حیا ایک ایسی چیز ہے جو مسلم و غیر مسلم ہر ایک میں کچھ نہ کچھ ضرور ہوتی ہے۔کیونکہ غیر مسلم بھی کپڑوں کے بغیر باہر نہیں نکلتے۔ البتہ عورتوں میں حیا زیادہ ہوتی ہے۔لیکن سب سے بڑھ کہ شرم و حیا کے پیکر ہمارے رسول کریم ﷺ ہیں ۔

حیا کے معنی ہیں عیب لگائے جانے کے خوف سے چھینپنا۔اس سے مراد وہ وصف ہے جو ان چیزوں سے روک دے جو اللہ پاک اور مخلوق کے نزدیک ناپسندیدہ ہوں۔ (مرقاة المفاتيح )

حضور اقدس ﷺ کی حیا کے بارے میں اللہ پاک قرآنِ کریم میں یوں ارشاد فرماتا ہے:اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-ترجمہ : بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے۔ (پ 22، الاحزاب:53)

آپ کی شانِ حیا کو بتاتے ہوئے ایک معزز صحابی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا:حضور ﷺ کنواری پردہ نشین عورت سے بھی کہیں زیادہ حیادار تھے ۔

آپ ﷺ ہر برے قول و فعل اور قابلِ مذمت حرکات و سکنات سے عمر بھر ہمیشہ دور رہے ہیں اور آپ کا دامنِ عصمت پاک و صاف ہی رہانیز پوری حیاتِ مبارکہ میں آپ ﷺ سے وقار کے خلاف کوئی عمل ظاہر نہ ہوا۔

حضرت عائشہ رضی الله عنہا حضور اکرم ﷺ کی حیا کے متعلق فرماتی ہیں کہ آپ نہ فحش کلام تھے،نہ بے ہودہ گو،نہ بازاروں میں شور مچانے والے تھے۔آپ یہ بھی فرماتی ہیں کہ کمالِ حیا کی وجہ سے میں نے کبھی بھی حضور اکرم ﷺ کو برہنہ نہیں دیکھا۔ (سیرتِ مصطفیٰ)

حضور اکرم ﷺ نے بہت سی احادیثِ مبارکہ میں حیا کے متعلق فرمایا جن میں سے چند احادیث درج ذیل ہیں:

حضور ا کرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔(ابن ماجہ)

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:ایمان کے 70 سے زائد شعبے ہیں اور حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔(مسلم)

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک حیا اور ایمان دونوں آپس میں ملے ہوئے ہیں تو جب ایک کو اٹھا لیا جائے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ ( مستدرک)

اس حدیثِ مبارک میں حیا کے بارے میں فرمایا گیا کہ حیا اور ایمان ملے ہوئے ہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں حیا کی کتنی اہمیت ہے!حیا اسلام کا ایک حسن ہے۔جس کے دل میں حیا نہ ہو،جس کی آنکھ میں حیا نہ ہو، جو بے حیا ہوگا اس کا کردار ختم ہو جاتا ہے ۔ باحیا انسان باکردار ہوتا ہے۔ حیا کی اسلام میں اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے حیا کے بارے میں یہاں تک فرمایا کہ جب حیا ختم ہوجائے توجو چاہے کرو۔ جیسا کہ انصاری صحابی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ پاک کےآخری نبی ،محمد عربی ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں حیا نہ ہو تو جو چا ہو کر و۔ (بخاری)

آج ہم لوگ اپنا حال دیکھیں کہ کیا جن کی ہم امتی ہیں ہم ان کے طریقے کے مطابق عمل کرتی ہیں؟ وہ اتنے باحیا تھے اور ہمارےمعاشرے میں اجنبی عورت اور مرد میں پردہ ختم کرنے اور ان کے درمیان قربتیں بڑھانے کے مختلف طریقے اور انداز اختیار کئے جا رہے ہیں نیز دنیوی معاملات کے ہر میدان میں عورت اور مرد ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اور قوم بقدم چلتے نظر آرہے ہیں جبکہ پردے کے حق میں بولنے والیوں کو پرانی سوچ والی اور بدلتے وقت کے تقاضوں کے مطابق نہ چلنے والی کہہ کر صرفِ نظر کیا جارہا ہے۔الغرض حیا کے اعتبار سے معاشرےمیں بہت بگار پیدا ہوتا جا رہا ہے۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں با حیا بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین