حیاکی تعریف :حیا وہ ایک ایسی رقت ہے جو انسان کے چہرے پر اس وقت نمودار ہوتی ہے جب وہ کسی ایسے عمل کو دیکھتا ہے جس کا نہ کرنا بہتر ہو۔ (الشفا،ص92)

حیا کا ایک حصہ اغضاءیعنی چشم پوشی بھی ہے۔حضور ﷺ کی پاک دامنی کا ذکر کس زبان سے کیا جائے! صرف اتنا بتادینا کافی ہے کہ آپ نےکبھی بھی کسی عورت کو جس کے آپ مالک نہیں ہوں نہیں چھوا۔ (سیرتِ رسولِ عربی،ص371)

حضور ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ حیا فرمانے والے تھے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-ترجمہ : بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے۔ (پ 22، الاحزاب:53)

حیا وہ خلق ہے جس کے ذریعے انسان قبائحِ شرعیہ کے ارتکاب سے بچتا ہے۔حضور ﷺ کی ذاتِ اقدس میں غایت درجے کی حیا تھی۔چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ پردہ نشین کنواری لڑکی سے زیادہ حیا والے تھے۔جب حضور ﷺ کسی چیز سے کراہت فرماتے تو ہم آپ کے چہرۂ انور سے پہچان جاتے۔ آپ کا چہرۂ انور لطیف تھا،ظاہری جلد باریک تھی۔ آپ حیا کی وجہ سے جس بات کو مکروہ سمجھتے اس سے بالمشافہ کلام نہ فرماتے یہ آپ ﷺ کی شریف النفسی تھی۔( بخاری،4/151)( مسلم، 4/1809)یعنی غایتِ حیا کے سبب آپ اپنی کراہت کی تصریح نہ فرماتے تھے، بلکہ ہم اس کے آثار چہرۂ انور میں پاتے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور ﷺ کی بارگاہ میں اس طرح حاضر ہوا کہ آپ نے اس سے کچھ نہ فرمایا اور آپ کسی کی موجودگی میں ناگوار بات کی نسبت کلام نہ فرماتے تھے۔ پس جب وہ چلا گیا تو آپ نے فرمایا:تم اس سے کہہ دیتے کہ اس کو دھو ڈالو اور ایک روایت میں یہ ہے کہ تم اس کو کہہ دیتے کہ اس کو اتار دے۔(تو وہ اتار دیتا)(ا بوداود،5/143)(شمائل محمدیہ،ص273)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے کبھی حضور ﷺ کا ستر نہ دیکھا۔(ابن ماجہ،5/217 )

شرم و حیا کا وصف مبارک بھی دوسرے اوصاف حمیدہ کی طرح حضورﷺکی ذاتِ اقدس میں اکمل طور پر تھا۔چنانچہ صحابہ کرام علیہم الرضوان فرماتے ہیں:آپ کثرتِ حیا کی وجہ سے کسی شخص کے چہرے پر نظر نہیں جماتے تھے۔( ذکر جمیل،ص100)

نیچی آنکھوں کی شرم و حیا پر درود اونچی بینی کی رفعت پہ لاکھوں سلام