہیں کرتی،حضور ﷺ کی شرم اس سے بھی زیادہ تھی،حیا انسان کا خاص جوہر ہے جتنا ایمان قوی(مضبوط ہوگا) اتنا حیا(بھی) زیادہ ہوگی۔(مراۃ المناجیح،8/73)

حیا ایمان کا جزو ہے:حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی ﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے اور وہ حیا کے متعلق عتاب کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کو تو اس قدر حیا کرتا ہے!تجھے نقصان پہنچے گا۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:اس کو چھوڑ دو(ایسا نہ کہو)اس لئے کہ حیا ایمان کا جزو ہے۔

(بخاری،جلد سوم،حدیث:1071)

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ بہت زیادہ حیا فرمانے والے تھے۔آپ سے جب بھی کسی چیز کا سوال کیا گیا تو آپ نے وہ عطا کردی۔(دارمی،1/48،رقم:71)(تاریخ ابن عساکر،4/33)

شرم و حیا اور ہمارا معاشرہ:اس میں شک نہیں کہ جیسے جیسے ہم زمانہ رسالت سے دور ہوتی جارہی ہیں شرم و حیا کی روشنیاں ماڈرن،اندھی اور تاریک تہذیب کی وجہ سے بجھتی جا رہی ہیں۔اس منحوس تہذیب کے جراثیم مسلم معاشرے میں بھی اپنے پنجے گاڑنے لگے ہیں۔افسوس!وہ شرم و حیا جسے اسلام مرد و عورت کا جھومر قرار دیتا ہے آج اس جھومر کو کلنک کا ٹیکا(بدنامی کا دھبہ)بتایا جارہا ہے۔محرم و نا محرم کا تصور اور شعور دے کر اسلام نے مرد و عورت کے اختلاط پر جو بند باندھا تھا آج اس میں چھید(سوراخ) نمایاں ہیں۔حیا انسانی زندگی میں ایک ضروری حیثیت رکھتی ہے،افعال میں ہو،اخلاق میں ہو یا اقوال میں،جس میں حیا کا جذبہ نہ ہو اس کے لئے ہر آن گمراہ ہونے کا خطرہ ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرم و حیا کس قدر اہمیت رکھتی ہے! لہٰذا ہمیں بھی شرم و حیا اپنانی چاہئے۔

حضور ﷺ کی حیا کے بارے میں قرآنِ پاک میں اللہ پاک کا یہ فرمان سب سے بڑا گواہ ہے۔چنانچہ اللہ پاک کا فرمان ہے: اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-ترجمہ :بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے۔ (پ 22، الاحزاب:53)

آپ کی شانِ حیا کی تصویر کھینچتے ہوئے ایک معزز صحابی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ کنواری پردہ نشین عورت سے بھی کہیں زیادہ حیا دار ہیں ۔(سیرتِ مصطفیٰ ،ص613) آقا ﷺ کی شرم و حیا پر سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آپ جب کسی چیز کی طرف دیکھتے تو اپنی نگاہِ مبارک نیچی فرمالیا کرتے تھے،بلا ضرورت اِدھر اُدھر نہ دیکھا کرتے تھے،ہمیشہ اللہ پاک کی طرف متوجہ رہتے،اسی کی یاد میں مشغول اور آخرت کے معاملات میں غور و فکر کرتے رہتے،نیز آپ کی نظرِ مبارک آسمان کی نسبت زمین کی طرف زیادہ رہتی تھی۔(مواھب لدنیۃ، 5/272)

حدیثِ مبارک میں جو الفاظ آئے ہیں کہ ”آسمان کی نسبت زمین کی طرف توجہ زیادہ رہتی تھی“ یہی حد درجہ شرم و حیا پر دلیل ہے۔(پردے کے بارے میں سوال جواب،ص313)

اس لئے ہر قبیح قول و فعل و قابلِ مذمت حرکات سے ہمیشہ آپ کا دامنِ عصمت پاک و صاف رہا اور پوری حیاتِ مبارکہ میں وقار و مروت کے خلاف آپ سے کوئی عمل نہیں ہوا ۔

حدیثِ مبارک میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایاکہ حضور ﷺ نہ فحش کلام، نہ بےہودہ گو، نہ بازاروں میں شور مچانے والے تھے۔آپ رضی اللہ عنہا یہ بھی فرمایا کرتی تھیں کہ کمالِ حیا کے سبب میں نے کبھی بھی آپﷺ کو برہنہ نہیں دیکھا۔( سیرتِ مصطفیٰ،ص614)

شرم و حیا انسان کا وہ وصفِ جمیل ہے جس کی آغوش میں اخلاق و کردار کی خوبیاں پرورش پاتی ہیں۔ جو انسان اس وصف سے کامل طور پر متصف ہو جاتا ہے وہ اخلاقِ حسنہ کا پیکر بن جاتا ہے اور جو انسان اس سے موصوف نہ ہو تو وہ بے حیائی و بے شرمی کا مجسمہ ہو کر جو چاہے کرتا ہے۔جیسا کہ حدیث میں ہے:اذا لم تستحی فاصنع ماشئت کہ جب تو نے شرم و حیا نہیں کی تو جو چاہے کر۔(بخاری، 1/490)

حیا ایک ایسی رقت ہے جو انسان کے اندر اس وقت نمودار ہوتی ہے جب وہ کسی مکروہ فعل کو دیکھے جس کا نہ کرنا بہتر ہواس میں حضور ﷺ سب سے زیادہ حیا فرمانے والے اور سب سے بڑھ کر غضِ بصر یعنی چشم پوشی کرنے والے تھے ۔ ( الشفاء، ص112)

آپ ﷺ کی شانِ حیا کی تصویر کھینچتے ہوئے ایک معزز صحابی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ آپ کنواری پردہ نشین عورت سے بھی کہیں زیادہ حیادار تھے اور جب کوئی ناپسند چیز دیکھتے تو ہم چہرۂ انور میں اسے پہچان لیتے تھے۔(بخاری ،حديث:3562)

وضاحت :کنواری لڑکی کی جب شادی ہونے والی ہوتی تو اسے گھر کے ایک گوشہ میں بٹھا دیا جاتا ہے اسے اردو میں مایوں بٹھانا کہا جاتا ہے ۔اس جگہ یعنی گھر کے گوشہ کو مائیں اور عربی میں خدر کہتے ہیں۔ اس زمانہ میں لڑکی بہت شرمیلی ہوتی ہے، گھر والوں سے بھی شرم کرتی ہے ، کسی سے کھل کر بات نہیں کرتی ۔حضور ﷺکی شرم اس سے بھی زیادہ تھی۔حیا انسان کا خاص جوہر ہے جتنا ایمان قوی اتنی حیا زیادہ ۔

وضاحت :یعنی دنیاوی باتوں میں سے کوئی بات یا کوئی چیز حضور انور ﷺ کو ناپسند ہوتی تو زبان مبارک سے یہ نہ فرماتے مگر چہرۂ انور پر ناپسندیدگی کے آثار نمودار ہوجاتے تھے اورخدام بارگاہ پہچان لیتے تھے۔

ایک مرتبہ دعوتِ ولیمہ پر دو تین آدمی حضور ﷺ کے گھر شریف میں کھانے کے بعد باتیں کر رہے تھے۔ حضور ﷺ کو ان کے بیٹھنے سے تکلیف ہوئی مگر ان سے نہ فرمایا کہ چلے جاؤ! اس پر اللہ پاک کا فرمان نازل ہوا: اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-ترجمہ :بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے۔ (پ 22، الاحزاب:53)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضور ﷺ نہ فحش کلام تھے،نہ بے ہودہ گو،نہ بازاروں میں شور مچانے والے تھے۔ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیا کرتے تھے بلکہ معاف فرما دیا کرتے تھے۔

وضاحت: یعنی حضور ﷺ کی عادتِ کریمہ فحش باتیں کرنے کی اور کسی پر لعنت پھٹکار کرنے کی نہ تھی، ساری عمر شریف میں ایک بار بھی کسی کو گالی نہ دی،کسی خادم یابیوی کو لعنت کے لفظ سے یاد نہ فرمایا۔آپ یہ بھی فرمایا کرتی تھیں کہ کمالِ حیا کی وجہ سے میں نے کبھی بھی حضورﷺ کو برہنہ نہیں دیکھا۔(الشفاء،1/ 119ملتقطاً)

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبیِ کریم ﷺ کو جب کسی کی طرف سے کوئی ناگوار اطلاع ملتی تو آپ یہ نہ فرماتے کہ فلاں کا کیا حال ہے؟وہ ایسا کہتا ہے!بلکہ آپ یہ فرماتے :فلاں قوم کیا کرتی ہے؟ یا فلاں قوم کیا کہتی ہے؟ اس سے ان کو باز رہنے کی تلقین فرماتے اور ایسا کرنے والے کا نام نہ لیتے تھے۔(ابو داود،5/ 143)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور سید عالم ﷺ حیا کی وجہ سے کسی کے چہرے پر نظر جما کر باتیں نہ فرماتے تھے اور آپ کسی کی مکروہ بات کو اضطراراً کنایتاًبیان فرما دیتے تھے ۔

( ابن ماجہ،ص 68)

اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےکہ میں نے کبھی حضور ﷺ کا ستر نہ دیکھا۔

(ابن ماجہ،1/217 )( شمائل محمدیہ، ص283)

اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں بھی باحیا و با پردہ و اخلاِق احسنہ کی پیکر بنائے۔آمین

حیاکی تعریف :حیا وہ ایک ایسی رقت ہے جو انسان کے چہرے پر اس وقت نمودار ہوتی ہے جب وہ کسی ایسے عمل کو دیکھتا ہے جس کا نہ کرنا بہتر ہو۔ (الشفا،ص92)

حیا کا ایک حصہ اغضاءیعنی چشم پوشی بھی ہے۔حضور ﷺ کی پاک دامنی کا ذکر کس زبان سے کیا جائے! صرف اتنا بتادینا کافی ہے کہ آپ نےکبھی بھی کسی عورت کو جس کے آپ مالک نہیں ہوں نہیں چھوا۔ (سیرتِ رسولِ عربی،ص371)

حضور ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ حیا فرمانے والے تھے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-ترجمہ : بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے۔ (پ 22، الاحزاب:53)

حیا وہ خلق ہے جس کے ذریعے انسان قبائحِ شرعیہ کے ارتکاب سے بچتا ہے۔حضور ﷺ کی ذاتِ اقدس میں غایت درجے کی حیا تھی۔چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ پردہ نشین کنواری لڑکی سے زیادہ حیا والے تھے۔جب حضور ﷺ کسی چیز سے کراہت فرماتے تو ہم آپ کے چہرۂ انور سے پہچان جاتے۔ آپ کا چہرۂ انور لطیف تھا،ظاہری جلد باریک تھی۔ آپ حیا کی وجہ سے جس بات کو مکروہ سمجھتے اس سے بالمشافہ کلام نہ فرماتے یہ آپ ﷺ کی شریف النفسی تھی۔( بخاری،4/151)( مسلم، 4/1809)یعنی غایتِ حیا کے سبب آپ اپنی کراہت کی تصریح نہ فرماتے تھے، بلکہ ہم اس کے آثار چہرۂ انور میں پاتے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور ﷺ کی بارگاہ میں اس طرح حاضر ہوا کہ آپ نے اس سے کچھ نہ فرمایا اور آپ کسی کی موجودگی میں ناگوار بات کی نسبت کلام نہ فرماتے تھے۔ پس جب وہ چلا گیا تو آپ نے فرمایا:تم اس سے کہہ دیتے کہ اس کو دھو ڈالو اور ایک روایت میں یہ ہے کہ تم اس کو کہہ دیتے کہ اس کو اتار دے۔(تو وہ اتار دیتا)(ا بوداود،5/143)(شمائل محمدیہ،ص273)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے کبھی حضور ﷺ کا ستر نہ دیکھا۔(ابن ماجہ،5/217 )

شرم و حیا کا وصف مبارک بھی دوسرے اوصاف حمیدہ کی طرح حضورﷺکی ذاتِ اقدس میں اکمل طور پر تھا۔چنانچہ صحابہ کرام علیہم الرضوان فرماتے ہیں:آپ کثرتِ حیا کی وجہ سے کسی شخص کے چہرے پر نظر نہیں جماتے تھے۔( ذکر جمیل،ص100)

نیچی آنکھوں کی شرم و حیا پر درود اونچی بینی کی رفعت پہ لاکھوں سلام

حیا کی تعریف:اصطلاح میں حیا یک ایسی رقت ہے جو انسان کے چہرے پر اس وقت نمودار ہوتی ہے جب وہ کسی مکروہ عمل کو دیکھے جس کا نہ کرنا بہتر ہو۔ اسلام حیا کی تعلیم دیتا ہے۔حضور ﷺکی سیرتِ طیبہ سے حیا کی تعلیم ملتی ہے۔چنانچہ حضور ﷺنے فرمایا: چار چیزیں رسولوں کی سنتوں میں سے ہیں:( 1) عطر لگانا( 2) نکاح کرنا( 3) مسواک کرنا( 4) حیا کرنا۔

نصِّ قرآنی : حضور ﷺ کی حیا کے بارے میں اللہ پاک کا قرآنِ پاک میں یہ فرمان سب سے بڑا گواہ ہے :

اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-ترجمہ : بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے۔ (پ 22، الاحزاب:53)

احادیثِ مبارکہ:آپ ﷺ کی شانِ حیا کی تصویر کھینچتے ہوئے ایک معزز صحابی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ ﷺ کنواری پردہ نشین عورت سے بھی کہیں زیادہ حیا دار تھے۔( سیرتِ مصطفیٰ ،ص613

