حیا کی تعریف:اصطلاح میں حیا یک ایسی رقت ہے جو انسان کے چہرے پر اس وقت نمودار ہوتی ہے جب
وہ کسی مکروہ عمل کو دیکھے جس کا نہ کرنا بہتر ہو۔ اسلام حیا کی تعلیم دیتا ہے۔حضور
ﷺکی سیرتِ طیبہ سے حیا کی تعلیم ملتی ہے۔چنانچہ حضور ﷺنے فرمایا: چار چیزیں رسولوں
کی سنتوں میں سے ہیں:( 1) عطر لگانا( 2) نکاح کرنا( 3) مسواک کرنا( 4) حیا کرنا۔
نصِّ قرآنی : حضور ﷺ کی حیا کے بارے میں اللہ پاک کا قرآنِ پاک میں یہ فرمان سب سے بڑا
گواہ ہے :
اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی
النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-ترجمہ :
بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے۔ (پ 22، الاحزاب:53)
احادیثِ مبارکہ:آپ ﷺ کی شانِ حیا کی تصویر کھینچتے ہوئے ایک معزز صحابی حضرت ابو سعید خدری رضی
اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ ﷺ کنواری پردہ نشین عورت سے بھی کہیں زیادہ حیا دار تھے۔(
سیرتِ مصطفیٰ ،ص613
حضرت عبداللہ بن سلام اور حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص رضی اللہ
عنہم سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ حیا کی وجہ سے کسی کے چہرے پر نظر جما کر باتیں نہ
فرماتے تھے اور آپ کسی کی مکروہ بات کو اضطرارًا ، کنایتًا بیان فرما دیتے تھے۔
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے کبھی حضور ﷺ کا ستر
نہیں دیکھا۔
حضور ﷺ نے فرمایا: بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے
ہیں۔ جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔(مستدر ک،1/ 176، حدیث:
66 )
اسلام اور حیا کا آپس میں وہی تعلق ہے جو روح کا جسم سے ہے۔
اسی لیے اسلام کے دشمن مسلمانوں کی حیا پر وار کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈراموں، فلموں،
اشتہارات اور مارننگ شوز وغیرہ کے نام پر معاشرے میں شرم و حیا کے سائبان میں چھید
کرنا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔بے حیائی تباہی لاتی ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ مردوں کے
اخلاق اور عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری پھیل
جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں۔لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام
اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے ۔جیسا کہ حضور ﷺ نے فرمایا:حیا صرف خیر ہی لاتی
ہے۔(مسلم،ص 40، حدیث: 37 )
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور
اسلام کا خلق حیا ہے۔(ابن ماجہ،4 /460، حدیث: 4181)
حضورﷺ نے فرمایا : ایمان کے 70 سے زائد شعبے ہیں ۔حیا ایمان
کا ایک شعبہ ہے۔
حضور ﷺ نے فرمایا: جس میں حیا نہیں وہ جو چاہے کرے ۔