حضور ﷺ کی شرم و حیا از بنتِ اللہ
رکھا عطاریہ،فیضان خدیجۃ الکبری،تحصیل و ضلع گجرات
حیاایک ایسی صفت ہے جس کی وجہ سے انسان برائیوں کے ارتکاب
سے باز رہتا ہے۔حضور ﷺ کی شرم و حیا کے بارے میں قرآن میں اللہ پاک کا یہ فرمان سب
سے بڑا گواہ ہے کہ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-ترجمہ:بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ
تمہارا لحاظ فرماتے تھے۔(پ22، الاحزاب: 53)مفسرین نے
اس آیت کے شانِ نزول سے متعلق مختلف روایات ذکر کی ہیں،ان میں سے ایک یہ ہے کہ
مسلمانوں میں سے کچھ لوگ نبیِ کریم ﷺ کے کھانے کے وقت کا انتظار کرتے رہتے تھے،پھر
وہ آپ کے حجروں میں داخل ہو جاتے اور کھانا ملتے تک وہیں بیٹھے رہتے،پھر کھانا کھانے کے بعد بھی وہاں سے ہلتے نہ تھے،اس
سے رسول اللہ ﷺ کو اذیت ہوتی تھی،اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔اس آیت کے شانِ
نزول سے سرکارِ دو عالم ﷺ کی کمالِ حیا،شانِ کرم اور حسنِ اخلاق کے بارے میں معلوم
ہوا کہ ضرورت کے باوجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ نہ فرمایا کہ اب چلے جائیں!بلکہ
آپ نے جو طریقہ اختیار فرمایا وہ حُسنِ آداب کی اعلیٰ تعلیم دینے والا ہے۔حضرت ابو
سعید خدری رضی اللہ عنہ نبیِ پاک ﷺ کی کمالِ شرم و حیا کے متعلق فرماتے ہیں: رسول
اللہ ﷺ پردہ دار کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا والے تھے۔(بخاری،1/ 503)
آپ کی ذاتِ اقدس میں نہایت درجے کی حیا تھی،غایتِ حیا کے
سبب سے آپ اپنی ایک راحت کی تشریح نہ فرماتے تھے(یعنی ناپسندیدگی کا اظہار نہ
فرماتے تھے)
آپ ہر قبیح قول و فعل اور قابلِ مذمت حرکات و سکنات سے عمر
بھر ہمیشہ پاک صاف رہے۔پوری حیاتِ مبارکہ میں وقار و مروت کے خلاف آپ سے کوئی عمل
سرزد نہیں ہوا۔چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضور ﷺ نہ فحش کلام تھے، نہ بےہودہ گو،نہ
بازاروں میں شور مچانے والے تھے۔برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیا کرتے تھے بلکہ
معاف فرما دیا کرتے تھے۔آپ یہ بھی فرماتی ہیں کہ کمالِ حیا کی وجہ سے میں نے کبھی
بھی حضور ﷺ کو برہنہ نہیں دیکھا۔(الشفاء،1/69)
حضور ﷺ کے زمانے میں باقاعدہ استنجا خانوں کا رواج نہ تھا،لہٰذا
قضائے حاجت کے لیے آپ آبادی سے دور دراز نکل جاتے،چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی
اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:آپ ﷺ آبادی سے بہت دور چلے جاتے یہاں تک کہ کوئی آپ کو
دیکھ نہیں پاتا تھا۔( ابو داود)
اعلیٰ حضرت رحمۃ
اللہ علیہ حضور ﷺ کی شرم و حیا کے متعلق لکھتے ہیں:
نیچی نظروں کی
شرم و حیا پر درود
اونچی بینی کے رفعت پہ لاکھوں سلام
جب سرکار ِدو عالم ﷺ نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح
فرمایا اور ولیمے کی دعوت دی تو لوگ جماعت کی صورت میں آتے اور کھانے سے فارغ ہو
کر چلے جاتے۔آخر میں تین صاحب ایسے تھے جو کھانے سے فارغ ہو کر بیٹھے رہے اور
انہوں نے گفتگو کا طویل سلسلہ شروع کر دیا اور بہت دیر تک بیٹھے رہے۔مکان تنگ تھا
تو اس سے گھر والوں کو تکلیف ہوئی اور حر ج واقع ہوا کہ وہ ان کی وجہ سے اپنا کام
کاج کچھ نہ کر سکے۔ رسولِ کریم ﷺ اٹھے اور اپنی ازواجِ مطہرات کے حجروں میں تشریف
لے گئے اور جب دورہ فرما کر تشریف لائے تو اس وقت تک یہ لوگ اپنی باتوں میں لگے
ہوئے تھے۔حضور ﷺ پھر واپس ہو گئے تو یہ دیکھ کر وہ لوگ روانہ ہوئے،تب حضور ﷺ دولت
سرائے میں داخل ہوئے اور دروازے پر پردہ ڈال دیا ۔اس واقعے سے حضور ﷺ کی کمالِ شرم
و حیا کا پتہ چلتا ہے کہ ناگوار گزرنے کے باوجود بھی ان سے یہ نہیں فرمایا کہ آپ
لوگ یہاں سے چلے جائیں۔ اللہ پاک ہمیں بھی حضور ﷺ کی شرم و حیا کا صدقہ عطا فرمائے۔
امین