حضرت عبداللہ بن سلام اور حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ حیا کی وجہ سے کسی کے چہرے پر نظر جما کر باتیں نہ فرماتے تھے اور آپ کسی کی مکروہ بات کو اضطرارًا ، کنایتًا بیان فرما دیتے تھے۔

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے کبھی حضور ﷺ کا ستر نہیں دیکھا۔

حضور ﷺ نے فرمایا: بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔(مستدر ک،1/ 176، حدیث: 66 )

اسلام اور حیا کا آپس میں وہی تعلق ہے جو روح کا جسم سے ہے۔ اسی لیے اسلام کے دشمن مسلمانوں کی حیا پر وار کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈراموں، فلموں، اشتہارات اور مارننگ شوز وغیرہ کے نام پر معاشرے میں شرم و حیا کے سائبان میں چھید کرنا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔بے حیائی تباہی لاتی ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ مردوں کے اخلاق اور عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں۔لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے ۔جیسا کہ حضور ﷺ نے فرمایا:حیا صرف خیر ہی لاتی ہے۔(مسلم،ص 40، حدیث: 37 )

حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔(ابن ماجہ،4 /460، حدیث: 4181)

حضورﷺ نے فرمایا : ایمان کے 70 سے زائد شعبے ہیں ۔حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔

حضور ﷺ نے فرمایا: جس میں حیا نہیں وہ جو چاہے کرے ۔

حیا کی اقسام: حیاکبھی فرض وواجِب ہوتی ہےجیسے کسی حرام و ناجائز کام سے حیا کرنا۔کبھی مستحب جیسے مکروہِ تنزیہی سے بچنے میں حیاکرنا اورکبھی مُباح جیسےکسی مُباحِ شرعی کےکرنےسےحیا۔

حیا ایک ایسی چیز ہے جو مسلم و غیر مسلم ہر ایک میں کچھ نہ کچھ ضرور ہوتی ہے۔کیونکہ غیر مسلم بھی کپڑوں کے بغیر باہر نہیں نکلتے۔ البتہ عورتوں میں حیا زیادہ ہوتی ہے۔لیکن سب سے بڑھ کہ شرم و حیا کے پیکر ہمارے رسول کریم ﷺ ہیں ۔

حیا کے معنی ہیں عیب لگائے جانے کے خوف سے چھینپنا۔اس سے مراد وہ وصف ہے جو ان چیزوں سے روک دے جو اللہ پاک اور مخلوق کے نزدیک ناپسندیدہ ہوں۔ (مرقاة المفاتيح )

حضور اقدس ﷺ کی حیا کے بارے میں اللہ پاک قرآنِ کریم میں یوں ارشاد فرماتا ہے:اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-ترجمہ : بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے۔ (پ 22، الاحزاب:53)

آپ کی شانِ حیا کو بتاتے ہوئے ایک معزز صحابی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا:حضور ﷺ کنواری پردہ نشین عورت سے بھی کہیں زیادہ حیادار تھے ۔

آپ ﷺ ہر برے قول و فعل اور قابلِ مذمت حرکات و سکنات سے عمر بھر ہمیشہ دور رہے ہیں اور آپ کا دامنِ عصمت پاک و صاف ہی رہانیز پوری حیاتِ مبارکہ میں آپ ﷺ سے وقار کے خلاف کوئی عمل ظاہر نہ ہوا۔

حضرت عائشہ رضی الله عنہا حضور اکرم ﷺ کی حیا کے متعلق فرماتی ہیں کہ آپ نہ فحش کلام تھے،نہ بے ہودہ گو،نہ بازاروں میں شور مچانے والے تھے۔آپ یہ بھی فرماتی ہیں کہ کمالِ حیا کی وجہ سے میں نے کبھی بھی حضور اکرم ﷺ کو برہنہ نہیں دیکھا۔ (سیرتِ مصطفیٰ)

حضور اکرم ﷺ نے بہت سی احادیثِ مبارکہ میں حیا کے متعلق فرمایا جن میں سے چند احادیث درج ذیل ہیں:

حضور ا کرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔(ابن ماجہ)

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:ایمان کے 70 سے زائد شعبے ہیں اور حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔(مسلم)

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک حیا اور ایمان دونوں آپس میں ملے ہوئے ہیں تو جب ایک کو اٹھا لیا جائے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ ( مستدرک)

