شرم و حیا انسان کا وہ وصفِ جمیل ہے جس کی آغوش میں اخلاق و کردار کی خوبیاں پرورش پاتی ہیں۔ جو انسان اس وصف سے کامل طور پر متصف ہو جاتا ہے وہ اخلاقِ حسنہ کا پیکر بن جاتا ہے اور جو انسان اس سے موصوف نہ ہو تو وہ بے حیائی و بے شرمی کا مجسمہ ہو کر جو چاہے کرتا ہے۔جیسا کہ حدیث میں ہے:اذا لم تستحی فاصنع ماشئت کہ جب تو نے شرم و حیا نہیں کی تو جو چاہے کر۔(بخاری، 1/490)

حیا ایک ایسی رقت ہے جو انسان کے اندر اس وقت نمودار ہوتی ہے جب وہ کسی مکروہ فعل کو دیکھے جس کا نہ کرنا بہتر ہواس میں حضور ﷺ سب سے زیادہ حیا فرمانے والے اور سب سے بڑھ کر غضِ بصر یعنی چشم پوشی کرنے والے تھے ۔ ( الشفاء، ص112)

آپ ﷺ کی شانِ حیا کی تصویر کھینچتے ہوئے ایک معزز صحابی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ آپ کنواری پردہ نشین عورت سے بھی کہیں زیادہ حیادار تھے اور جب کوئی ناپسند چیز دیکھتے تو ہم چہرۂ انور میں اسے پہچان لیتے تھے۔(بخاری ،حديث:3562)

وضاحت :کنواری لڑکی کی جب شادی ہونے والی ہوتی تو اسے گھر کے ایک گوشہ میں بٹھا دیا جاتا ہے اسے اردو میں مایوں بٹھانا کہا جاتا ہے ۔اس جگہ یعنی گھر کے گوشہ کو مائیں اور عربی میں خدر کہتے ہیں۔ اس زمانہ میں لڑکی بہت شرمیلی ہوتی ہے، گھر والوں سے بھی شرم کرتی ہے ، کسی سے کھل کر بات نہیں کرتی ۔حضور ﷺکی شرم اس سے بھی زیادہ تھی۔حیا انسان کا خاص جوہر ہے جتنا ایمان قوی اتنی حیا زیادہ ۔

وضاحت :یعنی دنیاوی باتوں میں سے کوئی بات یا کوئی چیز حضور انور ﷺ کو ناپسند ہوتی تو زبان مبارک سے یہ نہ فرماتے مگر چہرۂ انور پر ناپسندیدگی کے آثار نمودار ہوجاتے تھے اورخدام بارگاہ پہچان لیتے تھے۔

ایک مرتبہ دعوتِ ولیمہ پر دو تین آدمی حضور ﷺ کے گھر شریف میں کھانے کے بعد باتیں کر رہے تھے۔ حضور ﷺ کو ان کے بیٹھنے سے تکلیف ہوئی مگر ان سے نہ فرمایا کہ چلے جاؤ! اس پر اللہ پاک کا فرمان نازل ہوا: اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-ترجمہ :بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے۔ (پ 22، الاحزاب:53)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضور ﷺ نہ فحش کلام تھے،نہ بے ہودہ گو،نہ بازاروں میں شور مچانے والے تھے۔ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیا کرتے تھے بلکہ معاف فرما دیا کرتے تھے۔

وضاحت: یعنی حضور ﷺ کی عادتِ کریمہ فحش باتیں کرنے کی اور کسی پر لعنت پھٹکار کرنے کی نہ تھی، ساری عمر شریف میں ایک بار بھی کسی کو گالی نہ دی،کسی خادم یابیوی کو لعنت کے لفظ سے یاد نہ فرمایا۔آپ یہ بھی فرمایا کرتی تھیں کہ کمالِ حیا کی وجہ سے میں نے کبھی بھی حضورﷺ کو برہنہ نہیں دیکھا۔(الشفاء،1/ 119ملتقطاً)

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبیِ کریم ﷺ کو جب کسی کی طرف سے کوئی ناگوار اطلاع ملتی تو آپ یہ نہ فرماتے کہ فلاں کا کیا حال ہے؟وہ ایسا کہتا ہے!بلکہ آپ یہ فرماتے :فلاں قوم کیا کرتی ہے؟ یا فلاں قوم کیا کہتی ہے؟ اس سے ان کو باز رہنے کی تلقین فرماتے اور ایسا کرنے والے کا نام نہ لیتے تھے۔(ابو داود،5/ 143)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور سید عالم ﷺ حیا کی وجہ سے کسی کے چہرے پر نظر جما کر باتیں نہ فرماتے تھے اور آپ کسی کی مکروہ بات کو اضطراراً کنایتاًبیان فرما دیتے تھے ۔

( ابن ماجہ،ص 68)

اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےکہ میں نے کبھی حضور ﷺ کا ستر نہ دیکھا۔

(ابن ماجہ،1/217 )( شمائل محمدیہ، ص283)

اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں بھی باحیا و با پردہ و اخلاِق احسنہ کی پیکر بنائے۔آمین