حضور ﷺ کی شرم و حیا از بنتِ سید
ندیم علی،جامعۃ المدینہ حسنین کریمین،لاہور
شرم و حیا ایک ایسی صفت ہےجس کے بغیر ایمان والوں کی زندگی ادھوری
ہے۔یہ ایمان کے تقاضوں میں سے ایک اہم ترین تقاضا ہے۔اچھی صفات میں سے ایک اچھی
صفت ہے۔قرآن و حدیث میں اس کی کیا اہمیت بیان ہوئی ہے نیز پیکرِ شرم و حیا،جنابِ
احمدِ مجتبیٰ ﷺ کی شرم و حیا کیسی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ کئی مفید باتیں اس کے
بارے میں پڑھیں گی۔سب سے پہلے یہ 2اہم باتیں ذہن نشین فرما لیجئے: ایک بات یہ کہ
شرم اور حیا کے ایک ہی معنی ہیں۔دوسری بات یہ کہ شرم و حیا کسے کہتے ہیں؟اور اس سے
کیا مراد ہے؟
شرم و حیا اس وصف کو کہتے ہیں جو بندے کو ہر اس چیز سے روک دے جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے
نزدیک نا پسندیدہ ہوں۔حضور اقدس ﷺ کی حیا کے بارے میں اللہ پاک کا قرآن میں یہ
فرمان سب سے بڑا گواہ ہے کہ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ
یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-ترجمہ:بیشک
یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے۔(پ22، الاحزاب: 53)
آپ ﷺ کی شانِ حیا کی تصویر کھینچتے ہوئے ایک معزز صحابیِ
رسول حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ نے
فرمایا:آپ ﷺ کنواری پردہ نشین عورت سے بھی کہیں زیادہ حیا دار تھے۔(بخاری،حدیث:3562)
حضور پاک ﷺ میں انتہا درجہ کی حیا تھی۔مردوں کی نسبت عورتوں
میں اور عورتوں میں کنواری لڑکی اور کنواری لڑکیوں میں سے بھی پردہ کی پابند لڑکی کس
قدر باحیا ہوتی ہے حضور پاک ﷺ اس سے بھی زیادہ حیا والے تھے۔اس لیے
ہر قبیح قول و فعل اور قابلِ مذمت حرکات
وسکنات سے عمر بھر ہمیشہ آپ کا دامنِ عصمت پاک و صاف ہی رہا اور پوری حیاتِ مبارکہ
میں وقار و مروت کے خلاف آپ سے کوئی فعل یا عمل سرزد نہیں ہوا۔چنانچہ حضرت عائشہ
صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:حضور پاک ﷺ نہ فحش کلام تھے، نہ بے ہودہ
گو، نہ بازاروں میں شور مچانے والے تھے۔برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیا کرتے تھے
بلکہ معاف فرما دیا کرتے تھے۔آپ یہ بھی فرمایا کرتی تھیں کہ کمالِ حیا کی وجہ سے
میں نے کبھی بھی حضور ﷺ کو برہنہ نہیں دیکھا۔( الشفاء،1/69)
حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما اپنے ماموں حضرت ہند بن
ابی ہالہ سے حضور ﷺ کی صفتِ حیا نقل کرتے ہیں کہ آپ جب کسی پر ناراض ہوتے تو اس سے منہ پھیر لیتے اور بے توجہی فرما لیتے یا
در گزر فرماتے اور جب خوش ہوتے تو حیا کی وجہ سے انکھیں گویا بند فرما لیتے اور آپ
کی اکثر ہنسی تبسم ہوتی تھی ،اس وقت آپ کے
دندان مبارک اولے کی طرح چمکدار سفید ظاہر ہوتے تھے۔ آپ کی مجلس علم،حیا،صبر اور
امانت کی مجلس ہوا کرتی تھی۔آپ شرم و حیا میں کنواری پردہ نشین لڑکی سے کہیں زیادہ
بڑھے ہوئے تھے۔جب آپ کو کوئی بات ناگوار ہوتی تو آپ کے چہرے مبارک سے پہچان لی
جاتی یعنی آپ غایتِ شرم کی وجہ سے اظہارِ ناپسندیدگی بھی نہ فرماتے تھے۔(شمائل
نبوی) کہتے ہیں کہ یہ قسم حیا کی سب سے اعلیٰ ہے، کیونکہ جو اپنی ذات سے بھی شرماتا ہے وہ دوسروں سے کس
قدر شرمائے گا!