اس حدیثِ مبارک میں حیا کے بارے میں فرمایا گیا کہ حیا اور ایمان ملے ہوئے ہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں حیا کی کتنی اہمیت ہے!حیا اسلام کا ایک حسن ہے۔جس کے دل میں حیا نہ ہو،جس کی آنکھ میں حیا نہ ہو، جو بے حیا ہوگا اس کا کردار ختم ہو جاتا ہے ۔ باحیا انسان باکردار ہوتا ہے۔ حیا کی اسلام میں اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے حیا کے بارے میں یہاں تک فرمایا کہ جب حیا ختم ہوجائے توجو چاہے کرو۔ جیسا کہ انصاری صحابی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ پاک کےآخری نبی ،محمد عربی ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں حیا نہ ہو تو جو چا ہو کر و۔ (بخاری)

آج ہم لوگ اپنا حال دیکھیں کہ کیا جن کی ہم امتی ہیں ہم ان کے طریقے کے مطابق عمل کرتی ہیں؟ وہ اتنے باحیا تھے اور ہمارےمعاشرے میں اجنبی عورت اور مرد میں پردہ ختم کرنے اور ان کے درمیان قربتیں بڑھانے کے مختلف طریقے اور انداز اختیار کئے جا رہے ہیں نیز دنیوی معاملات کے ہر میدان میں عورت اور مرد ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اور قوم بقدم چلتے نظر آرہے ہیں جبکہ پردے کے حق میں بولنے والیوں کو پرانی سوچ والی اور بدلتے وقت کے تقاضوں کے مطابق نہ چلنے والی کہہ کر صرفِ نظر کیا جارہا ہے۔الغرض حیا کے اعتبار سے معاشرےمیں بہت بگار پیدا ہوتا جا رہا ہے۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں با حیا بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

حیا کی تعریف: حیا وہ خلق ہے جس کے ذریعے انسان قبائحِ شرعیہ کے ارتکاب سے بچتا ہے۔حضور ﷺ کی ذاتِ اقدس میں غایت درجہ کی حیا تھی۔ حیا ایک ایسی رقت ہے جو انسان کے چہرے پر اس وقت نمودار ہوتی ہے جب وہ کسی مکروہ فعل کو دیکھے جس کا نہ کرنا بہتر ہے۔اغضاء وہ صفت ہے کہ جب انسان کسی ایسی چیز کو دیکھے جس کو اپنی طبیعت سے برا جانتا ہو،پھر اس سے منہ پھیرے۔حضور ﷺ تمام اعلیٰ صفات کی طرح اس میں بھی سب سے بڑھ کر غضِ بصر یعنی چشم پوشی کرنے والے تھے۔قرآنِ کریم میں اللہ پاک نے آپ کی حیا کے متعلق فرمایا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُۙ- (پ22،الاحزاب: 53)ترجمہ کنزالعرفان: اے ایمان والو!نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اجازت نہ ہو جیسے کھانے کیلئے بلایا جائے۔ یوں نہیں کہ خودہی اس کے پکنے کاانتظار کرتے رہو۔

تفسیر :یہ آیت حضور ﷺ کی نعتِ پاک ہے۔اس آیت میں مسلمانوں کو اس دولت خانہ کا ادب و احترام سکھایا گیا ہے جس میں وہ آفتابِ نبوت جلوہ گر تھے۔اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ حضور ﷺ نے حضرتِ زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا اور دعوتِ ولیمہ کے لوگ جماعت جماعت سے آتے تھے اور کھاتے جاتے تھے۔لوگ کھا کر گئے مگر تین شخص کھانا کھا کر باتوں میں مشغول ہو گئے اور باتوں کا سلسلہ اس قدر دراز ہو گیا کہ ان کا بیٹھنا حضور ﷺ پر بھاری ہوا۔حضور ﷺ اس جگہ سے اس لیے اٹھے کہ یہ لوگ بھی ہمیں قیام فرما دیکھ کر اٹھ جائیں ، مگر وہ حضرات نہ سمجھے۔مکان تنگ تھا اور گھر والوں کو بھی ان کی وجہ سے تکلیف ہوئی۔حضور ﷺ وہاں سے اٹھ کر حجروں میں تشریف لے گئے۔دورہ فرما کر جو تشریف لائے تو ملاحظہ فرمایا کہ وہ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔حضور ﷺ یہ دیکھ کر پھر واپس ہو گئے۔ تب ان لوگوں کو یہ خیال ہوا اور وہ اٹھ گئے۔اس پر یہ آیتِ کریمہ اتری۔اس آیت سے حضور ﷺ کا خلق،کمالِ حیا اور شان معلوم ہوئی کہ آپ کو اگر کسی سے تکلیف پہنچتی تو خود نہیں فرماتے بلکہ رب کریم ارشادفرماتا ۔

احادیثِ مبارکہ:

1۔ حضور ﷺ کی پاک دامنی کا ذکر کس زبان سے کیا جائے!صرف اتنا ہی بتادینا کافی ہے کہ آپ ﷺ نے کبھی کسی عورت کو جس کے آپ مالک نہ ہوں نہیں چھوا۔چنانچہ ایک جلیلُ القدر صحابی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پردہ والی دوشیزہ سے بڑھ کر حیا دار تھے۔ جب آپ کسی معاملے کو نا پسند فرماتے تو ہم اسے آپ کے چہرے سے پہچان لیا کرتے یعنی غایتِ حیا کے سبب سے آپ اپنی کراہیت کی تصریح نہ فرماتے تھے بلکہ ہم اس کے آثار چہرۂ انور پر پاتے۔(شمائل محمدیہ،ص 203،حدیث:341)

2۔حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ بہت زیادہ حیا فرمانے والے تھے۔ آپ سے جب بھی کسی چیز کا سوال کیا گیا تو آپ نے وہ عطا کردی ۔( دارمی،1/ 48،رقم:1)

3۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبیِ کریم ﷺ یہ نہ فرماتے کہ فلاں کا کیا حال ہے؟وہ ایسا کہتا ہے! بلکہ آپ یہ فرماتے کہ فلاں قوم کیا کرتی ہے؟ یا فلاں قوم کیا کہتی ہے؟ اس سے ان کو باز رہنے کی تلقین فرماتے اور ایسا کرنے والے کا نام نہ لیتے۔( ابو داود،5/143)

4۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص آپ ﷺ کی بارگاہ میں اس طرح حاضر ہوا کہ آپ نے اس سے کچھ نہ فرمایا اور آپ کسی کی موجودگی میں ناگوار بات کی نسبت کلام نہ فرماتے تھے۔ جب وہ چلا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:تم اس سے کہہ دیتے کہ اسے دھو ڈالے۔(ابوداود،5/143)(شمائل محمدیہ، ص273)

5۔ حضرت عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر بن عاص رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ حضور ﷺ حیا کی وجہ سے کسی کے چہرے پر نظر نہ فرماتے تھے اور کسی کی مکروہ بات کو اضطرارً کنایتاً فرما دیتے تھے۔ (ابن ماجہ، ص68)

6۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:حضور ﷺ کی حیا اور تستر کی وجہ سے مجھے کبھی آپ کامحلِّ شرم دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ (ابن ماجہ ،ص 662،1922)

وضاحت:ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضور جانِ عالم ﷺ کی شرم و حیا کی وجہ سے آپ کے ستر کی طرف نظر نہیں کرتی تو خود حضور ﷺ تو کیا دیکھتے! اصولی بات تو یہ ہے کہ شرمیلے انسان کے سامنے دوسرے کو مجبوراً شرم کرنی پڑتی ہے اور ایک دوسری روایت میں بالتصریح اس کی نفی ہے ۔چنانچہ

7۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:حضور جانِ عالم ﷺ نے نہ کبھی میرے ستر کو دیکھا نہ میں نے کبھی حضور ﷺکا ستر دیکھا۔ (شمائل محمدیہ، ص418)

8۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:جب حضور ﷺ صحبت فرماتے تو آنکھیں بند کر لیتے اور سر جھکا لیتے۔(شمائل محمدیہ، ص418)

9۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: حضور ﷺ حجروں کے پیچھے جا کر غسل کرتے۔کبھی کسی نے آپ کے ستر کو نہیں دیکھا۔اللہ کریم ہمیں حضور ﷺ کی حیا میں سے کچھ حصہ عطا فرمائےاور ہمیں با حیا و با پردہ بنائے۔آمین

پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یقیناً ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے یعنی ہر امت کی کوئی نہ کوئی خصلت ہوتی ہے جو دیگر خصلتوں پر غالب ہوتی ہے۔اسلام کی وہ خصلت حیا ہے،اس لئے کہ حیا ایک ایسا خلق ہےکہ جو اخلاقی اچھائیوں کی تکمیل،ایمان کی مضبوطی کا باعث اور اس کی علامات میں سے ہے۔چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ حضور پر نور ﷺ نے فرمایا:ایمان کے ستر سے زائد شعبے ہیں اور حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے کہ حیا ایمان سے ہے۔جس طرح ایمان مومن کو کفر کے ارتکاب سے روکتا ہے، اسی طرح حیا با حیا کو نافرمانیوں سے بچاتی ہیں ۔

حیا کے معنی:حیا اگر بغیر مد کے ہو تو اس کے معنی بارش کے ہیں۔اگر حیا مد کے ساتھ ہو تو اس معنی ہے کہ شرمندگی کے ڈر سے کسی چیز کو چھوڑ دینا یعنی وہ صفت ہے جو برے افعال سے بچنے کا باعث ہو اور ایسا وصف جو کسی حق دار کے حق میں کوتاہی کرنے سے بچائے ۔

حیا کی دو قسمیں ہیں:فقیہ ابو اللیث سمر قندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حیا کی دو قسمیں ہیں:(1) لوگوں کے معاملے میں حیا۔(1)اللہ پاک کے معاملے میں حیا۔لوگوں کے معاملے میں حیا یہ ہے کہ تو اپنی نظروں کو جو اشیا حرام ہیں اس سے بچے اور اللہ پاک کے معاملے میں حیا یہ ہے کہ تو اس کی نعمتوں کو پہچان اور اللہ پاک کی نافرمانی کرنے سے حیا کر ۔

آئیے! نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی حیا کے بارے میں پڑھتی ہیں:

حضور ﷺ کی حیا کا ذکر خیر ہے۔علامہ شیخ یوسف بن اسماعیل نبھانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:حضور ﷺکی حیا کا یہ عالم تھا کہ کسی چہرے پر نظریں گاڑ کر گفتگو نہیں فرماتے تھے۔اگر اپنی منشا کے خلاف کوئی بات کہنا چاہتے تو اشاروں کنایوں میں کہتے۔اگر قضائے حاجت کی اگر ضرورت پیش آتی تو لوگوں سے دور کسی میدان وغیرہ میں چلے جاتے اور اس وقت تک کپڑا اوپر نہ اٹھاتے جب تک زمین پر بیٹھ نہ جاتے ۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ اس کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا فرمانے والے تھے جو پردے میں ہو اور آپ کو جب کوئی چیز نا پسند ہوتی تو اس (نا پسندیدگی کے اثر ) کو ہم آپ ﷺ کے چہرے سے پہچان لیتے۔یعنی آپ کی شرم و حیا اس قدر زیادہ تھی کہ ناپسندیدگی کو بیان نہ فرماتے بلکہ صحابہ کرام آپ کے چہرۂ مبارکہ سے اس کو پہچان لیتے تھے۔جبکہ ایک ہم ہے جو منہ میں آیا کہہ دیا ۔اللہ کریم اپنے پیارے حبیب ﷺ کی شرم و حیا کے صدقے کم بولنے والی شرم و حیا کی پیکر بنائے۔آمین

1- ابن ماجہ، 4 / 460 ،حدیث: 4181

2- مسلم،ص 39، حدیث: 35

3- مسند ابی یعلی ، 4 / 291 ،حدیث: 7463

4-مسلم، 2330

ان شاء اللہ الکریم اس مضمون میں ہم حضور ﷺ کی شرم و حیا کے بارے میں جانیں گی مگر اس سے پہلے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ شرم و حیا کا مطلب کیا ہے۔

شرم و حیا کا مطلب:حیا کے لغوی معنی وقار، سنجیدگی اور متانت کے ہیں۔ یہ بے شرمی، فحاشی اوربے حیائی کی ضد ہے۔

اصطلاح معنی:حیا وہ وصف ہے جس کی وجہ سے برا کام کرنے سے نفس میں تنگی محسوس ہوتی ہے۔حیا وہ خلق ہے جو انسان کو نیکی کرنے اور برائی نہ کرنے پر اُبھارتا ہے۔شرم و حیا ایک ایسا وصف ہے کہ یہ صرف انسانوں میں ہی پایا جاتا ہے اور یہی وہ فرق ہے جو انسانوں اور جانوروں میں ہے۔ کیونکہ غصہ،محبت وغیرہ تو انسانوں اور جانوروں دونوں میں ہی ہوتے ہیں، لیکن حیا کی صفت صرف انسانوں میں ہی پائی جاتی ہے۔اگر حیا نہ ہو تو پھر انسان بہت سارے نقصانات اٹھائے گا۔کیونکہ حدیثِ مبارک میں حیا کے بارے میں رسو ِل خدا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔(بخاری،2/470 ،حدیث3484)

حیا کی اہمیت کا اندازہ ان فرامینِ مصطفےٰ ﷺ سے لگائیے۔

الحیا ء شعبۃ من الایمان ۔( مشکوٰة)

حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہےتو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔(مستدرک، 1/176 ،حدیث:66 )

اس عظیم ہستی کی شرم و حیا کے بارے میں صحابی رسول حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضور ﷺ کنواری، پردہ نشین لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ (معجم کبیر،/18/206،حدیث:508)

کیا کمالِ شرم و حیا کے پیکر تھے میرے مصطفےٰ ﷺ! آخری حدیثِ مبارک کی شرح میں حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:کنواری لڑکی کی جب شادی ہونے والی ہوتی ہے تو اسے گھر کے ایک گوشے میں بٹھادیا جاتا ہے اسے اُردومیں مایوں بٹھانا کہا جاتا ہے۔ اس زمانہ میں لڑکی بہت ہی شرمیلی ہوتی ہے ، گھر والوں سے بھی شرم کرتی ہے ،کسی سے کھل کی بات نہیں کرتی۔حضور ﷺ کی شرم اس سے بھی زیادہ تھی۔حیا انسان کا خاص جوہر ہے۔جتنا ایمان قوی مضبوط ہوگا اتنی حیابھی زیادہ ہوگی۔ (مراة المناجیح،8 /73)

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ حضور کی شرم و حیا کے بارے میں لکھتے ہیں:

نیچی آنکھوں کی شرم و حیا پر درود اونچی بینی کی ِرفعت پہ لاکھوں سلام

آقا ﷺ کی شرم و حیا کا اندازہ بخاری شریف کی اس حدیثِ مبارک سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک عورت اسماء رضی اللہ عنہانے نبیﷺ سے حیض کے غسل کے بارے

میں پوچھا تو آپﷺنے اس کو بتایا کہ وہ کس طرح غسل کرے۔پھر( آپ نے )غسل کا طریقہ بتانے کے بعدفرمایا: کستوری لگا ہوا ایک کپڑا لے اور اس سے طہارت کرلے۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اس نے کہا میں اس سےکیسے پاکیزگی حاصل کروں ؟آپﷺنے فرمایا: اس سے پاکیزگی حاصل کرلے، وہ کہنے لگی کیسے پاکیزگی حاصل کروں؟آپ نے تعجب سے فر مایا:سبحان اللہ!پاکیزگی حاصل کر۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:میں نے اس عورت کو اپنی طرف کھینچ لیا اور اس کو سمجھا دیا کہ خون کے مقام یعنی شر مگاہ پر اس کو لگا دیں۔

یہ تھی پیارے رسول کی شرم و حیا! اب اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو افسوس!آج کل ہمارا معاشرے میں شرم و حیا کا گویا تصور ہی مٹتا جا رہا ہے۔ ہمارا معاشرہ اتنا بگڑ چکا ہے کہ حیا صرف نام کی باقی رہی رہ گئی ہے ۔میڈیا کے پروگرامز نے حیا سوزی میں اپنا بھیانک کردار ادا کیا ہی ہے،لیکن ساتھ ساتھ اب ہاتھوں میں موبائل نے رہی کسر بھی پوری کر دی۔افسوس! بے حیائی اتنی عام ہو چکی ہے کہ کسی شاعر نے سچ ہی کہا ہے کہ

بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑگیا

پوچھا جواُن سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا؟ کہنے لگیں: وہ عقل پہ مَردوں کی پڑ گیا

عورتین بجائے پردے کے ایسے لباس پہنتی ہیں کہ جس سے بے حیائی کو فروغ ملتا ہے اور حیرت ہے کہ مردوں کی عقلوں کو کیا ہو گیا؟ کہاں گئی ان کی غیرت؟اپنی خواتین کو بے حیائی سے کیوں نہیں روکتے؟ایسا مرد جو باوجودِ قدرت اپنی عورت کو بے حیائی سے نہ روکے ،بے پردگی سے منع نہ کرے وہ دیوث ہے۔یہ دیوث کا ٹائٹل میں نے نہیں دیا ،بلکہ حدیثِ مبارک رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں:ثلثۃ لاید خلون الجنّۃ العاق لوالدیہ والدیوث ورجلۃ النسآء۔(مستدرک،بیہقی)تین لوگ جنت میں نہ جائیں گے : ماں باپ کا نافرمان،دیّوث اور مردوں کی صورت بنانے والی عورت۔

دُرِّمختار میں ہے :دیوث من لا یغار علی امرأتہ او محرمہجو اپنی عورت یا اپنی کسی محرم پر غیرت نہ رکھے ، وہ دیّوث ہے۔(فتاویٰ رضویہ،6/487 )نیت کیجئے کہ ان شاءاللہ الکریم شرم وحیا کو اپنائیں گی اور ہر ایسے قول فعل سے خود کو بچائیں گی جو بے حیائی کے زمرے میں داخل ہوں۔اللہ کریم ہمیں پیارے حبیب ﷺکی حیا کے صدقے باحیا بنا دے اور حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی شرم و حیا کا صدقہ نصیب فرما دے۔امین بجاہِ خاتمِ النبیینﷺ